اسلامیات

نوجوانوں میں اوقات کا ضیاع لمحہ فکریہ

’’وقت ‘‘ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک عظیم اور نہایت قیمتی نعمت ہے،وقت اس قدر قیمتی اور بیش بہا نعمت ہے کہ پوری دنیا مل کر بھی اس کا بدل بن نہیں سکتی ، اگر پوری دنیا کو قیمت بنایا جائے اور اس کے ذریعہ وقت کا ایک لمحہ خریدنا چاہئے تو بھی خریدنا ناممکن ہے،وقت جب ہاتھ سے نکل جاتا ہے تو پھر کسی بھی قیمت پر ہاتھ نہیں آتا ،وقت گزرجانے میں آزاد ہے وہ مخلوق میں کسی کا پابند نہیں ،وقت اس قدر انمول ہے کہ جس کا کوئی مول نہیں ،وہ اپنے قدردانوں کو سنوارتا ہے اور ناقدروں کو رُولاتا ہے، وقت قدر کرنے والوں کی قدر کرتا ہے اور غفلت برتنے والوں کو عبرت کا نشاں بنادیتا ہے ،عربی کا مشہور مقولہ ہے کہ :الوقت کالسیف ان لم تقطعہ قطعک’’وقت تلوار کی طرح ہے اگر تم اس کو نہیں کاٹیں گے تو وہ تم کو ضرور کاٹ دے گا‘‘انسان اپنی روز مرہ کی زندگی میں باربار گھڑی دیکھتا ہے اور سیکنڈ ،منٹ اور گھٹے کے کانٹوں کو حرکت کرتا ہوا دیکھتا ہے لیکن پھر بھی اس سے عبرت ونصیحت حاصل نہیں کرتا حالانکہ سیکنڈ کا کانٹا ہر لمحہ سرکتا جاتا ہے اور انسان کو پیغام دیتا جاتا ہے کہ اس کی زندگی سرکتی جارہی ہے اور اس کی حیات کا برف گھل رہا ہے اب اس کی مرضی ہے چاہے تو کام میں لا کر منافع حاصل کرلے یا یوں ہی چھوڑ کر پانی بنا کر مٹی میں ملادے ،اہل بصیرت دوربینی نظر رکھتے ہیں اور دنیا کی ہر ایک چیز سے عبرت ونصیحت حاصل کرتے ہیں ،چنانچہ ایک صاحب بصیرت فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی کی قدر اور اس کے لمحات کی قیمت برف فروش کو دیکھ کر پہنچانا ،وہ بھرے بازار میں برف کی سل سامنے رکھ کر آواز لگاتا جارہا تھا کہ اے لوگو! مجھ پر رحم کرو ،میرے پاس ایسا سرمایہ ہے جو ہر لمحہ تھوڑا تھوڑا ختم ہوتا جارہا ہے ،اگر تم نے اسے جلد نہیں خریدا تو منافع تو کیا بلکہ اصل سرمایہ بھی ہاتھ سے نکل جائے گا،یہی کچھ حال انسان کا بھی ہے اگر اس نے وقت پر وقت کی صحیح قدر نہیں کی تو اس سے بڑا نقصان اٹھا نے والا کوئی اور نہیں ہوگا ، دور حاضر میںانسان اوقات کے علم کے لئے گھڑیوں کا محتاج ہے یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ چھوٹی بڑی ہر ڈیزائین اور ہر سائز کی گھڑیاں نظر آتی ہیں ،خود وہ اپنے ہاتھ کی کلائی پر بھی اسے باندھ لیتا ہے ،بیچاری گھڑی خود تو غلام کی طرح آدمی کے کلائی سے چمٹ جاتی ہے مگر اپنی ٹک ٹک آواز کے ذریعہ اپنے آقا کو ہر لمحہ یہ پیغام دیتی رہتی ہے کہ ؎
غافل تجھے گھڑیال دیتا ہے منادی

گردوں نے گھڑی عمر کی ،اک اور گھٹادی
یقیناوقت کسی کے دست قدرت میں نہیںاور نہ ہی اس کی ڈور کسی جن وبشر اور ملک یا پھر کسی اور مخلوق کے ہاتھ میں ہے بلکہ وہ خدا کے قبضہ اورقدرت میں ہے ، اس کی ڈور خدا نے اپنے دست قدرت میں رکھی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک ہی کا پابند ہے اور اسی کے حکم پر مقررہ رفتار سے چلتا جارہا ہے اور آگے بھی چلتا رہے گا ، قرآن مجید کی متعدد آیات اور ذخیرہ احادیث میں متعدد احادیث وقت کی اہمیت اور اس کی قدر قیمت کو اجاگر کر رہی ہیں ، وقت کی قدر وقیمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس کی قسم کھائی ہے ،ارشاد ہے : وَالْعَصْرِ o إِنَّ الإِْنْسَانَ لَفِیْ خُسْر(العصر: ۱،۲)’’ زمانے کی قسم ،انسان درحقیقت بڑے گھاٹے میں ہے‘‘ ، قرآن مجید میں بعض ایسی سورتیں ہیں جن کی شروعات میں اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے اور وہ قسم اکثر ان چیزوں کی کھائی گئی ہے جن کا تعلق وقت سے ہے ،ایک جگہ ارشاد ہے : وَالضُّحَی oوَاللَّیْْلِ إِذَا سَجَی (ضحی)دوسری جگہ ارشاد ہے : وَاللَّیْْلِ إِذَا یَغْشَی o وَالنَّہَارِ إِذَا تَجَلَّی(الیل)اور ایک جگہ ارشاد ہے: وَالشَّمْسِ وَضُحَاہَا o وَالْقَمَرِ إِذَا تَلَاہَا o وَالنَّہَارِ إِذَا جَلَّاہَا o وَاللَّیْْلِ إِذَا یَغْشَاہَا(الشمس), آیات مذکورہ میں قسم کھا کر اس کی اہمیت اور غیر معمولی قدر وقیمت کو بتایا جارہا ہے، اگر انسان اس سے غفلت ولاپرواہی برتا ہے اور لایعنی اور فضول کاموں میں پڑکر اسے ضائع کر د یتا ہے تو اس سے بڑا نقصان اٹھانے والا کوئی اور نہیں ہو سکتا ،یہ اس نادان اور احمق شخص کی طرح ہوگا جس نے خود کو بلندی سے گرا کر ہلاک کردیا ہو اور غذا میسر ہونے کے باوجود فاقہ کشی سے مر گیا ہو ، عظیم مفسر ومفتی اور عالم ربانی مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع ؒ نے سورہ ٔ عصر جس میں زمانہ کی قسم کھائی گئی ہے کی تفسیر کرتے ہوئے نہایت خوبصورت اور اچھوتے انداز میں زمانہ اور وقت کی قدر وقیمت کو اجاگر کیا ہے، لکھتے ہیں کہ ’’انسان کی عمر کا زمانہ اس کے سال اور مہینے اور دن رات بلکہ گھنٹے اور منٹ اگر غور کیا جائے تو یہی اس کا سرمایہ ہے جس کے ذریعہ وہ دنیا وآخرت کے منافع عظیمہ عجیبہ بھی حاصل کر سکتا ہے اور عمر کے اوقات اگر غلط اور بُرے کاموں میں لگا دئیے تو یہی اس کے لئے وبال جان بھی بن جاتے ہیں،بعض علماء نے فرمایا ہے ؎
حیاتک انفاس تعد فکلما

مضی نفس منھا انتقصت بہ جز ء اً
’’یعنی تیری زندگی چند گنے ہوئے سانسوں کا نام ہے ،جب ان میں سے ایک سانس گزرجاتا ہے تو تیری عمر کا ایک جزو کم ہوجاتا ہے‘‘،حق تعالیٰ نے ہر انسان کو اس کی عمر کے اوقات ِ عزیزہ کا بے بہا سرمایہ دے کر ایک تجارت پر لگایا ہے کہ وہ عقل وشعور سے کام لے اور اس سرمایہ کو خالص نفع بخش کاموں میں لگائے تو اس کے منافع کی کوئی حد نہیں رہتی اور اگر اس کے خلاف کسی مضرت رساں کام میں لگا دیا تونفع کی تو کیا امید رأس المال بھی ضائع ہوجاتا ہے اور صرف اتنا ہی نہیں کہ نفع اور رأس المال ہاتھ سے جاتا رہا بلکہ اس پر سینکڑ وں جرائم عائد ہوجاتی ہیں اور کسی نے اس سرمایہ کو نہ کسی نفع بخش کام میں لگایا نہ مضرت رساں میں تو کم از کم یہ خسارہ تو لازمی ہی ہے کہ اس کا نفع اور رأس المال دونوں ضائع ہوگئے اور یہ کوئی شاعرانہ تمثیل ہی نہیں بلکہ ایک حدیث مرفوع سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے جس میں رسول اللہ ؐ نے فرمایا ہے :کل الناس یغدو فبائع نفسہ فمعتقھا او موبقھا (ترمذی :۳۸۵۹)’’ یعنی ہر شخص جب صبح اُٹھتا ہے تو اپنی جان کا سرمایہ تجارت پر لگاتا ہے ،پھر کوئی تو اپنے اس سرمایہ کو خسارہ سے آزاد کرا لیتا ہے اور کوئی ہلاک کر ڈالتا ہے‘‘،(معارف القرآن:۸؍۱۷۲)۔
خدا نے ہر انسان کووقت دے کر دنیا میں بھیجاہے ،یہ بالکل درست ہے کہ کسی کے حصہ میں وقت زیادہ آتا ہے تو کسی کو کم ملتا ہے ،لیکن جس انسان کو جتنا بھی وقت دیا گیا ہے قیامت میں اس کے متعلق ضرور پوچھا جائے گا اور جب تک وہ اس کا جواب نہیں دے گا تب تک اس کے قدم اس خالق ومالک اور کائنات کے حاکم کے سامنے سے ہٹ نہیں پائے گیں ،قیامت کے دن رب کائنات کی عدالت سے آدمی اس وقت تک ہٹ نہیں سکے گا جب تک اس سے پانچ باتوں کے بارے میں حساب نہیں لے لیا جائے گا ،اس سے پوچھا جائے گا کہ عمر کن مشاغل میں گزاری؟دین کا علم حاصل کیا تو اس پر کتنا عمل کیا؟مال کن ذرائع سے حاصل کیا؟حاصل کردہ مال کس طرح خرچ کیا؟جسم کو کس کام میں لگایا؟(ترمذی:۲۶۰۱)،یہی وجہ ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام ؐ نے ہر موقع پر وقت کی اہمیت اور اس کی قدر وقیمت بتاکر اس کے صحیح استعمال کی طرف توجہ دلائی ہے، بلکہ وہ طریقے بتلائے ہیں کہ جس سے آدمی کے لئے وقت کا صحیح استعمال نہ یہ کہ صرف آسان ہوجاتا ہے بلکہ وقت کی قدردانی کی وجہ سے کم وقت میں بہت کچھ کام انجام دے کر کامیاب لوگوں میں اپنا نام بھی درج کرواسکتا ہے،وقت کی قدر وقیمت اور اس کی اہمیت کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام کی بہت سی عبادات وقت کے ساتھ خاص ہیں بلکہ عبادات میں اہم ترین عبادت ، خدا کی خوشنودی کی علامت اور تقرب الٰہی کا ذریعہ نماز کو وقتوں کے ساتھ جوڑ کر دیا گیا ہے اور وقت کی پابندی کے ساتھ نماز ادا نہ کرنے والے کے لئے سخت عذاب کی و عید سنائی گئی ہے،رسول اللہ ؐ نے بے فضول کاموں میں لگ کر اوقات ضائع کرنے والے کو دھوکہ کھاجانے والوں میں شمار کیا ہے ،ارشاد فرمایا کہ ’’ دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں اکثر لوگ دھوکے میں مبتلا ہیں ،ایک تندرستی دوسرے فراغت وقت(بخاری:۶۴۱۲)،اور ایک حدیث میں آپ ؐ نے اس شخص کو اسلام کی خوبی سے محروم بتایا ہے جو لایعنی کاموں میں پڑ کر اپنے قیمتی اوقات ضائع کرتا رہتاہے ،ارشاد فرمایا’’آدمی کے اسلام کی خوبی اور اس کے کمال میں یہ بھی داخل ہے کہ وہ فضول اور غیر مفید کاموں کا تارک ہو‘‘(ترمذی:۴۲۸۷) ۔
رسول اللہ ؐ نے وقت کی قدر وقیمت اور اس کا صحیح استعمال کرنے کی جس انداز سے تعلیم دی ہے یقینا کسی اور مذہب میں اس کی مثال و نظیر ملنا ناممکن ہے، رسول اللہ ؐ نے نہ صرف اس کی قدر کرنے کی طرف توجہ دلائی بلکہ خود بھی اس کے ایک ایک لمحہ کی قدر کرکے عملی طور پر بتایا اور دکھایا ہے،اسی طرح حضرات صحابہ ؓ کا بھی یہی حال تھا وہ بھی وقت کے نہایت قدرداں تھے ،انہوں نے رسول اللہ ؐ سے جس طرح وقت کی قدر واہمیت پر سناتھا اور آپ ؐ کو اس کی قدر کرتے ہوئے دیکھا تھا اسی طرح انہوں نے بھی اپنے اوقات گزارے تھے ، یقینا ہم دورِ اسلاف اور ہمارے اس موجودہ دور پر نظر ڈالتے ہیں تو زمین وآسمان کا فرق نظر آتا ہے ،وہ عملی اعتبار سے آفتاب کی بلندیوں پر فائز تھے اور ہم زیر زمیں نظر آتے ہیں ،وہ اپنے اوقات کی اس طرح قدر کرتے تھے جس طرح صحرائی مسافر اپنے پاس موجود پانی کے ایک ایک بوند کی حفاظت کرتا ہے ،صحابی ٔ رسول حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ میں سب سے زیادہ اپنے اس دن پر نادم ہوتا ہوں جس کا سورج ڈوب جاتا ہے اور میری عمر کا ایک دن کم ہوجاتا ہے مگر اس میں میرے عمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا،حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ فرماتے تھے کہ شب وروز تمہارے لئے کام کر رہے ہیں اور (تمہارے لئے لازم ہے کہ ) تم ان میں کام کرو،حضرت حسن بصری ؒ اپنے اسلاف کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو تم میں کے دینار ودرھم کے حریص لوگوں سے زیادہ اپنے اوقات کے حریص تھے ،یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے زمانے میں افق پر چمکتے آفتاب کی طرح نظر آتے تھے اور ہر محاز پر کامیاب دکھائی دیتے تھے ۔
رسول اللہ ؐ اورآپ کے اصحاب ؓ کے نقش قدم پر چل کر اور اپنے اوقات کا صحیح استعمال کرتے ہوئے سلف صالحین ،علماء امت ، اکابرین دین اور مسلمانوں کے آباواجداد نے دنیا میں ایک نام پیدا کیا تھا ،چوطرف فتوحات کے جھڈے گاڑ دئے تھے اور انہوں نے نہ صرف حکومتوں کو اپنے قبضہ میں کیا تھا بلکہ ہر میدان میں مہارت حاصل کرکے اپنی صلاحیت وقابلیت کا لوہا منوایا تھا ،اس کے برخلاف آج مسلمانوں کی اکثریت اوقات کی لاپرواہی میں مبتلا ہے ،جس کا قدم قدم پر مسلم علاقوں میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے ، انہیں دیکھ کر کسی بھی زاویہ سے ایسا نہیں لگتا یہ وہی لوگ ہیں جن کے آباواجداد نے وقت کو سونے سے زیادہ قیمتی بنایا تھا اور اس کی قدر کرتے ہوئے پوری دنیا میں نام پیدا کیا تھا ، وہ ہر منصب پر فائز تھے ،دینی واخلاقی میدان کے علاوہ سائنس،جغرافیہ ،صنعت ،تجارت اور حکومت میں وہ سب کے امام مانے جاتے تھے ، دنیا نے ان سے علم سیکھا ،اخلاق سیکھے ،حکمت ودانائی سیکھی اور حکومت کا طریقہ سیکھاتھا ، ان کی تاریخ پڑھنے پر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ وقت کے پابند نہیں بلکہ وقت ان کا پابند تھا ،بر خلاف آج کے مسلمان جنہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ساری فرصت انہیں کو میسر ہے ،انہیں کسی چیز کی نہ ضرورت ہے اور نہ ہی فکر گویا وہ جنت میں سیر کر رہے ہیں ،ان کے پاس نہ تو زندگی گزارنے کا کوئی باضابطہ ہے نہ ہی اس کے قیمتی اوقات کے استعمال کا کوئی مرتب نظام ہے،بس وہ صبح وشام ایسے گزار تے اور برباد کرتے رہتے ہیں کہ جیسے زندگی کا ایک سمندر ان کے پاس موجود ہے اگر کچھ خرچ بھی ہوجائے تو حرج کچھ نہیں،دیگر قوموں کی تقریبات اور اس کے بعد قوم مسلم کے شادیوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتاہے کہ وہ مذہب اسلام کو نہ مانتے ہوئے بھی اس کی حسین تعلیمات پر عمل پیرا ہیں اور یہ مسلمان تو ہیں لیکن یہ عملی لحاظ سے اسلامی تعلیمات سے میلوں دور ہیں ،شادیوں کے لئے ان کے پاس نہ کوئی وقت متعین ہے اور نہ ہی کوئی اصول وضابطہ موجود ہے، شادیوں میں پوری پوری رات صرف کرنا ان کی علامت اور نشانی بن چکی ہے ،بلکہ چھوٹی چھوٹی تقریبات بھی ان کے لئے اوقات کے ضیاع کا ذریعہ ہیں ، رات کا اکثر حصہ ان معمولی تقریبات کی نذر ہوجاتا ہے ، مزید افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ مسلم محلوں میں رات دیر گئے تک جاگنا نوجوانوں کا محبوب مشغلہ بنتا جارہا ہے ، مسلم محلوں میں چبوتروں اور چوراہوں پر اور ہوٹلوں کے آس پاس رات دیر گئے تک نوجوانوں کی ایک بھیڑ نظر آتی ہے جو گپ شپ ،فضولیات اور لایعنی گفتگو میں اپنے قیمتی اوقات ضائع کرتے دکھائی دیتے ہیں، رات کے قیمتی اوقات تو اپنے رب سے سر گوشی کرنے اور رب دو جہاں کے حضور حاضر ہوکر اس کی خوشنودی کے حصول کابہترین ذریعہ ہیںمگر مسلمان خصوصا نوجوان کہ بڑی بے فکری کے ساتھ راتوں کے قیمتی لمحات ضائع کرتے ہوئے اپنی صحت کے ساتھ زندگی کی برکات سے محروم ہوتے جارہے ہیں ، جب مسلم محلوں سے گزر ہوتا ہے اور نوجوانوں کو لایعنی گفتگو میں مشغول ،گپ شپ کرتے ہوئے اور سڑکوں پر رات دیر گئے تک کھاتے پیتے ہوئے دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے،جن نوجوانوں کو راتوں میں اپنے گھروں میں والدین کی خدمت کرتے ہوئے ،پڑھنے لکھنے میں مشغول اور خدا کے حضور حاضر ہوکر اس سے تعلق مضبوط کرتے ہوئے ہونا چاہئے تھا وہ بڑی بے فکری کے ساتھ سڑکوں پر گھومتے ہوئے اور دوسروں کے لئے تکلیف کا باعث بنتے ہوئے نظر آرہے ہیں ،ان کا یہ عمل نہ صرف انہیں نقصان پہنچارہا ہے بلکہ اس سے مذہب اسلام پر بھی انگلیاں اٹھانے کا غیروں کو موقع مل رہا ہے ۔
خصوصاً نوعمر لڑکوں کے غیر ضروری مشاغل کے پیچھے ان کی دینی تعلیمات سے دوری اور والدین کی بے توجہی کا بھی دخل ہے ، اگر ان نو عمر بچوں پر توجہ نہ دی گئی تو آگے چل کر حالات نہایت سنگین رخ اختیار کر سکتے ہیں ،وقت کی ناقدری ایک ایسا جرم ہے کہ جس سے دیگر جرائم وجود میں آتے ہیں ،اس وقت ملک کی جو صورت حال ہے وہ سب پر عیاں ہے ،مسلمان ہر میدان میں کمزور ہوتے جارہے ہیں اور دشمنوں کی کوشش بھی یہی ہے کہ مسلم نوجوان نسل کو دیگر شعبوں سے اور خصوصاً تعلیم سے دور رکھیں تاکہ وہ تعلیم سے محروم رہیں اور آگے چل کر جہالت کی تاریکی میں ڈوب کر زندگی کی سہولیات سے محروم رہیں اور ان کے غلام و محتاج بن کر رہیں ،مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے اور خصوصاً والدین ، علاقہ کے علماء ،قائدین اور محلہ کے بااثر حضرات کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلم معاشرہ پر نظر رکھیں اور ان کی تعلیم وتربیت کی فکر کریں اور ان میں دینی شعور بیدار کریں اور ان کے سامنے ملک وملت کے حالات رکھتے ہوئے انہیں مستقبل کے حالات اور ذمہ داریوں سے آگاہ کریں ،یقینا مجموعی طور پر چار چیزوں سے معاشرہ میں سدھار اور انقلاب رونما ہو سکتا ہے (۱) دینی تعلیم وتربیت (۲) عصری تعلیم میں مہارت (۳) تجارت میں مہارت (۴) مستقبل کے لئے لائحہ عمل،ان سب کے لئے سب سے پہلے اوقات کا صحیح استعمال ہونا ضروری ہے اور اس طرف توجہ دلانا ہوگا ،بلاشبہ وہی قوم ترقی کرتی ہے جو نظم وضبط سے کام لیتے ہوئے اپنے اوقات کا صحیح استعمال کرتی ہے اور وہ قوم بھول بھلیاں میں پہنچادی جاتی ہے جو قیمتی زندگی اور اس کے نایاب اوقات کے استعمال سے غفلت اختیار کرتی ہے اسے یوں ہی ضائع کرد یتی ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×