کسی کو حقیر نہ جانئے
خراسان کا بادشاہ شکار کھیل کر واپس آنے کے بعد تخت پر بیٹھا تھا۔تھکاوٹ کی وجہ سے اس کی آنکھیں بوجھل ہو رہی تھیں۔بادشاہ کے پاس ایک غلام ہاتھ باندھے مودب کھڑا تھا۔بادشاہ کو سخت نیند آئی ہوئی تھی مگر جب بھی اس کی آنکھیں بند ہوتیں تو ایک مکھی آ کر اس کی ناک پر بیٹھ جاتی تھی اور نیند اور بے خیالی کی وجہ سے بادشاہ غصے سے مکھی کو مارنے کی کوشش کرتا لیکن اس کا ہاتھ اپنے ہی چہرے پر پڑتا تھا اور وہ ہڑبڑا کر جاگ جاتا تھا۔جب دو تین دفعہ ایسا ہوا تو بادشاہ نے غلام سے پوچھا: تمہیں پتہ ہے کہ اللہ نے مکھی کو کیوں پیدا کیا ہے،اس کی پیدائش میں اللہ کی کیا حکمت پوشیدہ ہے۔۔؟ غلام نے بادشاہ کا یہ سوال سنا تو اس نے ایسا جواب دیا جو سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔غلام نے جواب دیا:”بادشاہ سلامت…!!!اللہ نے مکھی کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ بادشاہوں اور سلطانوں کو یہ احساس ہوتا رہے کہ وہ خود کو کہیں خدا نہ سمجھ بیٹھیں کیوں کہ وہ خود سے ایک مکھی کو بھی قابو نہیں کرسکتے۔” کہتے ہیں کہ بادشاہ کو اس غلام کی بات اتنی حکمت بھری لگی کہ اس نے اسے آزاد کر کے اپنا مشیر خاص مقرر کر لیا…
اللہ عزوجل نے ہر شخص کو یکساں نہیں بنایا، ہر شخص مماثل صلاحیتوں او ر لیاقتوں کا حامل نہیں ہوتا، لیکن ہر شخص ادنی شخص میں ، اس کے وجود میں اللہ کی کوئی حکمت اور کارسازی ضرور ہوا کرتی ہے ، اس لئے کسی شخص کو متکبر بننے اور دوسرے کو حقیر تک سمجھنے کی اسلام اور شریعت میں بالکل گنجائش نہیں ،ہر شخص تقوی وطہارت ، للہیت، مخلوق کی نفع رسانی کے لحاظ سے اللہ کے یہاں رتبہ کا حامل ہے ، ہر شخص کے ذاتی اعمال اللہ کے یہاں ناپنے اور تولے جاتے ہیں، کسی دوسر ے شخص کو حقیر تر ، کمتر ، مجبور تر سمجھنا یہ اللہ عزوجل کو بالکل گوارا نہیں ، انسان تو چھوڑیئے، ایذاء رسا جانوروں کی پیدائش میں بھی قدرت خداوندی کی جلوہ نمائی اوراس کی حکمت بالغہ کا پرتو موجود ہے ، گرچہ ہماری حقیر نگاہ یا متکبر نگاہ اس کو دیکھ نہ پائے ۔
نہیں ہے کوئی نکما زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
حقارت بڑی بری چیز ہے
کوئی مرد کسی مرد کو،کوئی عورت کسی عورت کو حقیر نہ سمجھے ،ہوسکتا ہے کہ جسے حقیر سمجھا جائے وہ حقیر سمجھنے والے سے اچھا ہو ؛ اس لیے کہ کسی کے دل کے حالات ،سوائے اللہ کے کسی کو نہیں معلوم ، بسا اوقات کسی کو حقیر سمجھتے ہیں؛ مگر اس کا تعلق اللہ سے بہت گہرا ہو تا ہے، جو بھی سالک کسی کو حقیر سمجھے گا ،وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا ؛ حتی کہ گنہ گارکو بھی حقیر نہ سمجھو، حضرت مسیح اللہ خان صاحب رحمۃاللہ علیہ فرمایا کر تے تھے کہ گناہ کو تو حقیر سمجھو؛ مگر گنہ گار کو حقیر نہ سمجھو ، پھر حضرت والانے مثال دی، جیسے بچے کو اگر پا خانہ لگ جا ئے، تو ماں اس بچے کو گندا نہیں سمجھتی؛ بل کہ اس کی نجاست کو براسمجھتی ہے۔کیا عمدہ مثال دی حضرت نے!! پھر فرمایا کہ ماں اس نجاست کو پیارومحبت سے صاف کرتی ہے ، اسی طرح اگرکسی انسان کو گناہ میں مبتلا دیکھو تو پیار ومحبت سے سمجھائو ، حقارت سے نہیں۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا دینی بھائی ہے لہذا مسلمان، مسلمان پر ظلم نہ کرے اس کی مدد و اعانت کو ترک نہ کرے اور اس کو ذلیل و حقیر نہ سمجھے پھر آپ نے اپنے سینے کی طرف تین دفعہ اشارہ فرما کر کہا کہ پرہیزگاری اس جگہ ہے نیز فرمایا کہ مسلمان کے لئے اتنی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو ذلیل و حقیر کرے یعنی کسی مسلمان بھائی کو ذلیل و حقیر کرنا بجائے خود اتنی بڑی برائی ہے کہ وہ کوئی گناہ نہ بھی کرے تو اسی کی ایک برائی کی وجہ سے مستوجب مواخذہ ہوگا۔ (اور یاد رکھو کہ ) مسلمان پر مسلمان کی ساری چیزیں حرام ہیں جیسے اس کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت و آبرو۔( مسلم)
اس کو ذلیل حقیر نہ سمجھے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی مسلمان کسی مسلمان بھائی کے عیب کو اچھال کر اور اس کی برائیوں کو لوگوں کے سامنے بیان کر کے ان کو رسوا اور بدنام نہ کرے اس کے ساتھ بدزبانی اور سخت کلامی نہ کرے اور کوئی مسلمان خواہ کتنا ہی غریب و محتاج ہی کیوں نہ ہو کتنا ہی ضعیف و نا تو اں اور کتنا ہی نامراد و خستہ حال ہو اس کا مذاق نہ اڑائے کیونکہ کسی کو کیا معلوم کہ جو مسلمان ظاہر طور پر نہایت خستہ حال ہے اور محتاج ہے وہ اللہ کے نزدیک اس کا مقام کیا ہے اور انجام و مال کے اعتبار سے وہ کس درجہ کا ہے اس حقیقت کو کسی صورت میں فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ جو بھی شخص لاالہ الا اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور اللہ کے رسول کا امتی ہے وہ عزت والا ہے اور قابل تکریم ہے کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا ” آیت ’’وللہ العزۃ ولرسولہ‘‘۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ الخ۔۔ لہذا کسی مومن کی عزت ایمانی کو کسی حال میں مجروح نہ کرنا چاہیے اور خصوصا مومن جن کے چہرے مہرے علم دین کی علامت اور عبادت الہی کا نور جھلکتا ہو ان کی تعظیم و توقیر کو بطریق اولی ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے اکثر لوگ اور خصوصا دنیا دار جو نفس کی ظلمت و غفلت میں مبتلا ہوتے ہیں عام طور پر فقرا و مساکین اور غریب وبے کس مسلمانوں کے وبال میں گرفتار رہتے ہیں کیونکہ وہ ان کو ذلیل و کمتر سمجھتے ہیں اور ان بیچاروں کے ساتھ انتہائی ترشی اور حقارت کا معاملہ کرتے ہیں اور نتیجہ کے طور پر مومن کو ذلیل و حقیر کرنے کا عذاب اپنے سر لیتے ہیں وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اللہ ان لوگوں کو دنیا میں بھی عزت و اقبال مندی سے نوازتا ہے اور آخرت میں بھی نجات عطا کرے گا جو اس کے غریب و مسکین اور ضعیف وبے کس بندوں کے ساتھ محبت و احترام کا برتا کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسکین وغربا کی محبت حاصل ہونے کی دعا مانگا کرتے تھے نیز آپ کو اللہ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا تھا کہ فقرا مسکین کی ہم نشینی اختیار فرمائیں جیسا کہ سورت کہف میں مذکور ہے۔ ” پرہیزگاری اس جگہ ہے ” کا مطلب یہ ہے کہ متقی یعنی وہ شخص جو شرک اور گناہوں سے اجتناب وپرہیز کرتا ہے اس کو کسی بھی صورت میں حقیر و کم تر نہیں سمجھنا چاہیے یا یہ مراد ہے کہ تقوی کا مصدور مخزن اصل میں سینہ یعنی دل ہے اور وہ ایک ایسی صفت ہے جو باطن کی ہدایت اور نورانیت سے پیدا ہوتی ہے اس صورت میں کہا جائے گا کہ ان الفاظ کا مقصد ماقبل جملہ کی تاکید و تقویت ہے اور مطلب یہ ہوگا کہ جو چیز کسی انسان کو معزز و مکرم بناتی ہے وہ تقوی ہے اور جب تقوی کا تعلق باطن سے ہے اور اس کی جگہ دل ہے جو ایک پوشیدہ چیز ہے کہ جس کو انسان ظاہری طور پر نہیں دیکھ سکتا تو پھر کسی مسلمان کو کیونکہ حقیر و ذلیل کہا جا سکتا ہے درآنحالیکہ اس کی حقیقت معلوم نہیں ہے کہ ایک بات یہ بھی کہی جا سکتی ہے کہ تقوی کی جگہ دل کو قرار دے کر اس طرف اشارہ فرمایا کہ جس کے دل میں تقوی ہو وہ کسی مسلمان کو حقیر و ذلیل نہ کرے کیونکہ کوئی بھی متقی کسی مسلمان کو ذلیل کرنے والا نہیں ہوسکتا یہ مراد اگرچہ بعض علما نے لکھی ہے لیکن پہلے معنی زیادہ صحیح اور زیادہ موزون ہیں۔ حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی مسلمان ایسا کوئی کام نہ کرے اور نہ اپنی زبان سے کوئی ایسی بات نکالے جس سے کسی مسلمان بھائی کی خون ریزی ہو یا اس کا مال تلف و ضائع ہو اور یا اس کی عزت و آبرو کو نقصان پہنچے۔ یہ حدیث اپنے الفاظ کے اختصار لیکن مفہوم و معنی کی وسعت کے اعتبار سے جوامع الکلم میں سے ہے اللہ کی طرف سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کو خصوصی عطیہ ہے۔ (مظاہر الحق ) ۔
حقیر سمجھنے کا انجام -ایک عبرت ناک حکایت
ابوعبداللہ اندلسی رحمہاللہ علیہ حضرت شبلی رحمہ اللہ علیہ کے ساتھیوں میں ہیں، حافظ ِحدیث تھے ،کئی ہزار احادیث یاد تھیں، وہ ایک مرتبہ کہیں جارہے تھے، راستے میں کچھ لوگ بتوں کی پوجا میں مصروف تھے، ان کو دیکھ کر دل میں ان کی حقارت آگئی اور دل دل میں کہنے لگے ،یہ تو جانور سے بد ترہیں ، بس اسی پر اللہ کی پکڑ شروع ہو گئی آگے بڑھے تو ایک لڑکی پر نظر پڑگئی، اس پر دل فریفتہ ہو گیا ، اس سے جا کر کہاکہ میں تیرے ساتھ رہنا چاہتا ہوں ، اس نے کہا کہ میرے والد سے بات کرو، انھوں نے اس لڑکی کے والد سے بات کی، تو اس نے کہا :میں دوشرطوں پر میری لڑکی سے تمھاری شادی کروں گا : ایک شرط یہ کہ تم عیسائی بن جائو، دوسری شرط یہ کہ میرے خنزیر ہیں،ان کو چرا نا ہو گا ، چوں کہ ان کا دل اس لڑکی کی طرف بہت مائل ہوچکا تھا ؛ اس لیے انھوں نے ان دوشرطوں کو قبول کرلیا اور عیسا ئی بن گئے، بہت دنوں بعد انکے پاس شبلی رحم اللہ علیہ آئے ، دیکھا کہ عیسائی بن گئے ہیں اور خنزیر چرا رہے ہیں، شبلی رحم اللہ علیہ نے کہا: تم کو کوئی آیت یاد بھی ہے ؟کہنے لگے کہ نہیں! صرف ایک آیت یاد ہے:(ومن یتبدلِ الکفر بِالِیمانِ فقد ضل سواء السبِیلِ)جو اپنے سچے دین کو بدل دے وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا) پھر شبلی رحم اللہ علیہ نے دریافت کیا کہ احادیث میں سے کچھ یاد ہیں؟ انھوں نے کہا کہ ہاں صرف ایک حدیث یاد ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’من بدل دِینہ فاقتلوہ ‘‘(جو مرتد ہو جا ئے اسے قتل کردو)۔(صحیح البخاری: ۲۷۹۴)
پھران پر اللہ کا فضل ہوا اور شبلی رحمہ اللہ علیہ نے سمجھا یا تو دوبارہ اسلا م لا ئے ،اس واقعے میں آپ غورکریں تو معلوم ہو گا کہ ان کو یہ سزا مخلوق کی حقارت کرنے پر ملی ، حالاں کہ انھوں نے کافروں کو حقیر سمجھا تھا ، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کافروں کو بھی حقیر نہیں سمجھنا چاہیے؛بل کہ ان کے گناہ کو حقیر سمجھنا چاہیے ۔
واعظین اپنے کو بڑا نہ سمجھیں
فرمایا:آج لوگ وعظ ونصیحت کرکے اپنے آپ کو بڑا اور مخلوق کو حقیر سمجھتے ہیں، یہ بڑی غلط بات ہے۔حضرت تھانوی رحمہ اللہ علیہ جو اپنے زمانے کے حکیم الامت مانے جاتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ جب میں کسی کو وعظ کہتا ہوں یا نصیحت کرتا ہو ں، تو اپنے آپ کو یوں سمجھتا ہوں کہ بادشاہ نے حکم دیا ہے کہ شہزادے کو یہ بات سنادو۔
بہت بڑی بات فرمائی حضرت رحمہ اللہ علیہ نے ، جو انسان سامعین کوشہزادہ تصور کرے وہ ان کو حقیر کیسے سمجھ سکتا ہے؟ اس لیے کہ بادشاہ کسی خادم کے ذریعے شہزادے کو کوئی بات کہلوائے تو خادم شہزادے سے بڑا نہیں ہوجا تا ؛ مگر افسوس ہے کہ واعظین آج لوگوں کو حقیر سمجھتے ہیں اور ان کے لیے نامناسب القاب استعمال کرتے ہیں؛ اصلاح کی ضرورت ہے ۔
موسی سے فائق ، فرعون سے سے گئے گذ رے
ایک بزرگ کسی بادشا ہ کو زور زور سے ڈانٹنے لگے ، تو اس نے کہا: حضرت ! آپ موسی علیہ السلام سے بڑے نہیں ہیں اور میں فرعون سے گھٹیا نہیں ہوں، جب اللہ نے موسی علیہ السلام جیسے نبی کو فرعون جیسے کا فر کے پاس بھیجا تھا ، تو اس سے بھی نرمی سے بات کرنے کی ہدایت دی تھی:(فقولا لہ قولا لیِنا لعلہ یتذکر اویخشی)(طہ : ۴۴) آپ مجھے اتنی شدت وسختی سے کیسے کہہ سکتے ہیں ؟کیا میں فرعون سے بھی گیاگزرا ہوں اور آپ موسی علیہ السلام سے بھی فائق ہیں؟!!
خبردار ! کسی کو حقیر مت سمجھو
کسی کے نام پر ، کسی کے اعمال پر ، کسی کے لقب پر کسی کی ظاہری حالت پر ہرگز تحقیر نہ کرنا چاہئے ، آج کل یہ مرض عام ہوگیا ہے کہ اکثر لوگ دوسروں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اپنی مطلق فکر نہیں ، میں چاہتاہوں کہ ہر شخص اپنی فکر میں لگے توبہت جلد سب کی اصلاح ہوجائے ، اور بہت سے عبث اور فضول سے نجات ہوجائے ، کبھی کسی کی تحقیر نہیں کرنا چاہئے بلکہ ہرشخص کے متعلق بدرجہ احتمال یہ اعتقاد رہنا چاہئے، کہ ممکن ہے کہ اس میں خدا کے نزدیک کوئی بات ہم سے بہتر ہو ۔(ملفوظات حکیم الامت صج ، ج )
فرمایا : اگرکسی کا ایک عیب مجھے معلوم ہوتا ہے تو اسی وقت مجھ کو اپنے دس عیب پیش نظرہوجاتے ہیں ، کانے پروہ کیا ہن سے جس کی دونوں پٹ ہوں ( یعنی اندھا ہو ( کمالات اشرفیہ )
مردمسلم کا مقام مسجد اور خانہ کعبہ سے بھی افضل ہے
ایک مرتبہ ایک اعرابی نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مسجد نبوی میں پیشاب کرنا شروع کردیا صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کو گھورا اور دھمکانا چاہا حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کا پیشاب قطع نہ کرو ، سبحان اللہ کیسی حکمت کی بات ہے ، اس کے لئے کہ یاتو وہ روکتا یا بھاگتا ، روکنے پر تو اس کو سخت تکلیف ہوتی اور بھاگنے سے مسجد اور زیادہ خراب ہوتی جب وہ باطمینان پیشاب کر چکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈول اس جگہ بہا دینے کا حکم صادر فرما دیا کہ یہ مسجد اللہ کا گھر ہے اس میں عبادت کی جاتی ہے ، اس کو ناپاکی سے ملوث نہیں کرنا چاہئے ۔
اس حدیث سے یہ بات بھی سمجھنی چاہئے کہ مسلمان کی وقعت خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک مسجد سے زیادہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسلمان کی رعایت مسجد سے زیادہ فرمائی ۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ آپ نے خانہ کعبہ کو خطاب کرکے فرمایا کہ توبہت عظمت والا ہے ، مگر مومن اللہ کے نزدیک تجھ سے بھی زیادہ اکرم ( عزت والا ) ہے ۔ (رواہ الطبرانی بسند حسن )
توجب مومن کعبہ سے افضل ہے تو دوسری مساجد سے تو یقینا افضل ہے ، چونکہ پیشاب روکنے میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی بیماری اور تکلیف کا اندیشہ تھا اس لئے مسجد کے ملوث ہونے کی پروانہ فرمائی ۔(الدین الخالص)
مرد مسلم ومومن کے ساتھ ہماراغلط رویہ
آج یہ حالت ہے کہ مومن کی تذلیل کرتے ہیں اور افسوس تویہ ہے کہ غیر قومیں مومن کی اتنی تذلیل نہیں کرتیں جتنی یہ نئی روشنی والے غریب مسلمانوں کی تحقیر کرتے ہیں ، خاص ہماری قوم میں جو ایک طبقہ ذراکھاتے پیتے لوگوں کا ہے وہ لوگوں کو بدتہذیب کہتے ہیں اور ان کو چوپاوں ( جانوروں ) سے بدتر سمجھتے ہیں اور پھر مسلمان کہلاتے ہیں اور اپنے آپ کو خیرخواہ قوم کہتے ہیں بس ان کا یہی جواب ہے ۔
’’ قل بِئسمایا مرکم بِہ اِیمانکم اِن کنتم مومِنِین ‘‘۔آپ فرما دیجئے کہ یہ افعال بہت برے ہیں جن کی تعلیم تمہارا ایمان تم کو کر رہا ہے
ہرکس ازدست غیرنالہ کند
سعدی زدست خویشتن فریاد
ہرشخص غیروں کا شاکی ہے اور ان سے نالاں مگرسعدی کو اپنوں ہی کی شکایت ہے ۔ ((الدین الخالص )
اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا احترام وتقدس بجالائے آ، ان پڑھ جاہل گنوار ، شرابی کبابی سے کر کسی کو حقیر سمجھنے کی شرعا اجازت، یہ عمل نہایت حقیر ہے ، یہ تکبر ، گھمنڈ ، جلن حسد پیدا کرتاہے ،۔اس سے معاشرہ میں پھوٹ پیدا ہوتی ہے