سیرت و تاریخ

رسوم و رواج کے خاتمہ میں حضرت زینبؓ بنتِ جحش کا تاریخی کردار

  معاشرے کے رسوم و رواج اور غلط روایتوں کے خلاف کھڑے ہونا بدر واحد کے میدانوں میں جنگ کرنے سے کم نہیں ،بلکہ سچ تو یہ ہے کہ بسا اوقات تیر و سناں والی جنگوں سے زیادہ مشکل اور خطرناک جنگ، معاشرے کی برائیوں کے خلاف لڑی جانے والی جنگ ہوتی ہے، اس جنگ میں جو زخم لگتے ہیں، نیزوں اور تلواروں کے زخموں سے کہیں گھہرے ہوتے ہیں آفریں صد آفریں جرات مند خاتون ام المومنین حضرت زینب بنت ِ جحش رضی اللہ عنھاپرجنہوں نے جاہلیت کی رسموں کے خاتمے میں فتح کی شاندار تاریخ رقم کی،اور زمانہ جاہلیت کی "دو”رسموں ( ١ آزاد کردہ غلاموں سے آزاد عورتوں کے نکاح کو معیوب سمجھنا ٢ لےپالک کو حقیقی بیٹا اور اس  کی بیوی کو حقیقی بہو تصور کر کے اپنےاوپر حرام کرلینا)کے خاتمہ میں مخالفتوں کے طوفان اور طنزوتشنیع کےسیلاب کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
قارئین! جب کوئی معاشرتی برائی  پورے انسانی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہو اور اس کی جڑیں زمانے کے گزرنے کے ساتھ انتہائی گہری ہو چکی ہو، تو لوگوں کے دلی جذبات بھی اس سے شدید طور سے وابستہ ہوجاتے ہیں، اکثر وعظ و نصیحت کا بھی ان پر اثر نہیں ہوتا، ان غلط روایتوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے کوئی جرات بھی نہیں کر پاتا، ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ یہ سوچ کر بڑے بڑے سورماؤں کے حوصلے جواب دے جاتے ہیں٠٠٠٠٠ لیکن جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ امتیاز رہا ہےکہ برائیوں اور رسم و رواج کے خاتمہ کے لیےسب سے پہلے آپ نے اپنے آپ کو پیش کیا یا پھر جہاں ضرورت پڑی آپ نے اپنے افراد خاندان کو آگے بڑھایا حجۃالوداع کا وہ تاریخی خطبہ جو انسانیت کے لیے ایک عظیم سرمایہ ہے اس خطبے میں وسیع وعریض میدان میں آپ نے زمانہ جاہلیت کی ہر برائی اور ہر رسم کے خاتمہ کا اعلان فرمایا: اور اعلان ہی نہیں فرمایا: بلکہ عملی طور پر کرکے بھی دکھایا۔ فرمایا:ہمارے خاندان میں سب سے پہلے میں ربیع بن عامرؓ کا خون معاف کرتا ہوں اور زمانہ جاہلیت کا سودبھی معاف کرتا ہوں جوحضرت عباسؓ بن عبدالمطلب کا سود تھا (صحیح مسلم)
پہلی رسم کا خاتمہ:
زمانہ نبوت کے ابتدائی معاشرے میں ایک بہت بڑا مسئلہ حسب نسب اور اونچ نیچ کا تھا، غلامی خود ایک مسئلہ تھی لیکن اس سے بھی زیادہ سنگین مسئلہ یہ تھا کہ اگر کوئی غلام آزاد کر دیا جاتا تو اسے معاشرہ قبول نہیں کرتا تھا ،اس کا مستقبل ماضی کے بوجھ تلے دبا ہوا ہوتا تھااور اسے ایک معزز انسان کا مقام نہیں دیا جاتا تھا،اور اسلام اسی اونچ نیچ کے خاتمہ کے لیے اورآزاد کردہ غلاموں کو معاشرے میں برابری اورعزت کا مقام دلانے آیا تھا، اس کے لیے ضروری تھا کہ ایک معزز خاندان کی آزاد خاتون کا نکاح ایک آزاد کردہ غلام سے کیا جائے اور دنیا اپنی آنکھوں سے ایسا ہوتا ہوا دیکھےاورزمانہ جاہلیت میں ایک معزز خاندان کی آزاد عورت سے نکاح کی جرات کوئی آزاد کردہ غلام بھی نہیں کرسکتا تھا، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اتنا بڑا جگر کسی خاتون کے پاس ہونا بھی مشکل تھاکہ وہ کسی آزاد کردہ غلام کی شریک حیات بننے کو آمادہ ہو سکے، لیکن اللہ کے رسولﷺ نے ایک طرف تو اس کار عظیم کے لیے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زیدبن حارثہؓ کو منتخب کیا،اور دوسری طرف اس دشوارترین مہم کے لئے آپ کی مردم شناس نگاہ اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینبؓ پر پڑی جنہوں نے آپ کے حکم پر سرِتسلیم خَم کردیا-
 معاشرے کی اس برائی کے خلاف حضرتِ زید اور حضرتِ زینب کے اس زبردست جنگی اقدام کو ناکام بنانے کے لیے منافق مرد اور عورتوں نے محاذ بنالیا، منافق عورتوں نے خاص طور سے حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے حوصلوں کو پست کرنے اور ان کے اعتمادِنفس کو ختم کرنےکی لاکھ جتن کئے، طعن وتشنیع کی بارش شروع کردی لیکن آپ ڈٹی رہیں، اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں یہ نکاح ہوا اور مہر بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے ادا کیا۔ معارف القرآن: (سورہ احزاب: ٣٧) مدینہ کی بستی میں اس واقعے کی بازگشت ایک عرصہ تک سنائی جاتی رہی، لیکن
اس طرح آزاد کردہ غلاموں سے آزاد اور معزز گھرانوں کی خواتین کے نکاح کا سلسلہ چل پڑا،اور غلامی کے تصورات کا جڑسے خاتمہ ہوا،حضرت زینبؓ کا یہ کردار انسانی تاریخ کا ایک روشن باب ہے ۔
دوسری رسم کا خاتمہ:
عرب میں یہ دستور اور یہ رسم تھی کہ جس طریقے سے سگے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرنا حرام ہے اسی طریقے سے منہ بولے بیٹے کی بیوی سے بھی نکاح کرنا حرام تھا،اب اللہ کی طرف سے متبنی یعنی منہ بولے بیٹے کے سلسلے میں شرعی حکم کی تکمیل کا فیصلہ کرنا تھا۔حضرت زید اللہ کے رسول کے منہ بولے بیٹے تھے اور انہیں سےحضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح ہو چکا تھا، اللہ کی طرف سے ہدایت آگئی کہ منہ بولا بیٹا دراصل بیٹا نہیں ہوتا ،
اُدۡعُوۡهُمۡ لِاٰبَآئِهِمۡ هُوَ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰهِ‌ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ تَعۡلَمُوۡۤا اٰبَآءَهُمۡ فَاِخۡوَانُكُمۡ فِى الدِّيۡنِ وَمَوَالِيۡكُمۡ‌ؕ وَ لَيۡسَ عَلَيۡكُمۡ جُنَاحٌ فِيۡمَاۤ اَخۡطَاۡ تُمۡ بِهٖۙ وَلٰكِنۡ مَّا تَعَمَّدَتۡ قُلُوۡبُكُمۡ‌ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا ۞
فرمانِ الھی ہے ” ( اے ایمان والو ) اپنے منہ بولے بیٹوں کو ان کے حقیقی باپوں کے نام سے پکارا کرو کہ اللہ کے نزدیک انصاف کی بات یہی ہے ، بس اگر تم ان کے باپوں کے نام نہ جانتے ہو تو وہ دین میں تمہارے بھائی اور دوست ہیں  [الاحزاب:۵]
اس رسم کے خاتمے کیلئے عملی اقدام، زبردست قربانی اور غیر معمولی بہادری کا اظہار ضروری تھا،اس کے لئے بھی ایک نہایت جری خاتون جو کسی کے منہ بولے بیٹے کی چھوڑی ہوئی ہو سامنے آنا ضروری تھا اور یہ بھی ضروری تھا کہ متبنیٰ کی چھوڑی ہوئی بیوی سے شادی کا اقدام وہ کرے جس کا عمل لوگوں کے لیے نمونے کی حیثیت رکھتا ہو، یہ اتنا خطرناک اور دشوار اقدام تھا کہ سونچ کر ہی اوسان خطا ہونے لگتے ہیں،مخالفوں کی طرف سے یہ طعنہ کہ اپنی بہو سے نکاح کرلیا کیسا دل کو چھیدنے والا اور روح کو مجروح کر دینے والا تیر ہوسکتاتھا، اللہ پاک نے اس بارِ گراں کو اٹھانے کے لئے اپنے پیارے نبیﷺ کو اور اپنی پیاری بندی حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا ہی کو دوبارہ منتخب کیا۔اور آپ اسمیں بھی کامیاب ہویں۔
حضرت زینب پر انعام خداوندی:
اسلامی شریعت کی عملی تطبیق کی خاطر اورغیر اسلامی روایتوں کے خلاف عملی محاذ آرائی کی راہ میں حضرت زینب کی قربانیوں کی کوئی نظیر اسلامی تاریخ میں نہیں مل سکتی،ازواجِ مطہرات میں یہ واحد خاتون ہے جن کے نکاح کو اللہ نے اپنی خاص نگرانی اور سرپرستی میں انجام دلایا۔
سورہ احزاب میں ارشاد ِعالی ہے زَوَّجۡنٰکَہَا” ہم نے اسے تیرے نکاح میں دےدیا”     آیت ٢٧
ایک چھوٹا سا جملہ ہے، لیکن اس کے اندر اللہ کی طرف سے مکمل اور خصوصی سرپرستی کا بے مثال تذکرہ پنہاں ہے،خود حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا دوسری ازواج سے یہ کہا کرتی تھیں کہ تمہارے نکاح تمہارے والدین نے کیے ہیں اور میرا نکاح اللہ نے آسمان پر کیا ہے۔
خلاصہ:
 جہاں میدانِ جنگ اور میدانِ کارزار میں خواتین کی جرات اور بہادری کودیکھا اور مانا گیا ہے اور تاریخ کے سینے میں محفوظ بھی کیا گیا ہے، اسی طرح دینِ اسلام میں رسم و رواج کے خاتمے میں بھی خواتین نے اعلی کردار ادا کیا ہے، جس کی ایک ادنی سی مثال اس تحریر میں موجود ہے اورحضرت زینبؓ کےکردار سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ انسان جتنے مشکل حالات  اور کٹھن لمحات سے گزرتا ہے، پروردگار عالم اسی کے شایانِ شان انعام اس کو عطا کرتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×