اسلامیات

سجدے میں جاکے دیکھ

  نما ز کو مو من کی معراج سے تعبیر کیا گیا ہے اورحد یث جبر ئیل میں نما ز اس طر ح پڑھنے کی ہدایت کی گئی ہے جیسے تم خد اکو دیکھ رہے ہو﴿کا نک تر اہ﴾ اور یہ ممکن نہ ہو تو یہ یقین رکھو کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے ۔﴿فانہ یراک﴾
      خداکو دیکھنے کی کیفیت کا ادراک و احساس انسانی شعور ووجدان میں ایک خاص لذت اور کیفیت پیدا کر تاہے ،قر ب الہی کی اس لذت کو جس نے پا لیا ،اس کے لئے نماز عبادت کے مقام سے آگے بڑھ کر عادت بن جا تی ہے ۔جس طرح بھوک لگنے پر آدمی سو نہیں پاتا دوسرے عملیات کا عادی ہے تو اس کے بغیر چین نہیں آتا ،ویسے ہی نما ز جب عادت بن جاتی ہے۔ تو نمازی کو کسی پل چین نہیں آتا ، جب تک وہ نماز ادا نہ کرلے ،وہ بہت تھکا ہو ا ہے ،لیکن عشاء کی نما ز پڑھے بغیر اسے نیند نہیں آسکتی ،فجر کے وقت اسکی آنکھ ہر حال میں کھلے گی، شیطان کی تھپکیاں اور باد نسیم کے جھو نکے اسکی آنکھو ں پر اثر انداز نہیں ہوتے ،دفتر کی مشغولیات ،کا ر وبار کا ازدحام، دوکان پر گا ہکوں کی بھیڑ ،بال بچوں کی اٹھکھیلیاں ،جشن مسرت وسرور اور نالۂ غم و اندو ہ کے بیچ بھی اس کا دل نماز میں اٹکارہتاہے ،اسے دوڑ تی اور بل کھا تی ٹرین ،فضاء میں اڑتے ہو ائی جہاز اور سمندر کا سینہ چیر کر چل رہے جہاز ،اور کشتیوں میں بھی خالق کا حکم صلوٰۃیاد رہتا ہے او ر وہ اپنے گر نے اوربل کھانے سے بے پر واہ ہو کر وہاں بھی اس فر ض کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرتا ۔قر آن و احادیث میں بے شمار جگہ ایسے لو گوں کی تعر یف کی گئی ہے ،اور ان کے اس طر ز عمل کو سر اہا گیا ہے ۔
لیکن سما ج کا ایک بڑا طبقہ اس کیف وسرو ر سے واقف نہیں ہے ،اسے حکم خداوندی کا بھی پاس و لحاظ نہیں ،قیامت کی ہو لناکی کا ذکربھی ان کے جسم و جان میں ارتعا ش پید انہیں کر تا اور اذان کی آواز بھی اس کے اندر کو ئی تڑ پ اور بے چینی پیدا نہیں کر تی ،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسجدیں عالی شان ہیں (ٹائلس دانے اوررنگ و روغن سے مزین ہیں یقینا یہ بھی ایک کا م ہے اور اس پر بھی اجر خداوندی اور جنت میں گھر کا وعدہ ہے ) لیکن وہ نمازیوں سے خالی ہیں بعض جگہ کسی کسی وقت جما عت بھی نہیں ہو پاتی، کہیں جما عت ہوتی ہے تو افراد قلیل ہو تے ہیں ،شہر وں میں مسجدیں آباد نظر آتی ہیں ،لیکن آبادی کے اعتبار سے دیکھیں تویہ تعداد ایک فی صد نہیں ہوتی، دیہاتوں کا حال بھی کچھ الگ نہیں ہے ،مسجد یں جمعہ میں بھر جاتی ہیں اور وہ بھی صر ف دو رکعت کے لئے ،امام نے سلام پھیر ا نہیں کہ بھگڈر مچ جا تی ہے ،سنن ،مستحبات کی فکر کو ن کرے ۔موکد ہ کا بھی پتہ نہیں چلتا ۔بعض لو گ اس دن بھی اللہ کے گھر نہیں پہنچ پا تے اور جمعہ بھی یوں ہی نکل جاتا ہے ،صرف عیدین کا موقع ہو تا ہے جب سارے مسلمان سربسجو د ہوتے ہیں ،جس میں حکم خداوندی کی اد ائیگی سے زیادہ سماجی روایات کا عمل دخل ہو تا ہے ۔
نماز سے یہ دوری عوام میں نہیں خو اص میں بھی ہے ۔مسجد درو ازے پر ہے ،اقامت کی آواز بھی کانوں میں پڑ رہی ہے ،لیکن ہم ہیں کہ کانوں پر جو ں تک نہیں رینگتی ،ریڈیو سے خبر یں سنی جارہی ہیں ،دوستوں کی مجلس میں گپ شپ ہو رہاہے ،دوسری خرافات میں وقت گزر رہاہے، لیکن مسجد میں حاضری کی سعادت نصیب نہیں ہو تی ،خو اص کی کو تاہی اور سستی کا اثر بڑے پیمانے پر عوام اورخاندان پر پڑتا ہے ۔ایک دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ خاندان کے ذمہ دار افراد نے اپنی فکر کی ،لیکن اپنے بچوں اوربیوی کو اس کے لئے آمادہ نہیں کیا ۔حالانکہ یہ ان کی ذمہ داری تھی کہ پورے گھر کی فکر کر یں ۔نتیجہ یہ ہو ا کہ پورے گھر میں ایک یا دو آدمی نماز پڑھ رہے ہیں ،باقی سب نماز سے دور ہیں ،اور اس کی وجہ سے کبھی کبھی اپنی نماز بھی خطر ے میں پڑ جا تی ہے ،گھر کے سارے لو گ نماز ی ہوں تو سب ایک دوسرے کو متو جہ کر تے رہتے ہیں اورگھر کے سارے لو گ حساس اورفکر مند ہوتے ہیں ۔
نماز سے اس دو ری کی وجہ سے سماج میں فحاشی اور منکر ات نے رو اج پالیا ہے اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ نماز تما م بر ے اور فحش کا موں سے رو کتی ہے ﴿ انَّ الصَّلوٰۃَ تَنْہیٰ عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرْ ﴾اسکا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ معاشر ہ کی اصلاح میں نماز کا بڑا عمل دخل ہے اور یہ پہلا کا م ہے ۔جس سے اصلاح معاشر ہ کا آغاز کیا جا سکتا ہے ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ منکر ات کچھ تو نا م و نمود کے لئے کئے جا تے ہیں اور کچھ حصو ل لذت کے لئے ۔جو برائی نا م ونمو دکے لئے ہوتی ہے اس میں اپنی ذات کی بڑائی کا تصور غالب ہوتا ہے۔ جسے ہم ’’انا ‘‘سے تعبیر کر تے ہیں ،یہ اندر کا ’’میں ‘‘ہو تاہے جو خدائی حکم کو توڑنے پر آمادہ کرتاہے ۔لیکن جب نما ز پڑھتے ہیں اور باربار اٹھتے بیٹھتے ہیں ،اللہ اکبر کہتے ہیں تو اپنی ذات سے بڑائی کی نفی کر تے ہیں اورخدا کے لئے ساری بڑائی ثابت کر تے ہیں۔ نام ونمود کی جڑ یہیں سے کٹ جاتی ہے بلکہ نماز سے بہت پہلے فضائ میں مو ذن اللہ اکبر کا اعلان کر تا ہے ،عام آدمی کےلئے یہ صر ف نماز کے وقت کا اعلان ہے لیکن اہل علم جانتے ہیں کہ نماز کے لئے جمع ہونے کا اعلان تو صر ف﴿حی علی الصلوۃ﴾سے ہوتاہے ،پورے کلمات اذا ن میں چھ بار اللہ اکبر کا اعلان اسی لئے ہے کہ ساری فضا ئ اللہ کی بڑائی کے تصور سے گونج جائے ،اسی لئے اذان کے بعد جو دعائ پڑھی جا تی ہے ،اس میں اذان کو مکمل دعوت قرار دیاگیا ہے ،پھر نمازاقامت ہونے کے قبل کہی شروع جاتی ہے اس میں بھی اللہ کی بڑائی کا اعلان ہوتاہے، نام ونمود اور اَناَ کے غلبہ کا جہاں کہیں اور جب کبھی موقع آتا ہے تو نماز کی تعداد بڑھا دی جاتی ہے اور تکبیر کا بھی اضافہ کردیا جا تاہے ۔عیدین کے مو قع پر جب ہم نئے نئے کپڑے پہن کر عید گاہ کےلئے نکلتے ہیں تو پو را خا ندان اور گاؤں ہمارے ساتھ ہوتاہے اور فخر و مبا ہات کا بڑا موقع ملتا ہے ۔اس دن نماز ی کی تعداد اچھی خا صی ہوتی ہے عید گاہ جاتے ہو ئے تکبیر تشریق کہلو ائی جاتی ہے، اس میں بھی چار مرتبہ اللہ اکبر کے الفاظ آتے ہیں، عیدین کی نماز میں چھ تکبیربڑھا دی جاتی ہے تا کہ انا کا بت پاش پاش ہو جائے ۔ عید الاضحی میں کبر کا ایک اور موقع قربانی کے بکرے کی شکل میں آتا ہے ،جہا ں نام ونمود اورانا کی تسکین کا سامان ہوتاہے اس لےے تکبیر تشریق عر فہ کے دن بعد نماز فجر ہی سے شروع کراد ی جا تی ہے اور قر بانی کے ایام  کے علاوہ ایک دن بعد تک تکبیر تشریق کہلا ئی جاتی ہے تاکہ ہما ری قر بانی ہمارے نام ونمو د سے پاک ہوکر اللہ کے یہاں پہنچے ۔
نماز، منکر ات کے دوسرے اسباب حصو ل لذت ومال ودولت پر بھی قد غن لگا تاہے جب ہم پا نچ وقت نماز پڑھتے ہیں تو یہ اللہ کے حکم کی تعمیل اور طر یقہ ٔ رسو ل کی پابندی ہمیں زندگی کے دوسرے معاملات میں بھی اس کے لئے تیار کر تی ہے کہ ہم خد ائی حکم کے خلاف نہیں کریںگے اور سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ سے سر مو انحر ا ف نہیں کریں گے۔ جب آدمی اسکے لئے تیا ر ہو جائے گا تو وہ حصول لذت ومال دولت میں بھی جائز شکلو ں کا پا بند ہوگا او ر نا جا ئز شکلوں سے اجتناب کر ے گا ۔
اسکے لئے ضروری ہے کہ ہماری نماز یں خشوع وخضو ع سے معمو ر ہوں ،ان کے اندر وہ کیفیت ہو ،جس کے حصول کے بعد صحیح معنوں میں نماز مومن کی معر اج ہوجاتی ہے اوربندہ خداکو اپنے قریب پانے لگتاہے اور وہ ان ظاہر ی آنکھوں سے بھی تجلیات ربانی کا احساس و ادراک کرتاہے اور اس نعمت کو پاکر اس کی رو ح و جد کرنے لگتی ہے اور وہ دنیا و ما فیھا سے دور بہت دور چلا جاتاہے ،نام و نمود تکبر و غر ورا ور گناہوں سے دور ہو کر وہ اعلان کر تاہے کہ میر ی نمازیں ،میر ی قربانیاں ،میری حیات وموت ،سب تمام جہاں کے پالن ہار کے لئے ہے ﴿ انَّ صَلَا تِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾اس مر حلہ اورمقام پر پہنچ کر بندہ خالق کائنا ت کو ن ومکاں کا ہو جا تاہے اور شرک کے نگر و ڈ گر سے الگ ہوکر صرف اور صر ف اللہ کا ہو کر رہ جاتاہے اور اللہ اسکا ہوجاتاہے ۔من کان للہ کان اللہ لہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×