با ادب بانصیب- بے ادب بے نصیب
اس مشہور مقولے کے حوالے سے اس کا مفہوم پیش کروں یہ واقعہ سنتے چلئے کہ با ادب بانصیب کیسے ہوتاہے ، بے ادب بے نصیب کیسے ہوتا ہے ؟؟؟؟
ایک بار جناب بہلول کسی نخلستان میں تشریف رکھتے تھے۔ ایک تاجر کا وہاں سے گذر ہوا، وہ آپ کے پاس آیا سلام کر کے مودب سامنے بیٹھ گیا اور انتہائی ادب سے گذارش کی ،حضور ! تجارت کی کونسی ایسی جنس خریدوں جس میں بہت نفع ہو’،جناب بہلول نے فرمایا :’’ کالا کپڑا لے لو‘‘’ تاجر نے شکریہ ادا کیا اور الٹے قدموں چلتا واپس چلاگیا۔ جا کر اس نے علاقے میں دستیاب تمام سیاہ کپڑا خرید لیا، کچھ دنوں بعد شہر کا بہت بڑا آدمی انتقال کر گیا۔ ماتمی لباس کے لئے سارا شہر سیاہ کپڑے کی تلاش میں نکل کھڑا ھوا، اب کپڑا سارا اس تاجر کے پاس ذخیرہ تھا تو اب اس نے مونہہ مانگے داموں فروخت کیا اور اتنا نفع کمایا جتنا ساری زندگی نہ کمایا تھا اور بہت ہی امیر کبیر ہو گیا۔
کچھ عرصے بعد وہ گھوڑے پر سوار کہیں سے گذرا جناب بہلول وہاں تشریف رکھتے تھے۔ وہ وہیں گھوڑے پر بیٹھے بولا :او دیوانے !اب کی بار کیا لوں، بہلول نے فرمایا :’’تربوز لے لو‘‘۔ وہ بھاگا بھاگا گیا اور ساری دولت سے پورے ملک سے تربوز خرید لئے۔ ایک ہی ہفتے میں سب خراب ہو گئے اور وہ کوڑی کوڑی کو محتاج ہو گیا۔
اسی خستہ حالی میں گھومتے پھرتے اس کی ملاقات جناب بہلول سے ہوگئی تو اس نے کہا :یہ آپ نے میرے ساتھ کیا کِیا؟’ تو جناب بہلول نے فرمایا :میں نے نہیں،تیرے لہجوں اور الفاظ نے کیا سب۔ جب تونے ادب سے پوچھا تومالا مال ھوگیا اور جب گستاخی کی تو کنگال ہو گیا۔اس کو کہتے ہیں باادب با نصیب،بے ادب بے نصیب
ادب : انسان اور جانو میںر فرق کرتا ہے:
بظاہر انسان اور جانور میں کیا فرق ہے۔ تمام کے تمام حیاتی تقاضوںسے ہٹ کر بھی دیکھیں تب بھی کیا فرق ہے؟
آدمیت نہ بہ نطق و نہ بہ ریش و نہ بہ جاں
طوطیاں نطق بزاں ریش،خراں جاں دارد
جی ہاں! انسان اور جانور میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ ہے ادب۔ یہ وہ تحفہ آسمانی ہے جو اللہ تبارک وتعالی نے انسان کو بطورِ خاص عطا فرمایا۔یہ یونان کے لائسیم ہوں یا سکندریہ کی رصدگاہیں، یہ ہندوستان کے آشرم ہوں یا ایران کے معبد، یہ بصرہ و بغداد کے مدارس ہوں یادلی و لکھنو کی محافل ادب و علم و حکمت۔ ہر کہیں صرف وہی نام نمایاں ہیں جنہوں نے اپنے اساتذہ کے حضور زانوئے تلمذ طے کیا اور با نصیب ٹھہرے۔
خموش اے دل بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
دنیا میں بانصیب کون ہے؟ سرمایہ دار؟ دھن دولت والے؟ حکمران؟ بادشاہ اور وزیرو مشیرانِ سلطنت؟ بڑے بڑے افسران؟ کون ؟بانصیب وہ ہیں ، جن کے نام ہائے نامی ، اسمائے گرامی اوراقِ تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کرکے انہیں ان کے ادب نے امر کردیا۔ اس فضائے نیلگوں میں پھیلے سنہرے اجالے کی طرح وہ صفحہ دہر کے رگ و ریشے میں یوں پھیل گئے کہ آج ان کی ایجادات ، تعلیمات، ملفوظات اور تخلیقات کے بغیر یہ دنیا ادھوری ہی نہیں بے ذائقہ اور بے مقصد ہوکر رہ جاتی ہے۔اسلامی تاریخ کی روشنی میں یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ادب ہی کی بنا پر حضرت جبرئیل علیہ السلام سیدالملائکہ بنے اور بے ادبی کی وجہ سے معلم الملائکہ شیطان بنا۔ادب کی مثالوں میں مشہور ترین مثال حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ہے جنہوں نے اپنے والد حضرت ابراہیم کے حکم پر اپنی جان کا تحفہ موت کی طشتری میں ڈالنے کا ارادہ کرلیا۔ بقولِ شاعر:۔
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی
ادب اور اخلاق معاشرے کی بنیادی حیثیت کا درجہ رکھتا ہے، جو معاشرے کو بلند تر کرنے
میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ادب سے عاری انسان اپنا مقام نہیں بنا سکتا۔ کہاوت ہیکہ’’ باادب بانصیب اور بے ادب بدنصیب‘‘ یعنی ادب ایک ایسی صنف ہے جو انسان کو ممتاز بناتی ہے۔ ادب و آداب اور اخلاق کسی بھی قوم کا طرہ امتیاز ہے۔ اسلام نے بھی ادب و آداب اور حسن اخلاق پر زور دیا ہے۔
مذہب اسلام نے ہر رشتے کے حقوق وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیئے ہیں۔ ادب و آداب کی تعلیم بھی دی گئی ہے، جس میں سرفہرست والدین کے حقوق اور ان کا ادب ہے۔ اس کے علاوہ اساتذہ کا احترام، پڑوسیوں کے حقوق معاشرے کے ستائے ہوئے افراد بھی شامل ہیں۔ یہ تمام افراد بھرپور توجہ اور احترام کے مستحق ہیں۔
خدمت خلق ہی ایک ایسا فعل ہے جس سے انسان کی عظمت کا صحیح طورپر پتا چلتا ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کے ذمے دو فرائض لگائے ہیں ایک اس مالک کل کی اطاعت دوسرے اس کے بندوں سے پیار۔ یعنی ایک حقوق اللہ اور دوسرے حقوق العباد۔ ہمارے نوجوان معاشرے کا اہم حصہ ہیں اور ان کی اخلاقی ذمے داریوں کا معاشرے کے بزرگ افراد، والدین ، اساتذہ سے براہ راست تعلق ہے، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ادب کے حوالے سے نوجوانوں کا منفی رویہ کافی تکلیف دہ ہے۔
ماں باپ کا ادب
آج بوڑھے والدین کے ساتھ نوجوان جو کچھ کرتے ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں۔ اکثر میڈیا پر یہ خبر دیکھنے اور پڑھنے کو ملتی ہے کہ چند روپیوں یا جائیداد کی خاطر بزرگ والدین کو قتل کردیا، آج کے بچے، نوجوان والدین کو بات بات پر ڈانٹنے، جھڑکنے اور بلند آواز سے بات کرنے میں تھوڑی بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔،ماں باپ کسی چیز کے متعلق پوچھ لیں تو بھنویں تن جاتی ہیں مگر یہی نوجوان بچپن میں والدین سے جو کچھ پوچھتے تو والدین خوشی خوشی بتاتے تھے۔
ماں باپ کے آگے صرف دو وقت کی روٹی رکھ دینا ہی سب کچھ نہیں ہے؛ بلکہ والدین کی اطاعت، فرمابرداری، ادب و آداب ہی باادب اور کامیاب انسان بناتے ہیں۔والدین کی دعائیں کامیابی کا زینہ ہیں جس کی بدولت آپ ایک کامیاب انسان بن کر ملک وقوم کا نام روشن کرسکتے ہیں، والدین کے غصے کے آگے آپ کی برداشت اور غفودرگزر ادب و آداب کی بہترین قابل تعریف مثال ہے،والدین کی ناراضی وقتی ہوتی ہے اور آپ کے اس عملی مظاہرہ سے والدین کے دل میں آپ کی جگہ بن جائے گی اور ان کی شفقت و محبت میں مزید بہتری آئے گی۔ والدین کے علاوہ اساتذہ بھی معاشرے کے اہم فرد ہیں۔
ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرا کہ لوگ ماں باپ کے برابر بیٹھنا، ان کے آگے چلنا اور ان سے اونچا بولنا برا سمجھتے تھے اور ان کے حکم پر عمل کرنا اپنے لیے فخر جانتے تھے۔ اس کے صدقے اللہ انہیں نوازتا بھی تھا۔ اسلامی معاشروں میں یہ بات مشہور تھی کہ ’’جو یہ چاہتا ھے کہ اللہ اس کے رزق میں اضافہ کرے وہ والدین کے ادب کا حق ادا کرے۔اور جو یہ چاہتا ھے کہ اللہ اس کے علم میں اضافہ کرے وہ استاد کا ادب کرے۔‘‘ایک دوست کہتے ہیں کہ میں نے بڑی مشقت سے پیسہ اکٹھا کر کے پلاٹ لیا تو والد صاحب نے کہا کہ بیٹا تمہارا فلاں بھائی کمزور ھے ،یہ پلاٹ اگر تم اسے دے دو تو میں تمہیں دعائیں دوں گا۔ حالانکہ وہ بھائی والدین کا نافرمان تھا۔ اس (دوست) کا کہنا ھے کہ عقل نے تو بڑا سمجھایا کہ یہ کام کرنا حماقت ھے؛ مگر میں نے عقل سے کہا کہ علامہ اقبال نے کہا ھے:
اچھا ھے دل کے ساتھ رھے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
چنانچہ عقل کو تنہا چھوڑا اور وہ پلاٹ بھائی کو دے دیا۔ کہتے ہیں کہ والد صاحب بہت خوش ھوئے اور انہی کی دعا کا صدقہ ھے کہ آج میرے کئی مکانات اور پلازے ہیں جب کہ بھائی کا بس اسی پلاٹ پر ایک مکان ھے۔
استاذ کا ادب
ماں باپ کے بعد سب سے اہم مقام استاد کا ہے۔ استاد روحانی والدین کا درجہ رکھتا ہے۔ اس لئے شاگرد اپنے استاد کا جتنا بھی احترام کریں کم ہے۔ ماں باپ کی اولاد کے لئے اصلاح اور تربیت کے بعد استاد کی اصلاح و تربیت لازمی ہے۔ اس لئے استاد کا زیادہ سے زیادہ ادب کرنا چاہئے ،جو استاد کا بنیادی حق ہے۔ بدنصیب ہیں وہ نوجوان جو اپنے استادوں کی بے عزتی اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں جو استاد کی اصلاح کو اپنی بے عزتی سمجھ کر ان پر بہیمانہ تشدد کرکے زخمی لہولہان کردیتے ہیں ،کسی بھی مہذب معاشرے میں استاد کی تذلیل اور ہرزہ سرائی اس قوم کے نوجوانوں کی ترقی عروج کا زوال ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا پر استادوں تک پر تشدد کی ویڈیوز وائرل ہوتی رہتی ہیں۔ اگر قوم کے معمار کو زخمی کردیا جائیاور اسے دیوار سے لگا دیا جائے گا تو وہ اپنی تعلیمی صلاحیتوں کو کس طرح بروئے کار لاکر نوجوانوں کو علم کی روشنی س یمنور کرے گا۔ اگر استادوں پر تشدد کیا گیا اور دیوار سے لگایا گیا تو جہالت کی تاریکی چاروں طرف پھیل جائے گی۔ نوجوان نسل عدم برداشت کو قابو کریں اور استاد کی عزت و احترام کریں۔ علم کی جستجو جاری رکھنا اور علم کے میدان میں استاد کی رہنمائی میں آگے بڑھنا بھی شاگرد پر استاد کا حق ہے۔ شاگرد اگر استاد کی عزت کرے گا اور اس کے حق کی طرف توجہ دے گا تو زندگی میں کامیاب اورکامران ہوگا اور علم کی دولت حاصل کرکے صحیح معنوں میں زندگی کا سفر جاری رکھ سکے گا۔ استاد کے حقوق میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اس کی بات مانی جائے، اس کا حکم ادب سے سنا جائے اور احترام کے ساتھ اس کی تعمیل کی جائے۔
اگر شاگرد ایسا کریں گے تو ان کے اساتذہ ان سے خوش ہوںگے اور ان کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں گے اور ان کا مستقبل سنوارنے کے لئے انہیں زیادہ دل لگا کر پڑھائیں گے۔ ایسے ہی شاگرد دنیا میں کامیاب ہوتے ہیں اور بڑے بڑے مراتب تک پہنچتے ہیں۔ استاد کی مخصوص توجہ کے بغیر خصوصی کامیابی ممکن ہی نہیں۔ چنانچہ نوجوان کو اپنے اساتذہ کے حقوق پر غور کرنا چاہئے۔ ان کا پورا احترام اور ان سے ہدایات حاصل کریں جو استاد کا ادب کرتاہے خوش نصیبی اس کے قدم چومتی ہے اسی لئے تو کہتے ہیں :باادب بانصیب، بے ادب بے نصیب۔
والدین کی طرح استاد کا ادب بھی اسلامی معاشروں کی ایک امتیازی خصوصیت تھی اور اس کا تسلسل بھی صحابہ کے زمانے سے چلا آرہا تھا۔حضور ﷺ کے چچا کے بیٹے ابن عباس کسی صحابی سے کوئی حدیث حاصل کر نے جاتے تو جا کر اس کے دروازے پر بیٹھ رہتے۔ اس کا دروازہ کھٹکھٹانا بھی ادب کے خلاف سمجھتے اور جب وہ صحابی خود ھی کسی کام سے باہر نکلتے تو ان سے حدیث پوچھتے اور اس دوران سخت گرمی میں پسینہ بہتا رہتا، لو چلتی رہتی اور یہ برداشت کرتے رہتے۔ وہ صحابی شرمندہ ھوتے اور کہتے کہ آپ تو رسول اللہﷺ کے چچا کے بیٹے ہیں آپ نے مجھے بلا لیا ھوتا تو یہ کہتے کہ میں شاگرد بن کے آیا ھوں، آپ کا یہ حق تھا کہ میں آپ کا ادب کروں اور اپنے کا م کے لیے آپ کو تنگ نہ کروں۔کتنی ھی مدت ھمارے نظام تعلیم میں یہ رواج رہا (بلکہ اسلامی مدارس میں آج بھی ھے) کہ ہر مضمون کے استاد کا ایک کمرہ ھوتا، وہ وہیں بیٹھتا اور شاگرد خود چل کر وہاں پڑھنے آتے جب کہ اب شاگرد کلاسوں میں بیٹھے رہتے ہیں اور استاد سارا دن چل چل کر ان کے پاس جاتا ھے۔
استاذ کا ادب ہی نہیں بلکہ آلات علم کا بھی ادب ہے ، اس کا ادب بجالانا بھی انسان کے لئے ساری زندگی خیر وبرکت کا باعث ہوتا ہے
امام احمد بن حنبلؒ نہر پر وضو فرما رھے تھے کہ ان کا شاگرد بھی وضوکرنے آن پہنچا، لیکن فورا ہی اٹھ کھڑا ھوا اور امام صاحب سے آگے جا کر بیٹھ گیا۔پوچھنے پر کہا کہ دل میں خیال آیا کہ میری طرف سے پانی بہہ کر آپ کی طرف آ رہا ھے۔مجھے شرم آئی کہ استاد میرے مستعمل پانی سے وضو کرے۔
اپنے سگے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے رسول اللہﷺ نے پوچھا کہ آپ بڑے ہیں یا میں؟(عمر پوچھنا مقصود تھا) کہا یارسول اللہﷺ بڑے تو آپ ھی ہیں البتہ عمر میری زیادہ ھے۔
مجدد الف ثانیؒ رات کو سوتے ھوئے یہ احتیاط بھی کرتے کہ پاں استاد کے گھر کی طرف نہ ھوں اور بیت الخلا جاتے ھوئے یہ احتیاط کرتے کہ جس قلم سے لکھ رہا ھوں اس کی کوئی سیاھی ہاتھ پر لگی نہ رہ جائے۔ادب کا یہ انداز اسلامی تہذیب کا طرہ امتیاز رہا ھے ۔
ہر رشتہ کا ادب بجا لائے
ہر رشتے کے ساتھ ادب سے پیش آنے والا بانصیب اور ادب سے پیش نہ آنے والا بے نصیب ٹھہرتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی بزرگ ہو سب کی عزت و احترام نوجوانوں پر لازم ہے۔ خواہ وہ بزرگ، ہمسایہ ہو یا کوئی اور۔ ہمارے بزرگوں میں ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی سے لے کر ہر وہ رشتہ شامل ہے جس نے آدمی سے انسان بننے میں مدد کی ہو۔ بزرگوں کی صحبت میں بیٹھ کر دل میں اللہ تعالی کی محبت، آخرت کی فکر پیدا ہوتی اور اعمال و اخلاق درست ہونے لگتے ہیں اور انسانیت سے پیار ہونے لگتا ہے۔
بزرگوں کے بغیر اصلاح ممکن نہیں مشکل ضرور ہے۔ بزرگوں کی دعائوں میں بڑا اثر ہوتا ہے۔ ہم اگر اپنے ارد گرد نظر ڈالیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ جو شخص بھی بزرگوں کی عزت و احترام کرتا ہے اس کو دنیا کی تمام نعمتیں ملتی ہیں۔ ادب ہی کی وجہ سے وہ دنیا میں کامیابی کی منازل طے کرتا ہے اور خوشحال زندگی بسر کرتا ہے۔ معمر افراد کا وجود معاشرے کے لئے باعث برکت اور صحت مند روایات کی اساس ہے، مگر افسوس نوجوانوں کا بزرگوں کے ساتھ ناروا سلوک دیکھ کر نہایت دکھ ہوتاہے۔
مسلمان تہذیبوں میں یہ معاملہ صرف والدین اور استاد تک ھی محدود نہ تھا بلکہ باقی رشتوں کے معاملے میں بھی ایسی ھی احتیاط کی جاتی تھی۔ وہاں چھوٹا، چھوٹا تھا اور بڑا، بڑا۔ چھوٹا عمر بڑھنے کے ساتھ بڑا نہیں بن جاتا تھا بلکہ چھوٹا ھی رہتا تھا۔ابن عمر جا رہے تھے کہ ایک بدو کو دیکھا۔ سواری سے اترے، بڑے ادب سے پیش آئے اور اس کو بہت سا ہدیہ دیا۔ کسی نے کہا کہ یہ بدو ہے تھوڑے پہ بھی راضی ھو جاتا آپ نے اسے اتنا عطا کر دیا۔ فرمایا کہ یہ میرے والد صاحب کے پاس آیا کرتا تھا تو مجھے شرم آئی کہ میں اس کا احترام نہ کروں۔اسلامی تہذیب کمزور ھوئی تو بہت سی باتوں کی طرح حفظ مراتب کی یہ قدر بھی اپنی اھمیت کھو بیٹھی۔ اب برابر ی کا ڈھنڈورا پیٹا گیا اور بچے ماں باپ کے برابر کھڑے ھوگئے اور شاگرد استاد کے برابر۔ جس سے وہ سار ی خرابیاں در آئیں جو مغربی تہذیب میں موجود ہیں۔اسلام اس مساوات کا ھرگز قائل نہیں کہ جس میں ابوبکر اور ابوجہل برابر ھو جائیں۔ ابو بکر ابوبکر رہیں گے اور ابو جہل ابو جہل رھے گا۔اسی طرح استاد، استاد رھے گا اور شاگرد، شاگرد۔ والد، والد رھے گا اور بیٹا، بیٹا۔ سب کا اپنا اپنا مقام اور اپنی اپنی جگہ ھے ان کو ان کے مقام پر رکھنا اور اس کے لحاظ سے ادب و احترا م دینا ھی تہذیب کا حسن ھے۔مغربی تہذیب کا مسلمان معاشروں پہ سب سے بڑا وار (شاید) اسی راستے سے ھوا ھے جب کہ مسلمان عریانی اور فحاشی کو سمجھ رھے ہیں۔ عریانی اور فحاشی کا برا ھونا سب کو سمجھ میں آتا ھے اس لیئے اس کے خلاف عمل کرنا آسان ھے جب کہ حفظِ مراتب اور محبت کے آداب کی اھمیت کا سمجھ آنا مشکل ھے اس لیئے یہ قدر تیزی سے رو بہ زوال ھے۔
اکثر بزرگ بڑھاپے میں اولڈ ایج ہوم کا سہارالیتے ہیں۔ ادھر بڑی تعداد میں بزرگ نظر آئیں گے۔ آج جو نوجوان ہیں کل ان پر بھی بڑھاپا آئے گا، معمر افراد بھی قوم کا سرمایہ ہیں۔ ان کے تجربات نوجوانوں کے لئے مشعل راہ ہوتے ہیں۔ اس طرح کہ ان کی زندگی کے تجربات نوجوانوں کو منتقل ہوتے ہیں۔ بزرگ ہمارے لئے باعث رحمت و برکت ہیں اور گھر میں کسی بزرگ کی موجودگی ایک انعام کی مانند ہے۔ چھوٹوں کے لئے سراپا محبت تو ہیں ہی لیکن ان کا تجربہ ہمارے لئے کسی خزانے سے کم نہیں۔ نوجوان زندگی کے ہرمعاملے میں والدین، اساتذہ کے علاوہ ان سے بھی رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ بزرگوں کے تجربات کی روشنی میں ان کے پاس ہر مسئلے کا حل ہوتاہے۔ بزرگوں کی باتوں پر اہمیت اور توجہ دیں۔
گفتگو میں ادب بڑے خیر کا باعث
ادب و احترام کے ساتھ ساتھ اپنی گفتگو پر بھی دھیان دینا چاہئے کیونکہ گفتگو ہی ایساذریعہ ہے جس سے کسی کے ذہنی معیار، قابلیت اور شخصیت کا اندازہو سکتا ہے۔ تمام لوگوں سے گفتگو کا اسلوب شائستہ، مہذبانہ، متوازن اور شیریں رکھیں۔ غیر شائستہ گفتگو منفی سوچ اور طرزعمل انسان کو ذہنی مریض بناتی ہے، مایوسی پیدا ہوتی ہیں، زندگی میں مثبت رویے اور مثبت سوچ اعلی اخلاقی کردار کو تخلیق کرتی ہے۔ اچھے رویے کی بدولت نہ صرف آپ گھر، معاشرے کو مثبت تبدیلی کی طرف لے جاتے ہیں؛ بلکہ قومی سطح پر ایک باوقار رویہ اپنانے سے ملک کی ترقی میں قابل ذکر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ نوجوان نسل معاشرے کے ہر فرد سے پیار کرے اور انسانیت کی خدمت کو اپناشعار بنائیں۔ بزرگوں، والدین، اساتذہ کی خدمت ہی اصل عبادت ہے۔
ماشاءاللہ بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ با ادب بانصیب،بے ادب بے نصیب۔