اسلامیات

عظمت صحابہ کرام اور فضائل ومناقب

امام الانبیاء، خاتم النبیین، حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کو الله تبارک وتعالیٰ نے تاقیامت انسانیت کی رُشد وہدایت کے لیے آخری نبی اور رسول بنا کر بھیجا، حضور اکرم ﷺ کی ذات گرامی اور آپ ﷺ کی مبارک اور پاکیزہ زندگی کو اہلِ ایمان کے لیے بہترین نمونہ قرار دیا۔
صحابہ صحابی کی جمع ہے جس کے لغوی معنی ساتھی کے ہیں، علمائے متقدمین ومتاخرین نے صحابی کی تعریف میں جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر اس صاحب ایمان شخص کو صحابی کہا جائے گا جس نے ایمان کی حالت میں خاتم النّبیین محمد عربی سے شرف ملاقات حاصل کیا اور اسی ایمان کے ساتھ وفات پائی،
صحابہ کرام کا گروہ ایک مقدس اور پاکیزہ گروہ ہے، انبیاء کرام کے بعد روئے زمین پر  سب سے پاکباز جماعت ہے، صحابہ کرام نوعِ انسانی کے لئے باعث شرف وافتخار ہیں، امت کے رہنما وقائد ہیں،
حضرات صحابہ کرام رضوان الله عنہم اجمعین حضور اکرم ﷺ کی وہ مقدس جماعت ہے، جنہوں نے حضرت رسول الله ﷺ اور آپ کے لائے ہوئے دین پر نہ صرف ایمان لایا، بلکہ قرآن کو نازل ہوتے ہوئے دیکھا، رسول الله ﷺ کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا عملی طور سے مشاہدہ کیا، آپ صلی الله علیہ وسلم سے دین کو سیکھا اور وہ اس کے سب سے پہلے پھیلانے والے خوش نصیب افراد ہیں۔
صحابہ کرام سے محبت کرنا اور اُن کاظاہری و باطنی طور پر عملاً احترام کرنا،  صحابہ سے بغض وعداوت رکھنے والوں سے نفرت و عداوت رکھنا، صحابہ کے باہمی ظاہری اختلافات میں خاموشی اختیار کرنا اور ہر قسم کی منفی رائی دہی سے اجتناب کرنا، اور یہ عقیدہ رکھنا کہ تمام صحابہ مجتہد ہیں اور اللہ کے یہاں انتہائی معزز اور اجر و ثواب والے ہیں اور ان کی سیرت و کردار کو زبانی و عملی طور پر اپنانا ہر مسلمان پر واجب وضروری ہے۔
اللہ کے رسول ﷺ کے صحابہ وہ ہیں جنہیں اللہ نے اپنے نبی ﷺ کی صحبت کے لئے چُنا ہے، اور انہیں (لوگوں تک)  دین منتقل کرنے اور قرآنِ مجید کی ذمہ داری نبھانے کی توفیق عطا فرمائی، اور ان سے راضی ہوگیا اور ان کی تعریفیں کیں اور پاکیزگی بیان کیں،
اللہ رب العزت نے فرمایا: اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیروکار ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے  یہ بڑی کامیابی ہے (سورة التوبہ: 100)۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کہ میرے صحابہ کو گالی یا بُرا نہ کہنا، (جان لو کہ) تم میں سے کوئی بھی اُحد پہاڑ کے برابر سونا بھی (صدقہ و خیرات میں) خرچ کرلے تووہ اُن (صحابہ) میں سے کسی بھی  ایک کے مکمل یا آدھے مُد (آدھا کلو یا ایک پاؤ اناج کے خرچ  کرنے کی فضیلت و مقام) تک بھی نہیں پہنچ سکتا (بخاری و مسلم)۔
یہ وہ مقدس ہستیاں ہیں جنہیں آپ ﷺ کی صحبت ورفاقت حاصل ہوئی، ان کی پیروی اللہ کی رضا اور دونوں جہاں میں فلاح وکامیابی کا ذریعہ ہے، یہ وہ جماعت ہے جنہون نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ مل کر کفار سے لڑائیاں کیں، اسلام کی سر بلندی اور اللہ اور اسکے رسول کی خوشنودی کے لئے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کردیا، پوری امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرات صحابہ کرام تمام کے تمام عدول ہیں، یعنی دیانتدار، عدل وانصاف کرنے والے، حق پر ڈٹ جانے والے اور خواہشات کی طرف مائل نہ ہونے والے ہیں، ان سے محبت رکھنا عین ایمان ہے اور ان سے کسی قسم کی بھی بغض وعداوت رکھنا عینِ نفاق ہے۔
چناں چہ حضرات صحابہ رضی الله عنھم اجمعین دین کی بنیاد اور معیارِ ایمان ہیں، بلکہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی مبارک اور پاکیزہ زندگی کو سمجھنے، پہچاننے اور اس پر عمل کرنے کے لیے اگر کسی کی زندگی معیار ہو سکتی اور یقینا ہے بھی تو وہ حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم کی مبارک ومقدس جماعت ہے۔
صحابہ کرام کی جماعت وہ ہے جس کے بارے میں علماء اہل سنت والجماعت اور ائمہ سلف کا بالاتفاق قول ہے کہ سب کے سب نجومِ ہدایت ہیں کیونکہ رسول اللہ کا ارشاد ہے: اصحابی کالنجوم بایہم اقتدیتم اہتدیتم (ترمذی)۔ گروہ ِصحابہ کا وجود، رسول اللہ کے معجزات میں سے ایک عظیم الشان معجزہ ہے جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ومحبوب کے عالمگیر پیغامِ رسالت کو خطۂ ارضی کے ہرگوشہ تک اس کی حقیقی روح کے ساتھ پھیلایا اور اس طرح آنحضور کا رحمۃ للعالمین ہونا بھی ثابت کردیا اور وما ارسلناک الا کافۃ للناس (سبا:28) کی تفسیر بھی دنیا کے سامنے پیش کردی گئی۔
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پاکیزہ برگزیدہ جماعت کے ذریعہ اسلام کا تعارف بھی کرادیا گیا اور رسول عربی کی سیرتِ طیبہ اور سنت کو عام بھی کردیا گیا، اگر رسول اللہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو الگ رکھ کر ان کو عام انسانوں کی طرح خاطی و عاصی تصور کرکے غیر معتبر قرار دیا جائے گا تو اسلام کی پوری عمارت ہی منہدم ہوجائیگی۔ نہ رسول اللہ کی رسالت معتبر رہے گی، نہ قرآن اور اس کی تفسیر اور حدیث کا اعتبار باقی رہے گا کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نے جو کچھ من جانب اللہ ہم کو عطاء کیا ہے وہ ہم تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی کی معرفت پہنچا ہے۔ خود معلم انسانیت محمد عربی نے اپنے جاں نثار اطاعت شعار صحابہ ؓ کی تربیت فرمائی تھی۔ صحابہ کرام ؓنے اوّل اوّل، زبان رسالت سے آیاتُ اللہ کو ادا ہوتے سنا تھا اور کلام رسول کی سماعت کی تھی پھر دونوں کو دیانت وامانت کے ساتھ اسی لب ولہجہ اور مفہوم ومعانی کے ساتھ محفوظ رکھا اور بحکم رسول عربی اس کو دوسروں تک پہنچایا کیونکہ حجۃ الوداع کے موقع پر آنحضور نے ان کو تبلیغ کا مکلف بنایا تھا: بَلِّغُوْ عَنِّی وَلَوْ آیۃً ’’میری جانب سے لوگوں کو پہنچادو اگرچہ ایک آیت ہی ہو۔‘‘(بخاری ومسلم)۔
قرآن وحدیث میں مذکور تمام صفات میں بے شک تمام کے تمام صحابہ کرام رضوان الله علیھم اجمعین شریک ہیں، خواہ مہاجرین ہوں یا انصار، مکے کے رہنے واے ہوں یا مدینہ کے، قریشی ہوں یا کسی اور قبیلے کے، عربی ہوں یاعجمی، وہ تمام کے تمام باہمی خیر خواہی، ہمدردی، غم خواری اور خوش خلقی میں بے نظیر وبے مثال تھے، زمانہ ان کی مثال لانے سے عاجز وقاصر ہے، پھر ان سب میں خصوصاً خلفائے اربعہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کے بعد تمام امت میں بہترین اور افضل ترین لوگ ہیں، یہ لوگ آپس میں شیر وشکر تھے، ایک دوسرے کے معاون ومدد گار تھے، ان میں کسی طرح کا اختلاف وانتشار نہ تھا۔
آغاز اسلام ہی سے امت کے درمیان ایک طبقہ ایسا رہا ہے جو اختلاف کو عام کرنے، نفرتوں کو پھیلانے اور شورشوں کو ہوا دینے میں یہود بے بہود کے قدم بہ قدم، منافقین کی روش پر اپنی سازشی کارروائیوں میں مصروف ومشغول ہے ۔”بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا” کے عین مصداق اس ذہنیت کے حامل لوگ اکثر اپنی اوقات بھول جاتے ہیں اور ان بلند پایہ ہستیوں کے خلاف زبان طعن دراز کرنے لگتے ہیں، جن پر تنقید ماہتابِ نیم شب پر تھوکنے کے مترادف ہے، دورانِ طعن انہیں یہ تک سوچنے کا موقع نہیں ملتا کہ ہم جن صحابہ کرام کی شان میں دریدہ دہنی کررہے ہیں عنداللہ ان کا کیا مقام و مرتبہ ہے؟ رسول اکرمﷺ نے ان کے تعلق سے امت کو کیا ہدایت فرمائی ہے؟ خود دین کی بنیادوں کو استوار رکھنے میں ان کا کیا کچھ اساسی کردار رہا ہے؟
عقیدۂ اہل سنت: حضراتِ صحابہ کرام سے محبت وعقیدت اہل سنت والجماعت کے نزدیک اصول ایمان میں سے ہے۔ انبیاء علیہم السلام کے بعد انسانوں میں جس جماعت کو اللہ رب العزت کے یہاں سب سے زیادہ قرب حاصل ہے، وہ آپ کے تربیت یافتہ صحابہ کرامؓ کی مقدس وبابرکت جماعت ہے، جس جماعت کا ہر ہر فرد صلاح وتقویٰ، اخلاص وللہیت اور زہد واطاعت سے آراستہ و مزین ہے، جنہیں اللہ تعالی نے اپنے پیارے رسولﷺ کی معاونت و نصرت اور دین کی دعوت و اشاعت کے لیے منتخب فرمایا اور ان ہی کے طفیل دین اسلام بھرپور حفاظت و صیانت کے ساتھ بلا تحریف وترمیم اگلی نسلوں تک پہونچا۔ اگر یہ منتخب گروہ نہ ہوتا تو اسلامی شریعت بھی یہودیت ومسیحیت کی طرح تحریف کا شکار ہوجاتی، اسی لیے نبی علیہ السلام نے ان سے محبت کو اپنی ذات اقدس سے محبت کامعیار قراردیا اور یوں فرمایا: خدارا! میرے صحابہ کے سلسلہ میں اللہ سے ڈرتے رہو، ان کو میری وفات کے بعد ہرگز ہدفِ تنقید مت بناؤ ! جو کوئی ان سے محبت کرے گا تو وہ مجھ سے محبت کی دلیل ہوگی اور جو کوئی ان سے بغض رکھے گا وہ مجھ سے بغض کی بنیاد پر (ان سے بغض) رکھے گا (ترمذی )۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی انسان تھے، ان سے بھی بہت سے مواقع پر بشری تقاضوں کے تحت لغزشیں ہوئی ہیں لیکن لغزشوں، خطاؤں، گناہوں کو معاف کرنے والی ذات اللہ کی ہے، اس نے صحابہ کرام ؓ کی اضطراری، اجتہادی خطاؤں کو صرف معاف ہی نہیں کیا بلکہ اس معافی نامہ کو قرآن کریم کی آیات میں نازل فرما کر قیامت تک کیلئے ان نفوسِ قدسیہ پر تنقید و تبصرہ اور جرح و تعدیل کا دروازہ بند کردیا۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے ایمان کی صداقت اور اپنی پسندیدگی کی سند بھی بخشی ہے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی فرد یا جماعت صحابہ کرام ؓ پر نقد و تبصرہ کی مرتکب ہوتی ہے تو اس کو علمائے حق نے نفس پرست اور گمراہ قرار دیا ہے۔ ایسے افراد اور جماعت سے قطع تعلق ہی میں خیر اور ایمان کی حفاظت ہے۔ قرآن کریم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے متعلق آیات پر ایک نظر ڈالئے پھر ان کے مقام ومرتبہ کی بلندیوں کا اندازہ لگائیے، اس کے بعد بھی اگرکسی نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تنقیص کی جرأت کی ہے تو اس کی بدبختی پر کفِ افسوس ملئے۔
صحابہ پر طعنہ زنی جائز نہیں: امام المفسرین علامہ قرطبی اپنی مشہور ومعروف تفسیر قرطبی جلد نمبر16، ص:322 پر رقم طراز ہیں: ’’یہ جائز نہیں کہ کسی بھی صحابی کی طرف قطعی اور یقینی طور پر غلطی منسوب کی جائے اس لئے کہ ان سب حضرات نے اپنے اپنے طرز عمل میں اجتہاد سے کام لیا تھا اور ان سب کا مقصد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی تھی، یہ سب حضرات ہمارے پیشوا ہیں اور ہمیں حکم ہے ان کے باہمی اختلافات میں کف لسان کریں اورہمیشہ ان کا ذکر بہتر طریقہ پر کریں کیونکہ صحابیت بڑی عظمت کی چیز ہے اورنبی نے ان کو برا کہنے سے منع فرمایا ہے اور یہ خبر دی ہے کہ اللہ نے انہیں معاف کر رکھا ہے اور ان سے راضی ہے (بحوالہ معارف القرآن،ج :8)۔
ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم سب مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے قلب و دماغ میں صحابہ کرام کی عظمت ومرتبت، ان کی حجیت وعدالت، ان کی رفعت، ان کا مقام و مرتبہ اچھی طرح راسخ کرلیں، اور جو  صحابہ کرام کی شان اقدس میں گستاخی کرے، انکو گالیاں دے اور برا بھلا کہے ایسا شخص فاسق کہلائے گا اس پر اللہ کی بے شمار لعنتیں ہوں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×