اسلامیات

موت کو سمجھا ہے غافل اختتام زندگی

موت ایک ایسا لفظ ہے جس کے سنتے ہی ہر انسان کانپ اٹھتا ہے ، اس کے تصور سے سر چکرا جاتا ہے،دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتی ہیں ،ماتھے پر پسینہ چھوٹ جاتاہے ،ہاتھوں میں تھر تھراہٹ ،پیروں میں لڑکھڑاہٹ اور پورے جسم میں لرزہ طاری ہوجاتاہے،موت ایک اٹل فیصلہ ہے ،سچی حقیقت ہے،ناقابل انکار عمل ہے اور ایسی ملاقات ہے جس سے کسی انسان کو انکار نہیں ہے، دنیا میں بہت سی چیزوں کے منکر حتی کہ خدا کا انکار کرنے والے بھی ملیں گے لیکن ڈھونڈنے پر بھی موت کا انکار کرنے والے نظر نہیں آئیں گے، ہر ایک کے لئے و موت کا آنا یقینی ہے ،ہر ایک کو مرنا یقینی ہے اور ہر ایک کے لئے موت کا مزہ چکھنا لازمی ہے،موت کا اپنا ایک وقت مقرر ہے ،وہ وقت مقررہ پر ہی آتی ہے ،نہ ایک لمحہ پہلے آتی ہے اور نہ ہی ایک لمحہ تاخیر سے پہنچتی ہے،اُسے ہر ایک کا پتہ معلوم ہے ، ہرشہر ،ہر گلی اور ہر گھر کو جانتی ہے، موت ہر امیر وغریب ،بادشاہ وفقیر اور شاہ وگدا کے پاس وقت موعود پر پہنچ جاتی ہے ، وہ آتی ہے تو مالدار کو کنگال بنادیتی ہے ، تخت نشین کو فرش پر پہنچا دیتی ہے،متکبر کو کمر کے بل لٹا دیتی ہے ،پہلوان کو پچھاڑ دیتی ہے ،محل میں رہنے والے کو قبر میں پہنچادیتی ہے اور مخملیں بستر پر سونے والے کو مٹی میں سلادیتی ہے،اس کے آتے ہی شہنائی کے گھر ماتم کدے میں بدل جاتے ہیں ، ہنگامے سناٹے میں تبدیل ہوجاتے ہیں،کھلے چہرے زرد پڑجاتے ہیں اور انسانوں پر سکتہ طاری ہوجاتا ہے ۔
اس بات کو سب ہی بخوبی جانتے ہیں کہ موت کا آنا یقینی ہے ،موت ہر ایک کو آکر رہے گی اور ہر جاندار کو موت ابدی نیند سلاکر رہے گی ، یہ بھی سب جانتے ہیں کہ دنیوی زندگی کے خاتمہ کا نام موت ہے ،موت کی آغوش میں انسان دنیا سے اس قدر دور چلاجاتا ہے جس کے بعد دوبارہ دنیا میں اس کی واپسی ناممکن ہو جاتی ہے ،انسان مرنے کے بعد کہاں چلا جاتا ہے ، کہاں اس کا ٹھکانہ ہوتا ہے اور اسے کیا نئی زندگی بھی ملتی ہے ؟ بہت سے مذاہب اس مسئلہ میں الگ الگ عقیدہ رکھتے ہیں مگر اسلامی عقیدہ ہے کہ دنیا کے علاوہ ایک اور دنیا ہے جسے آخرت کہاجاتا ہے، دنیوی زندگی کے خاتمہ کے بعد اُخروی زندگی کی شروعات ہوتی ہے جو دنیوی زندگی سے لاکھوں گنا طویل اور خوبصورت ہے ،دنیا اور دنیوی زندگی عارضی ،محدود اور فانی ہے اس کے برعکس اُخروی زندگی اور وہاں کا قیام وقرار باقی اور لامحدود ہے، موت دنیوی زندگی کے خاتمہ اور اُخروی زندگی میں داخلہ کا ذریعہ ہے،اسی لئے موت کو پُل بھی کہا جاتا ہے جس پر سے گزر کر ایک انسان عالم آخرت میں پہنچ جاتا ہے ، قرآن مجید میں جگہ جگہ آخرت کا ذکر موجود ہے اور دنیا کو عارضی اور آخرت کو باقی بتایا گیا ہے ،یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انسانوں کے لئے دنیا کی زندگی عارضی اور آخرت کی زندگی دائمی ہے ،دنیا امتحان گاہ ہے اور آخرت انعام پانے کی جگہ ہے ،تمام آسمانی کتابوں میں آخرت کا ذکر موجود ہے اور تمام انبیاء ؑ نے بھی اپنی اپنی قوموں سے آخرت ،اس کی دائمی زندگی ،وہاں کی نعمتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کے حاصل کرنے کی طرف توجہ دلا ئی ہے ،قرآن مجید میں اجمالاً اور تفصیلا ً دونوں طرح آخرت کا ذکر کیا گیا ہے، رسول اللہ ؐ نے آخرت ،وہاں کی زندگی ،ا س جگہ کے احوال و کیفیات سے اپنی امت کو آگاہ کیا ہے بلکہ فرماں برداروں کی جگہ جنت اور انسانی تصور سے باہر وہاں کی نعمتوں کا تذکرہ اور نافرمانوں کا ٹھکانہ جہنم اور اس میں دئے جانے والے سخت ترین عذابات کا نہایت تفصیل کے ساتھ ذکر فرمایا ہے،ذخیرہ احادیث آخرت اور جنت وجہنم کی تفصیلات سے بھری پڑی ہیں۔
جس طرح ذات الٰہی ، اس کے یکتا ہونے اور اس کی ذات کے پاک بے عیب ہونے پر ایمان لانا ضروری ہے ،قرآن مجید کے آخری آسمانی کتاب ہونے اور پیغمبر ؐ کے آخری سچے نبی ہونے پر ایمان لانا ضروری ہے اسی طرح قیامت، آخرت ،جنت وجہنم اور وہاں کی لامحدود زندگی پر بھی ایمان لانا لازمی ہے ،آخرت پر ایمان لائے بغیر کوئی شخص داخل اسلام نہیں ہو سکتا ہے اور نہ ہی اسے مسلمان کہا جاسکتا ہے ،صاحب ایمان بننے کے لئے جہاں اور چیزوں پر ایمان لانا ضروری ہے وہیں آخرت پر بھی ایمان لانا لازمی ہے بلکہ آخرت ایمان کا بنیادی جز اور اس کا اہم عقیدہ ہے ، قرآن مجید کی پہلی سورۃ الفاتحہ میں :مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن؛ کہہ کر آخرت کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے اس پر ایمان لانے کی جانب توجہ دلائی گئی ہے،کیونکہ آخرت وہ جگہ ہے جہاں اچھے اور بُرے اعمال کا بد دیا جانا طے کیا گیا ہے ،جولوگ آخرت کا انکار کرتے ہیں وہ ہر گز صاحب ایمان نہیں کہلا سکتے بلکہ آخرت کے منکر کافر ہیں ، قرآن مجید میں آخرت اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کا انکا والوں کی سخت الفاظ میں تردید کی گئی ہے اور رسول اللہ ؐ کی زبانی قسم کے ذریعہ انہیں بتایا گیا ہے کہ وہ مرنے کے بعد پھر زندہ کئے جائیں گے اور انہیں بتایا جائے گا جو کچھ انہوں نے دنیا میں کیا تھا : زَعَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا أَن لَّن یُبْعَثُوا قُلْ بَلَی وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ وَذَلِکَ عَلَی اللَّہِ یَسِیْرٌ(التغابن:۷)’’جن لوگوں نے کفر کو اپنا لیا ہے ،وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں کبھی دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا ،(اے پیغمبرؐ) کہہ دو ؛کیوں نہیں ؟ میرے پروردگار کی قسم! تمہیں ضرور زندہ کیا جائے گا پھر تمہیں بتایا جائے گا کہ تم نے کیا کچھ کیا تھااور یہ اللہ کے لئے معمولی بات ہے‘‘۔
مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے اور آخرت میں پہنچائے جانے کا تصور اور اس کا عقیدہ انسان کو انسان بناتا ہے ،حیوانی صفات سے دور رکھتا ہے ، اعتدال پر گامزن رکھتا ہے ،خالق کا فرماں بردار بناتا ہے ،نافرمانی اور بے راہ روی سے دور رکھتا ہے ،ناانصافی اور زیادتی سے بچاتا ہے اور اپنے اندر جواب دہی کا احساس پیدا کرتا ہے اور یہی احساس انسان کو ہدایت یافتہ لوگوں کی صف میں کھڑا کرا دیتا ہے ،جو لوگ قرآن مجید کی ہدایت سے فائدہ اٹھاتے ہیں ان کی جو صفات بیان کی گئیں ہیں ان میں سے ایک آخرت پر ایمان لانا بھی ہے ،قرآن مجید میں ہے : والَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْْکَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِکَ وَبِالآخِرَۃِ ہُمْ یُوقِنُون(البقرہ:۴)’’وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں اس پر بھی جو (اے نبی ؐ) آپ پر نازل کیا گیا ہے اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا ہے اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں ‘‘ اس آیت مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے مفتی اعظم مفتی محمد شفیع عثمانی ؒ نے بڑی اہم ترین اور نہایت قیمتی باتیں تحریر فرمائی ہیں جس سے آخرت پر ایمان لانے کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ ایمان بالآخرت انسانی زندگی میں کیا انقلاب برپا کرتا ہے اور اس کے زمین پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں :فرماتے ہیں کہ آخرت پر ایمان ایک انقلابی عقیدہ ہے ،آخرت پر ایمان لانا اگر چہ ایمان بالغیب کے لفظ میں آچکا ہے مگر اس کو پھر صراحۃً اس لئے ذکر کیا گیا کہ یہ اجزائے ایمان میں اس حیثیت سے سب میں اہم جز ہے کہ مقتضائے ایمان پر عمل کا جذبہ پیدا کرنا اسی کا اثر ہے،اور اسلامی عقائد میں یہی وہ انقلابی عقیدہ ہے جس نے دنیا کی کایا پلٹ کر رکھ دی اور جس نے آسمانی تعلیم پر عمل کرنے والوں کو پہلے اخلاق واعمال میں اور پھر دنیا کی سیاست میں بھی تمام اقوام عالم کے مقابلہ میں ایک امتیازی مقام عطا فرمایا اور جو عقیدہ توحید ورسالت کی طرح تمام انبیاء اور تمام شرائع میں مشترک اور متفق علیہ چلا آتا ہے،وجہ ظاہر ہے کہ جن لوگوں کے سامنے صرف دنیا کی زندگی اور اسی کی عیش وعشرت ان کا انتہا ئی مقصود ہے اسی کی تکلیف کو تکلیف سمجھتے ہیں آخرت کی زندگی اور اعمال کے حساب کتاب اور جزاء وسزا کو وہ نہیں مانتے وہ جب جھوٹ ،سچ اور حلال وحرام کی تفریق کو اپنی عیش وعشرت میں خلل اندازی ہوتے دیکھیں تو ان کو جرائم سے روکنے والی کوئی چیز باقی نہیں رہتی ،حکومت کے تعزیری قوانین قطعا انسداد جرائم اور اصلاح اخلاق کے لئے کافی نہیں ،عادی مجرم تو ان سزاؤں کے عادی ہوہی جاتے ہیں ،کوئی شریف انسان اگر تعزیری سزا کے خوف سے اپنی خواہشات کو ترک بھی کرے تو اسی حد تک کہ اس کو حکومت کی داروگیر کا خطرہ ہو،خلوتوں میں اور رازدارانہ طریقوں پر جہاں حکومت اور اس کے قوانین کی رسائی نہیں ،اسے کون مجبور کر سکتا ہے کہ اپنی عیش وعشرت اور خواہش کو چھوڑ کر پابندیوں کا طوق اپنے گلے میں ڈال لے، ہاں وہ صرف عقیدہ آخرت اور خوف خدا ہی ہے جس کی وجہ سے انسان کی ظاہری اور باطنی حالت جلوت وخلوت میں یکساں ہو سکتی ہے وہ یقین رکھتا ہے کہ مکان کے بند دروازوں اور ان پر پہرہ چوکیوں میں اور رات کی تاریکیوں میں بھی کوئی دیکھنے والا مجھے دیکھ رہا ہے ،کوئی لکھنے والا میرے اعمال کو لکھ رہا ہے ،یہی وہ عقیدہ تھا جس پر پورا عمل کرنے کی وجہ سے اسلام کے ابتدائی دور میں ایسا پاکباز معاشرہ پیدا ہواکہ مسلمانوں کی صورت دیکھ کر،چال چلن دیکھ کر لوگ دل وجان سے اسلام کے گرویدہ ہوجاتے تھے ،یہاں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ اس آیت میں بالآخرۃ کے ساتھ یؤمنون نہیں بلکہ یوقنون استعمال فرمایا گیا ہے ،کیونکہ ایمان کا مقابل تکذیب ہے اور ایقان کا مقابل شک وتردد ،اس میں اشارہ ہے کہ آخرت کی زندگی کی محض تصدیق کرنا مقصد کو پورا نہیں کرتا بلکہ اس کا ایسا یقین ضروری ہے جیسے کوئی چیز آنکھوں کے سامنے ہو ،متقین کی یہی صفت ہے کہ آخرت میں حق تعالیٰ کے سامنے پیشی اور حساب کتاب ،پھر جزا وسزا کا نقشہ ہر وقت ان کے سامنے رہتا ہے(معارف القرآن ،تفسیر سورہ بقرہ ،آیت:۴)۔
موت کے بعد ایک دوسری زندگی کے اعتقاد و ایقان ،رب سے ملاقات ،اس کے دربار میں پیشی اور وہاں حساب وکتاب دینے کے خوف سے جہاں ایک طرف انسانی زندگی میں درستگی آتی ہے ،مزاج میں اعتدال پیدا ہوتا ہے ، شب وروز اور اس کے لیل ونہار کی قیمت کا اندازہ ہوتا ہے جس کے بعد صحیح سمت زندگی گزارنے میں مدد ملتی ہے وہیں دوسری طرف خدا سے ملاقات اور اس کے دیدار کا اشتیاق پیدا ہوتا ہے جس سے اس کی محبت ومعرفت کا چراغ روشن ہوتا ہے اور یہ اعمال صالحہ کے اختیار کرنے اور اعمال سیئہ سے بچنے کا ذریعہ بنتا ہے، یقینا اچھے اعمال جہاں انسان کو خدا کی خوشودی دلاتے ہیں وہیں بُرے اعمال انسان کو رب کی نظروں میں گرادیتے ہیں، تیسری طرف موت کے بعد کی زندگی کے احساس سے موت کا ڈر وخوف دل سے نکل جاتا ہے ، انسان بے خوف ہو کر زندگی گزارتا ہے ،وہ آئندہ زندگی کے بارے جان کر خوش ہوتا ہے اور وہاں کی نعمتوں کے حاصل کرنے کے لئے اپنا تن من اور دھن لٹا تا رہتا ہے اور جو انسان آخرت کی فکر اور وہاں کی ابدی زندگی کی دائمی نعمتوں کی خواہش رکھتا ہے تو وہ ضرور ان چیزوں کو اختیار کرتا ہے جن سے وہاں کی زندگی سنور تی ہے اور ابدی راحتیں میسر آتی ہیں ، اسے جب معلوم ہوتا ہے کہ اس فانی ،محدود اور مختصر زندگی کو ربانی احکامات اور نبوی تعلیمات پر چلانے سے ایک طرف یہاں کی زندگی میں سکون حاصل ہوتا ہے اور وہاں کی زندگی نعمتو ں سے بھر پور ہوتی ہے اور خدا کی طرف سے انعام واکرام کی بارشیں ہوتی ہیں تو پھر وہ ابدی راحتوں کے لئے دنیوی عارضی دشواریوں سے اس طرح گزرتا جاتا ہے جس طرح راہ کا مسافر منزل کے شوق میں بے خوف وخطر ہوکر دیوانہ وار قدم بڑھاتا چلتا جاتا ہے ۔
اسلام نے اپنے ماننے والوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ عارضی زندگی کے مقابلہ میں دائمی زندگی کی فکر کریں اور اپنی دنیوی زندگی کو اخروی زندگی کی کامیابی کے حصول میں صرف کریں ،کیونکہ اخروی زندگی کی کامیابی اور ناکامی کا مدار دنیوی زندگی کے صحیح اور غلط طریقے کے گزارنے پر موقوف ہے ،گویا دنیوی زندگی امتحان ہے اور اخروی زندگی انعام ہے ، امتحان کی کوششیں اور جد جہد کامیابی کی نوید ہوتی ہیں ،جو امتحان کو امتحان نہیں سمجھتا اس کا انجام بھیانک اور خطرناک ہوتا ہے ، ذلت ورسوائی ،ناکامی ونامرادی اور بے بسی وبے چارگی اس کا مقدر بن جاتی ہے ،وہ ٹھوکروں میں جیتا ہے اور ٹھوکروں ہی میں مرتا ہے ،جو شخص دنیوی زندگی اور یہاں کے لمحات کو امتحان نہیں سمجھتا اور اپنی نادانی اور من مانی کی وجہ سے یوں ہی گزار دیتا ہے وہ موت ہی سے ناکامیوں میں گھرجاتا ہے ، دنیا کا وقت تو جیسے تیسے گزرجاتا ہے موت کا جھٹکا اس کے وجود کو ہلا کر رہ دیتا ہے ،ساری ناکامیاں عیاں ہوجاتی ہیں ،ہر لمحہ عذاب کا کوڑا بن کر اس کے وجود پر برستا رہتا ہے اور وہ عتاب ربانی کی چکی میں پستا رہتا ہے ،وہ اپنے گزرے ہوئے دنوں پر افسوس کرتا ہے اور ندامت کے آنسو بہاتا رہتا ہے مگر اس وقت اس کی یہ ندامت کام نہیں آتی،وہ جان چکا ہوتا ہے کہ دنیوی امتحان کو نظر انداز کرنے کا کس قدر بھیانک نتیجہ سامنے آیا ہے ، وہ کہتا ہے کہ کاش ہم بھی مسلمان ہوتے اور رب کی فرماں برداری کرتے :رُّبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ لَوْ کَانُواْ مُسْلِمِیْن(الحجر:۲)’’ایک وقت آئے گا جب یہ کافر تمنا ئیں کریں گے کہ وہ مسلمان ہوتے‘‘ ،مگر اس وقت ان کی تمنا بس تمنا ہی رہے گی اور ان سے کہا جائے گا کہ اب کسی کو دوبارہ دنیا میں بھیجا نہیں جائے گا بلکہ دنیا میں جو کچھ کیا تھا اس کا بدلہ دیا جائے گا ،بر خلاف جو مسلمان ہوں گے جنہوں نے دنیا پر آخرت کو ترجیح دی ہوگی اور اس کے لمحات کو آخرت کی کامیابی کا زینہ سمجھتے ہوئے گزرا ہوگا وہ خوش ہوں گے اور اپنے ان دوستوں سے مخاطب ہو کر کہیں گے جنہیں وہ دنیا میں دنیا کی حقیقت سے آگاہ کیا کرتے تھے اور انہیں آخرت کی تیاری کی فکر دلاتے تھے اور یہاں کی کامیابی کاراز بتایا کرتے تھے مگر افسوس کے انہوں نے سنی اَن سنی کردی تھی ،ان سے کہیں گے تم نے آنکھوں سے دیکھ لیا کہ دنیا سے محبت اور اس کی فانی زندگی سے غیر معمولی چمٹ جانے کا انجام کیا ہوا بالآخر ہم کامیاب ہوئے اور تم ناکام ۔
آخرت کا تصور اور وہاں کی زندگی کے حصول کا یقین مومن کو مطمئن اور غیر مومن کو مضطرب بنادیتا ہے ، اسی تصور وعقیدے کی وجہ سے مومن کے لئے موت ایک تحفہ بن جاتی ہے اور غیر مومن کے لئے موت سزا بن جاتی ہے ، مومن چونکہ ہر وقت آخرت کی فکر میں رہتا ہے اور وہاں کی کامیابی کی کوشش کرتا رہتاہے اور اس کی نظر دایمی راحت والی زندگی پر ہوتی ہے نہ کہ عارضی سکون پر اس لئے وہ دنیا کی مصیبتوں ،تکلیفوں اور کلفتوں سے گھبراتا نہیں ہے بلکہ اسے خدا کا فیصلہ مان کر صبر کرتے ہوئے ثواب کی امید رکھتا ہے تو یہ میصیبت بھی اس کے لئے راحت اور حصول نعمت کا ذریعہ بن جاتی ہے ،وہ موت سے نہ خوف کھاتا ہے اور نہ ہی بھاگتا ہے ،اسے معلوم ہے کہ لاکھوں کوششوں کے باوجود انسان کے لئے موت سے مفر نہیں ہے ، موت کا آنا یقینی ہے وہ آکر رہے گی چاہے انسان مضبوط سے مضبوط قلعہ میں بند ہو کر رہ جائے تو پھر اس سے گھبرانا اور ڈرکر بھاگنے کی کوشش کرنا ایک حماقت بلکہ پاگل پن ہے ،مومن موت کو ایک نئی دائمی زندگی کی شروعات سمجھتا ہے اس لئے خوف کے بجائے بڑے شوق سے اسے گلے لگاتا ہے ، جو لوگ موت کو اختتام زندگی سمجھتے ہیں وہ دراصل موت کی بعد کی زندگی پر ایمان نہیں رکھتے ،اسی وجہ سے معمولی باتوں جیسے بیماری وپریشانی اور ناگہانی حالات کے آنے پر مارے ڈر کے مرے جاتے ہیں ،دراصل ان کا ڈر ہی انہیں مارتا ہے اور موت کے قریب پہنچا دیتا ہے ،بر خلاف جو لوگ موت کو عارضی زندگی سے دائمی زندگی کی طرف کوچ کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں ،یقینا ایسے لوگوں کے لئے موت زندگی کا اختتام نہیں بلکہ نئی زندگی کا آغاز ہوتی ہے ، موت کی اسی حقیقت کو سمجھا تے ہوئے شاعراسلام علامہ اقبالؒ نے کہا ہے ؎
موت کو سمجھا ہے غافل اختتام زندگی

ہے یہ شام زندگی صبح دوام زندگی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×