اسلامیاتمفتی محمد صادق حسین قاسمی

یارب تری رحمت کے طلب گار ہیں ہم

کورونا وائرس کا قہر جاری ہے ،پوری دنیا اس کی لپیٹ میں ہے ،ہمارے ملک کی حالت میں بڑی عجیب چل رہی ہے ،وزیر اعظم نے 21 دن تک کے لئے لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا ،اس طرح 14 اپریل تک پورے بھارت کے شہریوں کو اپنے ہی گھروں کے اندر محبوس رہنا ہے۔تمام تر مصروفیات ٹھپ پڑچکی ہے ،کاروبار ِ جہاں متاثر ہوگیا ہے،صبح وشام لوگ گھروں میں رہتے ہوئے اگر چہ تنگ آرہے ہیں لیکن کورونا وائرس کا علاج ماہرین کی نظر میں یہی ہے کہ لوگ گھروں میں ہی رہیں تاکہ وائرس مزید پھیلنے نہ پائے۔ایک مسلمان کے لئے یہ بہت ہی تکلیف دہ صورت حال ہے کہ وہ مساجد کو تک جانہیں پارہے ہیں،احتیاطی طورپر اجتماع اور اختلاط کو روکنے کے لئے مساجد میں حاضری سے بھی روکا گیا،مسجد میں عمومیت کے بجائے چندافرادکو اذان ونماز پڑھنے تک محدودکیاگیاہے اور باقی لوگوں کوگھروں میں ہی نماز کی ادائیگی کی تلقین کی جارہی ہے اور عملی طور پر لوگ بادل ِ نخواستہ گھروں میں ہی نماز اداکررہے ہیں ،دل حزن وملال میں ہے کہ کس سخت منزل پر آچکے ہیں ،لیکن ظاہری تدبیروںکی پُرزور فہمائش پر مجبور وبے بس ہیں۔مسجدوںمیں حاضری کا پُرنور ودلفریب منظر ہر مسلمان کی نگاہوں میں ہے اور وہ انہیں بے چین کئے ہوئے ہیں،دراصل مسجد کو حاضر ہونے کے بعد دل وجان کو سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے،بلکہ مسجد میں مسلمان کا دل اٹکا ہواہوتا ہے ،یہ وہ مقد س جگہیں ہیںجہاں رب العالمین کی بندگی پورے اہتمام کے ساتھ انجام دی جاتی ہے،ساری دنیا سے ہٹ کٹ کر اور تمام مشاغل اور افراد سے قطع ِ تعلق کر کے ایک بندہ اپنے پروردگار کی بارگاہ ِ پرُ جلال میں سر نیاز خم کرنے اور اپنے رشتۂ عبدیت کو مضبوط کر نے کے لئے دن میں پا نچ مرتبہ حاضری دیتا ہے اور روح و دل کو شاد کر تاہے۔اسی لئے بھی مسجد کی حاضری نہ ہونے کی وجہ سے قلق اورتکلیف ایک مسلمان کے لئے فطری بات ہے۔
سڑکیں سنسان پڑی ہوئی ہیں،آمد ورفت ،چہل پہل ،بھاگ دوڑ ہر چیز پر سناٹا چھاگیا ہے،مزدور بے روزگار ہوگئے ،روزانہ کام کرکے گزربسرکرنے والے پریشان ہیں،سڑکوں پر جینے والے بھوکے ہیں،معیشت بُری طرح متاثر ہورہی ہے،کورونا وائرس نے منسٹر سے لے کر عام آدمی کو تک محدود دائرہ میں قید کررکھا ہے۔جس وقت یہ تحریر لکھی جارہی ہے کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا میں 16,462افراد کی موت ہوچکی اور3لاکھ سے زیادہ لوگ اس سے متاثر ہوچکے۔بھارت میں کوروناکی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد 10تک جاپہونچی اور متاثرین کی تعداد519ہوچکی ہے۔
اپنے علم وسائنس پر نازکرنے والے ،اور ترقی وایجادات کے بلند بانگ دعوے کرنے والے بھی اس معمولی درجہ کے وائرس کے سامنے بے بس ہوگئے اوراس پر قابوپانے سے عاجز ہوگئے۔کیا عجیب خداکی خدائی اور اس کی بادشاہت ہے ؟اس کی قدرت ،اس کے اختیار واقتدار کو بیان کرتے ہوئے فرمایاگیا:قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَائُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَائُ وَتُعِزُّ مَنْ َتشَائُ وَتُذِّلُ مَنْ تَشَائُ بِیَدِکَ الْخَیْر اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَئْیٍ قَدِیْر تُوْلِجُ اللَّیْلَ فِیْ النَّہَارِ وَتُوْلِجُ النَّہَارَ فِیْ اللَّیْلِ وَتُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَائُ بِغَیْرِ حِسَابٍ ۔( اٰ ل عمران :۲۶۔۲۷)کہوکہ ! ’’ اے اللہ !اے اقتدار کے مالک !توجس کو چاہتا ہے اقتدار بخشتا ہے ،اور جس سے چاہتا ہے اقتدار چھین لیتا ہے ،اور جس کو چاہتا ہے عزت بخشتا ہے اور جس کو چاہتا ہے رُسوا کردیتا ہے ،تمام تر بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے ۔یقینا تو ہر چیز پر قادر ہے ۔توہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اوردن کو رات میں داخل کرتا ہے اور توہی بے جان چیز میں سے جاندار کو برآمد کرتا ہے اور جاندار میں سے بے جان چیز کو نکال لاتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بے حساب رزق عطا فرماتا ہے۔
یہ وسیع وعریض اور خوبصورت دنیا کو اللہ تعالی نے ہی بنایااور سجایا ہے،اسی کی مرضی کے مطابق دنیا میں چیزیں وجود میں آتی ہے۔بیماروںکو شفا دینے والا وہی ہے،کمزوروں کو طاقت دینے والا وہی ہے ،مصیبت زدہ لوگوں کو راحت عطاکرنے والا وہی ہے،بے روزگاروں کو کاروبار دینے والا وہی ہے،مسائل ومشکلات میں گرفتار افراد کو آسانی وسہولت دینے والا وہی ہے،فقیر کو بادشاہ اور بادشاہ کو محتاج بنانے والا وہی ہے ،عزت سے ہمکنار کرنے والا اور ذلت وخواری سے دوچارکرنے والا وہی ہے ،اسی کے حکم سے سورج نکلتا ہے،چاند،تاروں میں چمک اسی نے رکھی ہے،دریاوں میںروانی ،ہواؤں میں ٹھنڈک اسی نے عطا کی ہے،بلند وبالاآسمان اسی نے پیدا کیا،زمین کو گل بوٹوں سے اسی نے آراستہ کیا،اونچے ومضبوط پہاڑ اسی نے نصب کئے،لہلہاتے گلشن اسی نے آراستہ کئے ۔ کائنات کا خالق ومالک ،انسانوں کاپالنہار وہی ہے،جوکچھ دنیا میں ہوتا ہے وہ اس سے مخفی نہیں ،کوئی چیز اس کے منشاکے بغیر وجود میں آنہیں سکتی ،اس کی ہر چیز میں انسانوں کے لئے سبق اور پیغام ہے ،وہ خوشیاں دے کر بھی آزماتا ہے،غموں اور تکلیفوں میں مبتلا کرکے بھی امتحان لیتا ہے،زندگی میں اطمینان وسکون عطاکرکے بھی پرکھتا ہے اور الجھنوںا ورمسائل میں گرفتا رکرکے بھی جانچتا ہے۔
قرآن کریم میں فرمایا گیا:وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْ ئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ اَلَّذِیْنَ اِذَا اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْا اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔(البقرۃ:۱۵۵۔۱۵۶)’’اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور(کبھی)خوف سے،اور(کبھی)بھوک سے،اور(کبھی)مال وجان اور پھلوں میں کمی کرکے ۔اورجولوگ(ایسے حالات میں)صبر سے کام لیں ان کو خوشخبری سنادو۔یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ’’ہم سب اللہ ہی کے ہیں ،اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کرجاناہے۔‘‘
یقینا حالات بہت سخت ہیں،اور لوگ خود ودہشت میں مبتلاہیںاور بلاشبہ پوری دنیا ایک آزمائش کے سخت ترین دور سے گزررہی ہے،اس قدر سخت وبال اور آفت کہ پوری دنیا پریشان ہے،ہر ممکن تدبیر واحتیاط کی بھرپور تلقین کی جارہی ہے ،حکومتی سطح پر بھی اور شریعت کی روشنی میں اس کے اہتمام اور التزام پر عوام کو پابند کیا جارہا ہے ۔
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ مشکلات ،حالات اور مسائل کے حل کے لئے پروردگار عالم کی طرف رجوع کرنا چاہیے،وہی مسبب الاسباب ہے،خالق ومالک ہے ،وہ اگر کسی چیز کو دور کرنا چاہے تو اس کے لئے کوئی مشکل نہیں ،حالات کو بدلنا چاہے تو کوئی روک نہیں سکتا ،ظاہری تدبیریں تو انسان کو اسباب کی اس دنیا میں یقینا کرنا ہے لیکن ان اسباب میں حقیقی تاثیر کے لئے ،انسانی کوششوں کو نفع بخش بنانے کے لئے ،علاج ومعالجہ کو مفید ونتیجہ خیز کرنے کے لئے رب العالمین سے دعا کا اہتمام ضروری ہے ۔ان حالات میں ہمیں احتیاطی تدابیر کے ساتھ رجوع الی اللہ اور دعا وانابت کی طرف بھی توجہ دینا چاہیے۔قرآن کریم میں کہا گیا:وَاسْتَعِیْنُوْابِالصَّبْرِوَالصَّلٰوۃِ۔(البقرۃ:۴۶)’’اور صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔‘‘اگر مساجد جاکر نماز ادانہیں کرسکتے تو کیا ہوا ہم اپنے گھروں میں پورے اہتمام کے ساتھ نمازوں کو اداکریں ،اللہ تعالی سے مدد طلب کریں،پوری انسانیت کی بھلائی اور عافیت کے لئے دعائیں کریں۔عافیت مانگنایہ بہت بڑی دعا ہے۔حضرت عباس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا:اللہ کے رسولﷺ!مجھے کوئی ایسی چیز سکھائیے جسے میں اللہ سے مانگتارہوں۔آپﷺ نے فرمایا:اللہ سے عافیت مانگو،پھر کچھ دن رک کر میں رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوااورعرض کیا :مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جسے میں اللہ سے مانگتا رہوں،آپﷺ نے فرمایا:اے عباس!اے رسول اللہ کے چچا!دنیا وآخرت میں عافیت طلب کرو۔(جامع الترمذی:۳۵۱۴)
استغفار کا اہتمام بھی مصائب اور مشکلات کو دور کرنے میں بہت ہی مفید ہے ،بلکہ استغفار رحمت ِ الہی کے حصول کا ذریعہ ہے۔قرآن کریم میں فرمایا گیا: فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْارَبَّکُمْ اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا۔(نوح:۱۰)چنانچہ میں نے کہاکہ :اپنے پروردگار سے مغفرت مانگو،یقین جانو وہ بہت بخشنے والا ہے۔ نبی کریمﷺ نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا:مَنْ اَکْثَرَ من الْاِسْتِغْفَارِ جَعَلَ اللّٰہُ لَہٗ مِنْ کُلِّ ھَمٍّ فَرَجًا،وَمِنْ کُلِّ ضِیْقٍ مَخْرَجًا،وَرَزَقَہُ مِنْ حَیْثُ لَایَحْتَسِبُ۔( مسند احمد :۲۱۵۲)جو آدمی کثرت سے استغفار کرتا ہے ،اللہ تعالی اس کے لئے ہر رنج سے راحت اور ہرتنگی سے نکلنے کی راہ پیداکرتا ہے اور اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ۔
اللہ تعالی اپنے بندوں پر بہت مہربا ن اورنہایت رحم کرنے والا ہے،حالات اور مصائب میں بندہ اگر اللہ تعالی سے پورے حضو ر ِ قلب کے ساتھ مانگے گااور مشکلات سے چھٹکارا طلب کرے تو اس کی رحمت سے ضرور دامن کو بھرے گااور اپنے لئے ہی نہیں دنیا والوں کے لئے بھی رحمت ِ الہی سے فیض یاب کرنے والے بنے گا،وباسے پریشان انسانوں کو قرآن وسنت والی تعلیمات کے ذریعہ چین وسکون فراہم کرسکتے ہیں۔اپنے دل کو مضبوط ،یقین کو پختہ کرسکتے ہیں۔اسباب کو اختیار کرنا توکل اور یقین کے خلاف نہیں ہے ،اسباب وتدابیر کو اختیا رکرتے ہوئے ذہن ودل کومسبب الاسباب کی طرف ہونا اور کرنا ضروری ہے۔ہمارے ملک سمیت پوری دنیا کی عافیت وسلامتی کے لئے دعاکریں ۔اللہ رحم فرمائے اور اس وبااور بیماری سے چھٹکارا نصیب فرمائے۔آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×