اسلامیات

خوابِ غفلت سے جاگ تو!

کہتے ہیں کہ حرکت کے میں برکت ہے اور غفلت میں ذلت ہے ،کوششیں کامیابی کا زینہ ہوتی ہیں اور بے حسی پستی کی علامت ہوتی ہیں ،جہد مسلسل سے صحراوں کا سفر سہل ہوجاتا ہے اور غفلت وسستی سے صحرائی ریت سمندر کا پانی نظر آتا ہے،بذدلی ،کاہلی اور لاپرواہی آدمی کو انجام سے بے خبر بنادیتی ہے اور بلند ہمتی،عزم وحوصلہ اور بیداری آدمی کو ناکامی سے بچاتی ہے،کہنے والوں نے بڑی سچی بات کہی ہے کہ ’’ حوصلہ مندوں کے ساتھ خدا کی مدد ونصرت شامل حال ہوتی ہے اور غافلوں سے اللہ تعالیٰ اپنی نصرت ہٹا لیتے ہیں ‘‘ ، دنیا اسباب کا گھر ہے اس لئے یہاں کامیابی اسی کے قدم چومتی ہے جو جہد مسلسل اور عمل پیہم کے ساتھ زندگی گزارتا ہے اور حالات سے باخبر رہتے ہوئے ثابت قدمی کے ساتھ آگے بڑھتا ہے ، وہ ناموفق حالات سے شکستہ دل نہیں ہوتا اور نہ گھبراتا ہے بلکہ اسے ایک ایسا پتھر سمجھتا ہے جس پر چڑھ کر بلندی حاصل کی جاتی ہے ،یقینا ایسی قوموں ہی کو کامیابیاں نصیب ہوتی ہیں جو بیداری کے ساتھ باخبر ہو کر زندگی گزارتے ہیں ، حالات سے پنجہ آزمائی کی صلاحیت رکھتے ہیں ،ہمت وجرأت سے کام لیتے ہیں اور ناکامی کا خیال تک دل میں پیدا ہونے نہیں دیتے۔
تاریخ گواہ ہے کہ اہل ایمان کے پاس سب سے بڑی طاقت ان کا ایمان ہوتا ہے اور ان کا سب سے قیمتی سرمایہ بھی ان کا ایمان ہی ہے،وہ جانتے ہیں کہ ایمان کی حفاظت اور اس کی سلامتی ہی میں ان کی کامیابی مضمر ہے ،وہ ایمان کی حفاظت اس سے بھی زیادہ کرتے ہیں جو اپنے جان کی حفاظت کرتا ہے ،وہ کبھی بھی دنیا اور سامان دنیا پر نظر نہیں رکھتے بلکہ ان کی نگاہ آخرت اور وہاں کی لامحدود زندگی پر ہوتی ہے ،انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ دنیا کا قیام عارضی اور آخرت کا قیام دائمی ہے ،اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے ایمان اور عمل صالح پر نصرت وکامرانی کا ان سے وعدہ کیا ہے ، وہ کامیابی کے لئے کبھی بھی کثرت وقلت پر نظر نہیں رکھتے اور نہ ہی اسباب پر بھروسا کرتے ہیں بلکہ ان کی نگاہ مسبب الاسباب پر ہوتی ہے ،تاریخ شاہد ہے کہ ہر زمانے اور ہر علاقے میں مسلمانوں کو جو کچھ کامیابی حاصل ہوئی اور وہ حاکمیت کے تاج سے سرفراز کئے گئے اس کے پیچھے ان کی للہیت ،توکل ،انابت الی اللہ اور دین پر استقامت کا بڑا دخل تھا ،ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ہر وقت حالات سے باخبر رہا کرتے تھے ،تدبیر اپنا کر تقدیر پر بھروسہ کرتے تھے ،انہوں نے کبھی بھی غفلت ولاپرواہی کی زندگی نہیں گزاری ،ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھے اور نہ ہی مایوسی کو اپنے اوپر سوار ہونے دیا بلکہ عدل وانصاف کے لئے جد جہد کرتے رہے،سچائی کا ساتھ نبھاتے رہے ،حق کا نعرہ لگاتے رہے اور پوری انسانیت کو انسانیت کا درس دیتے رہے اور انہیں ان کے مقصد حیات سے واقف کراتے رہے ۔
انہی چیزوں کی وجہ سے مسلمان اپنے آباواجداد پر فخر کرتے ہیں اور انہیں فخر کرنا بھی چایئے کہ وہ ان عظیم ہستیوں کی اولاد میں سے ہیں ،مگر ان میں اور ان کے آباواجداد میں زمین وآسمان کا فرق ہے ،وہ غیر معمولی خوبیوں کے مالک تھے اور یہ خوبیوں سے خالی نظر آتے ہیں ، وہ ہر وقت حالات سے باخبر رہتے تھے اور ایک زندہ قوم کی حیثیت رکھتے مگر یہ بے خبر ہیں اور سوتے ہوئے نظر آتے ہیں ، وہ زندہ اور زندہ دل تھے ،برخلاف یہ نیم مردہ بلکہ مردہ دکھائی دے رہے ہیں ،حقیقت یہ ہے کہ ان کی کامیابی کا راز جرأت وہمت اور جد جہد تھی مگر ان کے نام لیوا اپنے آباء واجداد کی صفات عالیہ سے محروم نظر آتے ہیں بات یہ ہے کہ یہ کہنے کو تو مسلمان ہیں مگر ان میں وہ حوصلہ نہیں ہے جو اپنے آبا واجداد میں تھا ،اس وقت یہ جن حالات سے یہ دوچار ہیں اس کی چندبنیادی اور اہم ترین وجہ یہ ہیں (۱) دین سے دوری (۲) دنیا پرستی (۳) آپسی اختلاف اور (۴) غفلت اور لاپرواہی ۔موجودہ دور جسے دور انتشار اور خصوصاً مسلمانوں کے لئے ہر اعتبار سے ازمائشی دور بھی کہا جاسکتا ہے اور دنیا کے تیور اور حکمرانوں کے فیصلے بتارہے ہیں کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے کس قدر دشمن ہیں ،وہ تو ایک لمحہ کے لئے بھی مسلمانوں کو برداشت کرنا نہیں چاہتے ، بلا جھجک ہر الزام مسلمانوں پر لگاتے ہیںاور دنیا کے سامنے انہیں خطرہ بتاتے ہیں ،انہیں جانور پر ترس تو آتا ہے مگر مسلمانوں پر نہیں ،ان کی نظر میں جانور کی جان جان ہے ان کا خون خون ہے مگر مسلمان کی جان تو بے جان ہے اور ان کا خون پانی ہے ،ایسے حالات مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہیں ،انہیں خوب غفلت سے جگانے کے لئے بہت کافی ہیں لیکن افسوس تو یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت اب بھی خوب غفلت میں مبتلا ہے اور اپنے لئے لائحہ عمل تیار کرنے کے بجائے لاپرواہی اور بے عملی کی زندگی گزار نے میں مصروف ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا قانون اور اس کی سنت ہے کہ وہ عامل کی مدد کرتا ہے غافل کی نہیں ،حرکت میں حرارت پیدا کرتا ہے اور سرد و ٹھنڈے کو گرد وغبار کے حوالے کر دیتا ہے ، یقینا اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں کی مدد کرتا ہے جو اس کی بندگی کرتے ہیں اور ان کی دستگیری فرماتا ہے جو اس کی رسی تھام لیتے ہیں ،برخلاف ان لوگوں کو بھلادیتا ہے جو اسے بھول جاتے ہیں اور ان پر ذلت کی چادر ڈال دیتا ہے جو غفلت اور لاپرواہی کرتے ہیں ،مسلمانوں کے لئے لازم ہے کہ وہ غفلت ولاپروہی کی زندگی سے تائب ہوکر اطاعت وفرماں برداری کی طرف لوٹ آئیں ،من مانی چھوڑ کر رب چاہی اپنائیں ،رسم ورواج کی زنجیریں توڑ کر سنت کے زیور سے آراستہ ہو جائیں ،عبادات اور رجوع الیٰ اللہ کا اہتمام کریں ، دین پر عمل کریں ،دنیا میں دل نہ لگائیں اور آپسی اختلافات فراموش کرتے ہوئے متحد ہوکر اسلام کی سر بلندی ،احکام اسلام کی حفاظت ، مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ اور عدل وانصاف وانسانیت کی فلاح کے لئے آواز اٹھائیں ،نہایت افسوس ہے کہ ان حالات میں بھی بہت سے مسلمان بعض ایسے کاموں اور لغویات میں مشغول ہیں جنہیں دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے ،ان کی بے پرواہی اور لاپرواہی دیکھ کر آنسو بہہ پڑتے ہیں ،خصوصا ً نوجوان طبقہ کو غیر اخلاقی حرکات مبتلا اوراوقات کو ضائع کرتے ہوئے دیکھ کر کڑھن محسوس ہوتی ہے ،ان کی بے پرواہی اور غیر سنجیدگی نہ صرف انہیں نقصان پہنچاتی ہے بلکہ اس کے مضر اثرات سے آنے والی نسلیں بھی بچ نہیں سکتیں ، ان حالات میں عموماً امت مسلمہ کے ہر فرد اور خصوصاً امت کا وہ طبقہ جو اپنا ایک اثر رکھتاہے کہ ذمہ داری ہے کہ وہ امت کی رہنمائی کریں ،انہیں خواب غفلت سے جگائیں ،ان میں شعور پیدا کریں ،انہیں حالات سے آگاہ کریں اور ان کے بے جان جسم میں نئی جان ڈالنے کی فکر کریں امید ہے کہ محنتیں رنگ لائیں گی ،حالات بدلیں گے ، دین پر چلنے کے نتیجہ میں کامیابی قدم چومے گی اور جس طرح ہم اپنے آباواجداد پر فخر کرتے ہیں تو اسی طرح آنے والی نسلیں بھی ہم پر فخر کریں گی اور ہمیں احترام کے ساتھ یاد کریں گے مگر اس کے لئے جہد مسلسل اور منزل پانے کا جذبہ لازمی اور ضروری ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×