اسلامیاتسیاسی و سماجی

بابری مسجد! تجھ سے محرومی کا غم صدیوں رُلائے گا

ڈسمبر کا مہینہ جب بھی آتا ہے اپنے ساتھ ہند وستان کی تاریخی عظیم الشان’’ بابری مسجد‘‘ کی یاد ضرور لاتا ہے جسے ہندو فرقہ پرستوں نے ۶؍ڈسمبر ۱۹۹۲ء کو حکومت وقت کی پشت پناہی اور نیم فوجی دستوں کی موجود گی میں شہید کر ڈالا تھا ،بابری مسجد کی شہادت ہندوستانی تاریخ کا انتہائی سیاہ باب اور ایسا بد نما داغ ہے جسے صدیوں مٹایا نہیں جا سکتا،بابری مسجد کی شہادت صرف ایک مسجد کی شہادت تک محدود نہیں ہے بلکہ ہندوستانی سیکولر کردار ،مذہبی رواداری صدیوں قدیم ہم آہنگی اور آپسی پیار ومحبت کا گھناؤنا قتل ہے،بابری مسجد کی المناک شہادت کو ہندوستان اور عالم اسلام کے مسلمان ہی نہیں بلکہ سیکولر مزاج اورسنجیدہ قسم کی ذہنیت رکھنے والے برادران وطن اور پوری دنیا میں بسنے والے انصاف پسند لوگ بھی اس کربناک غم کو صدیوں تک بھلا نہیں پائیں گے،کہنے کو تو یہ ایک مسجد کی شہادت ہے مگر حقیقت میں ظلم وستم کی ایک دستان ہے ،بابری مسجد شہید ہوتی رہی اور ملک کا مسلمان بے بسی کے ساتھ اس دل دہلانے والے منظر کو دیکھتا رہا ، اس وقت اسے پہلی بار یہ احساس ہوا تھا کہ اس کے آبا واجداد نے جس سر زمین کو اپنے خون ِ جگر سے سینچا تھا اور جسے حسن جمال سے آراستہ کیا تھا آج اسی سرزمین پر اسے بے وزن کر دیا گیا ہے اور اسے اجنی بنا کر یکا وتنہا کر دیا گیا ہے ، مسجد کی شہادت کو تو کمزور ،بے بس اور مظلوم مسلمان خاموشی سے چپ چاپ دیکھتے رہے ، اس پر بھی ظالموں اور امن کے قاتلوں کا خون ٹھنڈا نہیں ہوا بلکہ شہادت بابری مسجد کے فورا بعد ملک کے مختلف صوبوں اور ان کے شہروں میں منظم طریقے سے فساد بھڑکا کر مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی ،ان کی املاک تباہ وبرباد کی گئیں اور ان پر ظلم وستم کی انتہا ء کی گئی ،فساد کے ذریعہ مسلمانوں کی دکانیں لوٹی اور جلائی گئیں ،بہت سے گھروں کو مسمار کیا گیا اور مظلوموں کی جانیں لے لی گئیں جس کے نتیجہ میں زائد تین ہزار افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ، کچھ عرصہ بعد حالات معمول پر آئے ،ڈرے ہوئے ، سہمے ہوئے اور لٹے ہوئے مظلوم مسلمانوں نے اپنے سینے میں شہادت بابری مسجد کے غم کو لے کر پھر سے نئی زندگی کی شروعات کی اور بابری کے معاملہ کو پھر ایک مرتبہ عدالت عظمی پر یقین کرتے ہوئے اس کے سپرد کردیا۔
بابری مسجد ہندوستان کی وہ تاریخی مسجدوں میں سے ایک تھی جسے مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر کے حکم سے دربار بابری سے منسلک ایک نامور شخص میر باقی نے اپنے زیر نگرانی ۱۵۲۷ء میں اتر پردیش کے مقام ایودھیا میں تعمیر کیا تھا ،یہ مسجد اسلامی مغل فن تعمیر کے اعتبار سے ایک شاہکار تھی، بابری مسجد کی تعمیر سے پہلے وہاں کوئی مندر نہیں تھا یہ بات بھی تاریخی کتب اور مستند حوالوں سے ثابت ہے ،کچھ فاصلے پر چند بیراگی ایک کورٹ پر رہا کرتے تھے جسے رام کورٹ کہتے تھے ،اکبر نے اپنے زمانے میں ہندؤں کو چبوترہ بناکر پوجا پاٹ کی اجازت دی تھی،انگریزوں کے زمانے میں سازش شروع ہوئی ،ہندو مسلم اتحاد کو متاثر کرنے کے لئے ایچ او نوئل نامی انگریزی آفسر نے ڈسٹرکٹ گزٹ کو مرتب کرتے ہوئے یہ غلط ریمارک لکھا کہ بابری مسجد ایک منہدمہ مقام پر بنائی گئی ہے ،انگریز لڑاؤ اور حکومت کرو پالیسی پر عمل کرتے رہے ،انہوں نے بابری مسجد کے ذریعہ جو بیج پویا تھا دھیرے دھیرے وہ تناور درخت میں تبدیل ہو گیا ۱۸۸۵ ء میں بیراگیوں کے مہنت رگھبیر داس نے سکریٹری آف اسٹیٹ فارانڈین کونسل میں بابری مسجد کے متولی محمد اصغر کے خلاف مقدمہ دائر کیا کہ مسجد بیرونی احاطہ میں واقع چبوترہ رام جنم بھومی ہے ،اس کے بعد ۱۸۸۵ء سے ۱۹۴۷ء تک بابری تنازعہ پر مقدمہ بازی ہوتی رہی ،ملک تقسیم ہوا ،اس کے بعد فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کے خلاف متحد ہو گئیں اور چوری چپھے ۲۲؍ڈسمبر ۱۹۴۹ء کی رات بابری مسجد میں مورتیاں رکھ دی گئیں ،جس کے بعد نقص امن کے نام پر مسجد پر تالا لگا دیا گیا ،۱۶؍جنوری ۱۹۵۰ء کو ہندوؤں کی جانب سے ایک دعویٰ کیا گیا کہ بابری مسجد دراصل رام جنم بھومی ہے ،۱۹۸۴ء میں وشوا ہندو پریشد کی جانب سے رام کی جائے پیدائش کو آزاد کروانے کے لئے تحریک کا اعلان کیا اور بی جے پی کے رہنما لعل کرشن اڈوانی نے اس تحریک کی قیادت سنبھالی ،۱۹۸۶ء میں ضلعی عدالت کی جانب سے ہندوؤں کو متنازع مقام پر پوجا کی اجازت دے دی گئی اور ۱۹۸۹ء کو وشوا ہندو پریشد نے مسجد سے ملحقہ زمین پر رام مندر کی بنیاد رکھی ،پھر ۱۹۹۰ء میں انہی لوگوں نے مسجد کو جزوی نقصان پہنچایا پھر ۶؍ڈسمبر ۱۹۹۲ء منظم طریقہ پر وشوا ہندو پریشد اور دیگر ہندو کٹر تنظیموں نے مل کر حکومت کی سر پرستی اور نیم فوجی دستوں کے سامنے مسجد کو شہید کر ڈالا ،بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں مقدمہ چلتا رہا ،تقریبا اٹھائیس سال بعد تمام شواہد بابری مسجد کے حق میں ہونے کے باوجود محض آستھا بنیاد پر ۹ ؍ نومبر ۲۰۱۹ء کو عدالت عظمی نے اپنا حتمی فیصلہ سناتے ہوئے اسے ہند توا کے حق میں دے دیا ،پوری پلانگ کی کامیابی کے بعد ۵ ؍اگست ۲۰۲۰ء کو ملک کے وزیر اعظم کے ہاتھوں رام مندر کے لئے سنگ بنیاد رکھا گیاجوکہ سکیولر ملک کے لئے انتہائی خطرناک اور جمہوریت کے لئے بد نماداغ ہے ۔
بابری مسجد چونکہ مسلمانوں کی ایک عبادت گاہ تھی جہاں مسلمان زمانہ دراز سے نمازیں ادا کرتے آرہے تھے ، یہ بات مسلمان اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام میں مسجدوں کو کس درجہ اونچا درجہ حاصل ہے ،اسلام کی نظر میں مسجدوں کو بہت اونچا مقام حاصل ہے بلکہ انہیں شعائر اسلام کا درجہ حاصل ہے ، مساجد مسلمانوں کیلئے جہاں عبادت واعمال کے مراکز ہیں وہیں ان کی اجتماعی قوت وطاقت،خلوص و محبت اورآپسی بھائی چارگی کے اظہار کا اہم ذریعہ بھی ہیں،چنانچہ مسلمان دن میں پانچ مرتبہ اپنے پروردگار کے دربار ِ عالی میں حاضر ہوکر اس کی بڑائی ،کبریائی اور عظمت وبرتری کا اقرار کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنی بندگی اور درماندگی کا اظہار بھی کرتے ہیں ، یہی وہ دربار ِ عالی ہیں جہاں پہنچ کر سب برابر ہوجاتے ہیں ،یہاں بادشاہ وفقیر ،امیر وغریب ،عالم وجاہل اور تخت نشین وفرش نشین کا فرق ختم ہوجاتاہے ، اس جگہ بادشاہ بھی کشکول لئے کھڑا نظر آتا ہے اور پوری عبادت میں یہی تصور کرتا ہے کہ گویا ایک غلام اور بھکاری اپنے آقا ومالک کے سامنے ہے اور اس کے ان گنت انعامات واحسانات پر شکریہ ادا کررہا ہے،اسی انداز عبادت کا نام نماز ہے ،مسجدوں کی عظمت اور جن مقامات پر مسجدیں تعمیر کی گئیں ہیں ان مقامات کی رفعت وبلندی کو بتاتے ہوئے رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا :اللہ تعالیٰ کی نظر میں روئے زمین پر سب سے بہترین جگہیں مسجدیں ہیں اور سب سے بد ترین جگہیں بازار ہیں ( مسلم )، زمین پر قائم مسجدیں آسمان والوں کو ستاروں کی مانند دکھائی دیتے ہیں ، یقینا اہل آسمان انہیں دیکھتے ہوں گے اور ان مقامات اور ان میں عبادت کرنے والوں پر رشک کرتے ہوں گے ، رسول اللہ ؐ ؐؐنے ایک موقع پر ارشاد فرمایا :مساجد زمین میں اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں ،یہ آسمان والوں کیلئے ایسے چمکتی ہیں جیسا کہ زمین والوں کیلئے آسمان کے ستارے چمکتے ہیں(طبرانی)۔
مسجدوں کی تعمیر وتوسیع کرانا ، انکی حفاظت کی طرف توجہ دینا اور انہیں صاف ستھرا رکھنے کی فکر کرنا ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے، رسول اللہ ؐ ؐنے مسجدوں کی تعمیر کرانے والوں کیلئے جنت میں محل کی خوشخبری سنائی ہے ،ارشاد فرمایا:جو شخص اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھتے ہوئے اور اس کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے) کیلئے مسجد تعمیر کرائے تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے جنت میں ایک شاندار محل تعمیر فرمائیں گے(بخاری)،ایک دوسری حدیث ہے جس میں بٹیر پرندہ کے گھونسلے کے برابر بھی مسجد بنانے پر جنت میں عالیشان محل کی بشارت دی گئی ہے ،ارشاد نبویؐ ہے:جس شخص نے اللہ تعالیٰ (کی رضا وحصولِ ثواب)کیلئے بٹیر کے گھونسلے کے برابر بھی مسجد بنائی (تو) اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایک شاندار محل تعمیر کریں گے(طبرانی)،مسجدوں کی تعمیر وتوسیع صدقۂ جاریہ کا سبب ہے، بندہ ٔ مومن جسے خدا کی طرف سے تعمیر مسجد کی توفیق عطا ہوئی اس کیلئے اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ تعمیر مسجد کو اس کے حق میں صدقۂ جاریہ بنادیتے ہیں یعنی مرنے کے بعد بھی اسے برابر ثواب ملتا رہے گا ۔
مسجدوں سے تعلق رکھنا ، انہیں محبت وعقیدت سے دیکھنا اور نمازوں کی ادائیگی کیلئے صبح وشام آتے رہنا ایمان کی نشانی اور کامل مؤمن ہونے کی علامت ہے،مسجد یں ہر متقی کا گھر ہیں ، ان میں آنے والے خدا کے مہمان ہیں اور مسجدوں میں آنے والے مجاہدین فی سبیل اللہ کی صف میں شمار ہوتے ہیں، رسول اللہ ؐ ؐ نے ارشاد فرمایا:جو شخص صبح وشام مسجد جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کیلئے جنت میں مہمانی کا انتظام فرماتے ہیں ،جتنی مرتبہ صبح وشام مسجد جاتا ہے اتنی ہی مرتبہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے مہمانی کا نظم فرماتے ہیں(بخاری)،ایک موقع پر مسجد میں بکثرت آنے جانے والوں کے متعلق ارشاد فرمایا: جب تم کسی کو کثرت سے مسجد میں آنے والا دیکھو تو اس کے ایماندار ہونے کی گواہی دو (ترمذی) ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے، ’’مسجدوں کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں‘‘۔
مسجدیںمسلمانوںکے دین وایمان کی حفاظت کے قلعے ہیں ،مسلمانوں کے جان وایمان کی سلامتی ان کی اجتماعیت مسجدوں کے ساتھ وابستگی میں مضمر ہے ، جس طرح بھیڑ یا ایسی بکریوں کو پکڑ لیتا ہے جو ریوڑ سے دور ہوجاتی ہیں،اسی طرح شیطان بھی اہل ایمان کیلئے بھیڑ یے کہ مانند ہے جب جب بھی مسلمان انتشار کا شکار ہوجاتے ہیں اور مسجدوں سے منہ موڑ لیتے ہیں تو یہ ان پر کسی خو نخوار بھیڑ یے کی طرح حملہ آور ہو جاتا ہے ، رسو ل اللہ ؐ ؐ کا ارشاد ہے کہ: شیطان انسان کا بھیڑ یا ہے بکریوں کے بھیڑ ئے کی طرح کہ وہ ہر ایسی بکری کو پکڑ لیتا ہے جو ریوڑ سے دور ہو،الگ تھلگ ہو،اس لئے گھاٹیوں میں علحدہ ٹہر نے سے بچو ،اجتماعیت کو ،عام لوگوں میں رہنے کو اور مسجد کو لازم پکڑو (احمد) ، مذکورہ حدیث میں رسول اللہ ؐ نے اپنی امت کو بڑی عمدہ،نہایت پیاری اور انہیں محفوظ رکھنے والی بے حد اہم ترین چیز بتلائی کہ آپسی اختلافات سے بچو ،اس لئے کہ شیطان اسی کمزوری کا فائدہ اُٹھا کر زبردست وار کرتا ہے جس سے بچنا بہت مشکل ہوجاتا ہے ،اسی طرح مسجدوں کو لازم پکڑ نے والے خدا کی رحمت اور فرشتوں کی حفاظت میں رہتے ہیں ، ان پر شیطان کا جادو چل نہیں سکتا ،وہ بے بسی اور مایوسی کے ساتھ انہیں دیکھ کر ہاتھ ملتا ہے، شیطان ملعون کی یہی کوشش رہتی ہے کہ کسی طرح قوم مسلم مسجدوں سے دور ہوکر خدا کی رحمت ،اس کی نظر عنایت اور اس کے حفظ وامان سے دور چلی جائے ، مسلمانوں کی بے بسی ،لاچاری اور بے حیثیتی کی اہم وجہ یاد الٰہی سے دوری کے ساتھ مسجدوں کی ویرانی ہے ۔
مسجدوں کی اہمیت وفضیلت اور خدا ورسول خدا کی نظر میں ان کے مقام ومرتبہ کا اوپر ذکر کیا گیا اور ان سے وابستہ رہنے کی تلقین کی گئی اور ان سے دوری خدا کی رحمت سے دوری بتائی گئی اور ان سے بے تعلقی ذلت ورسوائی کا سبب بتایا گیا ہے ،مسلمان بابری مسجد کی شہادت سے نصیحت وعبرت حاصل کریں ، بابری مسجد کی حفاظت کے سلسلہ میں جو کچھ کوتاہیاں ہوئی ہیں اس پر اللہ سے معافی طلب کریں ،حالات کے سازگار ہونے پر اس کی دوبارہ تعمیر کا عزم وحوصلہ رکھیں ،بندوں کے لئے بہت سے چھوٹے کام بھی مشکل ہوتے ہیں لیکن اللہ کی قدرت اور اس کے فیصلوں کے آگے کوئی کام مشکل نہیں ہے، اپنے ارد گرد کی مسجدوں کو آباد کرنے کی فکر کریں اور مسجدوں کے سلسلہ میں اس طرح توجہ دیں جس طرح آدمی اپنے گھر کی حفاظت اور تعمیر وتزئین پر توجہ دیتا ہے ،مسجدوں کے تحفظ کا اہم ترین ذریعہ پنجوقتہ نمازوں میں شریک ہو نا ہے ،مسجدوں میں باجماعت نمازوں کی ادائیگی کے ذریعہ مسجدوں کا تحفظ ممکن ہے ،مسجدوں کے سلسلہ میں عام مسلمانوں کی غفلت قابل مذمت اور انتہائی افسوس ناک ہے ،بابری مسجد کو یاد کرلینا ،شہادت کے دن پر یوم سیاہ منالینا اور بعد میں پورے سال مسجدوں سے بے رخی برتنا انتہائی مذموم حرکت ہے ،بابری مسجد زبان حال سے مسلمانوں سے کہہ رہی ہے کہ میری تعمیر تم پر قرض ہے جو تمہیں مسجدوں کی تعمیر وتوسیع اور ان میں کثرت عبادت کے ذریعہ ادا کرنا ہے ۔
٭٭٭٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×