صدقۂ فطر: فضائل واحکام
دین اسلام ایک جامع ترین مذہب ہے، جس میں مختلف احکامات خدائے واحد کی طرف سے بندوں کو دیے گئے ہیں اور ان کی ادائیگی پر مختلف انعامات کا بھی وعدہ کیا ہے، لیکن کبھی کبھی احکامات کی تعمیل میں کوتاہی بھی ہوجاتی ہے، بل کہ ہوتی ہی رہتی ہے، جس کی تلافی کی مختلف احکام میں الگ الگ شکلیں شریعت کی جانب سے طے کی گئی ہیں، اسی کے ساتھ کبھی کبھی تلافی میں بھی اللہ کی طرف سے مزید انعامات کا استحقاق ہوتا ہے۔
’’روزہ‘‘ ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے، جس کو اللہ تعالی نے بندوں پر فرض کیا ہے، اور ان کی تکمیل وادائیگی پر بے شمار انعامات کا وعدہ کیا گیا ہے، جیسا کہ احادیث کا ایک ذخیرہ بتاتا ہے، روزوں کی تکمیل پر بطور انعام کے ایک دوسری نعمت بشکل عبادت اللہ تعالی نے ’’عید‘‘ کی صورت میں دی ہے، اسی کے ساتھ روزوں میں ہونے والی کوتاہیوں اور عید کے دن ہونے والی خوشی میں دوسروں کو شریک کرنے کے لیے ایک تیسری عبادت ’’صدقۂ فطر‘‘ کی صورت میں اللہ تعالی نے ہمیں مرحمت فرمائی ہے، جس کو احادیث میں واجب قرار دیا گیا ہے۔
صدقۂ فطر کے فضائل ومقاصد:
’’فطر‘‘ کے معنی روزہ کھولنے اور روزہ نہ رکھنے کے ہیں، چوں کہ اس صدقہ کے واجب ہونے کا سبب فطر یعنی عید کا دن ہے، اسی لیے اس کو ’’صدقۂ فطر‘‘ کہتے ہیں، احادیث میں اس کی فضیلت ومقصد بیان کرتے ہوئے دو چیزوں کو ذکر کیا گیا ہے۔
عن ابن عباس رضي اﷲ عنہما قال: فرض رسول اﷲﷺ زکاۃ الفطر طہرۃ للصائم من اللغو والرفث وطعمۃ للمساکین، من أداہا قبل الصلاۃ فہي زکاۃ مقبولۃ ومن أداہا بعد الصلاۃ فہي صدقۃ من الصدقات۔ (رواہ أبو داؤد، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ الفطر، وابن ماجۃ ، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے روزہ دار کو فضول ولایعنی اور فحش باتوں کے اثرات سے پاک کرنے اور مساکین وضرورت مندوں کو کھانا کھلانے کے لیے صدقۂ فطر فرض کیا، جس نے عید کی نماز سے پہلے ادا کیا تو وہ مقبول صدقہ ہے، اور جس نے نماز کے بعد ادا کیا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہے۔
مذکورہ روایت سے جہاںصدقۂ فطر کی فضیلت اور اہمیت معلوم ہوتی ہے وہیں پر اس کے دو مقصد پر واضح پر روشنی پرتی ہے۔
(۱) پہلا مقصد انسان کی اپنی ذات سے متعلق ہے، وہ یہ ہے کہ روزے کی حالت میں روزے دار سے کبھی کبھار چوک ہوجاتی ہے، وہ روزے کے مقصد پر مکمل عمل نہیں کرپاتا ہے، اور معنوی ممنوعات کا ارتکاب بھی کرلیتا ہے، اس کی تلافی اور بھرپائی کے لیے اللہ رب العزت نے ’’صدقۂ فطر‘‘ مشروع کیا؛ تاکہ روزوں میں ہوئی خطاؤں اور لغزشوں سے پاکی حاصل ہوجائے، جیسے فرض نمازوں کی تلافی کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے نوافل نمازوں کو مشروع کیا گیا ہے، تاکہ کوتاہیوں کی تلافی کی جاسکے، اسی طرح روزے کی کوتاہیوں کے لیے صدقۂ فطر کو مشروع کیا گیا ہے۔
(۲) دوسرا مقصد معاشرہ اور اجتماعیت سے متعلق ہے، ہر معاشرہ اور سوسائٹی میں مختلف درجات کے لوگ ہوتے ہیں، جہاں مالدار ہوتے ہیں وہیں غرباء ومساکین بھی ہوتے ہیں، اب عید کے موقع پر مالدار لوگ نئے نئے کپڑے پہنیں گے، اچھے اچھے پکوان کھائیں گے اور دیگر بہت سی چیزیں ان کی خوشی کی ہوں گی، لیکن اسی معاشرے میں رہنے والے غریب اور مسکین قسم کے لوگ جن کے پاس اتنی رقم نہیں ہوگی وہ اس طرح کی نعمتوں سے محروم ہوں گے، نہ ان کے پاس اچھے اور عمدہ قسم کے لباس ہوں گے اور نہ ہی متنوع اقسام کے کھانے، جس سے ان کو افسوس اور تکلیف ہوگی، غرباء ومساکین کی اسی تکلیف دور کرنے اور معاشرے میں مالدار لوگوں کے برابر کرنے اور عید کی خوشی میں شریک کرنے کے لیے صدقۂ فطر مشروع کیا گیا ہے؛ تاکہ عید کی خوشی میں وہ بھی سب کے ساتھ رہیں، الگ نہ رہیں۔
صدقۂ فطرکا وجوب:
صدقۂ فطر واجب ہے، مختلف احادیث میں رسول اللہ ﷺ سے اس کا وجوب نقل کیا گیا ہے، چند احادیث درج ذیل ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقۂ فطر مسلمانوں پر واجب قرار دیا، خواہ مسلمان غلام ہو یا آزاد، مرد ہو یا عورت، چھوٹا ہو یا بڑا۔ (بخاری ومسلم)
حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے مکہ کی گلیوں میں یہ اعلان کرایا کہ سن لو! صدقۂ فطر ہر مسلمان پر واجب ہے، خواہ مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام، چھوٹا ہو یا بڑا۔ (ترمذی شریف)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں روایت ہے کہ انھوں نے رمضان کے آخر میں (لوگوں سے) کہا کہ تم لوگ اپنے روزوں کی زکاۃ نکالو، یعنی صدقہ فطر ادا کرو، رسول اللہ ﷺ نے یہ صدقہ ہر (مسلمان) آزاد، غلام، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے پر فرض قرار دیا ہے۔
صدقۂ فطر کس پر واجب ہے؟
صدقۂ فطر مالدار پر واجب ہے، غریب اور مسکین پر واجب نہیں، مالدار وہ شخص ہے جس کے پاس ضروریاتِ خانہ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ (612گرام) چاندی یا زیور، یا اسی کے بقدر قیمت کا سامان، یا ساڑھے سات تولہ (87.5گرام) سونا یا زیور، یا کچھ چاندی اور کچھ سونا ہو، جن کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ (612گرام) چاندی کے برابر ہوجائے، سونے چاندی کے علاوہ اگر ضرورت سے زیادہ سامان کسی کے پاس ہو تو اس پر بھی صدقۂ فطر واجب ہے، اس سامان کا تجارت کے لیے ہونا ضروری نہیں، بس ضرورت سے زائد ہونا کافی ہے، اسی طرح اس مالیت پر پورے سال کا گزرنا بھی ضروری نہیں ہے، اگر کسی کے پاس آخر رمضان میں مذکورہ مالیت آگئی تو اب عید کے دن اس پر صدقۂ فطر واجب ہوگا۔
بعض فقہاء کے نزدیک صدقۂ فطر واجب ہونے کے لیے اتنی مالیت ضروری نہیں، اگر کسی کے پاس ایک دن رات سے زیادہ خوراک اپنے اور اپنی کفالت میں رہنے والوں سے ہو تو اس پر بھی صدقۂ فطر واجب ہے۔
صدقۂ فطر کے وجوب کا وقت اور ادائیگی کا وقت؟
صدقۂ فطر کے وجوب کا وقت عید کے دن صبح صادق کا پایا جانا ہے، کہ مالدار پر جیسے ہی عید کے دن صبح صادق کا وقت ہوگا اس پر صدقۂ فطر واجب ہوجائے گا؛ اسی لیے وہ شخص جو صبح صادق سے پہلے انتقال کرجائے اس پر صدقۂ فطر واجب نہیں ہے، البتہ جو بچہ صبح صادق سے پہلے پیدا ہوگا اس کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا ہوگا۔
صدقۂ فطر کی ادائیگی کا اصل وقت عید کے دن نماز عید سے پہلے ہی کا ہے، جیسا کہ متعدد روایات میں نقل کیا گیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کی روایت جو صحیحین میں ہے اس میں ہے کہ آپ ﷺ نے حکم فرمایا ہے کہ صدقۂ فطر نماز عید کے لیے جانے سے پہلے ادا کیا جائے۔
البتہ اگر کوئی آخر رمضان میں ادا کرنا چاہے تو ادا کر سکتا ہے کہ جیسا کہ حضرت نافع ؒ فرماتے ہیں حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ گھر کے چھوٹے بڑے تمام افراد کی طرف سے صدقۂ فطر دیتے تھے، حتی کہ میرے بیٹوں کی طرف سے بھی دیتے تھے اور عید الفطر کے ایک یا دون دن پہلے ادا کرتے تھے۔ (بخاری)
اسی طرح اگر کوئی شروع رمضان میں ادا کرنا چاہے تو بھی اجازت ہے، البتہ بہت پہلے مناسب نہیں ہے، ایسے ہی نماز عید الفطر کے بعد دینا درست نہیں ہے، نماز عید سے پہلے ہی دینا چاہیے، اگر بلا کسی مجبوری کے تاخیر کی تو جو صدقۂ فطر کی فضیلت تھی وہ حاصل نہیں ہوگی، بلکہ عام صدقہ ہوگا، جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت میں گزر چکا ہے، لیکن اگر کوئی نماز عید سے قبل نہ دے سکے تو بہر حال نماز کے بعد ادا کردے۔
صدقۂ فطر کی مقدار:
اگر کوئی کھجور، کشمش یا جو سے صدقۂ فطر ادا کرنا چاہے تو اس کی مقدار باتفاق فقہاء ایک صاع ہے، جو کلو کے اعتبار سے تقریبا سوا تین کلو ہے، متعدد روایات میں اس کا بیان ہے، البتہ اگر کوئی گیہوں سے صدقۂ فطر ادا کرنا چاہے تو اس میں فقہاء کے یہاں قدیم زمانہ سے اختلاف پایا جاتا ہے، بیشتر علماء کی رائے یہ ہے کہ گیہوں میں نصف صاع یعنی پونے دو کلو سے کم (1.660)ادا کیا جائے، کئی ایک حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم سے گیہوں کے باب میں نصف صاع کی روایتیں منقول ہیں، اور یہی امام ابو حنیفہؒ کی رائے ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں روایت ہے کہ انھوں نے رمضان کے آخر میں (لوگوں سے) کہا کہ تم لوگ اپنے روزوں کی زکاۃ نکالو، یعنی صدقہ فطر ادا کرو، رسول اللہ ﷺ نے یہ صدقہ ہر (مسلمان) آزاد، غلام، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے پر کھجوروں اور جو میں سے ایک صاع اور گیہوں میں سے آدھا صاع فرض قرار دیا ہے۔(ابو داؤد، نسائی)
ایک روایت میں آپ ﷺکا ارشاد نقل کیا گیا کہ گیہوں کے ایک صاع سے دو آدمیوں کا صدقۂ فطر ادا کرو، کھجور اور جو کے ایک صاع سے ایک آدمی کا صدقۂ فطر ادا کرو۔ (دار قطنی، مسند احمد)
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے صدقۂ فطر میں ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو ضروری قرار دیا، صحابۂ کرام ؒ نے گیہوں کے آدھے صاع کو اس کے برابر قرار دیا۔ (بخاری ومسلم)
اگر کوئی شخص صدقۂ فطر مذکورہ اشیاء سے دینا چاہے تو دے سکتا ہے، اسی طرح اگر کوئی مذکورہ اشیاء کے بجائے اس کی قیمت دینا چاہے تو بھی اس کی اجازت ہے، یہی امام ابوحنیفہ، امام بخاری، حضرت عمر بن عبد العزیز، حضرت حسن بصری اور علماء احناف کی رائے ہے؛ اس لیے کہ قیمت سے غریب اور مسکین کی ضرورت بآسانی پوری کی جاسکتی ہے، اب دوسرے علماء وفقہاء کی حالات زمانہ کی بنیاد پر یہی رائے ہے کہ قیمت دی جاسکتی ہے۔
صدقۂ فطر کا مستحق کون ہے؟
صدقۂ فطر کے بھی وہی لوگ مستحق ہیں جو زکوۃ کے مستحق ہیں، جن کو زکاۃ دینا جائز ہے، ان کو صدقۂ فطر بھی دینا جائز ہے اور جن کو زکاۃ دینا ناجائز ہے ان کو صدقۂ فطر بھی دینا ناجائز ہے۔