اسلامیات

ایام قربانی میں صفائی کااہتمام؛ ہر صاحب قربانی کی ذمہ داری

قرآن مجید میںرشاد ربانی ہے :’’اے میرے حبیب ﷺ آپ اپنے کپڑوں کو صاف رکھئے ،گندگی سے دور رہیے‘‘ دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے: ’’بے شک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے اور پاک صاف رہنے والوں کو پسند فرماتے ہیں‘‘ ایک تیسرے مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اللہ تعالیٰ پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘ حدیث شریف میں ارشاد نبی رحمت ﷺ ہے :الطہور شطر الایمان(مسلم :۲۸۲۲) ’’پاکی صفائی آدھا ایمان ہے‘‘ ایک حدیث شریف میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : الاسلام نظیف ،فتنظفوا فانہ لا یدخل الجنۃ الا نظیف( کنز العمال :۲۶۰۰۱)۔
اسلام میں صفائی ستھرائی کا حکم صرف انسان کی ذات تک محدود نہیں ہے بلکہ انسان کا جس چیز سے بھی تعلق یا سابقہ پڑتا رہتا ہے ان تمام چیزوں کو صاف ستھرا رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ،جیسے مکان ودکان، مسجد ومکتب ،گلی ومحلہ اور بازار وسڑک وغیرہ ، نیز میلا کچیلا رہنے اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو گندہ کرنے والوں کو سخت انداز میں تنبیہ کی گئی ہے ،چنانچہ صحابی ٔ رسول حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے یہاں کسی سے ملاقات کے لئے تشریف لائے تو دیکھا کہ ایک صاحب گرد وغبار میں اٹے ہوئے ہیں ،بال بکھرے ہوئے ہیں ،توآپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ان کے پاس کنگھا نہیں جس سے بال درست کر لیتے ،نیز آپ ﷺ نے ایک شخص کو میلے کپڑوں میں ملبوس دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ : ان کے پاس کوئی ایسی چیز (صابن وغیرہ) نہیں ہے جس سے یہ اپنے کپڑے دھولیتے؟(ابوداؤد :۴۰۶۲)،ایک حدیث میں میلے کچلے اور پراگندہ بال رہنے کو شیطانی عمل سے تشبیہ دی گئی،حضرت عطاء بن یسار ؒ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ مسجد نبوی میں تشریف فرماتھے کہ اتنے میں ایک شخص داخل ہوئے جن کے سر اور ڈاڑھی کے بال بکھرے ہوئے تھے،آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے ان کی طرف اشارہ کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ جاکر اپنے سر اور ڈاڑھی کے بال درست کرو،چنانچہ وہ گئے اور بالوں کو ٹھیک کرکے لوٹے ،(جب ان کے بال وغیرہ درست دیکھا تو) ارشاد فرمایا کیا یہ بہتر نہیں ہے اس بات سے کہ آدمی کے بال پراگندہ اور منتشر ہوں ،ایسا معلوم ہوتا ہے گویا شیطان ہے(شعب الایمان:۶۰۴۳) ،آپ ﷺ نے نہ صرف خود کے صاف ستھرا رہنے کی طرف توجہ مبذول کروائی بلکہ اپنے ارد گرد کے ماحول کو بھی صاف و شفاف بنائے رکھنے کی تعلیم وترغیب دی اور ایسے ہر عمل سے دور رہنے کی تقلین کی کہ جس سے دوسروں کو تکلیف ہوتی ہو، خاص کر اپنے پڑوسیوں کو تکلیف دینے اور انہیں ایذا پہنچانے والوں کے لئے نہایت سخت لب و لہجہ استعمال کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :بخدا وہ ایمان نہیں رکھتا ،بخدا وہ ایمان نہیں رکھتا ،بخدا وہ ایمان نہیں رکھتا،صحابہ ؓ نے گھبراکر پوچھا اے اللہ کے رسول ؐکون ؟تو فرمایا:الذی لا یأمن جار ہ بوائقہ( بخاری :۵۶۷۰)’’وہ شخص جس کا پڑوسی اس کی ایذا کوشی اور تکلیف رسانی سے محفوظ نہ ہو‘‘ اسی طرح آپؐ نے راستے ، بازار ،سایہ دار درخت اور لوگوں کے بیٹھنے کے مقامات پر گند گی پھیلانے اور تکلیف دینے والی چیزوں کے ڈالنے کی سخت الفاظ میں ممانعت فرمائی ہے ، آپ ﷺ نے راستوں پر قضائے حاجت کرکے گندگی پھیلانے والوں پر لعنت فرمائی ہے ،ارشاد فرمایا: لعنت کی دوچیزوں سے بچو! ان میں سے ایک وہ ہے جو لوگوں کے راستے میں یا ان کے سایہ میں قضائے حاجت کرے (مسلم: ۲۶۹)، بر خلاف انسانیت کی مدد ونصرت اور ان سے درد و تکلیف دور کرنے کی کوشش کرنا نہایت عمدہ خصلت اور قابل قدر عمل ہے ،اسلام میں انسانیت کی خدمت ،مدد ونصرت اور تکلیف دہ چیزوں سے بچانے کی سعی کرنے والوں کی مدح سرائی کی گئی ہے ،ایک موقع پرآپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایمان کے ستر سے زیادہ شعبے ہیں ان میں سے اعلیٰ ترین شعبہ لا الٰہ الا اللہ کہنا اور ادنیٰ ترین شعبہ راستے سے تکلیف دینے والی چیزوں کو دور کرنا ہے( مسلم :۵۸)، اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کی یہی وہ اعلیٰ ترین اور حسین ترین تعلیمات ہیں جس نے انسانوں کے دلوں کو موہ لیا ہے ، خود دشمنان اسلام بھی اسلام کی خوبیوں اور اس کی بے مثال تعلیمات کے معترف ہیں ، جب وہ مسلمانوں کو ہاتھ ،منہ دھو کر یعنی باوضو ہوکر نماز پڑھتا دیکھتے ہیں اور وفات پاجانے والے شخص کو بڑے اہتمام کے ساتھ نہلا دھلا کر صاف ستھر ے کپڑے میں لپیٹ کر نہایت احترام کے ساتھ قبر میں لٹانے کے منظر کو دیکھتے ہیں توساختہ ان کی زبان پر یہ جملہ جاری ہوتا ہے کہ جو مذہب مرنے والوں کی اس قدر تکریم کرتا ہے اور ان کے جسد خاکی ساتھ اس طرح کی عزت کرتا ہے تو وہ زندوں کی کس قدر تعظیم کرتا ہوگا اور ان کے ساتھ محبت و مودت سے پیش آنے کی تعلیم دیتا ہوگا ،دیگر مذاہب کے بہت سے لوگ صرف کے وضو کے عمل کو دیکھ کر اسلام قبول کئے ہیں اور بہت سے لوگوں نے مسلم جنازوں کو دیکھ کر کلمہ پڑھا ہے ۔
عید الاضحی کے موقع پر تین دن تک اہل ایمان بحکم خداوندی جانوروں کو ذبح کرکے سنت ابراہیمی کو زندہ کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ رب العالمین کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں ،یقینا قربانی مہتم بالشان اور عظیم ترین عبادت ہے ،یہ تقرب الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے ،ایک مسلمان جب خدا کے نام پر جانور کے گلے پر چھری چلاتا ہے تو وہ صرف جانور ذبح نہیں کرتا بلکہ زبان حال سے یہ عہد کرتا ہے کہ جب بھی رب کا حکم اور نفسانی خواہش آمنے سامنے ہوں گے تو بلا توقف رب کے حکم پر میں اپنی خواہشات کو اس طرح ذبح کر دوں گا جس طرح آج حکم ربی پر جانور ذبح کر رہاہوں ،قربانی کے ذریعہ حکم خدا پر عمل کا جذبہ بیدار ہوتا ہے ،اس سے تسلیم ورضا کا مزاج پیدا ہوتا ہے اور سچی غلامی کا اظہار ہوتا ہے ، قربانی کے دنوں میں صرف ہمارے ملک میں لاکھوں مسلمان اپنی اپنی استطاعت کے مطابق جانوروں کی قربانی دیتے ہیں ، ہر شخص اپنی سہولت کے لحاظ سے قربانی کی جگہ کا انتخاب کرتا ہے، بعض لوگ مختص قربان گاہوں کا انتخاب کرتے ہیں تو بعض لوگ آبادی سے دور کھلے مقام پر قربانی کرتے ہیں تو بہت سے لوگ اپنے اپنے گھروں میں ہی جانور ذبح کرتے ہیں ،قربانی کے بعد سب سے بڑا مسئلہ جانور کے خون ، پیٹ کے آلائش اور دیگر غیر منتفع چیزوں کو ٹھکانے لگانے کا ہوتا ہے، ان چیزوں کو مناسب جگہوں پر یا آبادی سے دور لے جاکر ڈلنا بہت ضروری ہے ،اس سے نہ یہ کہ صفائی ستھرائی میں مدد ملتی ہے بلکہ محلے اور آبادی تعفن اور بد بو سے محفوظ ہوجاتے ہیں ،عید الاضحی کے موقع پر حکومت کی جانب سے صفائی ستھرائی کا معقول بندوبست کیا جاتا ہے اور کارکنان بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ صفائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی بہت سے مقامات پر ،گلی کوچوں ،نکڑوں پر اور کچرا دانوں کے اردگرد جانوروں کی اوجھ ،ہڈیاں اور دیگر چیزیں بکھری ہوئی دیکھائی دیتی ہیں ،جس سے گندگی پھیلی ہوئی نظر آتی ہے ، بہت مسلمان بے حسی ، غیر ذمہ داری اور لاوبالی پن کا مظاہرہ کرکے جانوروں کے آلائش ادھر اُدھر پھینک کر تعفن وگندگی میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جس طرح قربانی ایک عبادت اور شریعت کا حکم ہے اسی طرح صفائی ستھرائی کو بھی مذہب اسلام میں عبادت کا درجہ حاصل ہے اور نبی رحمت ؐ نے اس جانب خاص توجہ دلائی ہے، اسلام فطری اور حساس مذہب ہے ،اس کے قونین میں سرتاپا بھلائی ہی بھلائی ہے ،وہ تو اپنے ماننے والوں کو ہدایت دیتا ہے کہ ان کے کسی عمل سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے ،وہ تو راستہ سے تکلیف دینے والی چیز کو ہٹانے پر صدقہ قرار دیتا ہے بھلا وہ کیسے گوارہ کر سکتا ہے کہ مسلمان کوئی عبادت انجام دے اور اس سے دوسروں تکلیف ہوجائے،قربانی کے موقع پر راستوں پر خون بہانے ، جگہ جگہ گندگی ڈال کر بد بو پھیلانے سے نہ صرف قوم مسلم کے غیر مہذب ،غیر سنجیدہ اور بد تہذیب ہونے کا شبہ ہوتا ہے بلکہ اس سے اسلام کی غلط تصویر برادران وطن کے سامنے جاتی ہے جو ہمارے لئے باعث شرم ہے، قربانی کی بارگاہ خداوندی میں قبولیت چاہتے ہیں تو اس موقع پر دوسروں کو تکلیف پہنچنے والے عمل سے بچنا ہوگا اور اس موقع پر بڑی احتیاط برتنی ہوگی،جس شوق وجذبہ سے ہم قربانی کرتے ہیں اسی شوق وجذبہ کے ساتھ صفائی ستھرائی پر بھی توجہ دینی ہوگی کیونکہ قربانی اگر تقرب الٰہی کا ذریعہ ہے تو نظافت وصفائی بھی رب کی قربت کا راستہ ہے ،عید الاضحی کے موقع پراخلاص وللہیت اور قرب الٰہی کے حصول کے لئے بڑے شوق جذبہ سے قربانی کیجئے مگر اپنے طرز عمل سے کسی کو زحمت نہ دیجئے اگر ہم خاص کر اس موقع پر توجہ کے ساتھ صفائی ستھرائی پر نظر رکھیں گے تو اس سے جہاں ماحول کو پاکیزہ رکھنے میں مدد ملے گی وہیں برادران وطن کواپنے اخلاق وکردار بتانے کا موقع بھی ملے گا ،کیا بعید کہ اسلام کے نظافت وطہارت اور مسلمانوں کی پاکیزگی وصفائی کو دیکھ کر ان کی اسلام میں دلچسپی بڑھے گی اور وہ اپنی باطنی گندگی کفر وشرک چھوڑکر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایمان کی خوشبو اپنے اندر بسالیں گے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×