اسلامیاتمفتی محمد صادق حسین قاسمی

کورونا وائرس اور زندگی کی قدر واہمیت

کورونا وائرس کی تباہ کاریوں اور قیامت خیزیوں سے دنیا پریشان ہے،تین مہینے سے زیادہ عرصہ گزرچکا ہے اس وائرس کی وجہ سے پابندیوں کو جھیلتے ہوئے،رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ بھی اسی کی نظر ہوگیااورسالانہ عظیم الشان عبادت اور اسلامی فریضہ حج بھی اس کی وجہ سے محدود دائرہ میں سمیٹ دیاگیا ہے،اس نے زندگی کے نظام کو بُری طرح متاثرکیااور بے شمارلوگوں کومعاشی بدحالی سے دوچار کردیا۔دنیا بھر میں ایک کروڑچارلاکھ ۲۹ہزار لوگ اس سے متاثرہوئے اور پانچ لاکھ ۸ہزار لوگوں کی موت ہوچکی ہے۔ہمارے ملک میں بھی بڑی تیزی کے ساتھ کے یہ وائرس پھیل چکاہے۔لاکھوں لوگ اس کی زد میں آگئے ہیں۔حفاظتی اقدامات کے لئے بہت سارے مشورے اور طریقے ہر کوئی عام کرنے میں لگا ہوا ہے۔احتیاط ہی اس کا علاج بتایاگیا۔اس وائرس کی وجہ سے لوگوں میں خو ف وہراس ہے،ایک دوسرے سے دوری رکھنے کی ہر کوئی کوشش کررہا ہے،کہیں وائرس لگ نہ جائے اس اندیشہ سے کنارہ کشی کی جارہی ہے۔کورونا سے مرنے والوں کے ساتھ انتہائی اذیت ناک سلوک ہورہا ہے،جس کو دیکھ کربدن کانپ جاتا ہے اور دل اللہ تعالی سے فریادکرتا ہے کہ ایسی موت اور ایسے حالات سے بچائے۔عجیب وغریب صورت حال سے لوگ دوچار ہیں۔زندگی کو بچانے اور موت سے محفوظ رہنے کے لئے ہرکوئی ممکنہ تدبیریں کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔دواخانے مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں،دواخانہ جانا زندگی کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوگیا ہے۔
چہرے پر ماسک کا استعمال ،ہاتھو ں کو بارباردھونے کی ترغیب،سماجی فاصلے کے ساتھ رہنے کی تلقین ،اور غیر ضروری گھومنے پھرنے سے اجتناب کی باتیں،شادی بیاہ میں مختصرلوگوں کی شرکت ،تجہیزوتکفین میں بھی مجمع کو جمع ہونے پر پابندی،اسکولس ،کالجس اورتعلیمی ادارے بند ،مذہبی سرگرمیوں اور اجتماعات پر بھی روک اور دیگر بہت ساری چیزیں اس لئے کروائی جارہی ہیں تاکہ یہ وائرس پھیلنے نہ پائے اور لوگ محفوظ رہ سکیں ،ان کی زندگیاں محفوظ رہ سکیں۔ایک معمولی وائرس نے پوری دنیا میں ہنگامہ مچارکھا ہے اور لوگ اپنی تمام تر قوت وطاقت اور سائنس وٹکنالوجی کے بے بس پڑے ہوئے ہیں۔
کوروناوائرس نے انسانوں کو زندگی کی حقیقت بتائی اور اس کی قدروقیمت کا احساس دلایا،زندگی اللہ تعالی کی دی ہوئی ایک عظیم نعمت ہے،وہی اس کا مالک ہے،اسی نے انسانوں کو پیداکیا،جہانوں کو آبادکیااور ہر چیزپر اسی کا تصرف وتسلط ہے۔وہ اس طرح کی چیزوں کے ذریعہ انسانی زندگی کی عظمت ومنزلت کو نمایاں کرتا ہے اور پیداکرنے والے رب اور خالق کو پہنچاننے کی دعوت دیتا ہے۔کم ازکم ان حالات سے گزرنے کے بعد ،مسائل اورمشکلات سامناکرنے کے بعد انسان کو اب تو اپنی آنکھیں کھولنی چاہیے ،غفلت میں پڑے دل کو بیدارکرنا چاہیے اور اس زندگی کی قدرکرتے ہوئے اور صحیح استعمال کرنے کا پختہ عزم واراہ کرلینا چاہیے۔یہ وبائیں اور آفات مشکلات جھنجھوڑنے اور دعوت ِ فکر وعمل دینے کے لئے ہی آتے ہیں اور ان کے ذریعہ رشتہ ٔ عبدیت کو مضبوط کرنے اور قائم کرنے کا پیغام دیاجاتا ہے۔کتنے علماء کے جنازے اس دوران اٹھے،کتنے لوگوں کی موت کی خبر روزانہ اخباروں میں پڑھنے کو مل رہی ہے،اور کس طرح کے خوف ناک مناظردیکھنے کو مل رہے ہیں ،ان سب کے بعد تو اب سنبھل جانالازم اور ضروری ہے۔
انسان دنیا میں چند دن کے لئے آیا ہے ،یہاں اس کا ٹھکانہ عارضی ہے ،انسانی زندگی خود اس کی بے ثباتی اور ناپائیداری کو بتاتی ہے ،دنیا میں پید اہونے والا ہر بچہ اس بات کا ثبوت ہے اسے کل مرنا ہے ۔موت سے کسی کو رست گاری نہیں ہے ۔اللہ تعالی نے اس عارضی دنیا میں انسان کو نیکیاں کمانے اور اجر و ثواب کو جمع کرنے کے لئے بھیجا ہے ، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اس دنیا سے وہی لوگ کامیاب ہوکر جاتے ہیں جو زندگی کی قدر کرنے والے ہوتے ہیں ،مقصدِ تخلیق کوپہنچاننے والے ہوں گے ، جنہیں حیات ِ مستعار کے ایک ایک لمحہ کا احسا س ہوگا اور کل پروردگار ِ عالم کے سامنے حاضری کی فکر لاحق ہوگی۔قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اس حقیقت کو مختلف انداز میں اجاگر کیا ہے اور نبی کریم ﷺ نے احادیث مبارکہ میں اس کی اہمیت کو خوب بیان فرمایا ہے ۔تاکہ انسان کسی لمحہ غافل ہوکر جینے والا نہ بنے اور لاپرواہی کا شکار ہو کر مقصد ِ اصلی کو فراموش نہ کربیٹھے۔
انسان کی زندگی کے مختلف مراحل کو اللہ تعالی نے بیان فرمایا:ارشاد ہے: اعلموا انما الحیوٰ ۃ الدنیا لعب و لھو وزینۃ وتفاخر بینکم وتکاثر فی الاموال و الاولاد کمثل غیث اعجب الکفار نباتہ ثم یھیج فترہ مصفرا ثم یکون حطاما وفی الاخرۃ عذاب شدید ومغفرۃ من اللہ و رضوان وماالحیوۃ الدنیا الا متاع الغرور۔( الحدید :۲۰)خوب سمجھ لو کہ اس دنیا والی زندگی کی حقیقت بس یہ ہے کہ وہ نام ہے کھیل کود کا،ظاہری سجاوٹ کا ،تمہارے ایک دوسرے پر فخر جتانے کا،اور مال اور اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرنے کا ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش جس سے اگنے والی چیزیں کسانوں کو بہت اچھی لگتی ہیں ، پھر وہ اپنا زور دکھاتی ہے ، پھر تم اُس کو دیکھتے ہو کہ زد پڑگئی ہے ،پھر چورا چورا ہوجاتی ہے ۔اور آخرت میں ( ایک تو)سخت عذاب ہے ، اور( دوسرے ) اللہ کی طرف سے بخشش ہے ، اور خوشنودی ، اور دنیا کی زندگی دھوکے کے سامان کے سوا کچھ نہیں ہے ۔
اللہ تعالی نے انسانی زندگی کے مختلف مراحل کو ذکر فرمایا کہ انسان کن کن مرحلوں سے گذرکر انتہا کو پہنچتا ہے ، آخر انجام کے اعتبار سے اس کو اس دنیا سے کوچ کرنا ہے اور فانی جہاں کو چھوڑ کر ابد الآباد دنیا کی طرف جانا ہے ۔وہ دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لئے نہیں آیا کہ یہاں کہ رنگینوں میں مست ہوجائے اور آخرت کو فراموش کردے ،یہاں کی عارضی چمک دمک اس کو اپنی حقیقی منزل سے غافل کرنے والی نہ بنے ،اور وہ فنا ہونے والی زندگی میں مصروف ہوکر لافانی زندگی کو بھول نہ جائے ۔انسانی کی زندگی بچپن سے شروع ہوکر بڑھاپے پر ختم ہوجاتی ہے اس درمیان انسان کن چیزوں میں گم اور کھویا ہوا رہتا ہے اس کو اللہ تعالی نے مذکورہ آیت میں بیان فرمایااورا س کے لئے کسان اور کاشتکار کی مثال بھی بیان کی ہے جس طرح کھتی اور سبزی ابتدائی مرحلے میں بڑی خوشنمانظرآتی ہے لیکن رفتہ رفتہ وہ بھی زرد پڑجاتی ہے اسی طرح انسانی زندگی بھی شروع میں بڑی حسین و طاقت ور دکھائی دیتی ہے لیکن آخر کار بڑھاپا طاقت وقوت ، شوکت وشباب اور بہاروں کو ختم کردیتا ہے یہاں تک انسان مرکر مٹی ہوجاتا ہے ۔اور آخر میں منزل مقصود کی طرف متوجہ کیا کہ اصل دوڑ دھوپ اور محنت و کوشش آخرت کے لئے ہونی چاہیے ۔ایک جگہ دوزخ میں ڈالے جانے کے بعد انسان کی بے قراری اور وہاں سے راہ ِ فراری کے تقاضے کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: وھم یصطرخون فیھا ربنا اخرجنا نعمل صالحا غیر الذی کنا نعمل اولم نعمرکم مایتذکر فیہ من تذکر وجاء کم النذیر فذو قوا فما للظلمین من نصیر۔( الفاطر:۳۷)اور وہ دوزخ میں چیخ و پکار کریں گے کہ : اے ہمارے پروردگار ! ہمیں باہر نکال دے تاکہ ہم جو کام پہلے کیاکرتے تھے ،انہیں چھوڑ کر نیک عمل کریں ۔( ان سے جواب میں کہا جائے گا کہ) بھلا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ جس کسی کو اس میں سوچنا سمجھنا ہوتا وہ سمجھ لیتا؟اور تمہارے پاس خبردار کرنے والا بھی آیا تھا۔انسا ن کو اوسطا اتنی عمر دی جاتی ہے ،وہ اتنی طویل ہوتی ہے ،اور اس میں انسان اتنے مختلف مراحل سے گزرتا ہے کہ اگر وہ واقعی حق تک پہنچنا چاہے تو پہنچ سکتاہے۔( توضیح القرآن :۳/۱۳۴۴)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:لاتزال قدما ابن اٰدم یوم القیامۃ عند ربہ حتی یسال عن خمس:عن عمرہ فیما افناہ، وعن شبا بہ فیما ابلاہ ، وعن مالہ من این اکتسبہ ، وفیما انفقہ ، وماذا عمل فیما علم ۔(ترمذی:حدیث نمبر؛۲۳۵۳)قیامت کے دن اللہ تعالی کے دربار میں بنی آدم کے قدم اس وقت تک اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتے جب تک کہ پانچ چیزوں کے بارے میں سوال نہ کیا جائے گا : (۱) اس کی عمر کے متعلق کہ اپنی عمر کو کہاں فنا کیا ؟(۲)اس کی جوانی کے بارے میں کہ اس کو کس چیز میں گنوایا ؟(۳)اس کے مال کے متعلق کہ کہاں سے کمایا؟(۴)مال کہاں خرچ کیا ( ۵)اور علم کے بارے میں کہ جو علم اس کو حاصل تھا اس پر کہاں تک عمل کیا؟
ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اغتنم خمسا قبل خمس : شبابک قبل ھرمک ، وصحتک قبل مرضک،وغناک قبل فقرک ، وفراغک قبل شغلک،وحیاتک موتک۔( المستدرک:حدیث نمبر؛۷۹۱۴)کہ پانچ چیزوں کوپانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو۔(۱)اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے ۔ (۲)اپنی صحت کو بیماری سے پہلے۔(۳)اپنی مالداری کو فقر سے پہلے ،(۴)اپنے خالی اوقات کو مشغولیت سے پہلے ،(۵)اور اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔ایک حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نعمتان مغبون فیھما کثیر من الناس : الصحۃ ، والفراغ۔( بخاری : حدیث نمبر؛۵۹۶۰)کہ دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں بہت سے لوگ دھوکے کا شکار ہیں ایک صحت اور دوسری فراغت۔
حضرت شیخ شفیق بلخی ؒ سے منقول ہے کہ لوگ تین باتیں کرتے ہیں لیکن ان کے افعال ان تینوں کے برعکس ہوتے ہیں۔(۱) وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالی کے بندے ہیں لیکن کام آزاد کی حیثیت سے کرتے ہیں ،جیسے کہ آزاد لوگ کرتے ہیں ۔یہ فعل ان کے کلام کے برعکس ہے۔(۲)وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہماری روزی کا کفیل اللہ تعالی ہی ہے ،لیکن ان کے دل ہیں کہ دنیا نہ ہونے کی حالت میں ان کو اطمینان نہیں ہوتا ۔(۳)وہ یہ بھی کہتا ہے موت آنا اٹل ہے ،لیکن وہ عمل یوںکرتے ہیں جیسے کہ ان کی موت کو کبھی آنا نہیں یہ بھی ان کے قول کے خلاف ہے۔(مکاشفۃ القلوب:۶۰)
حضرت حسن بصری ؒ ایک مرتبہ ایک جنازے میں شریک ہوئے ،تو آپ نے فرمایا:اللہ تعالی رحم فرمائے ،اس شخص پر جو آج جیسے دن (موت کے دن ) کے لئے تیاری کرے۔آج توتم لوگ وہ سب کچھ کرسکتے ہوجو تمہارے یہ بھائی نہیں کرسکتے،جوقبروں میں پہنچ چکے ہیں۔اپنی صحت اور فرصت کو غنیمت سمجھواور نیک عمل کرلو،اس سے پہلے کہ گھبراہٹ اور حساب کتاب کا دن آپہنچے۔‘‘
بہرحال انسانی زندگی کا عرصہ کس کا کتنا باقی ہے کوئی نہیں جانتا ،اس لئے انسان کو چاہیے کہ وہ نیک اعمال کو کرنے میں دیر نہ کرے، جتنا ہوسکے اچھے اعمال کے کرنے میں لگا رہے۔اور زندگی کی قدر کرنے والا بنے،اس کی حقیقت کو پہچانے اور کیوں دنیا میں بھیجاگیا ہے اس کوجان کر اسی کے مطابق جینے والا بنے۔ممتازقلم کار ومصنف مولانا سید احمد ومیض ندوی اپنی تازہ تصنیف میں لکھتے ہیں:کورونااوراس جیسی قدرتی آفتوں کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ یہ وبائیں انسانوں کو ان کی موت کی یاددلاتی ہیں ،انسان اپنے بے پناہ وسائل ،عیش وعشرت اور دنیا کی رنگینیوں میں کھوکر موت سے غافل ہوتا ہے ،سوسوبرس کا سامان کرتا ہے؛لیکن اسے پل کی خبر نہیں ہوتی ۔۔۔وبائیں امیر وغریب اور حاکم ومحکوم میں فرق نہیں کرتیں ،پر شخص وباؤں کی زد میں آجاتا ہے،اس وقت کورونا سے جہاں عام انسانوں کی اموات ہورہی ہیں ،وہیں حکمراں اور فلمی میدان کے افراد اورکھلاڑی بھی اس کی زد میں آرہے ہیں،کورونا ایک ادنی وائرس ہے،اس کا شکار ہوکر انسان کو موت آنے کا امکان صرف تین فیصد ہے،جب کہ اچانک کسی بھی وقت موت آنے کا امکان سو فیصد ہے،جتنا لوگ کورونا سے ڈرتے ہیں اس سے زیادہ کسی بھی وقت موت آنے سے ڈرنا چاہیے ،اور اس کی تیاری میں لگے رہنا چاہیے۔(کورونا وائرس اور وبائی امراض:اسباب اور اسلامی ہدایات :۱۸۵)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×