دختران ملت کا ارتداد اسباب اور حل
اسلام قبول کرنااورر ایمان لے آنا انسان کے لئے سب سے بڑا شرف ہے ،یہ ایسا عمل ہے جس پر انسانی زندگی کی کامیابی کا مدار ہے ،یہ ایسی دولت ہے جس کے مقابلہ میں پوری دنیا اور جو کچھ اس میں ہے ہیچ درہیچ ہے ،ایمان ایسا رشتہ ہے جو مخلوق کو خالق سے ملاتا ہے ،عبد کو معبود سے جوڑتا ہے اور غلام کو آقا کا فرماں بردار بناتا ہے ،برخلاف کفر وشرک ایسا گھناؤ نا عمل ہے کہ جس کے اختیار کرنے کے بعد انسان انسانیت سے گرجاتا ہے ،یہ ایسا قبیح عمل ہے جو انسان کو پستی میں ڈھکیل دیتا ہے ،ایسی محرومی ہے جو انسان کو دینی واخلاقی اعتبار سے مفلس بناکر چھوڑ دیتی ہے اور ایسی غلامی ہے جس کے بعد وہ دربدر بھٹکتا رہتا ہے اور دردرکی غلامی اس کا مقدر بن جاتی ہے ،قبول اسلام سابقہ گناہوں کے لئے کفارہ بن جاتا ہے اور ایمان کی برکت سے اللہ تعالیٰ اس کی پچھلی ساری خطائیں معاف کر دیتے ہیں ،اس دن کی طرح پاک صاف ہوجاتا ہے جس دن وہ اپنی ماں سے جنم لیا تھا ،رسول اللہ ؐ کا ارشاد گرامی ہے: ان الاسلام یہدم ماکان قبلہ ( مسلم)’’ اسلام پچھلے تمام گناہ مٹادیتا ہے‘‘ ، اس کے برخلاف اسلام قبول کرنے کے بعد اس سے پھر جانا ، ایمان سے منہ موڑ لینا اور کفر وشرک کی طرف لوٹ جانا انتہائی گھناؤنا اور بدترین قسم کا جرم ہے ،خدائے ذوالجلال کے جلال وغضب کو دعوت دینے والا ہے ، اس کی نظروں میں گرادینے والا ہے اور خود کو ہلاکت وبربادی کی طرف ڈھکیلنے والا ہے، قبول اسلام کے بعد اس سے پھر جانا اور کفر کی طرف لوٹ جانا ’’ ارتداد ‘‘ کہلاتا ہے اور ایسے محروم القسمت شخص کو مرتد کہتے ہیں ،اسلام کی نظر میں مرتد اور زندیق مطلق کافر سے بھی بدتر ہے ، مطلق کافر سے تو لین دین ،معاملات کرنا جائز ہے لیکن مرتد کافر اور زندیق کافر سے کسی بھی طرح کا لین دین اور معاملہ کرنا ناجائز اور حرام ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ حق وصداقت اور حقیقت و سچائی کے راستے پر چلنے کے بعد اچانک اس سے رخ موڑ لینا اور اس سے علاحدگی اختیار کرنا انتہائی درجہ احمقانہ حرکت اور سنگین قسم کا جرم ہے ، ارتداد کی چاہے وجوہات کچھ بھی ہو لیکن ہر وجہ نامعقول اور ناقابل قبول ہے ، (۱)مرتد اپنی اس حرکت کے ذریعہ جہاں ایک طرف حق وانصاف کی خلاف ورزی کرتا ہے ، حق پرستوں کی توہین کرتا ہے جو خود ایک طرح کا جرم ہے (۲) دوسری طرف راہ حق سے پھر کر دوسروں کے لئے گمراہی کا راستہ ہموار کرتا ہے یہ بھی بدترین جرم ہے(۳) تیسری طرف مرتد اپنے ارتداد کے ذریعہ مذہب اسلام کی توہین کرتا یہ بھی نہایت سنگین جرم ہے ،ان وجوہات کی بنیاد پر اسلام میں ایسے شخص کو کڑی سزا سنائی گئی ہے اور مرتدین کے خلاف سخت اقدامات کا حکم دیا گیا ہے تاکہ آئندہ کوئی اس طرح کی حرکت نہ کر سکے ، رسول اللہ ؐ کی وفات کے بعد بعض قبائل اسلام سے پھر کر مرتد ہوگئے تھے ، خلیفہ اول سید نا ابوبکر صدیق ؓ کو جب اس کی اطلاع ملی تو آپ ؓ نے ان کے خلاف ایک فوج تیار کرکے مرتدین پر چڑھائی کی اور انہیں واصل جہنم کرکے بتا دیا کہ دین اسلام سے پھر نے اور ارتداد اختیار کرنے والوں کا یہی انجام ہوتا ہے ، آپ ؓ کے اس جرأت مندانہ اور بروقت اقدام سے اسلام کو ایک نئی قوت عطا ہوئی ، ارتداد کے ذریعہ دشمنان اسلام کے جو کچھ منصوبے تھے ان سب پر پانی پھر گیا ،وہ اپنی موت آپ مرگئے اور اسلام کے خلاف ساری سازشیں ناکام ہوگئیں ،چنانچہ مشہور محدث علی بن المدینی ؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو بڑے نازک موقع پر دو شخصیات کے ذریعہ عزت عطا فرمائی ،ایک سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے ذریعہ اس دن جب بہت سے قبائل مرتد ہوگئے تھے اور امام احمد ابن حنبل ؒ کے ذریعہ اس دن جب فتنہ خلق قرآن کے سلسلہ میں وہ حق پر ڈٹ گئے تھے ، سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے اس جرأت مندانہ ،تدبرانہ اور بروقت فیصلہ سے جہاں اسلام کے خلاف سازشیں رچنے والوں کو منہ کی کھانی پڑی وہیں مرتدین کو ان کے انجام تک پہنچاکر یہ بتادیا گیا کہ ارتداد ایک سنگین قسم کا ناقابل معافی جرم ہے ،یہ مذہب اسلام کی توہین ،اقرار کے بعد انکار ،وعدہ خلافی اور دوسروں کے لئے گمراہی کا راستہ ہے جس کے خلاف بروقت کاروائی کرنا ہی عدل وانصاف کا تقاضہ اور انسانیت کی حیات کے لئے عملی قدم ہے۔
دشمنان اسلام جن میں یہود ونصاری ، مشرکین وملحدین اور دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی شامل ہیں ، یہ تمام کے تمام روز اول ہی سے اسلام کے خلاف کمر بستہ ہیں ،ان کی یہی کوشش رہی ہے کہ کسی طرح اسلام کا نام ونشان مٹ جائے اور اس کے ماننے والے دنیا سے ختم ہو جائیں ،اسلام دشمن طاقتیں منظم طریقہ سے اور متحدہ طور پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں رچنے میں مشغول ہیں ،ان کی تمام تر کوششوں کا حاصل یہی ہے کہ جس طرح ہو سکے اسلام کی شبیہ کو بگاڑ کر پیش کیا جائے اور اس کے تئیں لوگوں میں نفرت کی آگ بھڑ کائی جائے ،جیسا کہ تاریخ شاہد ہے کہ صدیوں سے یہ سلسلہ چلاآ رہا ہے اور یقینا قیامت تک چلتا رہے گا ، حق وباطل کی کشمکش چلتے رہے گی ،باطل نت نئے طریقوں ، خفیہ راستوں اور نئے نئے انداز سے اسلام اور مسلمانوں پر وار کرتا رہے گا اور اسلام کے قلعہ کو منہدم کرنے اور مسلمانوں کو دین سے برگشتہ بلکہ مرتد کرنے کی ناپاک کوشش کرتا رہے گا ، ان کی اصل کو شش تو یہی ہے کہ چاہے کسی طرح ہو اسلام کا چراغ گل ہو جائے جب کہ یہ ناممکن ہے ،ان کی دوسری کوشش یہ ہے کہ اسلام کے ماننے والوں کو اسلام سے پھیر کر کفر کی وادی میں ڈھکیل دیا جائے یا کم از کم انہیں دنیا اور اس کی رنگینی میں اس قدر محو کیا جائے کہ وہ نام کے تو مسلمان رہیں مگر ان کی عملی زندگی سے اسلامی تعلیمات اور اس کی روح نکل جائے ،اس کے لئے وہ رات دن مصروف عمل ہیں اور مسلمانوں کو ان کے مذہب سے ہٹانے یاپھر ان کی زندگی کو بے عمل بنانے میں لگے ہوئے ہیں ۔
پوری دنیا کی طرح ہندوستان میں بھی کچھ شر پسند اور اسلام دشمن عناصر ہیں جو اس طرح کی اوچھی حرکتیں کرنے میں مشہور ہی نہیں بلکہ بدنام بھی ہیں ، پتہ نہیں انہیں کس وجہ سے اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی ہے ،حالانکہ اگر سنجیدگی اور حقیقت پسندی کے ساتھ تاریخ ہند پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلے گا اس دھرتی پر مسلم حکمرانوں نے نہایت عدل وانصاف کے ساتھ حکومت کی تھی اور ہر مذہب اور ان کے ماننے والوں کا نہ صرف احترام ملحوظ رکھا تھا بلکہ انہیں اپنے مذہب پر عمل کی مکمل آزادی دی تھی ،مسلم حکمرانوں نے اپنی رعایا اور ماتحتوں میں سے کسی کے ساتھ بھی زیادتی نہیں کی بلکہ ان کے لئے انہوں نے ایسی ایسی سہولیات فراہم کی تھی کہ جس کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی ، قبول مذہب کے سلسلہ میں کسی پر بھی کسی قسم کا دباؤ نہیں ڈالا اور نہ ہی کسی طرح کا لالچ دے کر انہیں ان کے مذہب سے ہٹانے کی کوشش کی ،مسلم دور میں جتنے لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا وہ سب کے سب اسلام کی حقانیت ،اس کی صداقت اور اس کے عدل وانصاف اور اخلاقی تعلیم سے متاثر ہو کر ہی کیا تھا ،لیکن آزادی ہند کے بعد اور اقتدار کے حاصل ہوتے ہی متعصب ذہنوں اور تنگ نظروں نے گویا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک محاز کھول کر رکھ دیا ہے ، کبھی فسادات بھڑکا کر ان کی جان ومال کو تباہ وبرباد کرتے ہیں تو کبھی گاؤ کشی کے نام پر معصوم مسلمانوں پر ظلم وستم ڈھانے لگتے ہیں تو کبھی ہجومی تشدد کے ذریعہ ان پر درندوں جیسا برتاؤ کرتے ہیں ، تو کبھی کورونا کی آڑ میں ان پر طرح طرح کی پابندیاں لگاتے ہیں اور ان سے لین دین کا بائکاٹ کرتے ہیں ، اسی پر بس نہیں لوجہاد کے نام پر مسلم لڑکیوں کو دام الفت میں پھنسا کر ،شادی کے نام ان کا مذہب تبدیل کرتے ہوئے انہیں ہندو مذہب میں داخل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، حالیہ دنوں میں پرنٹ ،الکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعہ ملک کے مختلف مقامات سے لو جہاد کے نام پر مسلم لڑکیوں کو مرتد کرنے کی مصدقہ خبریں موصول ہوتی جارہی ہیں ،جن میں بتایا جارہا ہے کہ غیر مسلم لڑکوں کو باضابطہ تربیت دی گئی ہے کہ وہ کس طرح سے مسلم لڑکیوں کو اپنی محبت میں پھنساکر ان سے ان کا مذہب چھین لے جس کے نتیجہ میں بھولی بھالی ،دینی تعلیم سے ناواقف ،فکر آخرت سے غافل اور آزاد قسم کی مسلم لڑکیاں غیر مسلم نوجوانوں کے دام الفت میں گرفتار ہوکر مرتد ہوتی جارہی ہیں اور پھر مذہب اسلام سے خارج ہوکر ، ماں باپ کو شرمسار کرتے ہوئے غیر مسلموں کے ساتھ شادیاں رچا رہی ہیں ، مسلم لڑکیوں کے ارتداد کی خبریں مسلمانوں پر بجلی بن کر گر رہی ہیں اور ہر غیرت مند مسلمان کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا ہے اور ہونا بھی چاہیے کیونکہ مرتد ہونے کی خبریں معمولی نہیں بلکہ غیر معمولی اور ہوش اڑادینے والی ہیں ،امت مسلمہ کے لئے شرمندگی اور رسوائی کی بات ہے کہ اسلام دنیا کا سب سے سچا مذہب ہونے ،اس کی تعلیمات سراپا حق وصداقت پر مبنی ہونے اور انسانیت کے لئے اعلی ا سباق اس کے پاس ہونے اور انسانیت کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کے باوجود بعض لوگ مرتد ہوکر اس کے محفوظ قلعہ سے غیر محفوظ گھر میں داخل ہورہے ہیں ،ارتداد کی خبریں سن کر مسلم معاشرہ سخت کربناک حالات سے دوچار ہے، ہر طرف سے ان واقعات پر اظہار افسوس کیا جارہا ہے اور مرتدین کو بُرا بھلا کہا جارہا ہے اور اس طرح کا رد عمل مذہبی محبت اور غیرت مندی کے عین مطابق بھی ہے ،مگر سوال یہ ہے کہ کیا صرف مذمت کر دینا ،ان پر لعنت ملامت کر دینا اور انہیں جہنمی کہہ کر خاموش ہوجانا کافی ہے ؟ نہیں بلکہ اس بات کا پتہ لگانا ہوگا کہ ارتداد کی وجہ کیا ہے ،آخر یہ کونسی لڑکیاں ہیں جو ان سازشیں لوگوں کے ہاتھوں لگ کر اپنی دنیا واخرت بتاہ کر رہی ہیں ،آخر کس چیز کی غفلت نے انہیں ان کی جال میں پھنسادیا ہے ، اگر گہرائی سے مسلم معاشرہ کا جائزہ لیا جائے تو مسلم لڑکیوں کے ایمان سے ہاتھ دھونے اور ارتداد کی لپٹ میں آنے کی مجموعی طور پر پانچ وجہیں سامنے آتی ہیں ( ۱) دینی تعلیم سے دوری،یقینا دینی تعلیم سے دوری اور عقائد سے ناواقفیت آدمی کے ایمان کو کمزور کر دیتا ہے،اسلام نے دینی تعلیم کی اہمیت کو واضح کیا ہے اور بقدر ضرورت دینی تعلیم کے حصول کو فرض قرار دیا ہے ،یعنی ایک مسلمان مرد وعورت کے لئے کم ازکم اتنا علم حاصل کرنا ضروری ہے کہ جس سے اللہ کی وحدانیت، رسول ؐ کی رسالت ،موت وحیات ،جنت وجہنم ، جزا وسزا، حلال وحرام ،فرض اورسنت کیا ہے اور اس پر عمل کس طرح کیا جانا ہے،یقینا جس کے پاس دینی علوم ہوگا ،خدا کا خوف ہوگا ، دنیا کی فانی زندگی کی حقیقت معلوم ہوگی، آخرت کی لامحدود زندگی اور روز محشر جواب دہی کا احساس ہوگا وہ کبھی بھی راہ ارتداد کی طرف قدم نہیں بڑھا سکتا ،(۲) اخلاقی تربیت کی کمی،اولاد کو دینی تعلیم کے ساتھ اس کی دینی تربیت بھی ضروری ہے،دینی تربیت کے بغیر بچوں کی صحیح رہنمائی ممکن نہیں ہے ،ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی دینی تربیت کی فکر کریں ،دینی تربیت انہیں دین پر باقی رکھنے کا ذریعہ ہے ،جب دینی تربیت کے ذریعہ ان کا مزاج دینی بنے گا تو پھر وہ کبھی ارتداد کا شکار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے خلاف ان کی نظر بھی نہیں جائے گی اور اگر چلی بھی جائے تو اسے کرنا ان کے لئے انتہائی دشوار ہوگا ، ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ ان کی دینی تربیت کرے اور اس میں غفلت نہ برتیں ورنہ قیامت کے دن ان سے اس کے متعلق سوال کیا جائے گا ، رسول اللہ ؐ کا ارشاد گرامی ہے: کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ ( مسلم) ’’ تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کے ماتحتوں کے متعلق پوچھا جائے گا‘‘ ،خدا نخواستہ اگر اولاد دین سے دور رہی تو اسے جو سزا ملے گی اس میں والدین بھی شامل رہیں گے ،(۳) بے جا آزادی اور بے پردگی، کسی کہنے والے نے سچ کہا ہے کہ اولاد کی صحیح تربیت کے لئے ان پر شکاری جیسی نظر ضروری ہے ،ان کی نقل وحرکت پر کڑی نظر رکھنا ضروری ہے ،جب تک ان میں شعور کی پختگی پیدا نہ ہو جائے مطمئن ہو کر ان سے بے توجہ نہ برتی جائے ،ان کی بے جا آزادی اور آپ کی غفلت انہیں کسی وقت کسی بھی راہ پر ڈال سکتی ہے ،لڑکا ہو یا لڑکی دونوں ہی پر ماں باپ کی نظر ضروری ہے ،بعضے لوگ اپنی اولاد کے تئیں مطمئن ہو کر بیٹھ جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ شعور وادراک کی منزلیں طے کر چکے ہیں ،وہ اپنے نفع ونقصان کو اچھی طرح جان چکے ہیں مگر بعد میں پتہ چلتا ہے کہ وہ کسی غلط صحبت کی وجہ سے یا پھر بے جا آزادی کی وجہ سے کسی غلط راہ پر نکل چکے ہیں اور بسااوقات اس وقت اس کا پتہ چلتا ہے جب پانی سر سے اونچا ہو چکا ہوتا ہے ،اس لئے ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی گھروں سے باہر والی زندگی سے بھی آگاہ رہیں ،وہ کہاں جا رہے ہیں ،کتنی دیر باہر رہے ،کن کن سے ملاقات کی وغیرہ ،موقع بموقع ان کی نقل وحرکت کی جان کاری لیتے رہیں ،ان کے دوستوں کے متعلق معلومات رکھیں کہ وہ کون ہیں ،ان کی قابلیت کیا ہے ،ان کا مزاج کیسا ہے اور وہ کیا کرتے ہیں ،عموماً غلط صحبت نیک آدمی کو بھی بگاڑ دیتی ہے ،خصوصاً موبائل کے کثرت استعمال سے پرہیز کی تلقین کرنا چاہئے اور اس میں بھی خاص کر رات کے اوقات میں کی جانے والی باتوں پر کڑی نظر رکھنا چاہئے کیونکہ ایک غلط نمبر آدمی کو غلط راہ پر ڈالنے کے لئے کافی ہوتا ہے ،فیس بک اور فون کالس کی دوستی نے بہت سوں کی زندگیوں کا سکون برباد کر دیا ہے اور بہت سے لوگ اس کے ذریعہ بھولے بھالے مسلمان لڑکیوں کو پھنساکر انہیں مرتد بنانے کے مشن پر لگے ہوئے ہیں ،ایسی مصدقہ اطلاعات بھی ہیں کہ بعض لڑکیاں محض فیس بک واٹس ایپ اور فون پر گفتگو کے بعد غیروں کے دام الفت میں پھنس کر اپنی زندگیوں کے ساتھ اپنا ایمان برباد کر چکی ہیں ۔
(۴)مخلوط تعلیمی نظام،معاشرہ میں بگاڑ کے جہاں اور کئی اسباب ہیں ان میں سے ایک بڑا سبب مخلوط تعلیمی نظام ہے ،یقینا مرد وزن کا اختلاط ایک بہت بڑا فتہ ہے ، اسی اختلاط سے کئی بُرائیاں جنم لیتی ہیں ، مرد وزن کا اختلاط بجائے خود ایک فتنہ ہے ،چاہئے وہ تعلیم کے نام پر ہو یا کسی اور ٹائٹل کے ذریعہ ،اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اسلام عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے سے منع کرتا ہے بلکہ وہ تو روز اول ہی سے تعلیم کا علم اٹھائے ہوئے ہے ،اس کا نعرہ ہی اقراء ہے ،زمانہ نبوت میں حضرات صحابیات ؓ مختلف علوم وفنون میں مہارت رکھتی تھیں اور آپ ؐ نے ان کی تعلیم کے لئے ہفتہ میں ایک دن مقرر فرمایا تھا ،وہ حصول تعلیم میں کبھی بھی مردوں سے پیچھے نہیں رہیں بلکہ تعلیم میں ایسی دست ترس حاصل کی کہ تاریخ ان پر نازاں ہے،مگر مخلوط تعلیمی نظام جو دراصل مغرب کی دین ہے جس نے نفع کم اور نقصان زیادہ پہنچایا ہے ،مخلوط تعلیم درحقیقت یہ ایسا حسین اور پر فریب نعرہ ہے جس کے ذریعہ عورتوں کو مردوں سے قریب لا کھڑا کر دیا گیا ہے،اس کا اصل مقصد عورتوں کو بے حیائی کے راہ پر ڈالنا اور تعلیمی آزادی کے نام پر انہیں قریب کرتے ہوئے ان سے تلذذ حاصل کرنا تھا ،بیسوی صدی کے عظیم مفکر شاعر اسلام علامہ اقبال مرحوم جو خود عصری تعلیم گاہ کے بر داختہ تھے اور مغربی نظام تعلیم کا انتہائی قریب سے جائزہ لیا تھا ،انہیں عور توں کے حوالے سے مغرب کے پر فریب نعروں پر ،جن کی صدائیں بازگشت اس وقت مشرق میں بھی سنی جانے لگی تھی ،جس نے انہیں کافی بے چین ومضطرب کر دیا تھا ،ان کی نظروں میں ان نعروں کا اصل مقصد یہ تھا کہ مشرقی خاتون کو بھی یورپی عورتوں کی طرح بے حائی وعصمت باختگی پر مجبور کر دیا جائے اور مسلم قوم بھی مجموعی طور پر عریانیت کی بھینٹ چڑھ جائے ،چنانچہ مخلوط تعلیم کے نقصانات کو دیکھتے ہوئے علامہ نے اپنے انتہائی نفرت اور اس سے بے زارگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ؎
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے بے زن
کہتے ہیں اسی علم کو ارباب نظر موت
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسہ زن
ہے عشق ومحبت کے لئے علم وہنر موت
بلاشبہ مخلوط تعلیمی نظام بہت سی خرابیوں کو جنم دیتا ہے اور اس سے کئے فتنے وجود میں آتے ہیں ،بعض علاقوں میں لڑکیوں کے بگاڑ اور غیر مسلم لڑکوں سے تعلقات مخلوط تعلیمی درسگاہوں کی دین ہیں ،مسلم دانشوروں کو اس پر بھی سنجیدگی سے غور فکر کرنے کی ضرورت ہے ،ہم کو تعلیمی میدان میں آگے بڑھنا ہے مگر دین وایمان کی سلامتی اور عزت وعصمت کی حفاظت کے ساتھ اس کے لئے ایسا نظم بنانا ہوگا جہاں لڑکیوں کی تعلیم کے ساتھ دینی تربیت کا مکمل لحاظ ہو اور ان کی عزت وعصمت بھی محفوظ رہے ۔
(۵) شادیوں میں تاخیر اور جہیز کا ستم،ارتداد کی ایک اہم ترین وجہ اور اس کا بڑا سبب شادیوں میں لین دین اور فضول خرچی ہے ،جہیز ،جوڑے کی رقم اور فضولیات نے شادیوں کو مشکل ترین بنادیا ہے ،جس کا زیادہ اثر غریب اور متوسط خاندانوں پر پڑا ہے ،مطالبات کی شدت اور لین دین کی حرص نے لڑکیوں کے غریب ماں باپ کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے،وہ ماںباپ جن کی محدود آمدنی کی وجہ سے بڑی مشکل سے گھر چلتا ہے ،بمشکل وہ اپنے افراد خاندان کو دووقت کی روٹی فراہم کرپاتے ہیں گھر میں بیٹھی جوان تین تین بچیوں کے لئے جہیز ،جوڑے کی رقم اور عقد میں دوچار سو افراد کے لئے معیاری کھانے کا نظم کہاں سے کر سکیں گے ،لڑکے والوں کے بے جامطالبات ،جہیز کی طویل فہرست اور اسے پورا نہ کرنے پر رشتہ منقطع کر دینے کی دھمکی نے لڑکیوں کے ماں باپ کو وقت سے پہلے بوڑھا بنادیا ہے ، لڑکی کے بوڑھے ماں باپ ان درندہ صفت لوگوں کے ناجائز مطالبات پورا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں بھلا کون ان کے پاس رشتہ لانے کو تیار ہے اور اس گھر کی بچی کو اپنی بہو بنانا پسند کرے گا، بچیوں کی شادیوں کے لئے پائی پائی جٹانے کے لئے باپ کے ساتھ ماں بھی گھروں میں خدمت کرنے اور مالداروں کے طعنہ سننے پر مجبور ہوجاتی ہے ،یہ تھکے ماندے جب گھر آتے ہیں اور اپنی بچیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں ،راتوں کی نیند انہیں کی فکر میں غائب ہوجاتی ہے ،انسان تو بہرے حال انسان ہی ہے ، ان کے پہلو میں بھی تو دل ہے ،یہ بھی ارمان رکھتے ہیں اور ان کی بھی کچھ خواہشات ہوتی ہیں ،جب انہیں اپنا ہمسفر دکھائی نہیں دیتا اور کوئی ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنی شریک حیات بنانے کے لئے تیار نظر نہیں آتا تو پھر یہ مجبور ہوکر یا غیروں کی طرف رخ کرتی ہیں یا پھر اغیار اور اسلام دشمن طاقتیں اس کا فائدہ اٹھا کر انہیں اپنے جال میں پھانس دیتے ہیں ،ماں باپ بیچارے مارے شرم کے زمین میں گڑجاتے ہیں ، شادی کی رسومات اور لین دین کی لعنت نے بچیوں کو مرتد ہونے پر مجبور کر دیا ہے ،اگر بچیوں کو ارتداد سے بچاناہے تو پھر سنجید گی سے اس کے اسباب وعوامل پر غور وفکر کرنا ہوگا اور باضابطہ کوششیں کرنا ہوگا اور مستقل مزاجی کے ساتھ ان چیزوں کو معاشرہ سے دور کرنا ہوگا جن کی وجہ سے بچیاں ارتداد کا شکار ہورہی ہیں ،اگر ہم ہوش میں نہیں آئیں گے اور ان حالات پر توجہ نہیں دیں گے تو پھر حالات مزید سنگین ہوں گے اور اس وقت اس کا مقابلہ کرنا مشکل ہوجائے گا ،اگر ہم واقعی سچے غلامان رسول ؐ ہونے کا دعویٰ کر تے ہیں تو پھر اپنی کوششوں کو تیز کریں اور بچیوں کو ارتداد سے بچانے کے لئے ہر ممکن کوششیں کریں ، یقینا کوشش کرنے والے ہی اللہ کی مدد ونصرت کے مستحق ہوتے ہیں اور انہیں کے ساتھ الٰہی مدد شامل حال ہوتی ہے ۔
٭٭٭