اسلامیات

ماہِ صفر اور جاہلانہ توہمات

الحمد للہ سال1443 ہجری کا دوسرا مہینہ یعنی ماہ صفر کی آمد ہو چکی ہے ،یہ ترتیب کے لحاظ سے اسلامی کیلنڈر کا دوسرا مہینہ ہے،سب جانتے ہیں کہ دن ورات مل کر ہفتہ بنتا ہے ،ہفتے مل کر مہینہ بنتا ہے اور مہینوں سے سال بنتا ہے ،اللہ تعالیٰ نے سال میں بارہ مہینے رکھے ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے،دن ورات کی رفتار اور سال وماہ کی آمد اور ان کا گزرجانا سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے ،اس میں کسی کا کچھ دخل نہیں ہے ،اللہ تعالیٰ نے دن ورات اور ماہ وسال کو متعین وقتوں کے ساتھ جوڑ دیا ہے ،ہر دن اور ہر رات اپنے مقررہ وقت پر ہی آتے ہیں اور وقت کے ختم ہونے پر گزرجاتے ہیں ،اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی بھی ایک عمر متعین کردی ہے جب وہ مکمل ہوجائے گی تو دنیا ختم ہو جائے گی جسے قیامت کہا جاتا ہے مگر اس کا علم سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی اور کو نہیں ہے چنانچہ قرآن مجید میں بڑی وضاحت اور نہایت صاف لفظوں میں اس کا ذکر کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن کا علم سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو نہیں ہے،اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لئے بھی دنیوی زندگی کو متعین کردیا ہے ،وہ اپنی مقرر کردہ زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے ،دن ورات اور ماہ وسال جیسے جیسے گزرتے ہیں انسان کی زندگی ختم ہوتی جاتی ہے گویا نیا سال آکر زبان حال سے انسان سے کہتا ہے کہ انسان کی زندگی خاتمہ کے قریب ہوتی جارہی ہے یعنی اس کی عمر بڑھ نہیں رہی ہے بلکہ گھٹتی جارہی ہے ،کامیاب انسان وہ ہے جو بچے ہوئے وقت کو کار آمد بناتا ہے اور اس کے ذریعہ بعد والی زندگی کو سنوارنے کی فکر کرتا ہے ،وہ صرف مہینوں اور سالوں کو شمار نہیں کرتا بلکہ کوشش کرتا ہے کہ مہینہ ،ہفتہ ،دن ،گھنٹے بلکہ اس کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہوجائے کہ جس پر اسے بعد میں پچھتانا پڑے ،بندہ ٔ مومن تو مہینوں کی فضیلتوں سے بھر پور فائدہ اٹھاتا ہے اور اس میں عبادتوں کے ذریعہ رضاء الٰہی کو پانے کی کوشش کرتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے کسی دن ،ہفتہ یا مہینہ کو منحوس نہیں بنایا ہے بلکہ بعض کو بعض پر فضیلت اور افضلیت عطا کی ہے ، دن یارات اور ہفتہ یا کسی مہینہ کی نحوست کا عقیدہ رکھنا اسلامی تعلیمات کے صریح خلاف ہے ،اسلام کی آمد سے قبل عربوں میں جہاں بہت سی خرابیاں جنم لے چکی تھیں ان میں سے ایک توہم پرستی بھی تھی ،وہ صفر کو منحوس سمجھتے تھے ، اسلام کی آمد سے قبل بھی اس مہینہ کا نام ’’صفر ‘‘ ہی تھا اور اسلام کی آمد کے بعد بھی اس مہینہ کو اسی نام کے ساتھ برقرار رکھا گیا ،لغت میں اس نام کے کئی معنی اور مختلف وجوہات بیان کی گئیں ہیں (۱) صفر یرقان کی بیماری کو کہتے ہیں (۲) صفر کسی چیز کے خالی ہونے کو کہتے ہیں ،اور(۳) صفر متعدی (ایک دوسرے کو لگنے والے ) مرض کو بھی کہتے ہیں،اسلام کی آمد سے قبل لوگ اس مہینہ کو منحوس سمجھتے تھے ان کا خیال تھا کہ اس مہینہ میں آسمان سے بلائیں اور آفتیں نازل ہوتی ہیں ،اسی وجہ سے وہ لوگ اس مہینے میں سفر کرنے سے گریز کرتے تھے ،اسلام کی آمد ہوئی اور رسول اللہ ؐ کو قیامت تک پوری انسانیت کے لئے ہادی ،رہبر اور رہنما بناکر مبعوث کیا گیا ،رسول اللہ ؐ نے انسانیت کو توحید کی تعلیم دی اور شرک وبد عت اور زمانہ جاہلیت کے خرافات وبے ہودہ توہمات سے بچنے کی تلقین فرمائی ،آپ ؐ نے لوگوں کو بتایا کے حقیقی نافع وضار تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے اور نفع ونقصان کی طاقت اسی کے قبضہ قدرت میں ہے ،بذات خود کسی کو نفع ونقصان پہنچانے کی قوت وطاقت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی جن وملَک اور بشر وانسان کے ہاتھ میں نہیں ہے اور نہ کسی جانور وچوپائے اور چرند وپرند کے پاس کسی کو نفع ونقصان سے دوچار کرنے کی قوت ہے اور نہ ہی کسی ماہ ون میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ کسی کو نفع وضرر سے دوچار کر سکے ، کیونکہ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ اس کے درمیان میں ہے وہ سب اللہ ہی کا ہے،اسی کی بادشاہت ہے ،اسی کا حکم چلتا ہے اور وہی ہے جو ہر چیز پر مکمل قدرت رکھتا ہے ، قرآن کریم میں ارشاد باری ہے :وَلِلّہِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاللّہُ عَلَیَ کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیْر(آل عمران:۱۸۹)’’اور آسمانوں اور زمین کی سلطنت صرف اللہ کی ہے اور اللہ ہر چیز پر مکمل قدرت رکھتا ہے‘‘۔
رسول اللہ ؐ نے بھی اہل ایمان کو تاکیدی طور پر بتایا ہے کہ اللہ ہی کی ذات قادر مطلق ہے ،اسی کے قبضہ قدرت میں سب کچھ ہے اور وہی ذات حقیقی نافع وضار بھی ہے اور اہل ایمان کو یہ عقیدہ رکھنے کی تعلیم دی گئی ہے کہ حقیقتاً نافع وضار خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے ، اس کی مرضی کے بغیر نہ تو انسان و جنات ، جانور وپرند ، شجر وحجر ، سال وماہ اور دن ورات کسی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی نفع دے سکتے ہیں ، کسی چیز کو بھی نفع وضرر کا مالک سمجھنا ناجائز اور حرام ہے اور کسی بھی شے کے منحوس ہونے کا اعتقاد رکھنا مشرکانہ تصور اور زمانہ ٔ جاہلیت کا جاہلانہ عمل ہے، اسلام میں نحوست اور بد شگونی کا کوئی تصور نہیں،یہ محض توہم پرستی اور جاہلانہ تصور ہے ، اسلام کی آمد سے پہلے باشندگانِ عرب میں جہاں اور بہت سی برائیاں اور خرابیاں پائی جاتی تھیں وہیں ان میں یہ برائی زور پکڑ چکی تھی کہ وہ انسانوں سے لے کر جانوروں،پرندوں ، دنوں اورمہینوں کے ذریعہ بد شگونی لیا کرتے تھے ، یہ لوگ ’’الو‘‘ کو منحوس سمجھتے تھے ،ان کا فاسد خیال تھا کہ جس گھر پر الو بیٹھ جائے یا تو وہ گھر ویران ہوجاتا ہے یا پھر اس میں ضرور کسی کی موت واقع ہوجاتی ہے ،اسی طرح ماہِ صفر کو بھی منحوس سمجھتے تھے اور اس کے ابتدائی تیرہ دنوں کو انتہائی منحوس جانتے تھے اور ان کا گمان فاسد تھا کہ ابتدائی تیرہ دن آسمان سے نحوست نازل ہوتی ہے ،اس لئے اسکو تیرہ تیزی اور صَفر کو ’’صِفر ‘‘ کہا کرتے تھے ، اسی طرح دوران سفر راستے میں بلی کے آجانے اور راستہ کاٹنے کو انتہائی منحوس قرار دیتے تھے ،اور اسی فاسد گمان کی وجہ سے بڑے بڑے اور اہم ترین سفر کو ملتوی کر دیا کرتے تھے ، مگر جب اسلام اپنی مبارک اور پاکیزہ تعلیمات لے کر دنیا افق پر نمودار ہوا تو اس نے زمانہ جاہلیت کے ان تمام باتوں کی تردید کر تے ہوئے نہ کہ اسے فضول اور بکواس قرار دیا بلکہ اس طرح کے توہمات کو توحید کے منافی قرار دیتے ہوئے گناہ سے تعبیر کیا ، رسول اللہ ؐ نے اپنی امت کو توحید پرستی کی تعلیم دیتے ہوئے مشرکانہ افعال واعمال اور زمانہ جاہلیت کے بے ہودہ رسومات سے بچنے کی بڑی تاکید فرمائی ہے ، حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ ؐنے ارشاد فرمایا:لا عدویٰ ولا طیرۃ،ولاھامۃ ولا صفر (بخاری :۵۷۵۷ ،باب لاھامۃ ولاصفر،کتاب الطب)’’کوئی مرض متعدی نہیں ،اور نہ پرندوں کے اُڑنے سے بد شگونی لینا کوئی چیز ہے اور نہ الو کی نحوست کوئی چیز ہے اور نہ ماہِ صفر کی نحوست کی کوئی اصل ہے‘‘ ،ایک دوسری حدیث میں آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ: لا عدویٰ ولاھامۃ ولا صفر فقال اعرابی یا رسول اللہ فما بال الا بل تکون فی الرمل لکا نھا الظبآء فیخا لطھا البعیر الاجرب فیجر بھا؟ فقال رسول اللہ ؐ فمن أعدی الاول؟( مشکوۃ ص ۳۹۱ باب الفال والطیرۃ) ’’ایک شخص کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی اور نہ بد شگونی کوئی چیز ہے اور نہ ماہِ صفر (میں نحوست) ہے،اس پر ایک دیہاتی شخص نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ؐ ! پس اونٹوں کا کیا معاملہ ہے کہ وہ تو ریگستان میں ہر نوں کی طرح تندرست ہوتے ہیں ،پھر ان میں ایک خارش زدہ اونٹ ملتا ہے تو وہ دوسروں کو بھی خارشی بنا دیتا ہے ،آپ ؐنے فرمایا (بھلا یہ تو بتاؤ کہ) پہلے اونٹ کو کس نے خارش زدہ کیا ؟ یعنی جس طرح وہ تقدیر الٰہی سے خارش زدہ ہوا اسی طرح یہ بھی تقدیر الٰہی سے ہی خارش کے مرض میں مبتلا ہوئے ہیں‘‘ ،بہرے حال حرج ومرض فی الحقیقت متعدی نہیں ہیں اور نہ ہی بالذات کسی چیز میں نفع ونقصان کی صلاحیت و اہلیت ہے بلکہ اصلاً نافع وضار اور صحت وتندرستی اور مرض وبیماری سب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے ،بیمار ہونے پر دوا اور وبائی امراض پھوٹ پڑنے پر احتیاط در حقیقت یہ سب اسباب کے درجہ میں ہیں کیونکہ بندوں کو اسباب کے اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے باقی سب کچھ مسبب الاسباب کے ہاتھ میں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نے نہایت وضاحت کے ساتھ فرمادیا ہے کہ جو بھی مصیبت پہنچنے والی ہوتی ہے درحقیقت وہ اس وقت سے لوح محفوظ میں درج ہے جس وقت انسان کی پیدائش بھی نہیں ہوئی تھی ، ارشاد باری ہے : مَا ٓ اَ صَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِیْ الْاَرْ ضِ وَلَا فِیْٓ اَنْفُسِکُمْاِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْنَّبْرَاَھَا( الحدید :۲۲)’’کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو زمین میں نازل ہوتی یا تمہاری جانوں کو لاحق ہوتی ہو مگر ایک کتاب میں اس وقت سے درج ہے جب ہم نے ان جانوں کو پیدا بھی نہیں کیا تھا ‘‘ ،اس آیت مبارکہ سے یہ بات وضح ہو گئی کہ مصیبت وتکلیف کسی مہینہ ودن کے ساتھ نہیں آتی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آتی ہے،اس وضاحت کے بعد کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ زمانہ جاہلیت جیسا عقیدہ رکھتے ہوئے کسی دن ومہینہ کو منحوس قرار دے اور اس میں کسی کام کے انجام دینے سے محض اس وجہ سے رکے رہے کہ کہیں نحوست کا شکار نہ ہو جائے ،رسول اللہ ؐ نے اس طرح کا عقیدہ رکھنے سے سختی سے منع فرمایا ہے بلکہ ایک حدیث شریف میں اسے شرک بھی کہا ہے ،آپ ؐ کاارشاد ہے:الطیرۃ شرک ،الطیرۃ شرک (مسند احمد: ۴۱۰۴) ’’کسی چیز کو منحوس خیال کرنا شرک ہے ،کسی چیز کو منحوس خیال کرنا شرک ہے‘‘ ،محض بد شگونی کی وجہ سے اپنے کو کسی کام سے روک دینا غیر اسلامی عمل ، جاہلی طرز عمل اور ایک طرح کا شرک ہے ،رسول اللہ ؐ نے ایک حدیث میں اس کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا ہے ،آپ ؐ نے ارشاد فرمایا: من ردتہ الطیرۃ عن حاجتہ فقد اشرک( مسند احمد : ۲۲۰۲)،’’جو شخص بد شگونی کے ڈر کی وجہ سے اپنے کسی کام سے رک گیا یقینا اس نے شرک (اصغر) کا ارتکاب کیا‘‘ ،اس قدر وضاحت کے بعد بھی جو لوگ کسی مہینہ یا دن یا پھر جانور وپرندہ سے بد شگونی لیتے ہیں وہ درحقیقت قرآن وسنت کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر یقین نہیں رکھتے ،ایسے لوگ قیامت کے دن مجرم بن کر کھڑے ہوں گے اور انہیں دنیا میں بد شگونی پر سزا دی جائے گی اور جو لوگ اسلامی تعلیمات پر چلتے ہوئے بد شگونی جیسے بُرے عمل سے بچے رہیں گے قیامت کے دن انہیں ان لوگوں میں شامل کیا جائے گا جنہیں اول درجہ میں جنت میں داخل کیا جائے گا ،رسول اللہ ؐ کا ارشاد ہے کہ مجھے میری امت کے بارے میں بتایا گیا کہ آپ کی امت کے ستر ہزار ایسے لوگ ہوں گے جو پہلے جنت میں جائیں گے : یکتوون ولا یسترقون ولا یتطیرون ولی ربھم یتوکلون ( بخاری : ۶۱۷۵) ’’ ان کی صفت یہ ہے کہ وہ اپنے جسم کو داغتے نہیں ،نہ ہی (شرکیہ کلمات سے ) دم کرواتے ہیں ،نہ کسی چیز کو منحوس سمجھتے ہیں اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں ‘‘۔
بات یہ ہے کہ نحوست کو کسی مہینہ ،دن اور کسی وقت میں نہیں بلکہ آدمی کے گناہوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے نحوست اور قہر خدا وندی کا نزول ہوتا ہے ، فقیہ العصرمفتی عبدالرحیم لاجپوریؒ نے صفر کے متعلق ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے کہ’’ دن ،مہینہ،یا تاریخ منحوس نہیں ہوتے ،نحوست بندوں کے اعمال وافعال پر منحصر ہے ، جس وقت کو بندوں نے عبادات میں مشغول رکھا وہ وقت ان کے حق میں مبارک ہوتا ہے اور جس وقت کو گناہوں کے کاموں میں صرف کیا ہے وہ ان کیلئے منحوس ہے ،حقیقت میں مبارک عبادات ہیں اور منحوس معصیات ہیں‘‘(فتاویٰ رحیمیہ ۱؍۱۱۸)، یقینا جب انسان کی بد اعمالیاں بڑھ جاتی ہیں اور اس کے گناہ و جرائم پھیلنے لگتے ہیں تو پھر اسکی نحوست کا اثر زمین پر مختلف انداز سے پڑنے لگتا ہے ،کھبی آسمان سے بارشیں روک دی جاتی ہیں تو کبھی پانی سطحِ زمین سے نیچے کر دیا جاتا ہے تو کبھی لوگوں کو وبائی امراض میں مبتلا کر دیا جاتا ہے ،غرض دنیا میں جو کچھ اُونچ نیچ ہوتی ہے وہ انسانوں کی بد اعمالیوں کے سب ہی ہوتی ہے ،قرآن حکیم کی اس آیت میں اُسی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے :وَمَا أَصَابَکُم مِّن مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْْدِیْکُمْ وَیَعْفُو عَن کَثِیْرٍ (الشوریٰ:۳۰)اور جو کچھ تمہیں تکلیف پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی کرتوت کا نتیجہ ہے اور وہ( خدائے مہربان) تو بہت سی باتوں کو درگزر کر دیتا ہے (ان پر پکڑ نہیں فرماتا)۔
یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ اسلام جہاں بد شگونی ،بد فالی اور توہم پر ستی کے خلاف ہے اور اسے عقیدۂ توحید اور قدرت باری تعالیٰ کے بالکل خلاف جانتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو بڑی قوت کے ساتھ اس کے زہریلے اثرات سے بچنے کی تعلیم بھی دیتا ہے مگر دوسری طرف نیک شگون ا ورنیک فالی لینے کی اجازت بھی دیتا ہے ، کسی کام یا نام یا پھر کسی اچھی بات کے ذریعہ کا میابی اور مقصد کے پورا ہونے کی امید رکھنا اور اس کے ذریعہ حوصلہ افزا اور اچھے نتائج کی امید رکھنا نیک فالی اور نیک شگون کہلا تا ہے اور عمل شریعت میں مستحسن ہے ،نیک فالی کے متعلق رسول اللہؐ کا ارشاد ہے کہ: الکلمۃ الصالحۃ یسمعھا أحدکم( بخاری :۵۷۵۵،باب الفأل ،کتاب الطب)’’نیک فالی عمدہ کلمہ ہے جو آدمی کے سننے میں آئے‘‘، چنانچہ سفر ہجرت مدینہ ٔ طیبہ کے دوران ایک واقعہ پیش آیا وہ یہ کہ بریدۂ اسلمی نامی ایک شخص اپنے ستر سواروں کے ساتھ قریش کے سو سرخ اونٹ کے انعام کی لالچ میں آپ ؐ کی تلا ش میں نکلے ،جب یہ آپ ؐ کے قریب پہنچے تو آپ نے سوال کیا : من انت ؟ تم کون ہو ،انہوں نے جواب میں کہا انا بریدۃ یعنی میں بریدہ ہوں،اس پر آپ ؐ نے ابوبکر ؓ کی طرف متوجہ ہوکر بطور تفاؤل فرمایا: یا ابا بکر بردامرنا وصلح ،’’اے ابوبکر ہمارا کام ٹھنڈا اور درست ہوا‘‘،پھر پوچھا تم کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو، بریدہ نے جواب دیا من اسلم یعنی میں قبیلۂ اسلم سے ہوں ،آپ ؐ نے پھر ابوبکر ؓ کی طرف متوجہ ہوکر بطور تفاؤل فرمایا :سلمنا ،ہم تو سلامت رہے ،پھر بریدہ سے پوچھا کہ قبیلۂ اسلم کی کس شاخ سے ہو ،من بنی سہم ،انہوں نے کہا میں بنو سہم سے ہوں ،اس پر آپ ؐ نے پھر بطور تفاؤل فرمایا: خرج سہمک یعنی تیرا حصہ نکل آیا ،مطلب یہ تھا کہ بریدہ تمہیں اسلام سے حصہ ملے گا ،یہ سن کر بریدہ آپ ؐ سے آ پکے متعلق پوچھ بیٹھے ،آپ کون ہیں ،آپ ؐ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ: انا محمد بن عبداللہ رسول اللہ ،میں محمد ہوں بیٹا عبداللہ کا اور رسول اللہ کا،یہ سننا تھا کہ بریدہ کلمۂ طیبہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہوگئے اور ان کے ہمراہ ستر آدمی بھی شرف اسلام سے مشرف ہوگئے ،( سیرۃ المصطفی ج ۱ ،ص ۳۹۶ بحوالہ بیہقی)،اس واقعہ میں آپ ؐ سے نیک فالی اور اچھا شگون لینا ثابت ہوتا ہے ، اس کے علاوہ دیگر احادیث ہیں جن میں نیک شگون اور نیک فالی لینے کی اجازت دی گئی ہے، لہذا نیک فالی تو لی جا سکتی ہے مگر کسی بھی قیمت پر بد فالی اور بد شگونی لینے کی قطعاً اجازت نہیں ،نیک فالی سے جہاں اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق اچھا گمان اور رحمت ِ خدا وندی سے امید باندھی جاتی ہے وہیں بد فالی سے خدا کی ذات سے کامل قدرت کی نفی کا پہلو سامنے آتا ہے جو عقیدۂ توحید باری تعالیٰ کے منافی ہے لہذا توہم پرستی اور بد شگونی کی لعنت سے بچنا ہر مسلمان اور خدا کی وحدانیت پر ایمان رکھنے والے اور رسول اللہ ؐ کی رسالت کو تسلیم کرنے والے کے لئے لازمی ہے ، افسوس کہ آج جب کہ د ینی تعلیم عام ہوتی جارہی ہے ،جگہ جگہ دینی مجلسیں منعقد ہوتی ہیں ،بیانات کا ایک سلسلہ جاری ہے اس کے باوجود مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد دور جاہلیت کی روش پر چلتے ہوئے ،مشرکانہ افکار وخیالات کو اپنا تے ہوئے اور بد شگونی کا عقیدہ رکھتے ہوئے طرح طرح کے توہمات میں مبتلا ہورہے ہیں،آج بھی کئی لوگ صفر المظفر کے ابتدائی تیرہ دنوں کو اچھوت سمجھتے ہیں ، تیرھویں دن رات میں سرہانے کچھ انڈے ،تیل اور دیگر اشیاء رکھ کر سوتے ہیں اور صبح ہونے پر اسے خیرات کر دیتے ہیں اور یہ تصور کرتے ہیں کہ اس طرح سرہانے رکھنے سے نحوست دور ہوتی ہے اور آنے والی مصیبتیں ٹل جاتی ہیں ، اس مہینہ میں شادی ،بیاہ اور دیگر خوشی کی تقریبات منانے سے مکمل اجتناب کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اس مہینہ میں کی جانے والی شادیاں بہت جلد ٹوٹ جاتی ہیں ،اس میں منائے گئے خوشیاں بہت جلد غم میں بدل جاتی ہیں ، حکیم الامت حضرت تھانوی ؒ صفر اور تیرہ تیزی کے متعلق لکھتے ہیں کہ (لوگ) صفر کو تیرہ تیزی کہتے ہیں اور اس مہینے کو نامبارک جانتے ہیں اور بعض جگہ تیرہویں تاریخ کو کچھ گھونگنیاں (چنے) وغیرہ پکا کر تقسیم کرتے ہیں کہ اس کی نحوست سے حفاظت رہے ،یہ سارے اعتقاد شرع کے خلاف اور گناہ ہیں ،(ان سے ) توبہ کریں(بہشتی زیور :چھٹا حصہ) ۔
٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×