اسلامیاتمفتی محمد صادق حسین قاسمی

ماہِ رمضان المبارک کی آمد: استقبال اور نظام العمل

ماہ ِ رمضان المبارک ایک عظیم الشان مہینہ ہے ،جو انسانوں کے اجر وثواب کو بڑھانے ،گناہوں کو معاف کرنے ، نیکیوں کی راہوں کو ہموار کرنے ،بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھانے،نافرمانیوں کے دلدل میں پھنسے ہوؤں کو نکالنے ،جذبہ اطاعت و عبادت کو پروان چڑھانے ،ذکر ومناجات کی لذتوں کو پیدا کرنے ،تلاوت قرآن کے نوارانی ماحول کو عام کرنے ،ایثار وہمدردی کے جذبوں کو بیدارکرنے ،رضائے الہی کے شوق وفکروں کو بے تاب کرنے ،راتوں کو خدا کے سامنے کھڑا کرنے، دن میں حکم ِالہی کی بجا آوری میں خواہشات کو قربان کرنے کی مشق کرانے،دعاؤں اور نمازوں کا اہتمام کروانے ،بھوکوں کو کھلانے ،اور فاقہ مستوں کے فاقہ کو دور کروانے ،نیکوں پر احسان کرنے اور برُوں کو خداکے قریب کرنے ،انسانوں کو نارِ جہنم سے نجات دلانے ، روزہ داروں کو جنت کی اعلی نعمتوں سے سرفراز کرنے ،داد ودہش اور الطاف وانعام کی بارشوں کو برسانے کے لئے ماہ رمضان المبارک مہمان بن کر آتا ہے اور رحمت الہی سے سب کے لئے بہت کچھ لٹاکر جاتا ہے !!!تو ہمیں اس کا استقبال کرنے اور اس کو بہترین انداز میں گزارنے کی کیسی فکریں کرنی چاہیے؟؟
نبی کریم ﷺ بھی رمضان المبارک کی آمد سے قبل اس کے انتظار میں رہا کرتے تھے اور لوگوں کو اس کی اہمیت و عظمت سے آگاہ فرمایا کرتے تھے ،رمضان المبارک کو کیسے گزاراجائے ،کیسی اس کی قدر دانی کی جائے اس کی ہدایات اور تعلیمات دیا کرتے تھے ۔اور آپ ﷺ کو ماہ ِ رمضان کی آمدکی فکر رجب المرجب کے مہینہ سے شروع ہوجاتی تھی اور جوں ہی رجب کے مہینہ کا آغاز ہوتا تو آپ ﷺ کی دعاؤں میں ان دعاؤں کا اضافہ ہوجاتاکہ :اللہم بارک لنا فی رجب و شعبان وبلغنا رمضان۔(مسند احمد:۲۲۵۷)یعنی اے اللہ !ہمارے لئے رجب وشعبان میں برکت عطا فرمایااور رمضان کے مہینہ تک ہمیں پہنچا۔)آپ ﷺ یہ دعا بھی فرماتے تھے :اللہم سلمنی لرمضان وسلم رمضان لی و سلمہ لی متقبلا۔(الدعاء للطبرانی،حدیث نمبر:۸۳۹)یعنی اے اللہ ! مجھے رمضان کے لئے اور رمضان کو میرے لئے صحیح سالم رکھیئے اور رمضان کو میرے لئے سلامتی کے ساتھ قبولیت کا ذریعہ بنادیجئے ۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے عمل سے بھی اس کی تیاریوں کا ثبوت پیش کیا ۔ رمضان المبارک کو بھر پور اندازمیں گزارنے کے لئے آپ ﷺ شعبان کے آخری عشرہ سے اہتمام شروع فرمادیا کرتے تھے اور روزہ رکھنے سے منع فرماتے کہ کہیں رمضان المبارک میں ناتوانانی اور کمزوری کے اثرات ظاہر نہ ہوجائیں۔آپ ﷺ نے رمضان المبارک کے استقبال کے سلسلہ میں مختلف موقعوں پر صحابہ کرام کو گراں قدر نصیحتیں فرمائیں اور اس کی اہمیت سے روشناس فرمایا ۔کیسے اس کو گزارا جائے اس کی جانب رہبری فرمائی۔چناں چہ ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایاکہ :تمہارے پاس رمضان کا مہینہ آرہا ہے پس تم اس کے لئے تیار ی کرو اور اپنی نیتوں کو صحیح کرو اور اس کا احترام اور تعظیم کرو ،اس لئے کہ اس مہینہ کا احترام اللہ تعالی کے نزدیک بہت عظیم احترام والی چیزوں میں سے ہے ،لہذا اس کی بے حرمتی مت کرو ، اس لئے کہ اس مہینہ میں نیکیوں اور برائیوں دونوں ( جزاء وسزا) کی میں اضافہ کردیا جاتا ہے ۔( کنز العمال : ) ایک موقع پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ رمضان کیا چیز ہے تو میری امت یہ تمنا کرے گی کہ سارا سال رمضان ہی ہوجائے۔( فضائل الأوقات للبیہقی:۴۱) اس کے علاوہ بے شمار خوبیاں رمضان کی بیان کی گئی اور آپﷺ نے اس کا اہتمام کرنے کی تعلیم دی ۔
عام طور پر ہمارے پاس ماحول ہے کہ رمضان کی آمد سے پہلے بہت فکریں ہوتی ہیں ، اس کا بھر پور استقبال کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے ،مختلف جلسے اور اجتماعات استقبال رمضان کے عنوان سے منعقد ہوتے ہیں ،بیانات اور خطابات ہوتے ہیں ۔اور پھر جب ماہ مبارک کی آمد ہوجاتی ہے تو ابتدائی چند دنوں تک بڑا جوش و خروش بھی پایا جاتا ہے ،مسجدیں تنگ دامنی کا شکوہ کرتی ہیں ،تلاوت قرآن کا نورانی ماحول اور عبادتوں کا دلنواز منظر آنکھوں کو نور اور دل کو سرور بخشتا ہے ،دینی شوق و جذبہ قابل تعریف نظر آتا ہے لیکن جوں ہی چند دن اور بڑی مشکل سے پہلا عشرہ گزرنے نہیں پاتا ہے جذبات سرد اور فکر و شوق ماند پڑجاتے ہیں ،اور ایک بڑی تعداد معمول کے مطابق روزہ کرلینے ہی کو کافی سمجھتے ہوئے باقی بابرکت دنوں کو گزاردیتی ہے ۔۔مسجدیں خالی ہونے لگ جاتی ہیں ،مصلیوں کی تعداد میں کمی کا آغاز ہوجاتا ہے ،اورلوگ سارے بازوں کا رخ کرنے لگتے ہیں ،دکانوں کی چکریں لگاتے پھرتے ہیں ،خریداری کی گہماگہمی شروع ہوجاتی ہے ۔اتنے عظیم الشان ماہِ مہمان کے ساتھ ہمارا یہ ناروا سلوک ہے جو آئے دن بڑھتا ہی جارہا ہے ۔لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ استقبال رمضان یہ ہے کہ چند جلسوں میں شرکت کرلی جائے اور کچھ علماء کے مواعظ کو سن لیا جائے بس یہی کافی ہے !!جب کہ حقیقت یہ ہے کہ رمضان المبارک کا استقبال صرف یہی نہیں ہے بلکہ اس کا حقیقی استقبال اور اس کی آمد کی صحیح فکریہ ہے کہ پورے رمضان المبارک کو ایک مکمل نظام العمل کے ساتھ گزارنے کا لائحہ عمل بنایا جائے ،ایک ایک لمحہ کو جائع سے بچانے کا نقشہ تیار کیا جائے ،صبح و شام کے معمولات کو ترتیب دیاجائے ،احکام و طاعات کی بجا آوری کے لئے کمر کس لی جائے ،غیر ضروری اور لایعنی مشاغل سے اجتناب کرنے کی فکریں کی جائے۔شیخ الاسلام حضر ت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ فرماتے ہیں کہ :میرے والد ماجد حضرت مفتی محمد شفیع ؒ صاحب فرمایاکرتے تھے کہ رمضان کا استقبال اور اس کی تیاری یہ ہے کہ انسان پہلے یہ سوچے کہ میں اپنے روز مرہ کے کاموں میں سے مثلا تجارت، ملازمت ، زراعت وغیرہ کے کاموں میں سے کن کن کاموں کو مؤخر کرسکتا ہوں ، ان کو مؤخر کردے ،اور پھر ان کاموں سے جو وقت فارغ ہو اس کو عبادت میں صرف کرے۔( اصلاحی خطبات:۱۰/۵۷)مفکر اسلام حضرت علی میاں ندوی ؒ رمضان المبارک کے اہتمام سے متعلق فرماتے ہیں کہ:اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو توفیق دے کہ اس رمضان کی قدر کریں اس کے بعد آپ کو بہت سے رمضان نصیب فرمائے ،لیکن آپ کے ذہن میں یہ ہونا چاہیے کہ اس رمضان میں کوئی کوتاہی نہ ہو ، اس خیال سے کہ رمضان تو ابھی بہت کرنے ہیں ،نہیں ! بلکہ اسی رمضان میں ایسا کریں کہ جیسے معلوم نہیں اس کے بعد موقع ملے یانہ ملے ،کیاہو ! صرف عمر ہی کا مسئلہ نہیں ،صحت کا مسئلہ بھی ہوتا ہے اور بعض حوادث کا مسئلہ بھی ہوتا ہے ، ان سب سے اللہ آپ کو بچائے اور آپ کو بہت سے رمضان نصیب فرمائے مگر اس رمضان کی قدر کریں اور اس میں جو زیادہ سے زیادہ ہوسکے وہ کرلیں۔( رمضان اور اس کے تقاضے :۵۶)لہذا ماہ رمضان المبارک کا صحیح استقبال کرنا ہمارے لئے ضرور ی ہے اور حقیقی استقبال یہی ہے کہ اس کے لئے ایک لائحہ عمل بنائیں اور اسلامی ہدایات اور نبوی تعلیمات کے مطابق گزارنے کی فکریں ۔
رمضان المبارک کو اچھے انداز میں گزارنے کے لئے علمائے کرام نے جن باتوں کی طرف توجہ دلائی اور جن کاموں کو کرنے کی ترغیب دی ہے ان کو مختصرا ًیہاں نقل کیا جاتا ہے جو بہت ہی جامع ہدایتیں ہیں۔
٭رمضان المبارک کے شروع ہونے سے پہلے ہی اس کے استقبال اور طلب کے لئے دل سے آماد ہ ہوجائیں۔٭رمضان کو صحیح گزارنے کے لئے اللہ تعالی سے دعا مانگے اور اس کے نعمت کے حصول پر شکر بجا لائیں۔٭اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار کریں۔٭دنیوی مشاغل اور مصروفیات کو کم کرنے کی کوشش کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ نیکیوں سے موسم سے فائدہ اٹھاسکیں۔٭رمضان المبارک اور خاص کر روزے میں ہر قسم کے گناہوں سے آنکھ، کان ،ناک ، دل ، دماغ اور دوسرے اعضاء کو بچائیں۔٭عورتوں کو وقت کی پابندی اور مردوں کا باجماعت نماز کا اہتمام کرناچاہیے۔٭فرض ، سنت نمازوں کے علاوہ دیگر نوافل اشراق ، چاشت اوابین وغیرہ کا اہتمام کریں۔٭نیک لوگوں کی صحبت اختیار کریں۔٭جس قدر ہوسکے قرآن کریم کی تلاوت کریں۔٭اللہ تعالی سے ہر خیر کو مانگتے رہیں اور خاص کر جنت کی طلب اور جہنم سے پناہ مانگتے رہیں۔٭نبی کریم ﷺ کی سنتوں پر عمل پیرا رہیں۔٭چلتے پھرتے لاالہ الا اللہ اور استغفراللہ کا ورد رکھیں۔٭حسب استطاعت صدقہ و خیرات اہتما م کریں۔٭ممکن ہو تو آخری عشرہ کا اعتکاف بیٹھیں۔٭ دینی کتب کا مطالعہ کریں اور سیرت رسول ﷺ کو پڑھیں۔٭ہر ممکن نیکیوں کے حصول میں سرگراں رہیں اور ہر برائی اور گناہ سے بچیں۔٭ اوقات کو فضول ضائع ہونے نہ دیں۔
بنی کریم ﷺ نے فرمایا کہ:اس مہینہ میں چار چیزوں کی کثرت رکھا کرو جن میں دو چیزیں ایسی ہیں جس کے ذریعہ تم اپنے رب کو راضی کرسکتے ہو ،اور دو چیزیں ایسی ہیں جن سے تم کبھی بے نیاز نہیں ہوسکتے وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے ،اور دوسری دوچیزیں یہ ہیں کہ جنت کا سوال کرو اور دوزخ سے پناہ مانگو۔۔۔( صحیح ابن خزیمہ :۱۷۸۵)حضرت ڈاکٹر عبد الحئی عارفی ؒ فرماتے ہیںکہ:رمضا ن شریف میں دو عبادتیں سب سے بڑی ہیں :ایک تو کثرت سے نمازیں پڑھنا ( اس میں تراویح کی نماز شامل ہے اور اس کے علاوہ تہجد کی چند رکعات ہوجاتی ہیں، پھر اشراق چاشت اور اوبین کا خاص طور اہتمام ہوناچاہیے،) دوسرے تلاوت کلام پاک کی کثرت جتنی بھی توفیق ہو۔
بہر حال ماہ ِ رمضان المبارک سے قبل ہی اس کی آمد کی بھر پوری تیاریاں کی جانی چاہیے اور اس کو گزارنے کے لئے ایک مستقل نظام العمل بنانا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ رحمت الہی سے فیض یاب ہواجاسکے ،اور انعامات الہی سے دامن کو بھر سکیں ،ورنہ اگر کوتاہی کی گئی اور شوق جذبہ کے ساتھ اس کو نہ گزارا گیا تو محرومی ہی ہاتھ آئے گی اور خوش قسمت بندگان خدا بہرور ہوں گے ۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×