اسلامیاتمفتی محمد صادق حسین قاسمی

اسلامی کیلنڈر:تاریخ ،اہمیت اور ضرورت

ماہِ محرام الحرام سے اسلامی کیلنڈر کا آغاز ہوتا ہے،اسلامی سال اپنے آغاز واختتام دونوں موقعوں پر اپنے ماننے والوں کو سبق اور پیغام دیتا ہے ،اس کی ابتداء وانتہا میں غیر معمولی انفرادیت اورجاذبیت ہے ،اورایک عظیم ،ایمان افروز،اورولولہ خیز تاریخ وابستہ ہے۔عام طور پرمسلمانوں اور بالخصوص نوجوانوں کو اس کا علم نہیں رہتا ہے۔عیسوی سال کی شروعا ت پر تو خوب جشن وچراغاں کیا جاتا ہے ،اور بہت دھوم دھام سے سالِ نو کا آغاز کیا جاتا ہے ،لیکن اسلامی کیلنڈ ر کی شروعات کب ہوتی ہے ؟کس طرح اسلامی کیلنڈر کاآغاز ہواان باتوں سے لاعلم وبے خبر ہوتے ہیں۔جب کہ ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ ہم اپنی اسلامی تاریخ سے واقف رہیں اور اسلامی ماہ وسال کانہ صرف علم رکھیں بلکہ ان کو استعمال کرنے کی بھی پوری فکر وکوشش کریں ۔آئیے بہت مختصر جائزہ اسلامی کیلنڈر اور اس کے آغاز کا لیتے ہیں۔
اسلامی کلینڈر کا پس منظر:
جب اسلام کا دامن دنیا میں پھیلنے لگا،اور دوردراز کے علاقوں میں پرچمِ اسلام لہرانے لگا،تو اسی طرح عمال و حکام مختلف شہروں سے خلیفۂ وقت اور امیر المؤمنین سے بہت سے امور میں خط و کتابت بھی کرتے،اور دیگر حال واحوال کی اطلاعات بھی پہونچاتے۔اور جب حضرت عمرؓ کی خلافت کو شروع ہوئے ڈھائی سال کی مدت گذر چکی تو ایک مرتبہ سیدنا عمرؓ کے پاس ایک چک آیا جس پرصر ف شعبان کا مہینہ لکھا ہوا تھا،جب آپ کے سامنے وہ پیش ہو ا تو آپ نے فرمایا کہ شعبان سے مراد کون سا گذرا ہوا،موجودہ یا آنے والا؟اس واقعہ کے بعد آپؓ نے صحابہ کرامؓ کو جمع کیا تاکہ اس مسئلہ کا کچھ حل نکا لا جائے ۔آپ نے صحابہ کے مجمع میں فرمایا کہ ہمیں کس سن سے تاریخ کا آغازکرنا چاہیے ؟اور پھر مشاورت شروع ہو ئی تو مختلف صحابہ نے الگ الگ رائے پیش کی۔کسی کہا کہ اہلِ روم کی تاریخ پر شروع کریں ،کہا کہ یہ تو بہت طویل ہوجائے گی کیوں کہ وہ تو ذوالقرنین سے اپنی تاریخ لکھتے ہیں۔کسی نے اہلِ فارس کی متابعت کے لئے کہا۔بالآخر حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اس دن سے اسلامی سن آغاز کیا جائے جس دن رسول اللہﷺ نے شرک کی سرزمین کو چھوڑایعنی ہجرت سے۔حضرت عمرؓ نے اس رائے کو قبول فرمایا اور سب نے اس پر اتفاق بھی کرلیا،اس طرح سن اسلامی کا آغاز ہجرتِ رسول اللہ ﷺ سے کیا گیا۔(امیر المؤمنین عمر بن الخطاب :۶۱ لابن الجوزی ؒ )اور ماہِ محرم الحرام سے سال کی ابتداء طے پائی کیوں کہ محرم سے ہجرت کی تیاری شروع ہوچکی تھی۔
واقعۂ ہجرت کی عظمت؟
نبی کریم ﷺ کی زندگی میں اوبھی ر بے شمار واقعات ایسے ہیں جن کو اگر چاہتے تو سن اسلامی کے آغاز کے لئے بلا شبہ اختیار کیا جاسکتا تھا،آپ کی ولادت انسانیت کے لئے ایک عظیم مژدہ تھا،آپ کی بعثت یقیناًانسانیت کے لئے بڑی نعمت تھی،فتحِ مکہ لا ریب بنیا د بن سکتی،پہلا معر کۂ حق و باطل غزؤ بدر کوبھی منتخب کیا جاسکتا،اور اس کے علاوہ ان گنت تاریخی واقعات کو بنیاد بنایا جاسکتا تھا لیکن رائے ہجرت کی دی گئی اور سب نے قبول بھی فرمالیا؟؟؟أ
دراصل ہجرت رسول کریمﷺ کی حیاتِ مبارکہ کا وہ عظیم پہلو ہے جس نے تاریخ عالم میں انقلاب برپا کردیا،اور دینِ حق کے کٹ مرنے والے جاں نثار مظلوموں کو سر بلندی اور رفعت کی انتہاء پر پہو نچادیا۔مفکر اسلام حضرت مولانا ابوا لحسن علی ندوی نے لکھا ہے کہ: رسول اللہ ؐکی ہجرت سے پہلی بات یہ ثابت ہوتی ہے کہ دعوت اور عقیدہ کی خاطر ہر عزیز و محبوب اور ہر مانوس و مرغوب شے اور ہر اس چیز کو جس سے محبت کرنے،جس کو ترجیح دینے اور جس سے بہر صورت وابستہ رہنے کا جذبہ انسان کی فطرت سلیم میں داخل ہے،بے دریغ قربان کیا جا سکتاہے،لیکن ان دونوں اول الذکر چیزوں کو ان میں سے کسی بھی چیز کے لئے ترک نہیں کیا جاسکتا۔(نبئ رحمت:۲۱۳)امام الہند مولانا ابوالکلام آزادرقم طراز ہیں کہ:پہلا دور تخم کا تھا،دوسرا اس کے برگ وبار تھے،پہلا دور بنیاد تھا،دوسرا ستون و محراب،پہلانشونماکا عہد تھا، دوسرا ظہور و انفجارکا،پہلا معنی و حقیقت تھا،دوسرا صورت واظہار،پہلا روح تھا، دوسرا جسم ، پہلے نے پیدا کیا، درست کیا،اور مستعد کردیا،دوسرے نے قدم اٹھایا ،آگے برھایا اور فتح و تسخیر کا اعلان کردیا،دوسرے کا ظہورکتنا ہی شاندار ہو ،لیکن بنیادواستعدادکی عظمت پہلے ہی کو حاصل ہے۔(مضامین الہلال بحوالہ:ہجرت مصطفی: ۲۰۰)
صحابہ کرامؓ سے واقعۂ ہجرت کے بارے میں منقول ہے:’’الھجرۃ فرقت بین الحق والباطل۔‘‘کہ ہجرت نے حق وباطل کے درمیان فرق کردیا۔ایک روایت میں حضرت عمرؓ کے یہ الفاظ نقل کئے گئے ہیں:بل نؤرخ من ھاجر رسول اللہ ﷺ فان مھاجرہ فرق الحق والباطل ۔کہ ہم ہجرت سے تاریخ مانیں گے کیوں کہ ہجرت کا واقعہ حق وباطل میں فرق ہے۔( ہجری تاریخ:۹)
اسلامی کلینڈر کی اہمیت:
اسلامی کلینڈر کو یادرکھنا اور اسلامی تاریخ کو استعمال کرنا یہ مسلمانوں کی ایک اہم ذمہ داری ہے،اسلامی تاریخ سے تعلیماتِ دین وابستہ ہیں اور احکام اسلام پر عمل آوری اسلامی کلینڈر پر کو جاننے اور اختیارکرنے میں ہی ہوگی۔قمری تاریخ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے مفتی محمد شفیع صاحب ؒ لکھتے ہیں:’’تاریخ وسال کا حساب چاند وسورج دونوں سے جائز ہے،لیکن اللہ تعالی نے احکام کے لئے چاند کے حساب کو پسند فرمایا،اور احکام شرعیہ اس پر دائر فرمائے،اس لئے قمری حساب کا محفوظ رکھنا فرضِ کفایہ ہے،اگر ساری امت قمری حساب ترک کرکے اس کو بھلادے توسب گنہگار ہوں گے اور اگر وہ محفوظ رہے تو دوسرے حساب کا استعمال بھی جائز ہے۔(معارف القرآن:۴/۳۷۳)ایک اورجگہ تحریر فرماتے ہیں:جو عبادتِ اسلامی کا ذریعہ ہے اور ایک طرح کا اسلامی شعار ہے ،اگر چہ شمسی حساب کو بھی ناجائز قرارنہیں دیا،شرط یہ ہے کہ اس کا رواج اتنا عام نہ ہوجائے کہ لوگ قمری حساب کو بالکل بھلادیں ،کیوں کہ ایساکرنے میں عبادات روزہ وحج وغیرہ میں خلل لازم آتا ہے، جیسااس زمانے میں عام دفتروں اورکاروباری اداروں بلکہ نجی اورشخصی مکاتبات میں بھی شمسی حساب کا ایسا رواج ہوگیا ہے کہ بہت سے لوگوں کو اسلامی مہینے بھی پورے یاد نہیں رہے،یہ شرعی حیثیت کے علاوہ غیرتِ قومی وملی کا دیوالیہ پن ہے ۔اگر دفتری معاملات میں جن کا تعلق غیر مسلموں سے بھی ہے ان میں صرف شمسی حساب رکھیں ،باقی نجی خط وکتابت اور روزمرہ کی ضروریات میں قمری اسلامی تاریخ کا استعمال کریں تو اس میں فرضِ کفایہ کی ادائیگی کا ثواب بھی ہوگااور اپنا قومی شعار بھی محفوظ رہے گا۔‘‘
سبق اورپیغام:
بہر حال اسلامی کلینڈرکی شروعات ،اور مسلمانوں کو اپنی تاریخ سے وابستہ رکھنے میں حضرت عمرؓ کا یہ بھی ایک کارنامہ ہے کہ آپ کی فراست نے اس کو حل کردیا،اور اللہ تعالی نے آپ کو جہاں اور سارے اہم امور کو طے کرنے کا خاص ملکہ عطا کیا تھا،اسی ذوق اورمزاج سے ایک ایسی تاریخ سے جوڑ دیا جو ہر قدم پر ایمان والے کو دعوتِ فکر و عمل دیتی ہے،قربانیوں کی بنیاد پر تعمیر کی گئی اسلام کی اس حسین عمارت کے بقاء و تحفظ،اور ایثار فداکاری کے جذبۂ فراواں کے ساتھ سینچے گئے اس گلشنِ اسلام کی حفاظت کا انمول سبق دیتی ہے۔اور اس تاریخ کا ہر ماہ بے شمار عبرتوں کے پیغام کے ساتھ جلوہ فگن ہوتاہے،خدا جانے کن کن فکروں اور امیدوں کے ساتھ نبی ﷺ کے ان جیالوں نے آنی والی نسلوں کو اسلامی تاریخ مہیا کرنے کے لئے ہجرت کے واقعہ کو خاص کر اپنایا؟بلاشبہ اسلامی ماہ وسال سے وابستگی کی بنیاد پر یہ امت اپنے اسلاف واکابر کی قربانیوں سے واقف رہے گی،اور اعمال افعال سے منسلک رہے گی،ورنہ تاریخ کے روشن باب،اور دلآویز واقعات کی حسین روداد دوسروں کی تہذیب و ثقافت میں دب کر رہ جائے گی۔اب جب کہ اسلامی سال کا آغاز ہوگیا، اس لئے ضرورت ہے کہ مسلمان اپنے اسلامی سال کو بھی اپنی تاریخوں میں استعمال کریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×