بہر ِ غفلت یہ تری ہستی نہیں
دنیا انسان کے لئے دارالامتحان ہے،اللہ تعالی نے نیکیوں کو کمانے ،اجر وثواب کو حاصل کرنے کے لئے دنیا میں بھیجا ہے،دنیا میں کوئی انسان ہمیشہ رہنے کے لئے نہیں آیا،ایک نہ ایک دن ہر آنے والے انسان کو اس دنیا کو چھوڑکر جاناہے۔اس پوری کائنات کو اللہ تعالی نے انسانوں کے لئے سجایااور خوبصورت بنایا،انسان اس کائنات کی اشرف ترین مخلوق ہے،اسے اپنے اعمال کا انجام قیامت کے دن دیکھنا ہے،غفلت اور لاپرواہی کی زندگی گزارے تو سوائے ندامت اور شرمندگی کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔قرآن کریم میں اللہ تعالی نے آنے والی زندگی کا زادِ راہ تیار کرنے اور آگے کے لئے نیکیوں کو جمع کرنے کی ترغیب بھی دی ہے۔ارشاد ہے:یایھاالذین امنوااتقواللہ ولتنظر نفس ماقدمت لغد واتقواللہ ان اللہ خبیر بماتعملون۔(الحشر:۱۸)’’اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو!اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لئے کیاآگے بھیجا ہے۔اور اللہ سے ڈرو۔یقین رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو ،اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔‘‘
عقلمند انسا ن وہ نہیں جو صرف مال ودولت کے جمع کرنے میں صبح وشام ایک کردے،اور تمام تر اسباب ِ عیش وعشرت اکٹھا کرلے،اپنی اصل منزل سے غافل ہوجائے اور دنیا ہی کو دائمی ٹھکانہ سمجھ بیٹھے،حقیقی عقلمند کون ہے ؟نبی کریمﷺ نے فرمایا:الکیس من دان نفسہ وعمل لما بعد الموت ،والعاجز من اتبع نفسہ ھوا ھاوتمنی علی اللہ ۔( ترمذی:حدیث نمبر؛۲۳۹۶ )رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہوشیار اور توانا وہ ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے ،اور موت کے بعد کے لئے( یعنی آخرت کی نجات وکامیابی کے لئے )عمل کرے ،اور نادان و ناتواں وہ ہے جو اپنے کو اپنی خواہشات ِ نفس کا تابع کردے ( اوربجائے احکام ِ خداوندی کے اپنے نفس کے تقاضوں پر چلے ) اور اللہ سے امیدیں باندھے۔مذکورہ حدیث مبارک میں نبی کریم ﷺ نے عقل مند او رہوشیار انسان کے بارے میں بیان فرمایا کہ حقیقت میں کون سب سے زیادہ عقل مند اور چالاک سمجھا جائے گا ۔کیوں کہ دنیا میں لوگوں نے اپنے مقصد زندگی کو فراموش کرکے یہ سمجھ لیا کہ جو مال ودولت کمانے میں بہت ماہر ہو وہ عقل مند ہے ،کسی نے سمجھا کہ جو جائیداد و مکانات جمع کرنے میں آگے ہو وہ ہوشیار ہے ،کسی نے سمجھا کہؤ جس کے پاس عیش و عشرت کے تمام سامان ہو اور پُر عیش زندگی نصیب ہووہ عقل مند ہے ۔ان تمام کے برخلاف نبی کریم ﷺ سے جب عقل مند اور ہوشیار آدمی کے بارے میںسوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:کہ جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے ،احکامات الہی اور تعلیمات نبوی ؐ پر عمل پیرا ہو،اور مرنے کے بعد کی زندگی کی تیار ی میں لگاہوا ہو، کیوں کہ دنیا کہ زندگی عارضی اور فانی ہے اور مرنے کے بعد کی زندگی دائمی اور ابدی ہے ۔اور نادان و کم سمجھ آدمی وہ ہے جو خواہشات ِ نفسانی میں مبتلا ہوکر زندگی گزارے اور حکم خدا کی مخالفت کے باوجود اللہ سے امید یں لگائے ۔دنیا میں اللہ تعالی نے جس کے لئے جتنا مقدر فرمادیا ہے اس کو اتناضرور مل کر رہے گا،اس لئے نبی کریم ﷺ نے لوگوں کو اس طرف متوجہ کیا کہ تم دنیا میں آخرت کے لئے بھیجے گئے ہو، اس لئے اس کی محنت کرو ،اعمال صالحہ انجام دو ،اللہ کے احکامات اور نبی کی تعلیمات پر چلنے والے بنو ،یہی سب سے بڑی عقل مندی ہے ۔دنیا میں انسان معمولی سفر کے لئے بہت اہتمام کرتا ہے اور زیادہ سے زیادہ زادِ سفر تیار کرتا ہے تاکہ دوران ِ سفر کوئی مشقت یا مشکل پیش نہ آئے ،لیکن انسا ن کی ذہانت اورعقل مندی پر کس قدر افسو س ہے کہ وہ ایک ہمیشہ کے سفر پر جانے والا ہے لیکن وہاں کی کچھ تیاری نہیں اور دنیا میں رہ کر خداکو بھلا کر اورنبی کریم ﷺ کو فراموش کرکے نفسانی خواہشات میں زندگی بسر کرتا ہے ۔
حضرت مولانا منظور نعمانی ؒ اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ:اس حدیث میں ان لوگوں کو خاص آگاہی دی گئی ہے جو اپنی عملی زندگی میں اللہ کے احکام اور آخرت کے انجام سے بے پروا اور بے فکر ہوکر اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں ،اور اس کے باوجود اللہ کی رحمت اور اس کے کرم سے امیدیں رکھتے ہیں ،اور جب کوئی اللہ کا بندہ ٹوکتا ہے تو کہتے ہیں اللہ کی رحمت بڑی وسیع ہے ،اس حدیث نے بتلادیا کہ ایسے لوگ دھوکے میں ہیں ،اور ان کا انجام نامرادی ہے ۔پس معلوم ہوا کہ رجاء یعنی اللہ سے رحمت اور کرم کی امید وہی محمود ہے جو عمل کے ساتھ اور بدعملی اور آخرت کی طرف سے بے فکری کے ساتھ ہو وہ رجاء محمود نہیں ہے بلکہ نفس وشیطان کا فریب ہے ۔( معارف الحدیث:۲/۳۸) اس لئے ضروری ہے کہ رسول کریم ﷺنے جو عقل مند کا معیار قرار دیا اسی کے مطابق عمل پیرا ہوں چاہے دنیا والے نادان کہیں ،اگر دنیا والے تو عقل مند شمار کریں لیکن اگر نبی ﷺ کی نگاہوں میں نادان رہے تو یہ سب سے بڑی ناکامی ہوگی۔
ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے نبی کریمﷺ سے دریافت کیاکہ :اے اللہ کے رسول ﷺ!بتلائیے کہ آدمیوں میں کون سب سے زیادہ ہوشیار اور دوراندیش ہے؟آپﷺ نے فرمایا:وہ جوموت کو زیادہ یادکرتا ہے اور موت کے لئے زیادہ سے زیادہ تیاری کرتا ہے،جولوگ ایسے ہیں وہی دانشمند اور ہوشیار ہیں،انھوں نے دنیا کی عزت بھی حاصل اور آخرت کا اعزاز واکرام بھی،( المعجم الصغیر:۸۷)
شیخ الاسلام مفتی محمدتقی عثمانی مدظلہ نے اس سلسلہ میں بڑا ہی سبق آموز واقعہ بیان کیا کہ بادشاہ ہارون رشید کے زمانہ میں ایک بزرگ بہلول مجذوب رہاکرتے تھے ،ہارون رشید ان سے ہنسی مذاق کرتے تھے،اگرچہ مجذوب تھے لیکن بڑی حکیمانہ باتیں کیاکرتے تھے۔ایک دن یہ دربار میں آئے تو اس وقت ہارون رشید کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی ،ہارون رشید نے ان مجذوب کو چھیڑتے ہوئے کہا کہ :بہلول صاحب !آپ سے ایک گزارش ہے ،بہلول نے پوچھا کیا ہے؟ہارون رشید نے کہا کہ میں آپ کو یہ چھڑی بطور امانت کے دیتا ہوں ،اور دنیا کے اندر آپ کو اپنے سے زیادہ کوئی بیوقوف آدمی ملے تو اس کو یہ چھڑی میری طرف سے ہدیہ میں دے دینا۔بہلول نے کہا:بہت اچھایہ کہہ کر چھڑی رکھ لی۔بادشاہ نے تو بطور مذاق کے چھیڑ چھاڑ کی تھی،اور بتانا یہ مقصود تھاکہ دنیا میں تم سب سے زیادہ بے وقوف ہو۔اس واقعہ کو کئی سال گزرگئے،ایک روز بہلول کو پتہ چلا کہ ہارون رشیدبہت سخت بیمار ہیں اور بستر سے لگے ہوئے ہیں ،اور علاج ہورہا ہے،لیکن کوئی فائدہ نہیں ہورہاہے،یہ بہلول بادشاہ کی عیادت کے لئے پہنچ گے ،اور پوچھا کہ امیر المؤمنین !کیاحال ہے؟بادشاہ نے جواب دیا کہ حال کیا پوچھتے ہو،سفر درپیش ہے،بہلول نے پوچھا :کہاں کا سفر درپیش ہے؟بادشاہ نے جواب دیا کہ آخرت کا سفر درپیش ہے،دنیا سے اب جارہاہوں۔بہلول نے سوال کیا،کتنے دن میں واپس آئیں گے؟ہارون نے کہا:بھائی یہ آخرت کا سفر ہے،اس سے کوئی واپس نہیں آتا،بہلول نے کہا:اچھاآپ واپس نہیں آئیں گے تو آپ نے سفر کے راحت اور آرام کے انتظامات کے لئے کتنے لشکر اور فوجی آگے بھیجے ہیں؟بادشاہ نے جواب میں کہا کہ:تم پھر بے وقوفی جیسی باتیں کررہے ہو،آخرت کے سفر میں کوئی ساتھ نہیں جایاکرتے،نہ باڈی گارڈجاتا ہے ،نہ لشکر ،نہ فوج اور نہ سپاہی جاتا ہے۔وہاں تو انسان تنہا جاتا ہے۔بہلول نے کہا کہ اتنا لمبا سفر کہ وہاں سے واپس نہیں آنا ہے ،لیکن آپ نے کوئی فوج اور لشکر نہیں بھیجا۔حالاں کہ اس سے پہلے آپ کے جتنے سفر ہوتے تھے،اس میں انتظامات کے لئے آگے سفر کا سامان اور لشکر جایاکرتا تھا،اس سفر میں کیوں نہیںبھیجا؟بادشاہ نے کہا کہ یہ سفر ایسا ہے کہ اس میں کوئی لاؤلشکر اور فوج نہیں بھیجی جاتی ۔بہلول نے کہا:بادشاہ سلامت! آپ کی ایک امانت بہت عرصے سے میرے پاس رکھی ہوئی ہے،وہ ایک چھڑی ہے،آپ نے فرمایا تھا کہ مجھ سے زیادہ کوئی بے وقوف تمہیں ملے تو اس کو دے دینا۔میں نے بہت تلاش کیا ،لیکن مجھے آ پ سے زیادہ کوئی بے وقوف آپ کے علاوہ کوئی نہیں ملا۔لہذا آپ کی یہ امانت آپ کو واپس کرتاہوں۔یہ سن کر ہارون رشید روپڑے،اور کہا کہ بہلول ! تم نے سچی بات کی،ساری عمر ہم تم کو بے وقوف سمجھتے رہے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکمت کی بات تم نے ہی کہی ،واقعۃ ہم نے اپنی عمر ضائع کردی ،اور اس آخرت کے سفر کی کوئی تیار ی نہیں کی۔( اصلاحی خطبات:۷/۲۷۳)
غزوہ ٔ موتہ میں رسول اللہ ﷺ نے تین ہزار کا لشکر روانہ فرمایا،ان میں مشہور صحابی حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ بھی تھے،اصحاب سیر نے لکھا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ حضرت عبداللہ کو رخصت کرنے لگے تووہ رونے لگے،لوگوں نے وجہ دریافت کی تو فرمایا،میں دنیا سے محبت یا تم سے عشق کی وجہ سے نہیں رورہا ہوں ۔۔۔بلکہ اس لئے روہاہوں کہ میں رسول اللہ ﷺ کویہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے:(وان منکم الاواردھا کان علی ربک حتمامقضیا۔)یعنی’’ تم سے کوئی ایسا نہیں جس کا اس جہنم پر گزرنہ ہو،یہ اللہ جل شانہ کا اٹل اور حتمی فیصلہ ہے۔‘‘معلوم نہیں کہ اس پر گزرتے ہوئے میراکیابنے گا؟مسلمانون نے انھیں تسلی دی اور کہا: اللہ آپ کو ہماری طرف صحیح سلامت لوٹائیں۔آخر کار وہ اسی غزوہ میں شہید ہوئے۔(کتابوں کی درسگاہ میں:۶۶)
موت سے پہلے موت کی تیاری کرنا،اعمال کو درست کرنا،نیکیوں کو جمع کرنا یہ دراصل اہم کام ہے ،اور اس کو وہی انجام دینے کی فکر میں رہتے جو حقیقت میں عقلمند ہیں۔جس وقت سے پوری دنیا میں کورونا کا قہر چھایاہواہے،کتنے لوگوں کو ہم نے مرتے دیکھا،صحت مند بھی ،بیماربھی،نوجوان بھی اور بوڑھے بھی بغیر کسی تفریق کے دنیا چھوڑکر جارہے ہیں ،جان پہچان والوں میں بھی اور رشتہ داروں میں بھی بہت سے لوگوں نے داغ ِ مفارقت دے دیا،علما ء بھی آخرت سدھارگئے اور عوام بھی رحلت کرگئے،ایسے بھی گئے جن کے بارے میں بظاہر گمان بھی نہیں تھا کہ اتنا جلدی یہ بھی موت کا شکار ہوجائیں گے،لیکن بہرحال موت تو دنیا میں ہرکسی کو آنا ہے،کوئی اس سے بھاگ نہیں سکتا،کوئی کہیں چھپ نہیں سکتا،اور کوئی دھوکہ دے نہیں سکتا۔موت کا خوف اور بیماری کی دہشت سب پر طاری ہے ،اس درجہ خوف چھایا ہوا ہے کہ لوگوں نے اپنوں کو تک کاندھا دینا پسند نہ کیااور اپنوں کے جنازہ میں تک شرکت سے گریز کیا۔لیکن کیا اس کے باوجود بھی کوئی اپنے وقت ِ مقرر ہ سے بچ سکتا ہے؟ہرگز نہیں !اس طرح کے حالات سے عبرت لینااور لوگوں کو بچھڑتاہوا دیکھ کر اپنی زندگی کو بنانے کی فکر کرنا اصل ذمہ داری ہے۔اس سے غفلت نقصان کا ذریعہ ہوگی۔حقیقی عقلمندوں کی فہرست میں شامل ہونا ہے تو آنے والی زندگی کی فکر کرنااور حیات ِ مستعار کے بچے ہوئے دنوں کو صحیح استعمال کرنے کی کوشش کرنا یہ ہر مومن کے لئے ضروری ہے۔حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب ؒ نے کہا تھاکہ :
آخرت کی فکر کرنی ہے ضرور جیسی کرنی ویسی بھرنی ہے ضرور
اور
بہر غفلت یہ تیری ہستی نہیں دیکھ جنت اس قدر سستی نہیں
رہ گزر دنیاہے ،یہ بستی نہیں جائے عیش وعشرت ومستی نہیں