اسلامیات

ماہ رمضان… فیوض و برکات

      اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کے لیے رمضان المبارک ایک بہترین مہینہ ہے، اس میں اللہ تعالی کی رحمتوں اور برکتوں کا خصوصی نزول ہوتا ہے، بندوں کو اپنا محبوب بنانے اور ان کی مغفرت کرنے کے لیے اس مہینے میں اللہ تعالی نے نہایت ہی مبارک عمال رکھے ہیں، اور ہر عمل کا ثواب بھی اپنی اصل سے دوگنا بڑھا دیا گیا ہے، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص رمضان کے مبارک مہینے میں کسی نیکی کے ساتھ اللہ کا قرب حاصل کرے گا اس کا حال ایسا ہے جیسا کہ رمضان کے علاوہ کسی اور مہینے میں کوئی فرض ادا کیا ہو، اور جو شخص اس ماہ مبارک میں کوئی فرض عبادت ادا کرے گا اس کا حال ایسا ہے جیسا کہ غیر رمضان میں ستر فرض ادا کیا ہو (شعب الایمان ٣٠٥/٣)اس مبارک مہینے کی قدرومنزلت آج امت مسلمہ کے نزدیک بڑی بلندپایہ حیثیت رکھتی ہے، اور بعض وہ لوگ بھی ہیں جو ہلکے سےلچر عذر کی وجہ سے روزہ چھوڑ دیتے ہیں، حالانکہ حدیث میں روزے کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ لَخَلُوْفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْیَبُ عِنْدَاللهِ مِنْ رِیْحِ الْمِسْكِ یَتْرُکُ طَعَامَهٗ وَشَرَابَهٗ وَشَهْوَتَهٗ مِنْ أجَلِیْ ،الصِیَامُ لِیْ وأنا أجْزِیْ بِه (بخاری شریف ٢٥٤/١) روزے دار کے منہ سے بھوک کی وجہ سے جو بو آتی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے بھی بڑھ کر ہے، کیوں کہ روزے دار صرف اللہ کی رضا کی خاطر کھانے پینے اور اپنی خواہش پوری کرنے سے اجتناب کرتا رہا، یہ سارے روزے اس نے میرے لئے رکھے ہیں اور میں خود اس کا بدلہ عطا کروں گا،
غور کرنے کا مقام ہے کہ آج لوگ معمولی بہانے سے روزہ جیسی عظیم الشان عبادت کو ترک کردیتے ہیں بطور خاص حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ روزہ اور قرآن دونوں ایک ساتھ قرآن پڑھنے والے روزے دار کے لئے اللہ کے دربار میں شفاعت کریں گے اور اللہ تعالی سے روزہ اس طرح فریاد کرے گا کہ میں نے اس کو کھانے پینے اور شہوت پوری کرنے سے دن کے وقت میں روکے رکھا لہذا میری شفاعت روزے دار کے حق میں قبول فرمائیے، اور قرآن کریم کہے گا کہ میں نے راتوں کو اس کو سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا میری شفاعت قرآن خواں کے حق میں قبول فرمائیے چنانچہ اللہ تعالی روزہ اور قرآن دونوں کی شفاعت اپنے بندے کے حق میں قبول فرمائیں گے( مسند احمد ١٧٤/٢. رقم:٦٦٢٦) اللہ تعالی کی عظمت شان کبریائی کا کسی کو کیا اندازہ کہ اپنے بندوں کی مغفرت اور کفارہ ذنوب کے متلاشی رمضان کا مقدس مہینہ عطا کیا، اور یہ بابرکت مہینہ امت محمدیہ کی خصوصیات میں سے ہے، کہ پچھلی امتوں پر روزے فرض تھے مگر کہیں ایسی مبارک گھڑیوں کا تذکرہ نہیں ملتا،
تراویح کی فضیلت
اس مقدس مہینہ میں تراویح کے ذریعے عبادت کا ذائقہ کچھ اور ہی محسوس ہوتا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :فَمَنْ صَامَه وَقَامَه إیْمَاناً وَإحْتِسَابًا خَرَجَ مِنْ ذُنُوْبِه کَیَوْمٍ وَلَدَتْه اُمُّه (ابن ماجہ ص ٩٤ رقم:١٣٢٨) جو شخص ایمان کی حالت میں اللہ سے ثواب کی امید رکھتے ہوئے اس مہینے کا روزہ رکھے گا اور اس کی راتوں میں (تراویح کی نماز کے لئے) قیام اللیل کرے گا وہ اپنے گناہوں سے اس طرح نکل کر پاک ہوجائے گا جس طرح وہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ھوتے وقت گناہوں سے پاک تھا، بالخصوص تراویح حفاظ کے لیے اللہ کی جانب سے بہت بڑا انعام اور احسان ہے اگر تراویح کی نماز نہ ہوتی تو یہ کہنے میں کوئی بعید نہیں کہ چند گنے چنے حفاظ باقی رہ جاتے جن کو قرآن کریم یاد ہوتا، بس اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ نے تراویح کو ایک الگ سنت قرار  دیا ہے اور اس میں مکمل قرآن مجید پڑھنے کو الگ سنت قرار دیا ہے، توجب دونوں کا وجود اس مبارک مہینے میں ہوتا ہے تو پھر حدیث کا جملہ "خرج من ذنوبہ کیوم ولدتہ امہ” کا مصداق ضرور ہوں گے،
اعتکاف کی فضیلت
        رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف سنت مؤکدہ ہے، یعنی تمام محلے میں سے کسی نہ کسی آدمی کا اعتکاف کرنا ضروری ہے، اگر کوئی بھی اعتکاف میں نہ بیٹھے تو تمام محلے والے گنہگار ہوں گے اور آخری عشرے کا اعتکاف حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بھر کیا ہے، اور اس کے بڑے فضائل بھی احادیث مبارکہ میں موجود ہیں، ایک روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے مَنْ اعْتَکَفَ عَشْراً فِیْ رَمَضَانَ کَانَ لِحَجَّتَیْنِ وَ عُمْرَتَیْنِ (الترغيب و الترھیب ٩٦/٢) جو شخص رمضان المبارک کے مہینے میں عشرہ آخری کا اعتکاف کرے گا اس کو اللہ کی جانب سے دو حج اور دو عمرے کا ثواب ملے گا،
آہ! صدیوں سے جس کا انتظار تھا.
کیاپتہ کہ گھربیٹھےحصول ثواب ممکن تھا.
مگر فرمان رسول کہ عشرہ آخیر  کا.
اعتکاف دو حج   وعمرہ   کا   ثواب ہے.
 ایک اور دوسری روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص رضائےالہی اور مرضی مولیٰ حاصل کرنے کے لیے ایک دن کا اعتکاف کرتا ہے تو اس کےاور جہنم کے درمیان ایسی تین خندقیں حائل کردے گا کہ ان میں سے ہر ایک خندق کا فاصلہ اتنا ہوگا جتنا آسمان اور زمین کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے( الترغیب والترھیب ٩٦/٢)
 مگر افسوس ہے کہ ہمارے نوجوانوں کا آخری عشرہ تو عید کی تیاری کے لیے بازاروں میں گزرتا ہے ،اور عورتیں بے پردگی سے حیا کے تمام حدود کو پھلانگ کر بازاروں کی زینت بننے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتیں، حالانکہ رسول رب کریم نے فرمایا کہ، أَوَّلُ شَهْرُ رَمَضَانَ رَحْمَةٌ وَ أوْسَطُهٗ مَغْفِرَةٌ وآخِرُهٗ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ (جامع الأحاديث ٢٩٨/٣) رمضان کا پہلا عشرہ رحمت ہے اور اس کا درمیانی عشرہ مغفرت کا ذریعہ ہے اور اس کا آخری عشرہ جہنم سے خلاصی کا ذریعہ ہے، اب ہم خود فیصلہ کریں کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں بے پردگی اور بے حیائی کا مظاہرہ ہماری مسلمان خواتین کرتی ہیں، ہم نے تو پہلے عشرے میں اللہ تعالی کی رحمت کو حاصل کرلیا، اور دوسرے عشرے میں مغفرت کروا لی، پھر جب آخری عشرے میں آگ سے خلاصی کا موقع ملا تو بے حیائی( وہی بے ڈھنگی رفتار جو پہلے تھی سو اب بھی ہے) کا شکار ہوگئے،
لیلۃ القدر
      شب قدر رمضان المبارک کی راتوں میں سے ایک رات ہے جو ماہ مبارک کے آخری عشرے میں لا علی التعیین کوئی رات ہے، جو بہت ھی خیروبرکت کی رات ہے، قرآن وحدیث کے اندر اس رات کی عبادت کو ہزار مہینے کی عبادت سے بھی بہتر اور افضل بتلایا گیا ہے، اور ایک ہزار مہینے تراسی 83″سال چار 4″ مہینے ہوتے ہیں، اگر کوئی خوش قسمت اس رات میں عبادت کرتا ہے تو اس کو تراسی سال چار مہینے تک عبادت کرنے سے بھی زیادہ ثواب اور فضیلت حاصل ہوگی، لیلۃ القدر میں اگر کسی کو عبادت کی توفیق مل گئی تو انتہائی خوش نصیب آدمی ہوگا اور اس رات میں عبادت کی وجہ سے پچھلے تمام گناہوں سے پاک و صاف ہو جاتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إیْمَاناً وإحْتِسَاباً غُفِرَ لَه مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِه (ترمذی شریف ١٤٧/١) جو شخص ایمان کی حالت میں ثواب کی امید رکھتے ہوئے لیلۃ القدر میں عبادت کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے تو اس کے ماقبل کے سارے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں،
حرف آخر
     انسان اگر اپنی مغفرت اللہ کے دربار میں کروانا چاہتا ہے تو اس کے لئے بہت سے مواقع اللہ نے دیے ہیں، مگر ہمیں خبر نہیں ہے، ہم دنیاوی مشاغل میں ایسے گھرے رہتے ہیں کہ ہمیں کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کیا آ رہا ہے اور کیا جارہا ہے؟ ہاں اگر پتہ چل بھی جائے تو عبادت میں سستی اور کاہلی ایک لابدی امر بن جاتی ہے، رمضان کے آخری عشرے میں عید کی تیاریوں میں لگ کر بجائے مسجدوں کو آباد کرنے کے بازاروں کو آباد کرنا ہمارا مشغلہ بن چکا ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالی رمضان المبارک کی صحیح قدردانی کرکے اس میں خوب اللہ کو راضی کرنے کی توفیق عطا فرمائے برس کے گیارہ مہینے تو ہم نے اللہ کو ناراض کیا، مگر ایک مہینہ ایسا گزارے کہ ایک لمحے کیلئے بھی اللہ ہم سے ناراض نہ ہو                       (آمین)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×