سیرت و تاریخ

صحابہؓ کے بارے میں اہل سنت کا عقیدہ

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں اہلِ سنت کا عقیدہ اتنا مشہور اور واضح ہے کہ اس بارے میں کسی شک اور تردد کی گنجائش نہیں ہے. علم سے عاری کوئی نادان اور جاہل شخص ہو سکتا ہے کہ اس عقیدہ و نظریہ سے پورے طور پر واقف نہ ہو لیکن اہلِ سنت کے مدرسہ سے فارغ کسی شخص کے بارے میں یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اس سے انجان ہوگا. لیکن افسوس صد افسوس سوشل میڈیا پر کچھ فضلاء کی پوسٹ اور تبصرے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ اس طبقے میں بھی جہالت آخری حد تک پہنچ چکی ہے. وہ طرزِ بیان، وہ اسلوبِ تحریر اور وہ الفاظ و تعبیرات جو کسی عام مسلمان کے لیے استعمال کرنا بھی درست نہیں، وہ سب جلیل القدر صحابہ کے بارے میں استعمال ہو رہے ہیں. یہ بات برحق اور ہزار بار کی تجربہ شدہ ہے کہ انسان کا بڑے سے بڑا گناہ معاف ہو جاتا ہے لیکن دین اور دین کی اساسی شخصیات صحابہ اور علماء کے حق میں کی گئی بے ادبی وہ بدترین گناہ ہے جس کے بعد عامۃً توبہ کی توفیق بھی نہیں ہوتی. ہمیں بھی ایسے لوگوں سے کوئی زیادہ خوش گمانی نہیں ہے لیکن "الدین النصیحة” دین خیر خواہی کا نام ہے کہ جذبہ کے تحت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے متعلق اہلِ سنت کے عقیدے کو مختصر طور پر قلم بند کر رہا ہوں، شاید کسی کو اس سے فائدہ ہو اور بدزبانی و بدگمانی کا یہ مکروہ سلسلہ ختم ہو. صحابہ کرام کے بارے میں اہلِ سنت کا عقیدہ ہے کہ تمام صحابہ ہمارے نزدیک قابلِ احترام ہیں. ان میں سے کسی کی شان میں ادنیٰ گستاخی بھی رحمت خداوندی سے دوری اور خیر سے محرومی کی علامت ہے. صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بشری خطائیں اور غلطیاں بھی سرزد ہوئیں، اس لیے کہ گناہوں سے پاک اور محفوظ انسانی ذات محض انبیاء کرام علیہم السلام کی ہے، لیکن صحابہ کی خصوصیت یہ ہے کہ گناہ سرزد ہو جانے پر انہیں فوراً من جانب اللہ تنبہ ہوتا اور توبہ کی توفیق مل جاتی. اللہ تعالیٰ نے ان سب کی توبہ کی قبولیت اور اپنی رضامندی کا اعلان عام بھی قرآن کریم میں فرما دیا ہے. صحابہ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ ان کے باہمی تنازعات اور مشاجرات نفس پرستی یا حصولِ اقتدار کے گھٹیا مقصد کے نتیجے میں ہرگز واقع نہیں ہوئے بلکہ سب کے پیش نظر حق کا غلبہ اور سچ کا بول بالا تھا. صحابہ کی آپس میں جو جنگیں ہوئیں اس میں امت نے عام تعبیر چھوڑ کر "مشاجرات صحابہ” کی تعبیر اختیار کی، جو خود مسئلہ کی نزاکت پر دلیل ہے اور اس میں سلف و خلف کا عقیدہ یہی ہے کہ اس میں لب کشائی ہمارے لیے جائز نہیں. علماء نے مشاجرات صحابہ کی بحث کو "مزلة الأقدام” قرار دیا ہے، یعنی وہ مقام جہاں انسان کے قدم پھسل جائیں. اس لئے علماء نے ان مباحث سے بچنے کی بار بار تاکید کی ہے. سلف صالحین کا اجماعی عقیدہ ہے کہ مشاجرات صحابہ میں سکوت اختیار کیا جائے، اور سب کے حق میں دعائے مغفرت کی جائے.

امام نووی رحمہ اللہ قتلِ مسلم کے گناہ والی حدیث پر کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"واعلم أن الدماء التى جرت بين الصحابة رضي الله عنهم، ليست بداخلة فى هٰذا الوعيد، ومذهب أهل السنة والحق إحسان الظن بهم، والإمساك عما شجر بينهم، وتأويل قتالهم، وأنهم مجتهدون متأولون، لم يقصدوا معصية، ولا محض الدنيا، بل اعتقد كل فريق أنه المحق، ومخالفه باغ، فوجب عليه قتاله ليرجع إلٰي أمر الله، وكان بعضهم مصيبا، وبعضهم مخطئا معذورا فى الخطإ، لأنه لاجتهاد، والمجتهد إذا أخطأ لا إثم عليه، وكان على رضى الله عنه هو المحق المصيب فى تلك الحروب، هٰذا مذهب أهل السنة، وكانت القضايا مشتبهة، حتٰي إن جماعة من الصحابة تحيروا فيها، فاعتزلوا الطائفتين، ولم يقاتلوا، ولم يتيقنوا الصواب، ثم تأخروا عن مساعدته”.

(آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ صحابہ کرام کے مابین اختلافات کے دوران جو خون بہے، وہ اس وعید میں داخل نہیں۔ اہل سنت و اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ وہ صحابہ کرام کے بارے میں حسن ظن ہی رکھتے ہیں، ان کے مابین اختلافات پر خاموشی اختیار کرتے ہیں، اہل سنت کے نزدیک صحابہ کرام کی باہمی لڑائیاں دلائل پر مبنی تھیں اور وہ اس سلسلے میں مجتہد تھے۔ ان کا ارادہ کسی گناہ یا دنیاوی متاع کا نہیں تھا، بلکہ ہر فریق یہی سمجھتا تھا کہ وہ حق پر اور ان کا مخالف باغی ہے، جس کو اللہ کے حکم کی طرف لوٹانے کے لیے قتال ضروری ہے۔ یوں بعض واقعی حق پر اور بعض خطا پر تھے، کیونکہ یہ اجتہادی معاملہ تھا اور مجتہد جب غلطی کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ ان لڑائیوں میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہی حق پر تھے ( لیکن خطا اجتہادی ہونے کی بنا پر دوسرے صحابہ پر بھی کوئی قدغن نہیں )۔ اہل سنت والجماعت کا یہی مذہب ہے۔ یہ معاملات اتنے پیچیدہ تھے کہ بہت سے صحابہ کرام بھی اس سلسلے میں پریشان رہے اور دونوں گروہوں سے علیحدگی اختیار کر لی۔ انہیں بالقیں درست بات کا علم نہ ہو سکا اور وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حمایت سے بھی دستبردار رہے). [شرح صحيح مسلم : 11/18].

علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"والحق الذى عليه أهل السنة الإمساك عما شجر بين الصحابة، وحسن الظن بهم، والتأويل لهم، وأنهم مجتهدون متأولون، لم يقصدوا معصية ولا محض الدنيا، فمنهم المخطئ فى اجتهاده والمصيب، وقد رفع الله الحرج عن المجتهد المخطئ فى الفروع، وضعف أجر المصايب”.

(برحق نظریہ جس پر اہل سنت والجماعت قائم ہیں، وہ یہ ہے کہ صحابہ کرام کے مابین ہونے والے اختلافات کے بارے میں خاموشی اختیار کی جائے، ان کے بارے میں حسن ظن سے کام لیا جائے، ان کے لیے تاویل کی جائے اور یہ عقیدہ رکھا جائے کہ وہ مجتہد تھے اور ان سب کے پیش نظر دلائل تھے، ان اختلافات میں سے کسی صحابی نے بھی کسی گناہ یا دنیاوی متاع کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ اجتہاد میں بعض سے غلطی ہوئی اور بعض درستی کو پہنچے۔ اللہ تعالیٰ نے فروعی معاملات میں اجتہادی غلطی کرنے والے کو گناہ گار قرار نہیں دیا (بلکہ ایک اجر کا حق دار ٹھہرایا ہے )، جبکہ درستی کو پہنچنے والے کا اجر دو گناکر دیا گیا ہے). [عمدة القاري : 212/1].

شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"كان من مذاهب أهل السنة الإمساك عما شجر بين الصحابة، فإنه قد ثبتت فضائلهم، ووجبت موالاتهم ومحبتهم، وما وقع منه ما يكون لهم فيه عذر يخفٰي على الإنسان، ومنه ما تاب صاحبه منه، ومنه ما يكون مغفورا، فالخوض فيما شجر يوقع فى نفوس كثير من الناس بغضا وذما، ويكون هو فى ذٰلك مخطئا، بل عاصيا، فيضر نفسه، ومن خاض معه فى ذٰلك، كما جرٰي لأكثر من تكلم فى ذٰلك، فإنهم تكلموا بكلام لا يحبه الله ولا رسوله، إما من ذم من لا يستحق الذم، وإما من مدح أمور لا تستحق المدح، ولهٰذا كان الإمساك طريقة أفاضل السلف”.

(اہل سنت کے عقائد میں یہ بات شامل ہے کہ صحابہ کرام میں جو بھی اختلافات ہوئے، ان کے بارے میں اپنی زبان بند کی جائے، کیونکہ (قرآن و سنت میں ) صحابہ کرام کے فضائل ثابت ہیں اور ان سے محبت ومودّت فرض ہے۔ صحابہ کرام کے مابین اختلافات میں سے بعض ایسے تھے کہ ان میں صحابہ کرام کا کوئی ایسا عذر تھا، جو عام انسان کو معلوم نہیں ہو سکا، بعض ایسے تھے جن سے انہوں نے توبہ کر لی تھی اور بعض ایسے تھے جن سے اللہ تعالیٰ نے خود ہی معافی دے دی۔ مشاجرات صحابہ میں غور کرنے سے اکثر لوگوں کے دلوں میں صحابہ کرام کے بارے میں بغض و عداوت پیدا ہو جاتی ہے، جس سے وہ خطاکار، بلکہ گنہگار ہو جاتے ہیں۔ یوں وہ اپنے آپ کو اور اپنے ساتھیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ جن لوگوں نے اس بارے میں اپنی زبان کھولی ہے، اکثر کا یہی حال ہوا ہے۔ انہوں نے ایسی باتیں کی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند نہیں تھیں۔ انہوں نے ایسے لوگوں کی مذمت کی، جو مذمت کے مستحق نہیں تھے یا ایسے امور کی تعریف کی، جو قابل تعریف نہ تھے۔ اسی لیے مشاجرات صحابہ میں زبان بند رکھنا ہی سلف صالحین کا طریقہ تھا). [منهاج السنة :448/1، 449].

امام اشعری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"فأما ما جرٰي من على والزبير وعائشة رضي الله عنهم أجمعين، فإنما كان علٰي تأويل واجتهاد، وعلي الإمام، وكلهم من أهل الاجتهاد، وقد شهد لهم النبى صلى الله عليه وسلم بالجنة والشهادة، فدل علٰي أنهم كلهم كانوا علٰي حق فى اجتهادهم، وكذٰلك ما جرٰي بين سيدنا على ومعاوية رضي الله عنهما، فدل علٰي تأويل واجتهاد، وكل الصحابة أئمة مأمونون غير متهمين فى الدين، وقد أثني الله ورسوله علٰي جميعهم، وتعبدنا بتوقيرهم وتعظيمهم وموالاتهم، والتبري من كل من ينقص أحدا منهم، رضي الله عنهم أجمعين”.

(سیدنا علی، سیدنا زبیر اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہم کے مابین جو اختلافات ہوئے، وہ اجتہادی تھے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ خلیفہ تھے اور سب صحابہ کرام مجتہد تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جنت اور شہادت کی خوشخبری سنائی ہے۔ اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ سب اپنے اجتہاد میں حق پر تھے۔ اسی طرح سیدنا علی اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین جو اختلافات ہوئے، وہ بھی اجتہادی تھے۔ تمام صحابہ کرام بااعتماد اور باکردار ائمہ تھے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے سب کی تعریف کی ہے اور ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ان کی عزت و تعظیم کریں، ان سے محبت رکھیں اور جو شخص ان کی تنقیص کرتا ہے، اس سے براءت کا اعلان کریں۔ اللہ تعالیٰ ان سب پر راضی ہو چکا ہے). [الإبانة عن أصول الديانة، ص:78]

عمدۃ المتأخرين مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اور ان لڑائی جھگڑوں کو جو ان کے درمیان واقع ہوئے ہیں، نیک محمل پر محمول کرنا چاہیے اور ہوا وتعصب سے دور سمجھنا چاہیے۔ کیونکہ وہ مخالفتیں تاویل واجتہاد پر مبنی تھیں، نہ کہ ہوا و ہوس پر۔ یہی اہل سنت کا مذہب ہے”.
(مکتوباتِ امام ربانی، مکتوب: 251، دفترِ اول)

مزید فرماتے ہیں:
"یہ اکابر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کی تاثیر سے ہوا و ہوس، کینہ و حرص سے پاک صاف ہوگئے تھے۔ ان حضرات کے اختلافات کو دوسروں کی مصالحت سے بہتر سمجھنا چاہیے”. (مکتوب: 67 دفتر دوم)

یہ صرف چند عبارات ہیں جو ہم نے وضاحت کے لیے لکھی ہیں ورنہ عقائدِ اہل سنت پر لکھی گئی ہر کتاب میں یہ عقیدہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے. تمام محدثین، مفسرين، متکلمین، فقہاء کا یہی عقیدہ ہے. جو لوگ صحابہ کے بارے میں زبان دراز کرتے، ان پر الزامات و اعتراضات عائد کرتے اور بے ادبی کا اظہار کرتے ہیں اور اس پر یہ سمجھتے ہیں کہ یہی مسلک حق ہے انہیں غور و فکر کی دعوت ہے. اسلاف سے کٹ کر اور جماعت سے علاحدہ ہو کر ہمہ دانی کے زعم میں مبتلا ہو کر جو لوگ قرآن و حدیث کو پڑھتے اور اپنی ناپختہ عقل سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں وہ ایسی ہی بھیانک فکری غلطیوں کا شکار ہوتے ہیں. اللہ ہم سب کو ہدایت دے اور صحیح غلط کی تمیز عطا فرمائے. آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×