اسلامیات

تعمیرات میں بے اعتدالی قیامت کی نشانی تو اس جہاں کا مکیں نہیں ،ترا مکاں کہیں اور ہے

دنیا ایک عارضی ،وقتی اور فانی جگہ کا نام ہے ،یہاں کا قیام جس طرح عارضی ،محدود ، مختصر اور غیر یقینی ہے اسی طرح یہاں کی خوشی وغم ،راحت ومصیبت اور جاہ وحشمت بھی ساتھ رہنے والی نہیں ہے ، دنیا ایک مسافر خانہ اور سرائے ہے اور انسان اس کا مسافر اور راہی ہے ،یہاں ہر دن بے شمار انسان آتے رہتے ہیں اور بے شمار انسان جاتے رہتے ہیں ،جانے والے پھر نہیں آتے اور آنے والے جانے کے لئے آتے ہیں ،دنیا میں ہر دن کتنوں کے آنے کی خوشی منائی جاتی ہے تو کتنوں کے جانے کا غم منایا جاتا ہے ،زندگی اور موت کا ایک متواتر سلسلہ چلا جارہا ہے ، دنیا ایک تماشا گاہ بنی ہوئی ہے اور انسان ہے کہ اسے اپنی نظروں سے دیکھتا جارہا ہے ،کچھ انسان اسے دیکھ کر بھی انجان بنے بیٹھے ہیں اور کچھ ہیں جو اس سے عبرت ونصیحت حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں ؎
زندگی موت کا نشانہ ہے

سب کو اک دن یہاں سے جانا ہے
کوئی آئے کوئی جائے یہ تماشا کیا ہے

کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ دنیا کیا ہے
آنے والے تو چلے جاتے ہیں واپس لیکن

جانے والے نہیں آتے یہ فسانہ کیا ہے
دنیا کے دیگر مذاہب دنیا کے بارے میں الگ الگ رائے رکھتے مگر اسلام دنیا کے متعلق یہ کہتا ہے کہ یہ دنیا عارضی اور فانی ہے اور یہاں کی ہر ایک چیز کو زوال ہے اور اس میں بسنے والوں کا قیام وقرار بھی مختصر اور بہت تھوڑا ہے ،اس کے مقابلہ میں ایک اور دنیا ہے جسے آخرت کہا جاتا ہے ،وہ باقی اور طویل ہے اور وہاں کا زمانہ قیام بھی طویل اور لامحدود ہے ، پیغمبر آخر الزماں ؐ جنہوں نے بڑی وضاحت کے ساتھ دنیا اور اس کی حقیقت کو بیان کیا ہے اور آخرت اور وہاںکی زندگی کو واضح کیا ہے ،انہوں نے ایک موقع پر دنیا کی بے وقعتی اور بے قیمتی کو بتاتے ہوئے اسے مردار سے تشبیہ دی ہے اور اس میں قیام کرنے والوں کو اس کی دلفریبی ،چمک ،دمک اور سامان دنیا کی لذتوں میں پڑنے والوں کو اس سے منع کرتے ہو ئے اس میں مسافر کی طرح زندگی گزارنے کی ترغیب دی ہے ،ارشاد فرمایا : کن فی الدنیا کانک غریب اوعابر سبیل( صحیح بخاری)’’دنیا میں اس طرح رہو جس طرح پردیسی یا راستہ چلتا مسافر رہتا ہے‘‘،صحابی رسول عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ؐ نے میرے دونوں مونڈھے پکڑ کر مذکورہ اہم ترین نصیحت ارشاد فرمائی ،اس نصیحت کے ذریعہ گویا رسول اللہ ؐ نے ان کے واسطے سے قیامت تک اپنے ہر امتی کو بتایا کہ دنیا کو اپنا اصلی وطن نہیں سمجھنا چاہیے کہ اسی کے پیچھے پڑکر آخرت سے غافل ہوجائے بلکہ دنیا کو مسافر خانہ تصور کرتے ہوئے اسے جیسے تیسے گذار دینا چاہیے جیسا کہ ایک پردیسی یا مسافر چند ضروری ساز وسامان کو ساتھ لئے سفر کرتا ہے ،اس کی نظر منزل پر ہوتی ہے ،وہ کبھی بھی سفر کی رنگینیوں میں گم ہو کر منزل کو نہیں بھولتا ، مومن کو بھی دنیا میں اس مسافر کی طرح زندگی گزارنا چاہئے ،وہ بقدر ضرورت سامان کے ساتھ دنیا سے گزر جائے ،اس کی نظر دائمی اور ابدی دنیا یعنی آخرت پر ہونا چاہئے ،جو سمجھدار مسافر کی طرح دنیا سے گزر کر آخرت کی طرف جاتا ہے وہی آخرت اور اس کی ابدی نعمتوں کا حقدار ہوتا ہے ۔
یہ بات طے شدہ ہے کہ جو دنیا اور اس کی چمک دمک میں گم ہوجاتا ہے تو وہ ضرور آخرت اور اس نعمتوں سے دور ہوجاتا ہے ،نادان ہے وہ جو دنیا کے لئے آخرت تباہ کر تا ہے اور ہوش مند ہے وہ جو آخرت کی خاطر دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہے ،رسول اللہ ؐ نے دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے کی نصیحت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا : من احب دنیا ہ اضربآخرتہ ومن احب آخرتہ اضربدنیاہ فآثروا ما یبقیٰ علیٰ مایفنیٰ(مسند احمد:۱۹۶۹۷)’’ جو شخص دنیا سے محبت کرے گا وہ اپنی آخرت تباہ کرلے گا ،اور جس کو اپنی آخرت محبوب ہوگی تو وہ اپنی دنیا کو نقصان پہنچائے گا ،تو اے لوگو ! تم باقی رہنے والی زندگی کو فناہوجانے والی زندگی پر ترجیح دو‘‘،بہت سے لوگ دنیا کی حقیقت ،اس کی فنائیت اور اس کی رنگینی میں گم ہوجانے کے نقصانات کو سمجھنے نے کے باوجود اس کی طرف اس طرح دوڑتے ہیں جس طرح ایک شکاری شکار کی طرف دوڑتا ہے اور ایک کتا ہڈیوں کو دیکھ کر رال ٹپکاتا ہے ، حالانکہ وہ موت کے ذریعہ ہزاروں لوگوں کو دنیا سے بے بس ،لاچار اور مجبور خالی ہاتھ جاتے ہوئے دیکھتا ہے لیکن پھر بھی اس سے عبرت ونصیحت حاصل نہیں کرتا بلکہ ایک دن چھوڑ کر جانے والی چیزوں کے حصول اور اس کے جمع کرنے میں اپنی قیمتی زندگی اور اس کی بیش قیمت لمحات کو صرف کرتا رہتا ہے ،حالانکہ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ ایک دن آبادی سے باہر ایک تاریک گھر میں تنہا سونا ہے مگر پھر بھی عارضی گھروں کی تعمیر وتزئین اور اس کے رنگ وروغن کے پیچھے لگا رہتا ہے ،حالانکہ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ وہ جس مٹی اور گارے کے پیچھے اپنا وقت صرف کر رہا ہے اسے معلوم نہیں کہ اس میں اس کا قیام کب تک ہے ،جس مکان کو وہ اپنا سمجھ رہا ہے وہ تو ایک مسافر خانہ ہے ،یہاں آنے والے آتے رہیں گے اور جانے والے جاتے رہیں گے ،کسی درویش صفت انسان کا گزر کسی صاحب دولت کے محل سے ہوا ،اسے خیال آیا کہ اس محل والوں کو اس کی حقیقت سے واقف کرایا جائے اور انہیں آخرت اور وہاں کی زندگی کے بارے میں بتایا جائے ،وہ بالقصد بلا اجازت محل میں داخل ہوئے اور بلند آواز سے کہا مسافر خانہ تو عمدہ بنایا ہے ،اس پر مالک محل بھڑک اٹھا اور درویش سے کہا کہ یہ مسافر خانہ نہیں بلکہ میرا محل ہے اور میں اس کا مالک ہوں ، درویش نے پوچھا کہ تم سے پہلے ،اُن سے پہلے اور ان سے بھی پہلے اس میں کون قیام کرتا تھا ،مالک محل نے کہا میرے والد ،میرے دادا اور میرے پڑدادا ،اس پر درویش نے کہا کہ اتنے لوگ جاتے رہے ہیں اور ایک وقت آئے گا تم بھی چلے جاؤ گے تو بتاؤ یہ مسافر خانہ ہے یا نہیں ؟ درویش کا جواب سن کر مالک محل کی آنکھیں کھل گئی اور دنیا کی حقیقت اس کے سامنے آشکارہ ہو گئی اور یہ بات سمجھ میں آگئی کہ اس دنیا میں ہر ایک مسافر ہے یہاں مالک مکان بھی مالک عارضی ہے حقیقی مالک ہر گز نہیں ہے۔
اسلام نے اس حقیقت کو سمجھانے کے بعد یہ بات بتائی کہ عارضی دنیا اور اس کے خواہشات میں پڑ کر انسان اپنے اوقات برباد نہ کرے بلکہ اپنی ضروریات کو ضرورت کی حد تک ہی محدود رکھے ،زیادہ سے زیادہ راحت کا خیال رکھے مگر اس سے آگے بڑھ کر خواہشات میں پڑ کر اسی میں گھِر نہ جائے کیونکہ خواہشات اسراف کو جنم دیتی ہیں اور اسراف سے عجب اور تکبر پیدا ہوتا ہے جو کہ اعمال ، اخلاق اور روحانیت کے لئے سم قاتل ہے ،انسان کے لئے کفایت کرنے والی روزی ،تن ڈھاپنے کے لئے لباس ،برتنے کے لئے سامان اور سر چھپانے کے لئے بقدر ضرورت مکان کافی ہے،مکانات کی تعمیر وتزئین میں حد سے زیادہ پیسہ خرچ کرنا اسلام کی نظر میں محبوب عمل نہیں ہے بلکہ ناپسندیدہ اور مزاج شریعت کے خلاف ہے ،رسول اللہ ؐ نے بلند وبالا عمارتوں کی کثرت کو قیامت کی علامتوں میں سے ایک قرار دیا ہے ،اسلام چاہتا ہے بندہ مومن دنیا اور اس کی لذتوں پڑ کر دین وایمان کے تقاضوں اور آخرت کی ابدی زندگی سے بے خبر نہ ہو جائے ،مکانات اگر چہ انسانی ضروریات میں سے ایک اہم ضرورت ہے ،اس کے حصول کے لئے اور اس کی تعمیر وتوسیع کے لئے دوڑ دھوپ کرنا منافی شریعت نہیں ہے ،بلکہ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ انسان کے لئے زاتی مکان اور بقدر ضرورت اس کی تزئین کے قائل تھے ،مگر اس سلسلہ میں افراط وتفریط کو ہر گز پسند نہیں کرتے تھے ،حضرت قتادہ ؓ کا ارشاد ہے : ماکان للمؤمنین ان یری الافی ثلثۃ مواطن مسجد یعمرہ وبیت یسترہ وحاجتۃ لا بأس بھا( تنبیہ الغافلین ’’ مومن کے لئے مناسب نہیں ہے کہ تین چیزوں کے سوا اور کی طرف نظر لگائے (۱) مسجد جسے وہ آباد رکھتا ہے(۲) وہ گھر جس میں سر چھپاتا ہے(۳) حاجت ضروریہ کی چیز کہ اس میں کوئی حرج نہیں ، اسلامی مزاج کے خلاف جو لوگ مال ودولت کا بے جا استعمال کرتے ہوئے اسے مکانات کی بے ضرورت تعمیر میں لگاتے ہیں درحقیقت یہ دنیا کے پجاری اور عقبیٰ سے غافل ہوتے ہیں ؎
تعمیر پہ وہ لوگ ہی دیتے ہیں توجہ

عقبیٰ کا جنہیں خوف نہ ملت کا کوئی غم
چنانچہ اہل علم فرماتے ہیں کہ مومن کو چاہئے کہ وہ تعمیر ات کے سلسلہ میں اور خصوصاً اپنی رہایش گاہوں کو تعمیر کرتے وقت چند باتوں کو ملحوظ رکھیں (۱) مکان کی تعمیر اپنی ہی زمین پر ہو ،کسی دوسرے کی زمین یا متنازع زمین پر ہر گز تعمیر نہ کرے بلکہ کسی کی ایک بالشت زمین لینے سے بھی گریز کرے ، کسی کی ناحق زمین لینے پر رسول اللہ ؐ نے سخت قسم کی وعید سنائی ہے ، حضرت سعد بن زید ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا : جو کوئی کچھ زمین ظلم سے چھین لے تو سات زمینوں کا طوق (قیامت کے دن) اس کے گلے میں ڈالا جائے گا (بخاری: ۲۲۸۸)،ایک حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا: جو شخص ذرا سی زمین بھی ناحق لے لے گا وہ قیامت کے دن سات زمینوں میں دھنستا جائے گا( بخاری: ۲۲۹۰)،اس قدر سخت ترین وعید کے بعد تعمیرات کے سلسلہ میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے ،زمین چاہئے کسی کی ہو وہ غصب میں ہی شمار کی جائے گی ،بہت سے لوگ زمینوں کے معاملہ میں بے احتیاطی کرنے لگے ہیں ،بعض لوگ سڑک کا کچھ حصہ ہڑپ کر لیتے ہیں ،یہ بھی ایک جرم ہے بلکہ بعض علماء نے لکھا ہے کہ کسی ایک شخص کی زمین ہڑپنے سے زیادہ خطرناک عمل ہے اور سخت ترین جرم ہے کیونکہ سرکاری زمین کسی ایک کی ملکیت نہیں بلکہ پوری قوم اس کی مالک ہوتی ہے ،تعمیرات کے سلسلہ میں تو سڑکوں کی کشادگی کا خیال کرتے ہوئے مکانات تعمیر کرنا چاہئے تاکہ اگے چل کر کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔
(۲) مکان کی تعمیر کے لئے ایسے علاقہ کا انتخاب کرنا ضروری ہے جہاں کی آب وہوا صاف ستھری ،ماحول خوشگوار اور جہاں کی اخلاقی فضا ء عمدہ ہو ،کیونکہ یہ دونوں چیزں جسم اور روح کی تندرستی کے لئے بے حد ضروری ہیں ،اسلام جہاں جسمانی صحت کی حفاظت کی تعلیم دیتا ہے وہیں اس سے زیادہ اخلاق کی پاکیز کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے ،ایک حدیث میں رسول اللہ ؐ نے طاقتور مومن کو ضعیف اور کمزور مومن سے بہتر قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : المومن القوی خیر اوحب الیٰ اللہ من المومن الضعیف(مسلم: ۲۲۷۳)’’طاقتور مومن اللہ تعالیٰ کے نزدیک کمزور مومن سے بہتر اور پسندیدہ ہے‘‘، اس لئے مکان کی تعمیر کے وقت اس میں آب وہوا کا خاص خیال رکھنا چاہئے اس سے صحت ونشو نمائی میں کافی مدد ملتی ہے ، صحت کی حفاظت کرنا اور اس کے لئے تدابیر اختیار کرنا بھی اہم اور ضروری چیز ہے بلکہ دینی حکم میں داخل ہے ،ساتھ ہی اپنے ارد گرد کے اخلاقی ماحول کا لحاظ رکھتے ہوئے گھر کی تعمیر کے لئے زمین کا انتخاب کرنا بھی ضروری ہے ،کیونکہ انسانی فطرت میں داخل ہے کہ وہ بہت جلد اپنے ارد گرد کے ماحول کا اثر قبول کرتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سچوں کے ساتھ رہنے کی تلقین فرمائی ہے ارشاد ہے : یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْن(التوبہ:۱۱۹)’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ رہا کرو‘‘، عموماً یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ گھر کے بااخلاق بچے بھی خراب اور بے ہودہ ارد گرد کے ماحول کی وجہ سے اخلاقی گروٹ کا شکار ہوجاتے ہیں ،اس لئے اس بات پر خصوصی توجہ دینی چاہئے کہ مکان ایسی جگہ پر ہو جہاں کا ماحول عمدہ اور اخلاق سے مزین ہو ۔
(۳) مکان بنواتے وقت اس بات کا خیال بھی رکھے کہ وہ مسجد کے قرب وجوار میں ہو،تا کہ جماعت سے فرض نماز وں کی ادائیگی میں سہولت ہو سکے،جس طرح آدمی کے لباس وپوشاک ،گفتگو وطرز کلام سے اس کے مزاج واخلاق کا پتہ چلتا ہے اسی طرح اس کے پابندی کے ساتھ مسجد آنے جانے اور مکان کو اس کے قریب بنوانے سے بھی اس کے دیندار ہونے کا پتہ چلتا ہے ،جن لوگوں کے مکانات مسجد کے قریب ہوتے ہیں انہیں دوسروں کے مقابلہ میں دیگر کئی فوائد حاصل ہوتے ہیں مثلاً جماعت سے پنجوقتہ نمازوں کی ادائیگی کا اہتمام زیادہ ہوتا ہے ، نمازی اور نیک صالح لوگوں کی صحبت میسر آتی ہے ،وقت پر مسجد میں حاضری کا موقع ملتا ہے ،گھر سے باوضو ہو کر جانے کا التزام کیا جا سکتا ہے اور پھر یہ کہ اسے خود بخود صاف ستھرا ماحول نصیب ہوتا ہے ،عموماً مساجد کے قریب وجوار والا علاقہ ناچ گانہ اور دیگر غیر دینی وغیر اخلاقی اور نا شائستہ حرکات سے پاک رہتا ہے ،معمولی درجہ کا مسلمان بھی اس چیز کا خوب لحاظ رکھتا ہے ،بعض اکابرؒ کے بارے میں ملتا ہے کہ انہوں نے کم قیمت والے مکان کو زیادہ قیمت میں محض اس وجہ سے خریدا کہ وہ مسجد کے قریب تھا پوچھنے پر اس کی ایک خاص وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ چونکہ مسجد پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا رہتا ہے اور جو اس کے قرب وجوار میں رہتا ہے وہ بھی اس رحمت میں شامل ہوجاتا ہے اور خدا کی رحمت کے کچھ چھینٹوں کا میسر ہوجانا اس مکان سے بدرجہا بہتر ہے جو بہت عمدہ ،کشادہ اور خوبصورت ہے مگر مسجد سے دور ہے۔
( ۴) مکان بنواتے وقت اس بات کا بہت ہی خاص خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس کا پڑوسی کیسا ہے ،جب بھی مکان خریدیں یا تعمیر مکان کے لئے زمین کا انتخاب کرے تو اول وقت میں پڑوسی کے متعلق معلومات حاصل کرے ،اگر پڑوسی دیندار اور با اخلاق وکردار ہے تو گراں قیمت ہی کیوں نہ ہو اسی جگہ کا انتخاب کرے اور اگر پڑوسی کے بد اخلاق وبد کردار ہونے کا پتہ چلے تو وہاں سے ہٹ جائے ،کیونکہ اچھا پڑوسی بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے ،جس کا پڑوسی اچھا ہو تو وہ پڑوسی خوش قسمت ہے اور جس کا پڑوسی بد کردار ،ترش مزاج اور بد دین ہو اس کے پڑوسی کے لئے یہاں کا قیام جہنم سے کم نہیں ،رسول اللہ ؐ نے اس شخص کو خوش نصیب کہا ہے جس کا پڑوسی اچھا ہو ،ارشاد فرمایا: وہ شخص خوش نصیب ہے جس کو اچھا پڑوسی ملے ،کشادہ گھر ملے اور اچھی سواری نصیب ہو( مستدرک حاکم)،ایک حدیث میں آپ ؐ نے بُرے پڑوسی سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے اللہ !میں ہر بُرے پڑوسی سے تیری پناہ میں آتا ہوں(مستدرک حاکم)،تاریخ میں ایسے بہت سے واقعات موجود ہیں کہ مکان داروں نے محض اچھے پڑوسی کی وجہ سے مکان کی قیمت بڑھادی تھی ، امام المحدثین حضرت عبداللہ بن مبارکؒ کے پڑوس میں یہودی رہتا تھا ،اس نے اپنا مکان فروخت کرنا چاہا تو اس کی قیمت دو ہزار دینار لگائی جب کہ اس کی قیمت ایک ہزار دینار ہوتی تھی ،جب خریدنے والے نے اس کی وجہ پوچھی تو اس یہودی نے کہا ایک ہزار دینار مکان کی قیمت ہے اور ایک ہزار دینا اس عظیم الشان فرشتہ صفت انسان حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ کے پڑوس کی ہے ، حدیث کے معروف راوی حضرت ابوحمزہ سکریؒ کے بارے میں لکھا ہے ، لوگوں میں آپ سکر کے لقب سے مشہور ہو گئے تھے ،سکر عربی میں شکر کو کہتے ہیں ،اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی زبان انتہائی شیریں تھی ،آپ کا انداز گفتگو اس قدر دلنشین ہوتا تھا کہ لوگ سنتے تو محو ہوجاتے تھے ،کسی ضرورت کی وجہ سے آپ ؒ کو مکان فروخت کرنا پڑا ،مکان کی قیمت طے ہوگئی ،جب اس کا علم آپ کے محلے والوں کو ہوا تو ایک وفد کی شکل میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور منت سماجت کرنے لگے اور مکان فروخت نہ کرنے کی درخواست کی ،جب حضرت ابوحمزہ ؒ اپنا عذر بتایا تو سبھوں نے کہا اس مکان کی قیمت ہم آپ کو دیتے ہیں اس سے ضرورت پوری کر لیجئے مگر ہم کو اپنے پڑوس سے محروم مت کیجئے ۔
مکانات اور دیگر چیزوں کی تعمیرات کے سلسلہ میں ایک مومن کو شریعت کے مزاج کو سامنے رکھنا نہایت ضروری ہے ،یہ بات ہمیشہ ذہن میں رہنی چاہئے کہ اس کا اصل ٹھکانہ جنت ہے دنیا اور یہاں کا قیام تو عارضی اور چند روز کے لئے ہے ،چند روز کے قیام کے لئے شریعت کے حکم کو چھوڑ کر ،فکر آخرت سے بے پرواہ ہو کر مکانات کی تعمیر میں حد سے زیادہ اور بے تحاشہ روپیہ پیسہ خرچ کرنا ،راہ اعتدال سے ہٹ جانا ،خواہشات کے پیچھے پڑجانا اور اسی میں لگ کر اپنے اوقات ضائع کرنا کہاں کی علقمندی ہے ،ایک حدیث میں تو آپ ؐ نے یہاں تک ارشاد فرمایا: ماانفق مومن من نفقۃ الا اجیر فیھا الا نفقتہ فی ہذا التراب( مشکوٰۃ: ۵۱۸۲) ’’ مسلمان کو ہر خرچ کے عوض اجر دیا جاتا ہے سوائے اس مٹی کے‘‘ ،اس لئے راہ اعتدال ضروری ہے اور افراط وتفریط سے خود کو بچانا اور دوسروں کو اس کی ترغیب دینا بھی لازمی ہے ،حقیقت یہ ہے کہ جب انسان کی نظر آخرت پر ہوتی ہے اور وہاں کی مکان کی فکر کرتا ہے تو پھر وہ دنیا کے مکانوں کی چکر میں اپنا وقت اور پیسہ برباد نہیں کرتا ،کسی نے اسے توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے ؎ ۔
تو اس جہاں کا مکیں نہیں

ترا مکاں کہیں اور ہے
٭٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×