اسلامیات

سلیقہ نہیں تجھ کو رونے کا بندے

رسول اللہ ؐ چونکہ پوری کائنات کے لئے قیامت تک آخری پیغمبر ہیں اس لئے آپ ؐ کی لائی ہوئی تعلیمات بھی قیامت تک ہر علاقے اور شخص کے لئے ہدایت اور رہنمائی کرتی رہے گی اور ہر شخص اس کے مطابق زندگی گزار کر خدا کی خوشنودی اور دنیا وآخرت کی کامیابی حاصل کرتا رہے گا،چنانچہ اس کے لئے طویل تر ہدایات اور احکامات کی ضرورت چاہئے تھی جس میں ہر زمانے اور ہر علاقے کی مکمل رعایت رکھی گئی ہو ، یقینا اس کے لئے تو ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں صفحات بھی ناکافی ہوتے ،اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ؐ کو جامع کلمات کا تحفہ عنایت کرتے ہوئے اس کے ذریعہ قیامت کی ضرورت کو پورا فرمادیا ،جوامع الکلم ایک طرف جہاں آپ ؐ کی عظمت ورفعت کو اجاگر کر رہے ہیں تو دوسری طرف اپنے اندر پورے دین کو محفوظ کئے ہوئے ہیں ،ہر زمانے میں طالبان علوم نبوت اس نبوی علمی سمندر سے موتی نکالتے رہیں گے اور زندگیوں کو سنوارتے رہیں گے ،’’الدین النصیحۃ ‘‘ یہ الفاظ کے اعتبار سے نہایت مختصر حدیث ہے مگر معانی کے لحاظ سے گویا ہدایت کا ایک سمندر سمودیا گیا ہے ،اس کلمہ جامعہ میں اجمالا پورے دین کا احاطہ کر دیا گیا ہے ، انما الاعمال بالنیات،الدین یسر،الصبر ضیاء،ان کے علاوہ بہت سے ایسے کلمات ہیں جو علمی خزانوں سے بھرے ہوئے ہیں۔
رسول اللہ ؐ نے بہت سے مواقع پر حضرات صحابہؓ کو نصیحت کرتے ہوئے اور بعض موقوں پر حضرات صحابہ ؓ کی درخواست پر انتہائی مختصر مگر نہایت جامع نصیحتیں فرمائی ہیں،ان مختصر سی نصیحتوں میں نہ صرف موجودہ شخصوں کے لئے دین کا اہم ترین پیغام ، زندگی کے لئے راہ عمل بلکہ کامیابی اور نجات کا راستہ بھی ہے ،چنانچہ ایک مختصر حدیث ہے جو صحابی رسول حضرت عقبہ ابن عامر ؓ مروی ہے جس میں رسول اللہ ؐ نے خود ان کی درخواست پر تین نصیحتیں ارشاد فرمائی جو کہ دنیا میں کامیابی اور آخرت میں نجات کا ذریعہ ہیں ، وہ فرماتے ہیں کہ: قلت یا رسول اللہ ماالنجاۃ؟ قال ؐ : أمسک علیک لسانک ولیسعک بیتک وابک علی خطیئتک( ترمذی: ۲۴۰۶)’’میں نے نبی کریم ؐ سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ! دنیا اور آخرت میں نجات کا ذریعہ کیا ہے؟ نبی کریم ؐ نے جواب میں تین چیزوں کی نصیحت فرماکر ان تین باتوں کو نجات کا سبب بتلایا:(۱) اپنی زبان کو قابو میں رکھو(۲) تمہارا گھر تمہاری کفایت کرے (۳) اپنے گناہوں پر رویا کرو‘‘۔
اس حدیث میں پہلی نصیحت زبان کی حفاظت کی تاکید ہے،یقینا انسانی اعضاء میں زبان کو بڑی اہمیت حاصل ہے ،زبان کو دودھاری تلوار بھی کہا جا تا ہے ،یہ اچھائی اور بُرائی دونوں ہی کا ذریعہ ہے ،اس کی مٹھا س سے دشمنی دوستی میں بدل جاتی ہے اور اس کی کڑواہٹ سے دوستی دشمنی میں تبدیل ہوجاتی ہے ،زبان جہاں ایک طرف پل بن کر جوڑ نے کاکام کرتی ہے تو دوسری طرف دیوار بن کر جدا بھی کر دیتی ہے ،زبان زندوں اور مردوں دونوں ہی پر چلتی ہے ،زبان کے صحیح استعمال سے آدمی لاکھوں نیکیاں کما سکتا ہے اور اسی کے غلط اور بے جا استعمال سے ڈھیر ساری نیکیوں کو گنواں بیٹھتا ہے ،رسول اللہ ؐ نے اس حدیث میں اور اس کے علاوہ بہت سی احادیث میں زبان کی حفاظت اور اس کے درست استعمال کی تاکید فرمائی ہے،زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ نوٹ کیا جاتا ہے اور قیامت کے دن ان الفاظ پر باز پرس بھی ہو گی اور اس کے غلط استعمال پر سزا دی جائے گی ،اس لئے زبان کی حفاظت کرنی چاہئے ،ہمارے ہر لفظ کو فرشتے محفوظ کرتے جارہے ہیں ،ارشاد ربانی ہے: ا مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَیْْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ (ٖق:۱۸)’’ انسان کوئی لفظ زبان سے نکال نہیں پاتا مگر اس پر ایک نگران مقرر ہوتا ہے ،ہر وقت (لکھنے کے لئے ) تیار‘‘،زبان کی بد احتیاطی آدمی کو جہنم میں پہنچا نے کے لئے کافی ہے ،حضرت معاذبن جبل ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ؐ سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ! مجھے ایسا عمل بتائے کہ جس کی وجہ سے میں جنت میں داخل ہو سکوں اور جہنم سے دور کر دیا جاؤں ،آپ ؐ نے فرمایا ،اے معاذ! تم نے بہت بڑی بات پوچھی ہے،پھر ارشاد فرمایا : نمازوں کا اہتما کریں ،زکوٰۃ ادا کریں ،حج کی استطاعت ہو تو حج کریں ،شرک سے بچتے رہیں اور ساتھ ہی کچھ نفلی عبادات کی تلقین فرمائی ،اس کے بعد آپ ؐ نے فرمایا : اے معاذ ! کیا تمہیں وہ بات نہ بتلاؤں جس پر گویا ان سب کا دارو مدار ہے؟ حضرت معاذؓ نے عرض کیا ،ضرور بتائیں ، اس پر آپ ؐ نے اپنی زبان مبارک پکڑ کر فرمایا: کف علیک ہذا‘‘ اس کو روکے رکھویعنی قابو میں رکھو ،حضرت معاذؓ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ؐ ! ہم جو باتیں کرتے ہیں کیا اس پر بھی مواخذہ ہوگا ؟ آپ ؐ نے فرمایا اے معاذ تجھے تیری ماں روئے (عربی محاورہ)( بات یہ ہے کہ) لوگوں کو دوزخ میں ان کے منہ کے بل زیادہ تر ان کی زبانوں کی بے باکانہ باتیں ہی ڈلوائیں گی ۔
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ؓ حضرات صحابہ ؓ میں حد درجہ زبان کی حفاظت کیا کرتے تھے ،اپنے منہ میں چھوٹی کنکریاں رکھ لیتے تھے تاکہ زبان سے بے جا گفتگو نہ نکلے ،عظیم محدث حضرت امام احمد ابن حنبل ؒ نے اپنے مرض الوفات کے موقع پر عیادت کے لئے تشریف لائے عظیم بزرگ ومحدث حضرت طاوسؒ سے جب یہ سنا کہ ’’ یکتب الملک کل شئی حتی الأنین‘‘ یعنی فرشتے انسان کی زبان سے نکلا ہوا ہر کلام لکھتے ہیں حتی کہ مریض کا کراہنا بھی لکھ لیا جاتا ہے تو یہ سن امام احمد ابن حنبل ؒ نے کراہنا بھی چھوڑ دیا ،حضرت داؤد الطائی ؒ جو حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کے شاگردوں میں سے ہیں ،وہ ایک مقام سے گزر رہے تھے کہ بے ہوش ہو کر گرپڑے ،لوگ اٹھا کر آپ کو گھر لے گئے ،ہو ش آنے پر بے ہوشی کی وجہ پوچھی تو فرمایا : اس مقام پر پہنچنے کے بعد مجھے یاد آیا کہ کسی وقت یہاں مجھ سے کسی کی غیبت ہو گئی تھی ،احساس ہوا کہ قیامت کے دن مجھ سے اس بارے میں حساب ہوگا ،بس محاسبہ اور حساب وکتاب کے خوف نے مجھے بے ہوش کر دیا۔
اس حدیث میں دوسری نصیحت گھروں میں رہنے کو ترجیح دینا ہے ، گھر آدمی کے لئے جائے سکون ہوتا ہے ،وہاں اس کے اہل وعیال ہوتے ہیں اور سکون وراحت کا مکمل سامان ہوتا ہے اور سب سے بڑی بات کہ دیندار ادمی کا گھر اس کے لئے نیکی کا سامان ہوتا ہے ،جہاں بیٹھ کر وہ اللہ کو یاد کرتا ہے ،گھروالوں کے ساتھ عمدہ سلوک کرکے نیکیاں حاصل کرتا ہے ، رشتوں کو مضبوط بنانے کی کوششیں کرتا ہے ،اس کے علاوہ بازار کے شور وشغف ،غیبت وچغلی ،جھوٹ وفریب اور باہر کی بُری صحبتوں سے محفوظ رہتا ہے ،کیونکہ عموماً گھر سے باہر نکلنے پر ہی آدمی بُرائی میں گھرتا جاتا ہے اور گناہوں میں ملوث ہو تاجاتا ہے ،عموماً آدمی کا گھر اسے بہت سی بُرائیوں سے محفوظ رکھتا ہے ،اسی لئے رسول اللہ ؐ نے گھروں ہی میں رہنے کی نصیحت فرمائی اور بلا ضرورت گھروں سے نکلنے کو پسند نہیں فرمایا ،شریعت میں بلا ضرورت گھومنا پھر نا ویسے بھی ناپسندیدہ ہے اور اس وقت تو مزید احتیاط کرنے ضرورت ہے جس وقت آدمی کے لئے گناہوں سے بچنا دشوار ہو جائے ،ایک موقع پر حضرت عثمان بن مظعون ؓ کے صاحب زادے حضرت سائب ؓ نے آپ ؐ سے سیر وسیاحت کی اجازت چاہی تو آپ ؐ نے ارشاد فرمایا : میری امت کے لئے سیر وسیاحت یہی ہے کہ وہ اللہ کے راستے میں جہاد کرے ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ؐ نے بغیر کسی منفعت کے سیر وسیاحت سے منع فرمایا اور بلا کسی شدید ضرورت کے باہر نکلنے اور گھومنے پھرنے کو پسند نہیں فرمایا ،بات بھی یہی ہے کہ جو لوگ بلا ضرورت شدیدہ گھروں سے باہر نہیں نکلتے ہیں وہ بہت سے جسمانی واخلاقی مضر اثرات سے محفوظ رہتے ہیں،مثلاً فضول خرچی سے وہ پاک رہتے ہیں کیونکہ جو باہر نکلتا ہے تو اکثر اس کا مال بے موقع اور بلا ضرورت خرچ ہو جاتا ہے ،مال کا بے جا اور بلا ضرورت استعمال آدمی کو محتاج اور خدا کی نظر میں مجرم بنادیتا ہے ،اسی طرح باہر نکلنے والوں میں اکثر لوگ بُرے لوگوں کی صحبتوں میں گرفتار ہو جاتے ہیں جس کے نتیجہ میں بُرائی کی طرف مائل ہوتے ہیں یا پھر کم از کم اپنے اوقات کو ضائع کرکے نعمتوں کی ناقدری کے مرتکب ہو کر مجرم بن جاتے ہیں ،نیز باہر نکلنے والے بہت سے لوگ اپنے آنکھوںاورکانوں کے گناہوں میں مبتلا ہو کر دل کو زنگ آلود کر بیٹھتے ہیں جس کی وجہ سے عبادتوں کی لذت سے محروم ہوجاتے ہیں ، اگر چہ باہر نکلنے میں وقتی وظاہری لذت نظرآتی ہے مگر حقیقت میں وہ لذت نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے بے چینی و سکونی کا عذاب ہے جو اسے بربادی کی طرف لیجاتا رہتا ہے ،تجربہ ومشاہدہ ہے کہ جو لوگ کاموں سے فراغت کے بعد گھر میں رہتے ہیں ان کے مزاجوں میں پاکیزگی ،طبیعتوں میں شرافت ،دلوں میں نرمی اور چہروں پر نور ہوتا ہے ،بر خلاف جو بازاروں اور اس کی چمک دمک سے دل بہلانے کی کوشش کرتے ہیں وہ کسی نہ کسی گناہ میں گھرجاتے ہیں جس کے بعد ان کے لئے عبادات واطاعت اور سچائی وصداقت کی طرف لوٹ آنا مشکل ہوجاتا ہے ،اسی وجہ سے رسول اللہ ؐ نے گھروں میں قیام پذیر ہونے کی نصیحت فرمائی اور بلا ضرورت گھر کے باہر نکلنے کو پسند نہیں فرمایا۔
اس حدیث میں تیسری نصیحت گناہوں پر رونے کی ترغیب ہے ،یقینا احساس ندامت ،خوف خدا اور خوف آخرت میں بہنے والے بندے کے آنسو اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں،ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ’’ گناہگاروں کا رونا اللہ کو تسبیح خوانوں کی آواز سے زیادہ پسند ہے‘‘،ایک حدیث میں رسول اللہ ؐ نے خوف خدا کی وجہ سے بہنے والے آنسو کو خدا کی نظر میں محبوب بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں دوقطرے اور دو نشانیاں سب چیزوں سے زیادہ محبوب ہیں ،اللہ کے ڈر سے آنسو کا ایک قطرہ اور اللہ کے راستہ میں بہنے والا خون کا قطرہ اور دونشانیوں میں سے ایک اللہ کے راستہ میں زخم کا نشان دوسرے اللہ کے فرائض میں سے کسی فریضہ کی ادائیگی کا نشان،رسول اللہ ؐ لوگوں میں سب سے زیادہ خوف الٰہی رکھنے والے اور خشیت الٰہی کی وجہ سے رونے والے تھے ،کبھی نماز کے دوران آپ ؐ کی آنکھوں سے اشک جاری ہوتا تھا تو کبھی تلاوت قرآن کے دوران آنسو بہہ پڑتے تھے تو کبھی قیامت اور اس کے تذکرے سے رونا آجاتا تھا ،حضرت مطرف اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ رسول اللہ ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ ؐ نماز ادا فرمارہے تھے اور آپ ؐ کے سینے اقدس سے ر ونے کی وجہ سے ایسا جوش اور ابال محسوس ہورہا تھا جیسے دیگ جو شاں چولہے پر چڑھی ہو، رسول اللہ ؐ کی صحبت بابرکت اور تربیت کی وجہ سے حضرات صحابہؓ پر بھی خوف خشیت کا غلبہ رہتا تھا، یہ حضرات بھی خوف خدا میں رویا کرتے تھے،کثرت سے عبادتوں کے انجام دینے کے باوجود اللہ سے ڈرتے تھے اور اس کے خوف اور عذاب کی وجہ سے آنکھوں سے آنسؤں کی جھڑی لگ جاتی تھی ،حضرت سیدنا عمر فاروق ؓ کسی خاص آیت کی تلاوت فرماتے تو آپ کی ہچکی بندھ جاتی اور کئی دن آپ گھر میں پڑے رہتے تھے ،لوگ بیمار سمجھ کر آپؓ کی عیادت کے لئے آتے تھے،حضرت علی مرتضی ؓ رات بھر نماز ادا فرماتے ،بہت تھوڑا سستاتے تھے اور اپنی ریش مبارک کو پکڑ لیتے اور بیمار شخص کی طرح لوٹ پوٹ ہوتے اور انتہائی غمگین آدمی کی طرح روتے جاتے حتی کہ صبح ہوجاتی تھی ، ان کے علاوہ تابعین ؒ اور بزرگان دین ؒ کا معمول تھا کہ وہ راتوں کو کثرت سے رویا کرتے تھے اور خوف خدا میں رونے کی وجہ سے ان کی آنکھیں سرخ ہوجایا کرتی تھیں ،بصرہ میں ایک بڑے پایہ کے بزرگ گزرے ہیں حضرت ابن حسن قیسی ؒ ان کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے معمولی غلطی پر چالیس سال روتے رہے ،رسول اللہ ؐ نے مذکورہ حدیث میں تین نصیحتوں میں سے ایک گناہوں پر ندامت کے آنسو بہانے کی نصیحت فرمائی ہے کیونکہ اللہ کو گناہگار بندے کا آنسو بہانا بہت پسند ہے ،جہنم کی پھڑکتی ہوئی آگ کو دنیا کے ہزاروں سمندر مل کر بھی بجھا نہیں سکتے ،آدمی کے گناہوں کو پوری دنیا مل کر بھی ختم نہیں کر سکتی مگر خشیت الٰہی میں نکلا ہوا ایک آنسو کا قطرہ جہنم کی آگ بجھانے اور پہاڑوں جیسے گناہ مٹانے کے لئے کافی ہے ،کسی شاعر نے ندامت کے آنسوؤں کو نہایت کار آمد اور کام کا بتاتے ہوئے کہا ہے کہ ؎

سلیقہ نہیں تجھ کو رونے کا ورنہ

بڑے کام کا ہے یہ آنکھوں کا پانی
٭٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×