اسلامیاتمفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

خدا کی راہ میں دینا ہے اپنے گھر کو بھر لینا

اللہ عزوجل کے یہاں اللہ کے راہ میں خرچ کرنے کی اہمیت وافادیت اتنی ہے جتنا دیگر اعمال کی، یہی وجہ ہے کہ اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں انفاق فی سبیل اللہ کو مختلف جگہوں میںنماز کی ادائیگی کے فی الفور بعد ذکر کیا ہے ، جہاں اللہ عزوجل نیکوکاروں کو نماز قائم کرنے کا حکم دیا ہے اس کے متصلا ہی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا بھی حکم دیا ہے ، گویا کہ نماز قائم کرنا اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنا یہ لازم وملزوم ہیں، اس حوالے سے اس قدر آیات ہیںکہ جس کے ذکر سے خود بخود انفاق فی سبیل اللہ (اللہ کے راہ میں خرچ کرنے ) کی اہمیت اجاگر اور واضح ہوجاتی ہے ۔
(۱) ذلک الکتاب لا ریب فیہ ، ہدی للمتقین، الذین یؤمنون بالغیب ویقیمون الصلاۃ ومما رزقناہم ینفقون ‘‘ (البقرۃ: ۱۔۳)الف لام میم یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہدایت ہے ان پرہیز گار لوگوں کے لیے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
(۲) وسارعوا إلی مغفرۃ من ربکم وجنۃ عرضہا السماوات والأرض أعدت للمتقین ، الذین ینفقون فی السراء والضراء والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس ، واللہ یحب المحسنین‘‘ ( آل عمران: ۱۳۳۔۱۳۴)
دوڑ کر چلو ا س راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے، اور وہ ان خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بد حال ہوں یا خوش حال، جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔
(۳) إنما المؤمنون الذین إذا ذکر اللہ وجلت قلوبھم وإذا تلیت علیہم آیاتہ زادتھم ایمانا وعلی ربھم یتوکلون، الذین یقیمون الصلاۃ ومما رزقناھم ینفقون،اولئک ہم المؤمنون حقا، لھم درجات عند ربھم ومغفرۃ ورزق کریم ‘‘ (سورۃ الأنفال : ۲، ۴)
سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں ان کے لیے ان کے رب کے پاس بڑے درجے ہیں قصوروں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے۔
(۴) والذین صبروا اتبغاء ربھم وأقاموا الصلاۃ وأنفقوا مما رزقناھم سرا وعلانیۃ ویدرء ون بالحسنۃ السیئۃ ، اولئک لھم عقي الدار‘‘ (سورۃ الرعد: ۲۲)
ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے علانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں، اور برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں آخرت کا گھر انہی لوگوں کے لیے ہے۔
(۵) اس طرح ایک آیت اللہ عزوجل خرچ کرنے والے اور ان کے خرچ کرنے پر اس کے اضافی ثواب کی مثال کو واضح کرتے ہوئے یوں فرمایا:
’’مثل الذین ینفقون فی سبیل اللہ کمثل حبۃ أنبتت سبع سنابل فی کل سنبۃ مائۃ حبۃ، واللہ یضاعف لمن یشاء، واللہ واسع علیم ‘‘(سورۃ البقرۃ: ۲۶۱)جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں، ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں اِسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے، افزونی عطا فرماتا ہے وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔
اسی طرح دیگر آیات ہیں جس میں نماز کے ساـتھ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا بھی ذکر آیا ہے ، یعنی مؤمن اور مسلمان نماز ہی کی طرح اللہ کی راہ میں اپنی وسعت بھر خرچ کو بھی اہمیت دیتا ہے ، ملاحظہ کیجئے دیگر آیات (سورہ ابراہیم : ۳۱، سورۃ الحج: ۳۴، ۳۵، سورۃ السجدۃ:۱۶، سورۃ فاطر: ۲۹، سورۃ الشوری : ۳۸، سورۃ آل عمران : ۱۵، ۱۷، سورۃ الأحزاب: ۳۵، سورۃ البقرۃ: ۱۹۵، سورۃ البقرۃ : ۲۱۵،سورۃ البقرۃ: ۲۶۲، سورۃ النساء: ۳۸، ۳۹، سورۃ البقرۃ: ۲۶۵،سورۃ البقرۃ: ۲۶۷، سورۃ البقرۃ: ۲۷۱، ۲۷۰، سورۃ البقرۃ: ۲۷۲، سورۃ البقرۃ: ۲۷۳، سورۃ البقرۃ: ۲۷۴، سورۃ البقرۃ: ۲۷۶، سورۃ آل عمران: ۹۲، سورۃ الانفال: ۶۰، سورۃ سبا: ۳۹، سورۃ التوبۃ : ۳۴، ۳۵، سورۃ التوبۃ : ۹۹، سورۃ النحل: ۷۵، سورہ فاطر: ۲۹، سورہ محمد: ۳۸، سورۃ الحدید: ۷، سورہ یوسف : ۸۸، سورہ الحدید : ۱۸، سورۃ الحدید : ۱۰، سورۃ المنافقون: ۱۰، ۱۱، سورۃ التغابن : ۱۶، سورۃ الطلاق: ۷، سورۃ التوبہ : ۹۱،)
اس کے علاوہ آیات ہیں جن میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی اہمیت وافادیت کو بتلایا گیا ہے ، یہ عمل اللہ کو بے انتہا محبوب اور پسندیدہ عمل ہے ، خصوصا جب ساری دنیا اس بڑی وبا اور بیماری میں مبتلا ہے، َاور صدقہ بلاؤں کو ٹالتا ہے ، اللہ کے غصہ کو ٹھنڈا کرتا ہے ، ان حالات سے اگر انسانیت چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہے ، اللہ کی رضا جوئی کی متلاشی ہے اور اس بیماری کے خاتمہ کا ارادہ ہے ، تو خصوصا ایسے حالات میں انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے ، انسانیت لاؤک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں میں محصور ومحبوس ہے ، نہ چاہتے ہوئے بندش میں ہے ، کیوں کہ بیماری ہی اتنا بھیانک ہے کہ اس کے سوا اس کا کوئی چارہ کار نہیں ، خلق خدا جو کہ در حقیقت ’’کنبہ خدا‘‘ ہے ، اس کی دیکھ ریکھ ان کو کھلانا اور پلانا اور ان کی نگہداشت کرنا اور ان کے حال پر رحم کرنا اورا سکے ساتھ احسان کرنا ان پر خرچ کرنا اور ان کی بھوک اور پیاس کا سامان کرنا یہ در حقیقت اللہ کو راضی کرنا اور اس کی خوشنودی سے تعلق رکھتا ہے ، ایسے حالات میں جن کو اللہ نے اپنے فضل سے عطا کیا ہے ، مخلوق خدا کی خوب خدمت کی ہے ، میں خود بھی ایک سلم اور نہایت پسماندہ بستی میں رہتا ہوں ، مزدور پیشہ لوگ رہتے ہیں، روزانہ کی کمائی پر ان کا گذر بسر ہوتا ہے ، ایسے میں ان کی بھوک وپیاس کا سامان کرنا در حقیقت خدا کی رضاجوئی کو حاصل کرنا ہے اور مصیبت اور بلیات کو دور کرنے کا ذریعہ ہے ، واقعۃ لوگوں نے خوب اللہ کی راہ میں خرچ بھی کیا ہے ، خرچ کرتے بھی رہنا چاہئے، جس طرح پہلی دفعہ میں نے سلم بستیوں میں لوگوں کو آکر اناج وغیرہ تقسیم کرتے ہوئے دیکھا ہے ، ان حالات میں ان خرچ کرنے والوں اور اللہ کی رضاجوئی کے طالب لوگوں کا بڑا دخل ہے ، اگر غریبوں کے چولہے جل رہے ہیں اوران کے گھر میں بھوک اور پیاس کا سامان ہے تو واقعۃ ان خرچ کرنے والوں کی وجہ سے ، یقینا یہ لوگ تعریف کے مستحق ہیں، لوگوں نے نہ صرف اپنی طرف سے ، انفرادی طور پر ؛ بلکہ اجتماعی شکل میں بھی لوگوں کے بھوک وپیاس کا خوب سامان کیا ہے ۔
قابل تعریف ہیں مسلمان کہ انہوں نے اس حوالہ سے اپنی خوب داد ودہش کا دروازہ وا کیا ہے ، غیر مسلم سلم بستیوں میں بھی خوب تقسیم کیا ہے ، اسلام کی حقانیت اور صداقت اور مسلمان کے صحیح رخ کو دیکھنا اور اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنا ہے تو اس سے بڑھ کر اور کوئی موقع نہیں ہوتا کہ غیروں کو قریب کرنے ، اسلام سے مانوس کرنے کے لئے ان پر بھی خرچ کیاجائے ، بعض احباب نے ونستھلی پورم وغیرہ کے علاقہ میں بھی غریب ، مزدور پیشہ غیر مسلموں میں مسجد کے احباب سے گذارش کر کے ان پر تقسیم کی اطلاع دی ، تمام کار خیر اور نسانیت کے کام کرنے والی تنظیموں نے اوران کے معاونین خوب کام کیا، یہ سلسلہ تھا کہ جس کی وجہ سے روزہ مرہ کی سطح پر کام کرنے والے مزدور پیشہ لوگوں کی بھوک وپیاس کا ساما ن ہوسکا، حکومتیں بھی اپنی سطح پر کچھ کر رہی تھیں، لیکن اس سے کام چلنے والا نہیں تھا، لیکن بہی خواہ، ملت اور انسانیت کا درد رکھنے والے افراد اور تنظیموں اور ان کے معاونین نے جو خدمات انجام دی ہیں ، وہ نہایت قابل تعریف ہیں۔
بلکہ اس سے بڑھ رفقاء اور احباب نے بھی ایک دوسرے کے احوال دریافت کئے ، ایک دوسرے کے غم کو پاٹا، اس صورت حال نے انسانیت کو ایک دوسرے سے قریب کیا، یہی وجہ ہوتی ہے کہ ایک چیز میں شر ہوتا ہے ، اس کا ایک خیر کا پہلوبھی اجاگر ہوکر آجاتا ہے ۔
بڑی تنظیموں نے بھی خوب انسانیت کی خدمت انجام دی، اس وقت میں اگر دوشہر حیدآباد کی دو بڑی تنظیموں کو اور ان کی خدمات اورا نسانیت کے لئے ان کے کاز کا ذکر نہ کروں تو بڑی ناسپاسی ہوگی، ایک ’’صفابیت المال‘‘ کی جانب سے بھی محلہ وار ، سلم بسیتوں کی سطح پر ہر جگہ انسانیت کی خدمت کے روزانہ مظاہرے نظر آرہے ہیں، بلا تفریق مذہب وملت کے انسانیت کی بنیاد پر محلہ محلہ بستی بستی گھوم گھوم کر صفا بیت المال کے نمائندے غریب اور روزہ مرہ مزدور پیشہ عوام میں اپنے وسعت بھر خدمت کررہے ہیں، میں ذاتی طور پر یہ بتانا چاہوں کہ اپنی بستی میں میں نے مولاناغیاث احمد رشادی صاحب مدظلہ العالی کو اپنی ہاتھوں سے غریب عوام میں راشن تقسیم کرتے دیکھا، اطراف واکناف کے گھروں کے لئے مولانا سے میں نے بھی مطالبہ کیا کہ انسانیت کی بنیاد پر راشن کی تقسیم کا عمل میرے گھر کے اطراف میں بھی ہو، مولانا نے بڑی خوش دلی اور نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ اس کو قبول کیا اور میرے گھر کے اطراف واکناف میں بھی راشن کی تقسیم عمل میں آئی، بلکہ مولانا انسانیت کی جو خدمت کررہے ہیں، بذات خود شریک کار ہو کر ہر جگہ راشن اور اجناس کی تقسیم کا عمل روازنہ کی سطح پر سلم بستیوں میں جاری ہے ، یہ ان کے ان کے معاونین اور عملہ کے لئے روزے آخرت کا ذریعہ اور اسلام کی سچی اور تصویر پیش کرنے کا ذریعہ ہوگا، انشاء اللہ، اسی طرح دوسری تنظیم ’’تحفظ ختم نبوت ‘‘ کے لوگوں کو بھی میں نے پوری مکمل وادی مصطفی کی بستی میں مولانا ارشد صاحب قاسمی کی نگرانی میں گھر گھر راشن اور ترکاری تقسیم کرتے ہوئے دیکھا ہے ، یہ علماء جو خدمات اس سطح پر انجام دے رہی ہیں، یہ خود اسلام اور علماء کے حوالہ سے جو شبیہ پیش کی جاتی ہے ، اس کے ازالہ کے انشاء اللہ معاون ہوگا، میرا مقصود ان تنظیموں کے ذکر سے دیگر تنظیموں کی اہمیت کو کم کرنا نہیںبلکہ ان کو میں نے اپنی آنکھوں سے ہماری بستی میں بلا کسی تفریق مذہب وملت کے انسانیت کی بنیاد پر اجناس ، ترکاری اور راشن کے تقسیم کرتے ہوئے دیکھا ہے ،اللہ ان علماء اور معاونین اور کارندوں کی خدمات کو خوب قبول فرمائے ، دنیا وآخرت میں ان کو خوب جزائے خیر عطاء فرمائے ، آج غریبوں کے چولہے جل رہے ہیں تو انہیں بہی خواہ، خیر خواہ، داد ودہش کرنے والوں کی وجہ سے ۔
لیکن چند چیزیں ہیں جن کی جانب خصوصا توجہ دینے کی ضرورت ہے :
۱۔خرچ کرنے کا یہ عمل کوئی معمولی عمل نہیں ہے ، یہ اللہ کی رضاجوئی کا عمل ہے ، اس لئے اس حوالے سے خوب اپنی وسعت پر خدمات انجام دیں، یہ انسانیت کے لئے تڑپنے اور ترسنے کا ایک موقع ہے ، ورنہ تو تقریبا عوام اپنے کاموں پر ہوتی ہے ، اس لئے ہر شخص اپنی وسعت کے مطابق اپنے پڑوسی کا خیال رکھے، یا کسی ادارہ یا تنظیم کو اس جانب متوجہ کرے ؛ تاکہ کوئی پڑوسی بھوکارہنے نہ پائے ۔
۲۔خرچ کرنے میں ریاکاری نہ ہو، دکھلا نہ ہو، اللہ کی رضاجوئی مقصود ہو، کیوںکہ ریاکاری کے ساتھ ، احسان جتلانے کے ساتھ ، باربار عمل کرکے دہرانے کے ساتھ،اس کا تذکرہ بار بار کرنے کے ساتھ اس عمل کی اہمیت نہیں رہ جاتی ، وہ عمل مقبول عمل نہیں رہ جاتا، اللہ اہل خیر کو متوجہ کرنے کے لئے اگر تصویر کشی کی جاتی ہے ، ریاء مقصود نہ ہوتو اس کی گنجائش ہوسکتی ہے ۔
۳۔متمول اوراہل ثروت حضرات کو خصوصا خرچ کرنے کے فضائل کا علم ہونا چاہئے، بڑی اہمیت والی چیز ہے ، اس حوالے سے آیات واحادیث کا علم ہو، یہ پیش نظر رہے کہ یہ کمایا ہوا میرا خود اپنا نہیں ہے ؛ بلکہ اللہ عزوجل نے زکوۃ وصدقات اور انفاق فی سبیل اللہ کی شکل میں اس میں مجبوروں محتاجوں کا بھی حصہ رکھا ہے ، عقل وسمجھ، ادراک وفطانت، ہنرمندی ساری اللہ کی عطا کردہ ہیں، اس لئے اس میں میرا کوئی کمال نہیں، اس لئے اللہ کے حکم پر مجھے اللہ کی راہ خرچ کرنا ہے ، در اصل یہ عمل میرے لئے نہ صرف میری دنیوی صلاح وفلاح کا باعث ہے ، بلکہ ذخیرہ آخرت بھی ہے ۔
۴۔ویسے بھی رمضا ن المبارک کی آمد آمد ہے ، کار خیر میں خرچ اورانفاق فی سبیل اللہ اور اللہ کے راہ میں دینے ، روزہ داروںکا خیال ان کی خبر گیری ، افطار کی اہمیت وفضیلت احادیث کریمہ میں بے شمار آئی ہے ، بلکہ ایک گھونٹ پانی یا کھجور سے افطار کرنے کرانے پر بے شمار اللہ کے انعامات واکرامات کو بتایا گیا ہے ۔
۵۔ اس موقع سے خصوصا مساجد مصلیوں سے خالی ہیں، اس موقع پر ائمہ ، مؤذنین اور خطباء کی رعایت ، ان کی نگہداشت اور ا ن کے امور کی دیکھ ریکھ یہ بڑا عمل ہے ، ان کی رعایت کی کیجئے ، ان کی خدمت کیجئے ، ان کے خیر گیری کیجئے اور ان کے لئے دامے درمے مدد کیجئے ، تاکہ یہ طبقہ جو مسجدوں کو آباد رکھتا ، نمازوں اور أذانوں کا ذمہ دارجو کو اللہ عزوجل نے یہ کہا ہے ، یہ لوگ اللہ کے کام میں لگے ہوتے ہیں، جن کے حوالہ سے ارشاد خداوندی ہے : ’’للفقراء الذین احصروا فی سبیل اللہ، لا یستطیعون ضربا فی الارض ، یحسبھم الجاہل أغنیاء من التعفف تعرفہم بسیماہم ، لا یسألون الناس الحافا، وما تنفقوا من خیر ، فإن اللہ بہ علیم ‘‘ (البقرۃ: ۲۷۳) ۔
یہ خیرات) ان فقیروں کے لیے جو رکے ہوئے ہیں اللہ کی راہ میں،وہ طاقت نہیں رکھتے چلنے پھرنے کی (اپنے معاش کے لیے) زمین ،گمان کرتاہے ا نہیں ناواقف مالدار،نہ مانگنے کی وجہ سے آپ پہچان سکتے ہیں ا نہیں ان کے چہروں سے نہیں وہ سوال کرتے لوگوں سے لپٹ کر اورجومال تم خرچ کرو گے (خیرات کے طور پر) تویقینا اللہ اس کو خوب جاننے والاہے۔
بلکہ یوں کہیئے کہ اللہ نے ان کا تعارف کروایا ہے، اس لئے ان کا خیال کیجئے ۔
۶۔ اس کے علاوہ اس موقع مدارس کو ہر گز نہ بھولئے ، یہ مدارس دین کے قلعے ہیں، جسمانی بھوک اور پیاس کا نظم اگر کھانے سے ہوتا ہے تو روحانی بھوک اور پیاس کا علاج دین ، قرآن وسنت اور ذکر اللہ ہوتا ہے ، اس لئے خصوصا اس موقع سے مدارس کا خیال کیجئے، ورنہ پھر یہ رمضان جس میں مدارس کے سالانہ اخراجات کی تکمیل ہوتی تھی، ویسے بقرعید کی کھال کی قیمت کم کرکے مدارس کے اخراجات کو بوجھل کیا گیا ، اس لئے اہل مدارس کا بھی خوب خیال کیجئے، ورنہ ہماریں نسلیں آئندہ چل کر نہ صرف دین اسلام سے بیزار ہوجائیںگی، بلکہ اس سرزمین پر اللہ کے نام لینے والے بھی باقی نہ رہیںگے، پھر اللہ کے یہاں ہم منہ دکھانے کے قابل نہ بچیں گے ۔
یہ اللہ کے راہ میں خرچ کے حوالے سے چند ایک رہنمایانہ خطو ط اورہدایات ہیں، اللہ عزوجل ہمیں عمل کی توفیق دے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×