اسلامیات

ناموس قلم

نامور عربی ادیب مصطفی لطفی منفلوطی کے اسلوب کی پیروی کی کوشش اردوزبان میں )ایک اچھے صاحب قلم کو ہمیشہ اپنے قلم کا پاس اور اس کی آبرو کا احساس رہتا ہے ۔ قلم۔ کیا ہے ۔ قلم وہ ہے جس کے ناموس کی قرآن میں قسم کھائی گئی ہے’’ن ، والقلم وما یسطرون‘‘قلم گیسوئے عالم ایجاد کا کا شانہ ہے، قلم علم وحکمت کا کاشانہ ہے ۔قلم سے نور علم کی ندیاں رواں ہیں، ’’علم بالقلم ‘‘سے یہ سب حقیقتیں عیاں ہیں ، قلم کی نوک کے آگے تلواروں کی دھا ر تند ہوجاتی ہے، قلم موج تخیل کو الفاظ کی باہوں میں سمیٹ لیتا ہے، قلم روح تخیل کو کا غذ کے مسامات میں بھر دیتا ہے، قلم کی جنبش میں شعور کی لرزش ہے ۔ قلم کے وار سے شہنشاہوں کا اقتدار متزلزل ہوتا ہے ، قلم الفاظ کے طاق میں افکار کی قندیل روشن کرتا ہے ۔ سب سے معتبر گواہی قلم کی ہے اور قلم کی سیاہی صبح صادق کی سفیدی ہے ۔قلم انسانی تہذیب کے ارتقاء کی خشت اول ہے ۔قلم علم اشیاء کی جہاں گیری کی وجہ سے افضل ہے۔ متاع لوح وقلم جس کو مل جائے اس کی دولت قارون کے خزانے سے بہتر ہے۔اور اگر قلم وہ ہو کہ خون دل میں ڈبو کر جس سے کوئی تحریر نکلے تو وہ تحریر لوح فلک کی تنویر بن جاتی ہے ۔قرآن کی سورہ القلم میں قلم کی قسم کھائی گئی ہے ، اللہ نے قلم کو علم کی اشاعت کا ذریعہ بنایا ہے’’ن ،والقلم وما یسطرون ‘‘اللہ تعالی نے جب قلم کی قسم کھائی تو اس کے فوراً بعد اللہ نے آپﷺ کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ خلق عظیم کے منصب پڑ فائز ہیں اس سے قلم اور اخلاق کے رشتے کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور اس سے اس بات کا بیغام ملتا ہے کہ اگر چہ کہ قلم آلہء تبلیغ وترسیل ہے لیکن صاحب قلم کو ناموس قلم کا ہر حال میں پاس ولحاظ رکھنا چاہیے اور قلم سے اخلاق وشرافت کے خلاف کوئی بات نہیں لکھنی چاہیے۔ اگر کوئی شخص اپنے قلم سے دوسروں کی آبرو ریزی کردار کشی اور د ل شکنی کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے اس بارامانت کا ندازہ نہیں جو قلم کی بدولت اسے بخشا گیا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ قلم اس کے ہاتھ میں ایسا ہی ہے جیسے کسی شریر بد قماش لڑکے کے ہاتھ میں پستول ۔جس طرح سے ایسے ناہنجار لڑکے سے پستول چھین لینا درست ہے ویسے ہی دوسروں کی عزت سے کھیلنے والے اور سب کی پگڑیاں اچھالنے والے شخص کے ہاتھ سے قلم چھین لینا اور اسے قلم کے استعمال والے عہدے سے معزول کردینا انسانیت کی خدمت ہے۔قلم کے غلط استعمال کے مہلک اخروی نتائج کا اگر صاحب قلم کو اندازہ ہوجائے تو وہ صفحہ قرطاس پر سب سے عفو درگزر کا طالب ہو، تاکہ قصہ زمین بر سر زمین ختم ہوجائے ، اور کوئی آخرت میں اس کا گریبان نہ پکڑسکے ۔قلم سے فاسد افکار اور غلط نظریات کی تنقید کا کام لینا چاہیے نہ کہ اسے انسانوں کو بے حرمت کرنے کا وسیلہ بنانا چاہیے۔ قلم کی قسم کھانے کے بعد اللہ تعالی نے جس ذات کے اخلاق عالیہ کی گواہی دی ہے اس نے اپنی پوری زندگی نام لے کر کسی پر تنقید نہیں کی، کسی برائی پر نکیر کرنی ہوتی تو آپﷺ اس طرح تقریر میں کہتے کیا بات ہے لوگ ایسی ایسی حرکت کرتے ہیں ،نام لے کرکسی پر تنقید نہیں فرماتے تھے، ایک حدیث میں آتا ہے قیامت کے دن ایسے شخص کو لایا جائے گا جس نے بہت عبادت کی ہوگی ،لیکن اسی کے ساتھ کسی کا دل دکھا یا ہوگا ، کسی کی توہین کی ہوگی ، کسی پر کوئی اتہام رکھا ہوگا، او رکسی کی غیبت کی ہوگی۔آخر میں اس کی نیکیاں ان لوگوں کو دے دی جائیں گی جو اس کی تیغ زبان سے زخم خوردہ تھے اور پھر تیغ زبان سے زخمی کرنے والے شخص کو جہنم جھونک دیا جائے گا اور اس کی ساری عبادت وریاضت رائیگاں چلی جائے گی۔
ایک جگہ پریس کانفرنس ہورہی تھی ، مولانا علی میاں ندوی ؒ صحافیوں کے مجمع کو خطاب کررہے تھے،اور ان کو کردار کشی سے پرہیز کرنے کی تلقین کررہے تھے انہوں نے صحافیوں کے مجمع میں فارسی کا ایک شعر پڑھا، اصل فارسی کے شعر میں تو’’ قدم‘‘ کا لفظ شاعر نے استعمال کیا ہے لیکن مولانا علی میاں نے قدم کو قلم سے بدل دیا اور شعر اس طرح پڑھا
آہستہ خرام بلکہ مخرام
زیر قلمت ہزار جان است
مولانا علی میاں نے فارسی شعر میں ترمیم کے ذریعہ جو پیغام دیا ہے اسے اردو میں شاعر( اقبال)نے اس طرح کہا ہے
وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تقریر سے
دیکھ کوئی دل نہ دکھ جائے تری تحریر سے
ایک وسیع القلب صاحب قلم کو ’’ با دوستان تلطف با دشمناں مدارا ‘‘ پر عمل کرنا چاہئے ۔کہ یہی آسائش گیتی کا نسخہ کیمیاء ہے ۔ زبان قلم کو شیریں بنانے کی نصیحت اکبر الہ آبادی نے بھی کی ہے
بنوگے خسرؤے اقلیم دل شیریں زباں ہوکر
جہاں گیری کرے گی یہ ادا نور جہاں ہوکر
اگر ایک طرف ایک صاحب قلم اپنے قلم کا غلط مصرف لے کر دوزخ کی آگ خریدتا ہے ، تو دوسری طرف دوسرا صاحب قلم اپنے قلم کا صحیح استعمال کرکے جنت الفردوس کا وارث بن سکتا ہے۔ایک حدیث میں آتا ہے کہ نوع انسان میں قابل رشک صرف دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ، ایک وہ لوگ جن کو اللہ نے مال دیا اور وہ اپنے مال کو کارخیر میںخرچ کرتے ہیں، دوسرے وہ لوگ جن کو اللہ نے علم وحکمت سے نوازا اور وہ اپنے علم کی بدولت صحیح فیصلے کرتے ہیں اور دوسروں کو علم وحکمت کا درس دیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ علم وحکمت کا درس زبان سے بھی دیا جاتا ہے اور قلم سے بھی دیا جاتا ہے اورقلم سے جو درس دیا جاتا ہے صدیوں تک لوگ اس سے استفادہ کرتے ہیں۔امام غزالی ؒ، جلال الدین رومیؒ، ابن خلدونؒ شیکسپیر کی کتابیں آج بھی پڑھی جاتی ہیں اور کئی صدیاں گزرنے کے بعد بھی ان کے فیض کا دریا قلم کی بدولت جاری وساری ہے ۔قلم ایک امانت ہے اور قلم چلانے والے ہاتھ کو اقدار عالیہ اور ضمیر کا پابند ہونا چاہیے اور اسے کسی دباؤ کے تحت قلم کا غلط استعمال نہیں کرنا چاہیے ، اور اگر ظالم حاکم دباؤ ڈالے تو اسے صاف کہہ دینا چاہیے کہ قلم ایک امانت ہے اسے ظلم کی طاقت سے توڑا تو جا سکتا ہے موڑا نہیں جا سکتا۔جب حکومت کا ظلم حد سے سوا ہوا تو بہت سے معروف ادیبوں نے ٍہندوستان میں بطور احتجاج اپنیُ ایوارڈ واپس کردے تھے اور ابھی زیادہ عرصہ نہیں گذرا کہ معروف ادیب مجتبی حسین مرحوم نے پدم شری کا اعزاز واپس کردیا تھا۔اسی کا نام ہے قلم کی آبروکا احساس ۔
جو لوگ اپنے قلم کا صحیح استعمال کرتے ہیں وہ اچھے اور مفید خیالات کی اشاعت کرتے ہیں اور غلط افکار ونظریات کی کاٹ کرتے ہیں وہ اپنے قلم سے تلوار کا بھی کا م لیتے ہیں، اسی لیے کہا گیا ہے قلم تلوار سے زیادہ طاقت ور ہے۔Pan is mighter than sword تلوار سے جسم انسانی کے سر قلم کیے جاتے ہیں اور قلم سے فاسد خیالات کا سر قلم کیا جاتا ہے، جن کے ہاتھ میں قلم ہوتا ہے وہ اشخاص کے خلاف نہیں اٹھتے بلکہ غلط اور مسموم نظریات کے خلاف اٹھتے ہیں جن کی وہ اشخاص ترجمانی کرتے ہیں ان کو اصل میں ابو جہل سے بیر نہیں ہوتا بلکہ اس جہل سے بیر ہوتا ہے جس کی وہ نمائندگی کرتا ہے ، جہل کے پھیلاؤ پر صبر کرنا ان کے لیے مشکل ہوجاتا ہے ، قلم ان کے ہاتھ میں تیغ اصیل بن جلاتا ہے اور پھر وہ ہاتھ میں قلم پکڑ لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ
ضبط کروں میں کب تک آہ
چل رے خامہ بسم اللہ
عہد حاضر میں مسلم ملکوں میں ایسے فرعون صفت حکمران بھی گزرے ہیں جنھوں نے خدائی کا دعوی کرنے والے فرعون کے مجسمے شہر کی شاہ راہوں پر نصب کر ڈالے ۔یہ ایک بڑا امتحان تھا اہل قلم کے ناموس قلم کا ، بر صغیر کی سر زمین سے عربی زبان کا ایک ادیب اور خطیب اٹھا اس نے اپنے آتش نوائی سے علمی اور دینی حلقوں میں آگ لگادی، اور پھر ماضی قریب میں جب حرمین شریفین کی سرزمین کے تقدس کو پامال کرتے ہوے وہاں راگ ورنگ اور رقص وچنگ کی تفریح گاہیں قائم کی جانے لگیں تو وہ اہل قلم جو اپنے ناموس قلم کی حفاظت کرنا جانتے تھے ، اٹھے اور انہوں نے اپنے قلم سے تلوار کا کام لیا جب کہ زیادہ تر علما ء کے تلوار کی دھار کند رہی اور انہوںنے اپنے سکوت لب سے ان اقدامات کی خاموش تائید کی تاکہ ان کے مفادات مجروح نہ ہوں۔’’ من کان یرید حرث الدینا نؤتہ منہا ‘‘جسے دنیاکا آب ودانہ اور مال ودولت کا خزانہ چاہئے ہم اسے اس میں سے دے دیتے ہیں
قلم ہر دور میں عزت اور عظمت کا نشان رہا ہے، قلم ذریعہ حیات بھی ہے اوراس کا استعمال صحیح ہوتو ذریعہ نجات بھی ہے۔ارباب قلم کو قلم کے بہترین استعمال سے دنیوی عزت و دولت وجاہت بھی حاصل ہو جاتی ہے اسی لیے ایک فارسی شاعر نے قلم کی زبان سے یہ کہا ہے کہ :
قلم گوید کہ من شاہ جہانم
قلم کش را بدولت می رسانم
قلم ہر دور میں اپنی شکلیں بدلتا رہا ہے کبھی شاخ نبات سے ، کبھی بانس سے، کبھی نرکل سے ، کبھی مور کے پر سے قلم بنایا گیا ہے، کبھی اس کی شکل پنسل کی ہوجاتی ہے اور کبھی فونٹن پن کی، کبھی رفل کی ، کبھی ٹائپ رائٹر کی اور اب کمپوٹر کے ’’کی بورڈ‘‘کی اس نے شکل اختیار کی ہے ، علامہ ابن تیمیہ سے جب کاغذ اور قلم چھین لیا گیا تھا اور ان کو پس دیوار زنداں ڈال دیا گیا تھا تو انھوں نے کوئلے سے جیل خانوں کی دیواروں پر لکھنا شروع کر دیا تھا۔کبھی ایک شاعر خون دل میں اپنی انگلیاں ڈبو دیتا ہے اور کبھی حلقہ زنجیر میں اپنی زبان رکھ دیتا ہے۔مجنوں سے جب قلم چھن لیا گیا تھا اور جب وہ صحرا میں قلم سے محروم تھا تو لوگوں نے دیکھا کہ وہ ریت کی ٹیلے پر بیٹھا ہوا عالم محویت میں ریگزار پر ہر طرف لیلی کا نام لکھ رہا ہے۔لوگوں نے جب اس سے استفسار کیا تو اس نے یوں جواب دیا :
گفت مشق نام لیلی می کنم
خاطر خود را تسلی می دہم
قلم کبھی ابر گوہر بار ہوتا ہے اور کبھی تیغ جو ہر دار ہوتا ہے ، کبھی شہریار اصیل ہوتاہے کبھی صور اسرافیل ہوتا ہے کبھی یہ ناموس وطن کا نشان ہوتا ہے ، کبھی حق کا پاسبان ہوتا ہے ، کبھی ادب عالیہ کی تخلیق کا وسیلہ ہوتا ہے اس کے بہت سارے کام ہیں جن کا ذکر شورش کاشمیری نے اپنے اشعار میں کیا ہے:
صفحہ کاغز پہ جب موتی لٹاتا ہے قلم
ندرت افکار کے جوہر دکھاتا ہے قلم
بندگان علم وفن کی خلوتوں کا آشنا
ان کے فکر وفہم کی باتیں سناتا ہے قلم
یادگاروں کا محافظ تذکروں کا پاسباں
گم شدہ تاریخ کے اوراق لاتا ہے قلم
شاعروں کے والہانہ زمزموں کی آبرو
دانش وحکمت کی راہوں کو سجاتا ہے قلم
اہل دل ، اہل سخن، اہل نظر، اہل وفا
ان کے خط وخال کا نقشہ جماتا ہے قلم
قلم کے ذریعے جو علم کی روشنی پھیلائی جاتی ہے وہ مستقبل کی تاریخ کے دریچوں کو روشن کرتی ہے، اور انسانیت کے قافلے اس کی روشنی میں اپنا سفر طے کرتے ہیں ، اس لیے قلم کا فائدہ زیادہ عام اور اس کا فیض مدام ہے ۔ اسی لیے تحریر کو تقریر پر فضیلت حاصل ہے ، کیوں کہ تحریر کی تاثیر گردش شام وسحر کی زنجیر سے آزاد رہتی ہے ۔ صاحب قلم کو اپنی تحریرکی قوت پر ناز کرنے کا حق ہے ، معروف شاعر احمد فراز حاکم وقت کو خطاب کرکے اسے قلم کی عظمت کا احساس دلاتے ہیں:
اسے ہے سطوت شمشیر پہ گھمنڈ بہت
اسے شکوہ قلم کا نہیں ہے اندازہ
مرا قلم نہیں کا سہ کسی سبک سر کا
جو غاصبوں کو قصیدوں سے سر فراز کرے
مرا قلم تو امانت ہے مرے لوگوں کی
مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے
اسی لیے تو جو لکھا تپاک جاں سے لکھا
جبھی تو لوچ کماں کا زبان تیر کی ہے

میں کٹ گروں کہ سلامت رہوں یقین ہے مجھے
حصار قلم کوئی تو گرائے گا
تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم
مرے قلم کا سفر را ئگا ں نہ جائے گا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×