اسلامیاتمفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

قرآن کریم میں حالات کا حل موجود ہے!

ملک کے موجودہ حالات میں مسلمانوں کے خلاف جو تدبیریں کی جارہی ہیں، مختلف حیلوں حوالوں سے مسلمانوں کا گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ان حالات میں ظاہری اسباب کے ساتھ ساتھ باطنی احوال، اللہ کی رجوع، اللہ سے محبت ، اعمال کی طاقت کی سخت ضرورت ہے ، اسلامی تاریخ میں جن وجوہات سے مسلمانوں نے اپنی گذری ہوئی شرافت اور قوت کو حاصل کیا تھا، آج بھی انہیں ذرائع سے ہماری قوت وطاقت کو بحال کیا جاسکتا ہے، سارے اسباب اپنی جگہ مسلم ہے ؛ جب تک اللہ کی طرف رجوع نہ کیاجائے ، اللہ کی مددیں اور نصرتیں نہیں آسکتیں۔
اللہ عزوجل قرآن شریف میں فرماتے ہیں:
’’یا أیہا الذین آمنوا إذا لقیتم فئۃ فاثبتوا واذکر و االلہ کثیرا لعلکم تفلحون، وأطیعو اللہ ورسولہ ولا تنازعو فتفشلوا وتذہب ریحکم ، واصبروا إن اللہ مع الصابرین‘‘ (الانفال: ۴۵، ۴۶) اے ایمان والو! جب تمہارا مقبالہ ہو کسی گروہ سے تو تم کو اس پروگرام پر عمل کرنا ہے ، اس آیت کریمہ اللہ عزوجل نے مسلمانوں کے لائحہ اور پروگرام طئے جس کی روشنی میں کامیابی وکامرانی کی منزل مقصود تک پہنچاجاسکتا ہے ۔
(۱) ثبات قدمی (فاثبتوا) مضبوطی سے اپنے حق پر جم جانا ،کسی بات سے بھی دستبردار ہونے کے لئے تیار نہ ہونا،دینی تشخص کے ہر جزئیہ پر مضبوطی سے جمنا، اور دشمن سے ہر طرح کے مقابلہ میں ثابت قدمی دکھانا۔کسی بھی قیمت پر ہم اپنے دین، ایمان، تشخص، ایمان ایقان کسی بھی چیز سے دست بردار نہ ہوںگے اسی ایقان کا نام’’ایمان‘‘ جو مسلمان کو دائرہ اسلام میں داخل کرتا ہے ، جو اس کو اس کی ساری زندگی میں قوت بہم پہچاتا ہے ، ذات الہٰی سے ایسا مضبوط تعلق کرواتا ہے ،کوئی بھی کمزور طاقتکے سامنے سینہ سپر نہیں ہوسکتا، وہ ہر دم اللہ کی یاد میں مست آگے بڑھتا جاتا ہے ، پیچھے پلٹے اور لوٹنے کا سوال ہی نہیں ہوتا، اس کی منزل جنت ہے وہ پیچھے کیوں مڑ کر دیکھے ، وہ راہِ حق وایقان کا مسافر ہوتاہے ، اس کی منزل مقصود دنیا اور اس کی فانی لذتیں نہیں، بعد کی ابد الآباد اور ہمیشہ کی زندگی ہوتی ہے ۔
(۲) اللہ کو نہ بھولو : دوسری بات یہ فرمائی گئی(واذکروا اللہ کثِیرا لعلکم تفلحون)یہ ثبات، قدم کا جماواور دل کی مضبوطی کیسے حاصل ہوگی ؟ اس کے حصول کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ کو کثرت سے یاد کرنا ،کبھی اللہ سے غافل نہ ہونا، تکبیر وتسبیح و تحمید و تہلیل کے کلمات زبان زد رکھنا ، دل کو ان سے معمور رکھنا، بغیر اس کے نہ ثبات حاصل ہوتا ہے نہ استقامت،اگر صرف اپنی تدبیر سے کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ، ضرور اسباب کے درجے میں اپنی تدابیر کو اختیار کیا جائے ، لیکن صرف اپنی تدابیر ، لائحہ عمل اور منصوبوں پر عمل پیرا ہونا، اللہ کی مدد اور نصرت والے دروازوں کو بند کرنا اور اللہ کی طرف رجوع اور اللہ کے ذکر کو ترک کرنے سے مددیں نہیں آسکتی ۔(واذکروا اللہ کثِیرا لعلکم تفلحون) کامیابی ذکرِ الہی سے ملے گی ۔
لا الہ الا اللہ کی ضرب صرف عقیدے کی ضرب نہیں ہوتی ہے،بلکہ ایک ایسی کیفیت احسانی ہوتی ہے ، تزکیہ کا ایک مقام ہوتاہے، تعلق مع اللہ کی ایک ایسی کیفیت ہوتی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تشبہ کی ایک ایسی صورت ِ حال ہوتی ہے، کہ جس میں ریشہ ریشہ اللہ کی یاد میں مشغول ہو جاتا ہے، ہربن مو سے، لا الہ الا اللہ کی صدا آتی ہے ،پورا وجود ِ انسانی اللہ کا ترجمان بن جاتا ہے، اور مسلمان سے یہی مطلوب ہے کہ وہ اللہ والابن جائے (ولکِن کونوا ربانِیِین بِما کنتم تعلِمون الکِتاب وبِما کنتم تدرسون)(آل عمران:۷۹) اللہ نے فرمایا کہ رب والے بن جاو ، ربانی: رب والا اردو میں ہم اس کا ترجمہ کر نہیں پارہے ہیں، ربانی کے رگ وریشہ میں اللہ پر ایمان، نبی پر ایمان ،فرشتوں پر ایمان ، جنت ودوزخ پر ایمان، قبر پر ایمان،آخرت پر ایمان سرایت کرجاتا ہے، پھراس مومن کی حالت یہ ہوجاتی ہے کہ اس کاجسم کاٹ دیا جائے ،ہڈیاں تراش دی جائیں ، آرے چلا دئے جائیں ،اس کا ایمان چھینا نہیں جا سکتا ،اس سے انسان کو پھر محروم نہیں کیا جاسکتا ۔
(۳) باطل کی حقیقت اور کمزوری: (واطِیعوا اللہ ورسولہ) تیسری بات یہ فرمائی گئی کہ اللہ کے دین پر ،اس کے نظام پر ،اس کی شریعت پر، اس کے احکام پر عمل کی پابندی کرنا ہے ، اللہ کی بات ماننا ، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ماننا، مضبوطی کے ساتھ اللہ کے دین پر عمل کرتے رہنا، قرآن و حدیث کے دامن کو ہر حال میں تھامے رہنا۔
ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑکر دوسروں کے سہاروں پر تکیہ کر رکھا ہے، ان کی مثال مکڑی کی مثال کی ہے، جو اپنا گھر بناتی ہے ( مثل الذِین اتخذوا مِن دونِ اللہِ اولِیاء کمثلِ العنکبوتِ اتخذت بیتا، وِإن اوہن البیوتِ لبیت العنکبوتِ لو کانوا یعلمون)(عنکبوت: ۱۷) اور سب سے کمزور گھر مکڑی کا گھر ہوتا ہے، مکڑی کا جالا دنیا کی سب سے کمزور پناہ گاہ ہے، جس کی تخریب ایک تنکہ سے ہوجا تی ہے، ہم سب جانتے ہیں کہ مکڑی کا گھر کمزور ہوتا ہے، لیکن ہم یہ نہیںجانتے کہ واشنگٹن کمزور ہے ،لندن کمزور ہے، پیرس کمزور ہے، ہم یہ نہیں مانتے کہ فسطائی طاقتیں کمزور ہیں، فوجیں کمزور ہیں، یہاں ہمارا دل اور ہمارا ذہن کام نہیں کرتا، ہمارا دل اس کو مان نہیں پاتا،قدرت الہی کا غیب ہماری آنکھوں کے شہود پر غالب نہیں آپاتا، ہمارا یقین متزلزل ہوجاتا ہے ،ہمارا ایمان ٹھوکریں کھانے لگتا ہے ، ہماری نگاہیں پتھرا جاتی ہیں، کلیجے منہ کو آنے لگتے ہیں، قلت وکثرت کے فلسفے ہمارے ذہنوں کو شکار کر لیتے ہیں،پھرہمارے سامنے تجلیات الہی باقی نہیں رہتیں۔
ہم نے فنافی اللہ کا مقام کیونکہ حاصل نہیں کیا،اس لئے بقا باللہ کا مقام نہیں ملتا، لیکن جو اس مقام سے گزر جاتے ہیں،سارا ملک ان کے خلا ف اکھٹا ہو جاتا ہے، اور وقت کی تمام طاقتیں انہیں گھیر لیتی ہیں، تو وہ یہ کہتے ہیں کہ مجھے ملک فتح ہوتے نظر آرہے ہیں، میرے سامنے عراق وشام اور یمن کے محلات روشن ہوگئے ہیں۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے شمالی حصہ میں صحابہ کے ساتھ خندق کھود رہے ہیں، پھاوڑے ہاتھوں میں ہیں،جوزمین پر چلائے جا رہے ہیں ، کدالیں ماری جارہی ہیں ، ایک چٹان کسی طرح سے ٹوٹ نہیں رہی ہے، جوان تھک گئے ہیں، کدالیں ٹوٹ گئی ہیں، شکوہ اس نبی سے کیا جارہا ہے،جس کے پیٹ پر دو دن کے فاقے کی علامت کے طور پر دو پتھر بندھے ہوئے ہیں، کہ ایک چٹان نہیں ٹوٹ رہی ہے، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پھاوڑے اور اپنی کدال کے ساتھ وہاں پہنچتے ہیں، اس چٹان پر ایک ضربِ کاری لگاتے ہیں، لوہاپتھر سے ٹکراتا ہے تو چنگاریاں اچھلتی ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’لقد اضا ت لی قصور العراق ا‘‘ ان چنگاریوں نے عراق کے محلات روشن کردیئے، پھر ایک مرتبہ ضرب لگاتے ہیں، چنگاریاں اٹھتی ہیں، فرماتے ہیں:’’ لقد اضا ت لی قصور الشام‘‘ انہوں نے میرے لئے شام کے محلات روشن کردئیے،پھر ایک مرتبہ ضرب لگاتے ہیں، چنگاریاں اٹھتی ہیں اور فرماتے ہیں: ’’ لقد اضا ت لی قصور یمن یمن‘‘ کے محل میرے سامنے روشن ہو گئے،۔
سن ۵ھ کا یہ واقعہ ہے، یہ غزوہ خندق کی ابتدائی تیاریاں ہیں، جس میں ظاہری اسباب متحدہ محاذ کی فتح کے ہیں، اور مسلمانوں کی فاش شکست کے، لیکن جب اہلِ ایمان نے نصرت دین کی شرط پوری کردی، تو نصرت الہی نے ان جتھو ں اور لشکروں کو تتر بتر کردیا، اور ان کی طاقت کو ہمیشہ کے لئے توڑدیا، ۶ھ میں یہ دشمن صلح پر مجبور ہوئے، اور ۸ھ میں یہ مرعوب ومغلوب ہوکر آخری شکست سے دو چار ہوئے، ہجرت کے صرف دس سال بعد جزیر العرب فتح ہوگیا، ھ ۱۱میں اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو حکم ہو رہا ہے، اب رومن امپائر کے چھکے چھڑادو، اب گویا آپ یہ کہہ رہے ہی ں کہ میں دنیا سے جارہا ہوں، اب یہ کام تمہارے ذمہ ہے، دنیا کو ظالموں کے ظلم سے آزاد کراو، بہر حال حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کا لشکر جا ہی رہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی، اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت طئے ہوئی، توان کا پہلا کام یہ تھاکہ اسامہ رضی اللہ عنہ کا لشکر رومکی سرکوبی کے لئے جائے، اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چند سالوں میں وہ منظر سامنے آیا کہ ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ شام فتح کر رہے ہیں، عمر فاروق رضی اللہ عنہ شہر القدس میں صفرونیس لاٹ نامی پادری سے کلیسا کی چابی لے رہے ہیں، مسجداقصی کا دوبارہ قیام فرما رہے ہیں، پھر دیکھا گیا کہ سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ایران فتح کر رہے ہیں،عمروبن العاص رضی اللہ عنہ مصر فتح کر رہے ہیں، عقبہ بن نافع رضی اللہ عنہ افریقہ کی شمالی پٹی فتح کر رہے ہیں،موسی بن نصیر کے غلام طارق بن زیاد اندلس فتح کر رہے ہیں،محمد بن قاسم سندھ فتح کر رہے ہیں ، یہ نبوی حکمت عملی کا نتیجہ تھا، رومن امپائر سے معرکہ آرائی کی فتوحات تھیں، یہ ایران کی سپر پاور سے ٹکراو کے نتائج تھے، یہ سب کچھ لشکر اسامہ کی نبوی تیاری، اور دور صدیقی میں اس کی روانگی کے عطایا وتحائف تھے،یہ للہی اورربانی تربیت کا ثمرہ تھا، یہ تربیت مظاہروں اور شکلوں سے نہیں ہوتی ، یہ حقیقی فنائیت فی اللہ کے ثمرات ہیں، جب لا الہ کی ضرب کاری باطل پہ پڑتی ہے، تب الااللہ کی حقیقت فتح ونصرت کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے، جب دل ودماغ میں اللہ کی عظمت وشہنشاہی کا سودا سماتا ہے،گھروں میں، مسجدوں میں، بازاروں میںاللہ کے ذکر کا شور و غلغلہ بلند ہوتا ہے، اسکولوں میں، کالجوں میں، یونیور سٹیوں میں ، یہاں تک کہ حکومت کے ایوانوں میں اللہ کی کبریائی کا بول بالا ہوتا ہے، تب حقیقی تبدیلیاں وجو د میں آتی ہیں، اللہ کے وعدے پورے ہوتے ہیں، پھراسلام کے معجزات اور مجاہدوں کی کرامات ظاہر ہوتی ہیں،اللہ کی نصرت ومدد کا ظہور ہوتا ہے، اللہ نے چاہا تو موسی کے عصا کومعجزہ بنادیا،، اللہ نے چاہا تو دمِ عیسی میں اعجاز پیدا کر دیا، علیہم الصلوات والتسلیمات ،اورجب اللہ نے چاہا تو آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوبے شمار وقتی معجزات، اور ایک دائمی معجزہ سے نوازدیا ، اللہ نے چاہا تو سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو، عقبہ بن نافع کواور کن کن اصحاب رسول اور غلامانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کرامات سے نوازا گیا۔
(۴) ایک اور نیک بن جائیں(ولا تنازعوا فتفشلوا وتذہب رِیحکم)چوتھی بات یہ فرمائی گئی کہ آپس میں جھگڑامت کرنا، نزاع، تفرقہ ،اور چپقلش نہ پیدا کرنا، رائے کے اختلاف میں کوئی حرج نہیں، غور وفکر کے نتائج میں فرق ہو، کوئی حرج نہیں ، لیکن ایک دوسرے کی عزت برقرار رکھی جائے،ایک دوسرے سے محبت کی جائے،ہر بڑے کا ادب کیاجائے، ہر چھوٹے پر شفقت کی جائے، سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کے رہا جائے، مسلک اور فکر کے اختلاف کو جھگڑوں اور مخاصمتوں کا سبب نہ بنایا جائے، اللہ کا صاف ارشاد ہے، اگر جھگڑا کروگے تو ناکام ہوگے، نامراد ہوگے ،ذلیل ہوگے، رسوا ہوگے، تمہاری ہوا اکھڑجائے گی، آج مسلمانوں کی پوری دنیا میں جو صورت ِ حال ہے، وہ خاص طور پر قرآن پاک کی اسی آیت کی خلاف ورزی کی بنیاد پر ہے، جہاں بھی آپس میں اختلاف ہے ، وہاں ذلت ہے، رسوائی ہے، اور جہاں مسلمان متحد ہیں، وہاں اللہ کی مدد ہے، نصرت ہے، حدیث پاک میں فرمایاگیا ہے: ید اللہ علی الجماع اجتماعیت کے ساتھ اللہ کی تائید ہوتی ہے، الگ الگ رہیں گے تائید الہی چھین لی جائے گی۔
اگر آج کے حالات میں کچھ کرنا ہے،تو پہلے یہ طے کریں کہ ہم اللہ والے بنیں گے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائی بنیں گے، صحابہ رضی اللہ عنہ کے عاشق بنیں گے،اولیا اللہ سے محبت کریں گے، آپس میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کے رہیں گے، ہر طرح کے تفرقوں جھگڑوں اور خرخشوں کو دورکریں گے، ایمان کی بنیا د پر اخوت اور بھائی چارے کے رشتہ میںمنسلک ہوجائیں گے،اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دیں گے، اپنی عورتوں کو دین کی فدائی اور شیدائی بنائیں گے،عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ ، فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہ کے نمونوں کو عام کریں گے، ہمارے یہاں ہر چیز سنت کے مطابق ہوگی، کسی مسئلہ میں بھی ہم سنت کو ترک کرکے فیشن کو اختیار نہیں کریں گے۔
ہم یقین کریں گے کہ(إِن ہدی اللہِ ہو الہدی)(البقرۃ: ۱۲۰) ہدایت صرف اللہ کی ہدایت ہے،ہدایت صرف قرآن وحدیث سے حاصل کرنی ہے، اگرآپ یہ فیصلہ کرلیں گے، تو قسم بخدا بڑے سے بڑے ترقی یافتہ شہر سے یہ چھوٹی سیبستی آگے بڑھ جائے گی، پہلے دل کی دنیا کو درست کیجئے،دل کے قطب نما کی سوئی اللہ کی طرف کردیجئے، پھر آپ کے جسم کاجہاز توحید کے رخ پر بڑھتا چلا جائے گا، لاالہ کی ضرب کاری پہلے اپنے دل کے نہاں خانہ باطل پر لگایئے،پہلے دل کے اندر کے بتوں کو باہر نکالئے، اپنی خوہشات پر قابو پایئے، اپنے گھروں کے اندر باطل کو گھسنے سے روکئے، اپنے شیطان پرپے بہ پے حملے کیجئے ، اس کی کمر توڑ کے رکھ دیجئے،اس پر غالب آجایئے، پھر آپ کی حفاظت کا وعدہ الہی ہے، اللہ نے فرمایا: (إِن عِبادِی لیس لک علیہِم سلطان)(الحجر:۴۲) ابلیس نے جس وقت یہ کہا تھا کہ اے اللہ! میں تیرے بندوں کو گمراہ کردوں گا، تو اللہ نے فرمایا: جو میرے خاص بندے ہوں گے، ان پر تیرا کچھ زور نہیں چلے گا، جو صحیح معنی میں مرے بندے ہوں گے، میری بندگی کریں گے، میری اطاعت کریں گے، میری بات مانیں گے، میرے دین میں لگیں گے، او ابلیس! تیرا کچھ زور ان پر نہیں چلے گا، ظاہر ہے کہ جب ابلیس کا زور نہیں چلے گا، تو ابلیس کے شاگر دوں کا کیا زور چلے گا؟ امریکہ ہو یا روس، برطانیہ ہو یافرانس، طاقت ہو یا چالیں، کسی کا زور نہیں چلے گا، اور ابلیس شکست ، اس کی ذریت کی شکست اوران کے تمام ایجنٹو ں کی شکست ہوگی ۔
(۵) حالات کا مقابلہ کیسے کیا جائے: (واصبِروا ِن اللہ مع الصابِرِین)پھر فرمایا گیا: صبر اختیا ر کرنا، صبر کے دو معنی ہیں: ایک یہ کہ اطاعت پر استقامت اختیار کی جائے، اور دوسرے یہ کہ گناہ سے اور برائی سے بچاجائے، یہ دونوں کام مضبوطی سے کرنا،اور ان پر ڈٹے رہنا،صحیح معنی میں صبر ہے، اور صبرو برداشت کا وہ رویہ اختیار کرنے کا حکم ہے ، جس میں تحمل ہو ، برداشت ہو ، جس میں طیش نہ ہو، ٹینشن نہ ہو ، ردِ عمل نہ ہو، کسی مطلوبہ چیز کوچھوڑا نہ جارہا ہو، غلو وتشدد نہ ہو ، تحریف نہ ہو، انحراف نہ ہو ، وہ حقیقی صبر ہے ، یہ چیزیں ہیں،اے مسلمانو! اگر ان کو اختیار کروگے، پھرایک گروہ کا مقا بلہ کرو یا کئی گروہ کا کرو، تمہیں غلبہ حاصل ہوگا ،اور اگراس نسخہ کا استعمال نہیں کروگے ،اس پروگرام پر عمل نہیں کروگے، تو دنیا تم پر غالب آتی چلی جائے گی،اور تم شکست کھاتے چلے جاوگے، کمزور ہوتے چلے جاوگے، مٹتے چلے جاو گے ۔
اللہ کا قانون اس معاملہ میں بڑا غیر جانب دار ہے ، اس کے یہاں اصول بتا دئے گئے ہیں،جو عمل کرے گا اس کوحاصل ملے گا، اور جو نہیں کرے گا وہ محروم رہ جائے گا ، پھر ایک حدیث میں فرمایاگیا ہے کہ جو اپنی ساری توجہات اللہ پر مرکوز کردیتا ہے، اللہ اس کی کفایت کرتا ہے، اس کے کام بنا دیتا ہے ، اور جو ادھر ادھر کے فکری انتشار میں رہتا ہے،دنیا کے پیچھے بھاگتا ہے، فرمایا کہ اللہ اس کی کوئی فکرنہیں کرتا ، وہ دنیا کی کسی وادی میں ہلاک و تباہ ہو، اللہ کو اس کی پرواہ نہیں ۔
حالات کامقابلہ اس ترتیب سے کرنا ہے، مقابلہ حیلوں سے، حوالوں سے، احتجاجوں سے، مظاہروں سے، ریلیوں سے، شکوہ شکایتوں کے انبار سے نہیں ہوتا، اس امت مسلمہ کے حالات دوسری قوموں کی طرح نہیں بدلتے ، اس امت مسلمہ کے حالات قرآن کی رہنمائی میں بدلتے ہیں، حدیث کی روشنی میں بدلتے ہیں، سیرتِ طیبہ کے اسوہ سے بدلتے ہیں، صحابہ کرام کے نمونوں سے بدلتے ہیں ، سلف صالحین کے نقش قدم پر چلنے سے بدلتے ہیں، اور سب سے بڑی بات، سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ اللہ کی محبت سے بدلتے ہیں،ایسی محبت جوساری محبتوں کو سوخت کردے،ہر محبت اسی محبت کے سر چشمہ سے پھوٹے، اور جو اللہ سے ٹوٹے اس سے اللہ کا دیوانہ بھی ٹوٹے، وہ صاف کہہ دے : اگر تمہارا اللہ سے تعلق نہیں تو میرا تم سے تعلق نہیں، میں مجبور ہوں ،میرے دل میں تمہارے لئے کوئی جگہ نہیں ، بھائی اسی وقت بھائی ہوگا جب وہ مومن ہوگا، بہن اسی وقت بہن ہوگی جب مومن ہوگی، شوہر بیوی کے لئے اور بیوی شوہر کے لئے اسی وقت صحیح معنی میں زوجین ہوں گے جب ایمان کا رشتہ و تعلق انہیں جو ڑے گا، یہ وہ ایمانی بنیا د ہے جس پر اسلام کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی وضاحت کرتے ہوے فرمایا تھا’’ واللہِ لا یومِن احدکم حتی اکون احب الیہِ مِن والِدِہِ وولدِہِ والناسِ اجمعِین ‘‘سن لو! خدا کی قسم! تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو گا، جب تک میں ا س کے نزدیک اس کے ماں باپ ،اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ بن جاوں، اور ایک حدیث میں مزید یہ ہے کہ خود اس کی ذات سے زیادہ، اسے محبوب نہ ہوجاوں۔
بہر حال بات لوٹ پھر کر وہی آتی ہے کہ ساری توجہ کو اللہ کی ذات پر مرکوز کردینا ہے، اور اللہ کی ذات کے سب سے معتبر اور اعلی نمائندہ حضر ت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، اس لئے ان کے دامن سے وابستہ ہوجانا ہے ، ان کی ہر ادا پر قربان ہوجانا ہے، اور انہیں کی ہدایت کو اختیار کرناہے، یہ مختصر نسخہ ہے لیکن بہت ہی جامع نسخہ ہے۔اس طرح ملک کے حالات بھی درست ہوسکتے ہیں، ہم بھی اپنے ملک میں چین وسکون کی زندگی گذار سکتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×