اسلامیاتسیاسی و سماجیمفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

نکاح میں لڑکی کا انتخاب- شرعی ہدایات وضوابط

آج کل سماج اور معاشرے میں نکاح کے بعد زوجین کی زندگی اجیرن بنتی جارہی ہے ، نکاح ٹوٹ رہے ہیں، مزاج نامناسبت اور عدم توازن اور شرعی ہدایت واصول کی عدم پاسداری کی وجہ سے سماج اور معاشرے کے تانے بانے بکھر رہے ہیں، شادی کے بعد کی زندگی دو بھر ہوتی جارہی ہے ، علم کی ترقی تو خوب ہورہی ہے ، لیکن جو علم معاشرتی زندگی میں سدھار نہ لاسکے، جو مالداری زوجین کے بندھن کومضبوطی سے باندھ کر نہ رکھے ، جو خوبصورتی دونوں کو آمادۂ غرور کر کے زوجین کے خصوصی تعلق کے درمیان حائل ہوجائے ، اس سے سماج اور معاشرہ نہیں پنپ نہیں سکتا، طلاق کی شرحیں بڑھتی جارہی ہیں۔ اس لئے ان شرعی ہدایات واصول کی پاسداری ضروری ہے جس سے زوجین کے تعلق سے ایک صحیح سماج اور معاشرہ وجو د میں آئے ۔لڑکی کے انتخاب کے تعلق سے چند شرعی ہدایات پیش نظر ہوں تو پھر زندگی مطلوبہ زندگی بن سکتی ہے ، آپس میں نباہ ہوسکتا ہے ، ان کے وجود سے ایک صحیح سماج اورمعاشرہ وجود میں آسکتا ہے ۔
نکاح کیلئے عورت کے انتخاب میں شرعی ہدایات وضوابط کا پاس ولحاظ کیا جائے ، سب سے پہلی چیز جو لڑکی کے انتخاب میں وجہِ ترجیح بن سکتی ہے اور شریعت نے جس پر سب سے زیادہ زور دیا ہے ،وہ ’’دینداری‘‘ہے ۔
نبی کریم انے ارشاد فرمایا : عورت سے چار چیزوں کی وجہ سے شادی کی جاتی ہے ، اس کی مالداری کی وجہ سے ، حسب ونسب کی وجہ سے ، خوبصورتی کی وجہ سے ، اور اس کی دینداری کی وجہ سے ، پس دینداری کو لے کر کامیاب ہوجاؤ ’’ فاظفر بذات الدین تربت یداک ‘‘ (بخاری:کتاب النکاح، باب الأکفّاء فی الدین،حدیث:۴۸۰۲)
٭ عورت سے نکاح محض اس کی مالداری ، اس کے صاحب ِجائیداد ، شاندار کوٹھیوں والی اور اس کے بے انتہا مال ودولت کی وجہ سے نہ کیاجائے ، بظاہر عورت کی مالداری کی وجہ سے مرد یہ سونچتا ہے کہ زندگی فکروں سے آزاد ، مزے سے بھر پور، طمانینت وسکون کے ساتھ گذرے گی ؛ بلکہ یہ چیزیںبسا اوقات مزید اس کے چین وسکون کو غارت کروادیں گی؛ چونکہ مالدار عورت شوہر کو کوئی حیثیت نہیں دے گی ، اس کا کوئی احترام نہیں کرے گی ، اس کے اپنے مال ومتاع اورساز وسامان پر اس کو ناز ہوگا ، وہ شوہر کو محض اپنے سامان کا رکھوالی اورمنتظم اور منیجر سمجھے گی اور یہ چیز شوہر اور بیوی کے درمیا ن جھگڑے ،اور فتنہ وفساد بپا کرے گی ، جس کے برے اثرات اولاد پر مرتب ہوں گے ؛ اس لئے نبی کریم انے فرمایا: ’’لا تُزوّجھنّ لأموالھنّ فعسیٰ أموالھنّ أن یطغیھنّ ‘‘ (ابن ماجہ: کتاب النکاح: باب تزویج ذات الدین، حدیث: ۱۸۵۹)
٭ ایسے ہی محض حسب ونسب کو لڑکی کے انتخاب کا معیار نہ بنایا جائے ؛ بلکہ ذاتی صلاحیت واستعداد کو بھی پیش ِنظر رکھے ، اگر محض نسب وحسب اور نسلی امتیاز کا خوب لحاظ ہو، اور دینداری نہ ہو تو یہ نسلی امتیاز بھی عورت میں غرور وتکبر پیدا کرے گا ، جو مرد کی قوامیت (بڑے پن ) کو مجروح کرے گا ؛ اس لئے نبی کریم ا نے فرمایا : ’’ولٰکن تزوّجوھنّ علی الدین ولأمۃ خرقاء سوداء ذات دینٍ أفضل‘‘( ابن ماجہ: کتاب النکاح: باب تزویج ذات الدین،حدیث: ۱۵۸۹) لیکن تم عورتوں سے ان کی دینداری کی وجہ سے نکاح کرو ، یقینا کان کی کٹی ، کالی دیندار باندی مالدار حسین عورتوں سے بہتر اور افضل ہے۔
٭ ایسے ہی محض حسن وخوبصورتی ، ناک ونقشہ ، جسم کی ساخت وبناوٹ، دلکشی ورونق اور رنگ وروپ پر نگاہ نہ ہو ؛ بلکہ اس جگہ بھی دینداری کو پیش ِنگاہ رکھیں ؛ چونکہ بغیر دینداری اور اخلاق کے محض حسن یہ لڑکی میں سرکشی اور غرور کی صفت پیدا کردے گا جو بالآخر شوہر اور بیوی کے درمیان ناچاقی کی وجہ بن جائیگا ، اگر دیندار ی کے ساتھ حسن بھی ہو تو سونے پر سہاگہ ، حضور ا کا اس حوالے سے ارشاد گرامی ہے : ’’ لا تُزوّجوالنساء لحسنھنّ فعسٰی حسنھنّ أن یُردیھنّ‘‘ (۱)
ایک موقع سے نبی کریم انے فرمایا : جسے نیک بیوی ملی اسے دنیاوآخرت کی ساری بھلائی مل گئی ، حضرت ابن ِعباسص سے مروی ہے کہ آپ انے فرمایا : چار چیزیں ایسی ہیں جس کویہ چیزیں مل گئیں تو اس کو دنیا وآخرت کی بھلائی حاصل ہوگئی :
۱- شکر گذار دِل
۲- ذکر کرنے والی زبان
۳- ایسا بدن جو ہر مصیبت پر صبر کرتاہو
۴- ایسی بیوی جو شوہر کے حق میں اپنی ذات ونفس اور اس کے مال میں برا نہ چاہتی ہو۔
’’ زوجۃ لا تبغیہ حوبًا فی نفسھا ومالھا ‘‘ (ابن ماجہ:کتاب النکاح: باب تزویج ذات الدین، حدیث: ۱۸۵۹)
حضرت ابراہیم ں کی بہو
جب حضرت ابراہیم ں نے اپنی اہلیہ ہاجرہ اور ان کے لڑکے اسماعیل ں کو مکہ میں رکھ چھوڑا ، تواسماعیل ں وہاں پلے بڑھے اور جوان ہوئے تو انہوں نے وہاں کے لوگوں میں سے ایک عورت سے شادی کرلی ، حضرت ابراہیم ں ایک مدت کے بعد اپنے لڑکے اسماعیل ںسے ملاقات کیلئے آئے،حضرت اسماعیل ں اس وقت موجودنہ تھے ، ان کے بارے میں ان کی اہلیہ سے دریافت کیا تو اس نے کہا : وہ تلاشِ رزق میں گئے ہوئے ہیں پھر ان سے حضرت ابراہیم ںنے ان کی زندگی اور احوال کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے کہا:’’ نحن بشر فی ضیق وشدۃ ‘‘ہم نہایت تنگی اور تنگ حالی میں ہیں ، اس نے اس طرح شکایت کی ،حضرت ابراہیم ںنے کہا: جب تمہارے شوہر آئیں تو ان کو میرا سلام کہنا اور یہ کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل لیں’’وقولی لہ یغیّر عتبۃ بابہ‘‘ جب حضرت اسماعیل ں آئے تو ان کو کسی کی آمد کا احساس ہوا تو انہوں نے اس بارے میں دریافت کیا کہ کیا کوئی آئے تھے ؟ بیوی نے کہا: ہاں ہمارے یہاں اس اس طرح کے ایک بوڑھے شخص آئے تھے ، انہوں نے ہم سے آپ کے بارے میں دریافت کیا تو میں نے کہا کہ ہم تنگدستی اور پریشانی میں ہیں ، حضرت اسماعیل ں نے کہا:کیا انہوں نے کوئی وصیت کی؟ اس نے کہا: ہاں ، انہوں نے مجھے آپ کو سلام کہنے کو کہا ہے اور آپ سے یہ کہا کہ : آپ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل لیں ، حضرت اسماعیل ں نے کہا: وہ میرے والد تھے ، انہوں نے مجھ سے کہا کہ : میں تم کو چھوڑدوں ، لہٰذا تم اپنے اہل کے پا س چلے جاؤ ، چنانچہ حضرت اسماعیل ں نے اس کو طلاق دے دی اور دوسری شادی کرلی پھر ایک مدت کے بعد حضرت ابراہیم ں حضرت اسماعیل ںکے گھر پر تشریف لائے اور ان کی اہلیہ سے ان کے بارے میں دریافت کیا ، تو اس نے کہا: وہ تلاشِ معاش کیلئے گئے ہوئے ہیں ، حضرت ابراہیم ں نے کہا:تم لوگ کیسے ہو؟ اس نے کہا : ہم بخیر وعافیت ہیں اس نے اللہ کی تعریف کی ، حضرت ابراہیم ںنے پوچھا : تمہارا کھانا کیا ہے ؟ اس نے کہا : گوشت، تمہارا پانی کیا ہے ؟ اس نے کہا:پانی ،جب تمہارے شوہر آئیں تو ان سے سلام کہنا اوران سے کہنا کہ اپنی چوکھٹ نہ بدلیں ، آپ ں نے ان دونوں کیلئے برکت کی دعا دی ، حضرت اسماعیل ں کی آمد کے بعد بیوی نے حضرت ابراہیمں اور ان کی آمد اور ان کے حلیہ اوران کے سلام کہنے ، احوال دریافت کرنے پر اپنی خوشحالی کے ذکر اور ان کے چوکھٹ نہ بدلنے وغیرہ کا ذکر کیا تو حضرت اسماعیل ں نے کہا : وہ میرے والد محترم تھے وہ تم کو اپنی زوجیت میں برقراری کے بارے میں کہہ گئے ہیں ۔(بخاری: الصافات، حدیث: ۳۱۸۳)
زندگی میں پیش آنے والے حالات صحت ومرض ، خوش حالی و تنگی ، پیدائش وموت، اولاد کی تربیت اور مرد کے رشتہ داروں کی خدمت میں نہ ڈگریاں کام آتی ہیں ، نہ صرف گوری رنگت، نہ ڈرائیونگ نہ امریکی شہریت ، کام آنے والے اوصاف تو بس حیاء ، خدمت ، تواضع اور صبر وشکر ہے ۔
لڑکے کے انتخاب کے تعلق سے بھی نبی کریم انے دینداری کو ملحوظ رکھنے کی تاکید فرمائی ہے ، محض اس کی کمائی اور جائیداد اور دولت پر نظر نہ ہو جیسا کے عموماً ہوتا ہے ۔
حضور اکرم ا کا ارشاد گرامی ہے: ’’ اذا خطب الیکم من تـرضـون دیـنـہ وخلقہ فتزوّجوہ الّا تفعلوا تکن فتنۃ فی الأرض وفساد عریض‘‘(ترمذی: باب ماجاء من ترضون دینہ فزوّجوہ،حدیث:۱۰۸۴) تمہارے پاس جب کوئی پیغام ِنکاح لے کر پہنچ جائے جس کے دین واخلاق تم کو پسند ہے تو اس سے شادی کردو ؛ورنہ زمین میں فتنہ وفساد ہو گا ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہو
ایک رات حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ لوگوں کے حالات کا جائزہ لے رہے تھے اور ان کی خبرگیری میں مصروف تھے کہ آپ رضی اللہ عنہ کو تھکاوٹ محسوس ہوئی تو کسی گھر کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے سنا کہ ایک عورت اپنی بیٹی سے کہہ رہی ہے کہ بیٹی !جاو اٹھو اور دودھ میں پانی ملا دو۔ بیٹی نے کہا اماںکیا آپ کو معلوم نہیں کہ امیرالمومنین حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اس سے منع کیا ہے۔ اس کی ماں نے کہا اے بیٹی جاو بھی، بھی، جاو بھی، بھی، دودھ میں پانی ملا دو، عمر رضی اللہ عنہ تو ہمیں نہیں دیکھ رہا ہے۔ اس لڑکی نے جواب دیا کہ اماںاگر عمر رضی اللہ عنہ ہمیں نہیں دیکھ رہاتو عمر رضی اللہ عنہ کا رب تو ہمیں دیکھ رہا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس نیک لڑکی کی بات بہت پسند آئی، اپنے غلام اسلم کو جو اس وقت ان کے ہراہ تھے فرمایا اے اسلم!اس دروازہ کی شناخت رکھنا اور یہ جگہ بھی یاد رکھنا۔ پھر وہ دونوں آگے چل دیئے۔ جب صبح ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے اسلم!وہاں جاو اور معلوم کرو کہ وہ کہنے والی لڑکی کون ہے اور اس نے کس عورت کو جواب دیا اور کیا ان کے ہاں کوئی مرد ہے؟ اسلم معلومات لے کر واپس آیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس نے بتایا کہ وہ لڑکی کنواری، غیر شادی شدہ ہے اور وہ اس کی ماں ہے اور ان کے ہاں کوئی مرد نہیں ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بچوں کو بلایا اور ان کو حقیقت حال سے آگاہ کیا۔ پھرفرمایا کیا تم میں سے کسی کو عورت کی حاجت ہے تو میں اس کی شادی کر دوں؟ اور اگر تمہارے باپ میں عورتوں کے پاس جانے کی طاقت ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی اس لڑکی سے نکاح کرنے میں مجھ پر سبقت نہ لے جاتا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میری تو بیوی ہے۔ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میری بھی بیوی ہے۔ حضرت عاصم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ابا جان!میری بیوی نہیں ہے آپ میری شادی کر دیں۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس لڑکی کو پیغام نکاح بھیجا اور (اپنے بیٹے)عاصم سے اس کی شادی کر دی۔ عاصم کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی جو حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ کی والدہ بنیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز بن مروان کے سب سے زیادہ عادل حکمران اور پانچویں خلیفہ راشد تھے۔(الدکتور محمد صلابی ، سیرۃ أمیر المؤمنین عمر بن الخطاب ، شخصیتہ وعصرہ)
اس واقعہ سے پتہ چلا کہ حضراتِ صحابہ نکاح کے معاملات میں بہو یا داماد کے انتخاب میں کس قدر دین کے مفاد اور دینداری کو ملحوظ ررکھتے تھے۔
انبیاء اور صحابہ کے یہ واقعات صاف اور واضح طور پر دلالت کرتے ہیں کہ لڑ کی انتخاب میں ان کا معیار کیا تھا، وہ لوگ کس چیز کو ملحوظ رکھتے تھے ، جو ان کی دنیاوی واخروی زندگی کے چین وسکون وراحت وآرام کا باعث ہوتیں تھیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×