اسلامیات
بدعت اور اس کی نحوست
’بدعت‘ عربی زبان کا لفظ ہے، جو ’بَدَعَ‘ سے مشتق ہے۔ اس کے معنی ’سابقہ مادّے و اَصل اور مثال و نمونے کے بغیر کوئی نئی چیز ایجاد کرنا ہیں‘۔علامہ ابنِ حجرؒ بدعت کی لُغوی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :بدعت کی اصل یہ ہے کہ اسے بغیر کسی سابقہ نمونہ کے ایجاد کیا گیا ہو۔(فتح الباری)
قرآن مجید میں ہے:بَدِيعُ السَّمٰوَاتِ وَالأَرْضِ وَإِذَا قَضَى أَمْراً فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ۔ وہ بلا مثال کے پیدا فرمانے والا ہے، اور جب فیصلہ فرمائے کسی امر کا، تو فرما دیتا ہے کہ ہوجا، تو ہوجاتا ہے۔(البقرۃ:117)
علامہ ابن حجرؒ نے بدعت کا اِصطلاحی مفہوم واضح کرتے ہوئے لکھا ہے:حدثہ امور سے مراد ایسے نئے کام کا ایجاد کرنا ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو، اِسےشریعت کی اِصطلاح میں ’بدعت‘ کہتے ہیں۔ لہٰذا ایسے کسی کام کو بدعت نہیں کہا جائے گا جس کی اصل شریعت میں موجود ہو یا وہ اُس پر دلالت کرے۔ شرعی اعتبار سے بدعت فقط بدعتِ مذمومہ کو کہتے ہیں، اس کے بر خلاف لغت کی رو سے ہر وہ کام جو سابقہ مثال کے بغیر ایجاد کیا جائے،بدعت ہے۔ چاہے وہ بدعتِ حسنہ ہو یا بدعتِ سیئہ۔ (ایضاً)قاعدہ کلیہ اس باب میں یہ ہے کہ جو امر کلّی یا جزوی طور پر دین میں نہ ہو، اس کو کسی شبہے سے علمی یا عملی طور پر دین کا حصہ بنا لینا ’بدعت‘ ہے، اس طرح حقیقی بدعت ہمیشہ سیئہ ہی ہوگی اور بدعتِ حسنہ صوری بدعت ہے۔(مستفاد از امداد الفتاویٰ)
دین کی تکمیل ہو چکی
باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ۭ آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لیے) پسند کرلیا (لہٰذا اس دین کے احکام کی بلا کسی کمی و بیشی کے پوری پابندی کرو)۔ (المائدۃ:3)
تکمیلِ دین سے مُراد یہ ہے کہ اصولِ عقائد کی صراحت کردی، فرائض واجبات، سنن و مستحبات، حلال و حرام، مکروہات ومفسدات اور مشروعات- جیسے مفسدِ صوم و صلوٰۃ اور بیع وغیرہ- اور غیر منصوص میں اجتہاد کے قوانین، ہر چیز سے واقف کردیا(اب جو چیز ان اصولوں کے خلاف ہوگی، وہ بدعت اور ناجائز ٹھہرے گی۔(تفسیرِ مظہری)اسی لیے رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی نئی بات نکالی، جو دین میں سے نہیں ہے تو قابلِ رد ہے۔ (بخاری، مسلم)
بدعتی کی بات نہ مانی جائے
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ زمانہ قریب ہے کہ میرے بعد تمھارے معاملات کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آئے گی جو سنت کو مٹائیں گے، بدعت پر عمل کریں گے، اور نماز کی وقت پر ادایگی میں تاخیر کریں گے۔ میں نے عرض کیا :اے اللہ کے رسول ! اگر میں ان کا زمانہ پاؤں تو کیا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اے امِ عبد کے بیٹے ! مجھ سے پوچھ رہے ہو کہ کیا کروں ! جو شخص اللہ کی نافرمانی کرے اس کی بات نہیں مانی جائے گی۔(ابن ماجہ)
بدعت کی مذمّت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: مدینہ یہاں سے وہاں تک حرم ہے، اس کا درخت نہ کاٹا جائے اور نہ اس میں کوئی بدعت کی جائے! جس نے اس میں کوئی بدعت کی اُس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت!(بخاری،مسلم)
بدعتی پر پھٹکار
اس کے باوجود جو لوگ دین میں نئی نئی باتیں پیدا کرتے ہیں، وہ انتہائی محروم ہیں۔ جب تک وہ اس قبیح فعل سے توبہ نہ کر لیں، ان کا کوئی نیک عمل قبول نہیں کیا جاتا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ اُس وقت تک بدعتی کے عمل کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں، جب تک کہ وہ بدعت نہ چھوڑ دے۔(ابن ماجہ )
بدعتی اسلام سے جاتا رہتا ہے
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ بدعتی کا روزہ، نماز، صدقہ، حج، عمرہ، جہاد، فرض، نفل (غرض کوئی بھی نیک عمل) قبول نہیں فرماتے، وہ (دھیرے دھیرے)اسلام سے اس طرح نکل جاتا ہے، جس طرح آٹے سے بال۔(ابن ماجہ )
بدعت ایجاد کرنے والے کاگناہ
بدعت یا کوئی بھی گناہ کرنا اور اسے ایجاد کرنا دو الگ باتیں ہیں؛کسی برائی کو ایجاد کرنے والے پر اُن تمام لوگوں کا گناہ بھی ہوتا ہے، جتنے لوگ اُس برائی پر عمل کریں۔ حضرت عمرو بن عوف مزنی سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو میری سنتوں میں سے ایک سنت بھی زندہ کرے، پھر لوگ اس پر عمل کرنے لگیں، تو اس کو عمل کرنے والوں کے برابر اجر ملے گا اور اُن کے اجر میں کچھ بھی کمی نہیں کی جائے گی۔ اور جس نے بدعت ایجاد کی، پھر اس پر عمل کیا گیا، تو اُس پر اُن عمل کرنے والوں کے برابر وبال ہوگا، اور اُن کے وبال میں کچھ بھی کمی نہیں کی جائے گی۔(ابن ماجہ ، ترمذی)
رسول اللہ ﷺ کی وصیّت
رسول اللہ ﷺنے بہ طور وصیت ارشاد فرمایا کہ سنت کا اہتمام کیا جائے اور بدعت سے اجتناب کیا جائے!حضرت عبدالرحمن بن عمرو السلمی اور حجر بن حجر دونوں سے روایت ہے کہ ہم عرباض بن ساریہ کے پاس آئے اور وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی-وَّلَا عَلَي الَّذِيْنَ اِذَا مَا اَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا اَجِدُ مَا اَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ ۔ اور نہ ان لوگوں پر (کوئی گناہ ہے) جن کا حال یہ ہے کہ جب وہ تمھارے پاس اس غرض سے آئے کہ تم انھیں کوئی سواری مہیا کردو، اور تم نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر میں تمھیں سوار کرسکوں۔(التوبہ : 92) -جب عرباض آئے تو ہم نے انھیں سلام کیا اور کہا : ہم دونوں آپ کے پاس زیارت کرنے، آپ کی عیادت کرنے اور آپ سے کچھ استفادہ کرنے آئے ہیں۔ عرباض نے فرمایا:رسول اللہ ﷺ نے ایک روز ہمیں نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ایک بلیغ اور نصیحت سے پُر وعظ فرمایا، جسے سن کر آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور قلوب ڈر گئے۔ ایک کہنے والے نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! (ایسا معلوم ہوتا ہے)گویا کہ یہ رخصت کرنے والے کی نصیحت ہے۔ آپﷺ ہمارے لیے کیا مقرر فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: میں تمھیں اللہ سے ڈرنے اور تقوے، اور سننے و ماننے کی کی وصیت کرتا ہوں،اگرچہ ایک حبشی غلام تمھارا امیر ہو! جو شخص تم میں سے میرے بعد زندہ رہے گا، عنقریب وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا! تم پر لازم ہے کہ تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاے راشدین کی سنت کو پکڑے رہو اور اسے ڈاڑھوں سے مضبوط پکڑ کر رکھو اور دین میں نئی باتیں نکالنے سے بچتے رہو ، کیوں کہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔(ابوداود)
بدعت کا انجام
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ ﷺ خطبہ دیتے تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے، جیسے کہ اس کا حق ہے، پھر فرماتے: جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں، جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ یقین رکھو سب سے سچّی کتاب اللہ کی کتاب اور سب سے بہتر طریقہ محمد کا طریقہ ہے۔ سب سے بری چیز (دین میں) پیدا کی گئی نئی چیز ہے،ہر نئی چیز بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے کر جانے والی ہے۔(نسائی)
حوضِ کوثر پر بدعتیوں کا حشر
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا- جب کہ آپ عرفات میں اپنی کٹی اونٹنی پر سوار تھے- تمھیں معلوم ہے یہ کون سا دن، کون سا مہینہ اور کون سا شہر ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: یہ شہرمحترم(یعنی مکہ مکرمہ)، مہینہ محترم(یعنی ذو الحجہ) اور دن محترم (یعنی عرفہ) ہے۔ آپ ﷺ نےفرمایا: غور سے سنو :تمھارے اموال اور خون بھی تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے اس ماہ کی، اس شہر اور دن کی حرمت ہے! غورسے سنو: میں حوضِ کوثر پر تمھارا پیش خیمہ ہوں اور تمھاری کثرت پر باقی امتوں کے سامنے فخر کروں گا، اس لیے مجھے روسیاہ نہ کرنا (کہ میرے بعد بدعتوں میں مبتلا ہوجاؤ)! (اس دن) کچھ لوگ مجھ سے چھڑوائے جائیں گے تو میں عرض کروں گا: اے میرے رب یہ میرے امتی ہیں! ربِ تعالیٰ فرمائیں گے: آپ کو نہیں معلوم، اِنھوں نے آپ کے بعد کیا کیا بدعتیں ایجاد کیں!(ابن ماجہ )
اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ اور بدعتوں سے اجتناب کی توفیق سے نوازے۔ آمین
قرآن مجید میں ہے:بَدِيعُ السَّمٰوَاتِ وَالأَرْضِ وَإِذَا قَضَى أَمْراً فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ۔ وہ بلا مثال کے پیدا فرمانے والا ہے، اور جب فیصلہ فرمائے کسی امر کا، تو فرما دیتا ہے کہ ہوجا، تو ہوجاتا ہے۔(البقرۃ:117)
علامہ ابن حجرؒ نے بدعت کا اِصطلاحی مفہوم واضح کرتے ہوئے لکھا ہے:حدثہ امور سے مراد ایسے نئے کام کا ایجاد کرنا ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو، اِسےشریعت کی اِصطلاح میں ’بدعت‘ کہتے ہیں۔ لہٰذا ایسے کسی کام کو بدعت نہیں کہا جائے گا جس کی اصل شریعت میں موجود ہو یا وہ اُس پر دلالت کرے۔ شرعی اعتبار سے بدعت فقط بدعتِ مذمومہ کو کہتے ہیں، اس کے بر خلاف لغت کی رو سے ہر وہ کام جو سابقہ مثال کے بغیر ایجاد کیا جائے،بدعت ہے۔ چاہے وہ بدعتِ حسنہ ہو یا بدعتِ سیئہ۔ (ایضاً)قاعدہ کلیہ اس باب میں یہ ہے کہ جو امر کلّی یا جزوی طور پر دین میں نہ ہو، اس کو کسی شبہے سے علمی یا عملی طور پر دین کا حصہ بنا لینا ’بدعت‘ ہے، اس طرح حقیقی بدعت ہمیشہ سیئہ ہی ہوگی اور بدعتِ حسنہ صوری بدعت ہے۔(مستفاد از امداد الفتاویٰ)
دین کی تکمیل ہو چکی
باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ۭ آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لیے) پسند کرلیا (لہٰذا اس دین کے احکام کی بلا کسی کمی و بیشی کے پوری پابندی کرو)۔ (المائدۃ:3)
تکمیلِ دین سے مُراد یہ ہے کہ اصولِ عقائد کی صراحت کردی، فرائض واجبات، سنن و مستحبات، حلال و حرام، مکروہات ومفسدات اور مشروعات- جیسے مفسدِ صوم و صلوٰۃ اور بیع وغیرہ- اور غیر منصوص میں اجتہاد کے قوانین، ہر چیز سے واقف کردیا(اب جو چیز ان اصولوں کے خلاف ہوگی، وہ بدعت اور ناجائز ٹھہرے گی۔(تفسیرِ مظہری)اسی لیے رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی نئی بات نکالی، جو دین میں سے نہیں ہے تو قابلِ رد ہے۔ (بخاری، مسلم)
بدعتی کی بات نہ مانی جائے
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ زمانہ قریب ہے کہ میرے بعد تمھارے معاملات کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آئے گی جو سنت کو مٹائیں گے، بدعت پر عمل کریں گے، اور نماز کی وقت پر ادایگی میں تاخیر کریں گے۔ میں نے عرض کیا :اے اللہ کے رسول ! اگر میں ان کا زمانہ پاؤں تو کیا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اے امِ عبد کے بیٹے ! مجھ سے پوچھ رہے ہو کہ کیا کروں ! جو شخص اللہ کی نافرمانی کرے اس کی بات نہیں مانی جائے گی۔(ابن ماجہ)
بدعت کی مذمّت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: مدینہ یہاں سے وہاں تک حرم ہے، اس کا درخت نہ کاٹا جائے اور نہ اس میں کوئی بدعت کی جائے! جس نے اس میں کوئی بدعت کی اُس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت!(بخاری،مسلم)
بدعتی پر پھٹکار
اس کے باوجود جو لوگ دین میں نئی نئی باتیں پیدا کرتے ہیں، وہ انتہائی محروم ہیں۔ جب تک وہ اس قبیح فعل سے توبہ نہ کر لیں، ان کا کوئی نیک عمل قبول نہیں کیا جاتا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ اُس وقت تک بدعتی کے عمل کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں، جب تک کہ وہ بدعت نہ چھوڑ دے۔(ابن ماجہ )
بدعتی اسلام سے جاتا رہتا ہے
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ بدعتی کا روزہ، نماز، صدقہ، حج، عمرہ، جہاد، فرض، نفل (غرض کوئی بھی نیک عمل) قبول نہیں فرماتے، وہ (دھیرے دھیرے)اسلام سے اس طرح نکل جاتا ہے، جس طرح آٹے سے بال۔(ابن ماجہ )
بدعت ایجاد کرنے والے کاگناہ
بدعت یا کوئی بھی گناہ کرنا اور اسے ایجاد کرنا دو الگ باتیں ہیں؛کسی برائی کو ایجاد کرنے والے پر اُن تمام لوگوں کا گناہ بھی ہوتا ہے، جتنے لوگ اُس برائی پر عمل کریں۔ حضرت عمرو بن عوف مزنی سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو میری سنتوں میں سے ایک سنت بھی زندہ کرے، پھر لوگ اس پر عمل کرنے لگیں، تو اس کو عمل کرنے والوں کے برابر اجر ملے گا اور اُن کے اجر میں کچھ بھی کمی نہیں کی جائے گی۔ اور جس نے بدعت ایجاد کی، پھر اس پر عمل کیا گیا، تو اُس پر اُن عمل کرنے والوں کے برابر وبال ہوگا، اور اُن کے وبال میں کچھ بھی کمی نہیں کی جائے گی۔(ابن ماجہ ، ترمذی)
رسول اللہ ﷺ کی وصیّت
رسول اللہ ﷺنے بہ طور وصیت ارشاد فرمایا کہ سنت کا اہتمام کیا جائے اور بدعت سے اجتناب کیا جائے!حضرت عبدالرحمن بن عمرو السلمی اور حجر بن حجر دونوں سے روایت ہے کہ ہم عرباض بن ساریہ کے پاس آئے اور وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی-وَّلَا عَلَي الَّذِيْنَ اِذَا مَا اَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا اَجِدُ مَا اَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ ۔ اور نہ ان لوگوں پر (کوئی گناہ ہے) جن کا حال یہ ہے کہ جب وہ تمھارے پاس اس غرض سے آئے کہ تم انھیں کوئی سواری مہیا کردو، اور تم نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر میں تمھیں سوار کرسکوں۔(التوبہ : 92) -جب عرباض آئے تو ہم نے انھیں سلام کیا اور کہا : ہم دونوں آپ کے پاس زیارت کرنے، آپ کی عیادت کرنے اور آپ سے کچھ استفادہ کرنے آئے ہیں۔ عرباض نے فرمایا:رسول اللہ ﷺ نے ایک روز ہمیں نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ایک بلیغ اور نصیحت سے پُر وعظ فرمایا، جسے سن کر آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور قلوب ڈر گئے۔ ایک کہنے والے نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! (ایسا معلوم ہوتا ہے)گویا کہ یہ رخصت کرنے والے کی نصیحت ہے۔ آپﷺ ہمارے لیے کیا مقرر فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: میں تمھیں اللہ سے ڈرنے اور تقوے، اور سننے و ماننے کی کی وصیت کرتا ہوں،اگرچہ ایک حبشی غلام تمھارا امیر ہو! جو شخص تم میں سے میرے بعد زندہ رہے گا، عنقریب وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا! تم پر لازم ہے کہ تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاے راشدین کی سنت کو پکڑے رہو اور اسے ڈاڑھوں سے مضبوط پکڑ کر رکھو اور دین میں نئی باتیں نکالنے سے بچتے رہو ، کیوں کہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔(ابوداود)
بدعت کا انجام
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ ﷺ خطبہ دیتے تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے، جیسے کہ اس کا حق ہے، پھر فرماتے: جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں، جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ یقین رکھو سب سے سچّی کتاب اللہ کی کتاب اور سب سے بہتر طریقہ محمد کا طریقہ ہے۔ سب سے بری چیز (دین میں) پیدا کی گئی نئی چیز ہے،ہر نئی چیز بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے کر جانے والی ہے۔(نسائی)
حوضِ کوثر پر بدعتیوں کا حشر
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا- جب کہ آپ عرفات میں اپنی کٹی اونٹنی پر سوار تھے- تمھیں معلوم ہے یہ کون سا دن، کون سا مہینہ اور کون سا شہر ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: یہ شہرمحترم(یعنی مکہ مکرمہ)، مہینہ محترم(یعنی ذو الحجہ) اور دن محترم (یعنی عرفہ) ہے۔ آپ ﷺ نےفرمایا: غور سے سنو :تمھارے اموال اور خون بھی تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے اس ماہ کی، اس شہر اور دن کی حرمت ہے! غورسے سنو: میں حوضِ کوثر پر تمھارا پیش خیمہ ہوں اور تمھاری کثرت پر باقی امتوں کے سامنے فخر کروں گا، اس لیے مجھے روسیاہ نہ کرنا (کہ میرے بعد بدعتوں میں مبتلا ہوجاؤ)! (اس دن) کچھ لوگ مجھ سے چھڑوائے جائیں گے تو میں عرض کروں گا: اے میرے رب یہ میرے امتی ہیں! ربِ تعالیٰ فرمائیں گے: آپ کو نہیں معلوم، اِنھوں نے آپ کے بعد کیا کیا بدعتیں ایجاد کیں!(ابن ماجہ )
اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ اور بدعتوں سے اجتناب کی توفیق سے نوازے۔ آمین