اسلامیات

اے مسلم ِ خوابیدہ جاگ ذرا !!!

دنیا انتہائی برق رفتاری کے ساتھ دوڑ رہی ہے اور وقت نہایت تیزی سے گزرتا جارہا ہے،دن گھنٹوں کی طرح ،ہفتے مہینوں کی طرح اور سال مہینوں کی طرح گزرتے جارہے ہیں ،یقینا ماہ وسال اور اس میں اوقات کی برق رفتاری اور بے برکتی قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے ، زمانے کی تیزی کے ساتھ انسان بھی بجلی کی طرح دوڑ دھوپ کرتا ہوا نظر آرہا ہے، صبح وشام، رات اوردن انسا ن بس سرگرداں نظر آرہا ہے ،اس کی نظر دنیوی زندگی ،یہاں کے ساز وسامان اور یہاں کے عیش وآرام پر ٹکی ہوئی ہے ،وہ بظاہر چمکنے والی چیز کو سونا سمجھ بیٹھا ہے اور اسی کے حصول کے لئے جدجہد میں لگا ہوا ہے ، موجودہ زمانہ کو مادہ پرستی اور دنیا پرستی کا زمانہ کہا جا ئے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ ہر دوسرا شخص اسی کے پیچھے دوڑتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اور ہر ایک حصول زر کی چکر میں چکر لگا نے میں مصروف ہے ،گویا مال ودولت کا حصول ہی ان کی زندگی کا مقصد بن کر رہ گیا ہے ،مال ودولت کی حرص وہوس ،دوسروں کو نیچا دکھانے کی خواہش اور عہدہ وکرسی کی خواہش نے گویا انہیں درندہ بنادیا ہے ، تنگ گلیوں سے لے کر کشادہ سڑکوں تک، دیہاتوں سے لے کر شہروں تک اورایک ملک سے لے کر دوسرے ملک تک سبھی کے ذہنوں پر یہی جنون سوار ہے کہ وہ مال ودولت اور جاہ وحشمت پر قابض ہوکر کس طرح سے دوسروں پر برتری حاصل کریں ،اسی فکر نے ان کے دلوں سے انسانیت کا احترام اور آپسی درد ومحبت کو ختم کر دیا ہے ،ہر طرف ایک انسان دوسرے انسان سے دشمنی کرتا نظر آرہا ہے ، عداوت و دشمنی اور قتل وقتال کا بازار گرم ہوتا جارہا ہے جس کے نتیجہ میں انسانی خون کی ندیاں بہتی جارہی ہیں ، انسانی جان کی قیمت جانوروں کی جان سے بھی کم ہوتی جارہی ہیں بلکہ انسانی جانیں بے قیمت نظر آرہی ہیں، تلوار وبندوق اور بم ومیزائل کے ذریعہ معصوم ومجبور اور نہتے وکمزور لوگوں پر وحشیانہ ،بربریت اور ظلم و درندگی کی کے واقعات دنیا بھر سے دن کے ہر گھنٹے میں الکٹرانک وپرنٹ میڈیا کے ذریعہ سننے اور دیکھنے میں آ تے رہتے ہیں، جسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسان بھلے ہی تعلیم وہنر و جدید تہذیب وتمدن سے آراستہ ہو گیا ہے لیکن اس کی سوچ وفکر اور اخلاق وصفات میں جہالت ودرندگی بسی ہوئی ہے ، اس کا مزاج ومذاق بالکل بدل گیا ہے ،وہ انا پرستی ، خواہش پرستی اور خودی میں گم ہو کر اپنے اقدار وکرار اور انسانی تہذیب وشرافت سے منہ موڑتا جارہا ہے ، اگر یہی سلسلہ بدستور جاری رہا تو وہ دن دور نہیں کہ دنیا انسانی درندوں کی درندگی کی نذر ہو جائے گی اور انسانیت ان درندوں کے پئے درپئے حملوں کی وجہ سے زخموں سے چور ہوکر خوں میں نہا تے ہوئے پژ مردہ ہوجائے گی ۔
تاریخ گواہ ہے کہ چودہ صدی قبل بھی دنیا پر ایسا دور آیا تھا کہ دنیا درندوں کے ہاتھوں قید ہو چکی تھی ،ہر طرف ظلم وستم کا دور دورہ تھا، انسان انسان کا دشمن بن چکا تھا،شرافت ومروت مرچکی تھی،انسان ساز وسامان کی طرح بیچے جانے لگے تھے،عورت کی عزت نیلام ہونے لگی تھی ،جنگ وجدال زور پکڑ چکا تھا ،انسانوں کے سینوں میں عفو درگزر کے بجائے انتقام کی آگ بھڑکنے لگی تھی جس کے نتیجے میں ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ پر برسہا برس تیر وتلوار سے وار کرتاجاتا تھا ،عدل وانصاف کا ترازو خود انصاف کو ترس رہا تھا ، ہر طرف بدی کا زور تھا اور دنیا دم توڑ چکی تھی ،یکا یک دنیا کی قسمت جاگ اٹھی ،تاریکی چیر تا ہوا اُجالا نمودار ہوا ،پژمردہ انسانیت کو حیات نو حاصل ہوئی یعنی مکہ کی مقدس سر زمین سے آفتاب ہدایت طلوع ہوا، پوری انسانیت کو مسیحا اورمحسن عطا ہوا، وہ کیا آیا گویا پوری کائنات میں بہار آگئی اور انسانی زندگیوں کو نئی زندگی حاصل ہوئی ،اس کے وجود بابرکت اور بے مثال تعلیمات سے دنیا جگ مگ کرنے لگی ،اس نے ہدایت کا راستہ دکھایا ، خدا سے ملایا ، تعلیم کا نعرہ دیا ،عدل قائم کیا ،رشتوں کو جوڑا ،انسانیت کا درس دیا، عورتوں کو عزت دی،بڑوں کو اونچا بڑا مقام دیا ،چھوٹوں کو پیار دیا، یتیموں کے سر پر ہاتھ پھیرا ،غریبوں کی مدد کی ،بیواؤں کو سہارا دیا ،دشمنوں کو دوست بنایا ،جنگوں کا خاتمہ کیا ،امیری وغریبی کے فرق کو مٹایا اور محبت وپیار کا ایسا دیا جلایا کہ نفرت وعداوت اس میں جل کر خاک ہوگئی اور پیار ومحبت نکھر تی چلی گئی ، وہ ہستی جس نے ایسا عظیم انقلاب برپا کیا کہ جس کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ہے انہیں محسن انسانیت ،محبوب کبریاء اور رحمت للعالمین حضرت محمد مصطفی ؐ کہا جاتا ہے۔
دین اسلام اور اس کی مبارک ومسعود تعلیمات ،بے مثال آئین اور انسانیت کا پیار سب انہی عظیم ہستی کی دین ہیں ، مذہب اسلام سلامتی کی علامت اور سکون وچین کی جگہ ہے،مسلمان اسی مذہب کے ماننے والے اور اپنے عمل سے انسانوں ہی کو نہیں بلکہ ہر جاندار کو راحت پہنچانے والے ہوتے ہیں ،ان کی زندگیوں کا مقصد بندگی اور بندگان خدا کی خدمت نیز دنیا میں امن وامان کا مشعل جلانا ہوتا ہے،وہ ایک طرف بندوں کو خدا سے جوڑتے ہیں تو دوسری طرف نفاذ احکام اسلام کے ذریعہ دنیا میں امن کی چادر پھیلانے کا کام کرتے ہیں ،مسلمان ایک زندہ قوم کا نام ہے ،اس کا کام سونے والوں کو جگانا ہے ،رونے والوں کو ہنسانا ہے ،بھوکوں کو کھلانا ہے ،ننگوں کو پہنانا ہے ،مظلوموں کا سہارا بننا ہے اور ظالم کے ہاتھ مروڑ نا ہے،تاریخ گواہ ہے کہ عہد نبوتؐ اور اس کے بعد عہد صحابہ ؓ میں خلفائے راشدین نے اپنے اپنے دور خلافت میں انسانوں کو جگانے ، نظام عدل کو قائم کرنے ،بھید بھاؤ کو مٹانے اور امن وامان قائم کرنے میں اپنی پوری زندگی صرف کردی تھی جس کے نتیجہ میں ان علاقوں میں جہاں ان کی حکومت تھی اور نظام اسلام نافذ تھا اس دور کو تاریخ دنیا میں نمایاں مقام حاصل ہے ،مورخین نے اسے سنہری دور کہا ہے اور اپنوں ہی نے نہیں بلکہ غیروں نے بھی اس کی مدح سرائی کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی کو حکومت کرنی ہے تو وہ محمد ؐ کے غلام کے زمانہ خلافت یعنی دورِ صدیقی اور دور فاروقی کو سامنے رکھ کر کرے ۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بہت سی چیزوں سے نوازا ہے ، ان کے پاس سب سے بڑی دولت، دولت ایمان اور قانونِ شریعت ہے،رسول اللہ ؐ کی سنتیں ہیں اور صحابہ ؓ کی طرز زندگی ہے ،وہ صرف اور صرف انہیں کے ذریعہ پوری دنیا میں انقلاب برپا کر سکتے ہیں اور حاکم بن کر دنیا کا بگڑا ہوا نظام درست کر سکتے ہیں ،ان کے پاس قرآنی وحدیث کی شکل میں نظام زندگی موجود ہے اور رسول اللہ ؐ کی مکی ومدنی زندگی اور خلفائے راشدین کا دور خلافت اور ان کے کارناموں کے اوراق موجود ہیں جو انکی رہنمائی کے لئے کافی ووافی ہیں ، رسول اللہ ؐ نے اور آپ کے بعد آپ کے خلفاء نے قدم قدم پر انسانوں کی رہبری فرمائی ، توحید کی تعلیم دی ،انسانیت کا سبق پڑھایا اور انہیں چین وسکون کی زندگی کا سامان فراہم کیا ، وہ دنیا میں رہے مگر دنیا کے پرستار بن کر نہیں،وہ دنیا پر سوار رہے مگر دنیا کو اپنے اوپر سوار ہونے نہیں دیا ، انہوں نے حکومت کی مگر رعایا پروری کے ساتھ ،تخت پر بیٹھے ضرورمگر انصاف کے ساتھ ،تلوار اٹھائی مگر ظلم کے خلاف ، گلے لگایا مگر سب کو اور فتح حاصل کی مگر اخلاق وکردار سے ۔
مسلمان اپنے آباواجداد پر فخر کرتے ہیں اور انہیں فخر کرنا بھی چایئے کہ وہ ان عظیم ہستیوں کی اولاد میں سے ہیں ،مگر ان میں اور ان کے آباواجداد میں زمین وآسمان کا فرق ہے ،وہ حاکم تھے یہ محکوم ہیں ،وہ تخت نشین تھے یہ فرش پر ہیں ،وہ دولت کو ٹھوکر مارتے تھے ،یہ دولت کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ،وہ شیر کی طرح دھاڑ تے تھے یہ ڈرتے ہیں ، وہ جاگتے تھے یہ سوتے ہیں ، وہ زندہ تھے یہ مردہ ہیں اور ان کے پاس اخلاق تھے یہ اخلاق سے عاری ہیں ،حقیقت یہ ہے کہ یہ کہنے کو تو مسلمان ہیں مگر اسلامی تعلیمات سے بہت دور ہیں ،جن حالات سے یہ دوچار ہیں اس کی بنیادی اور اہم ترین وجہ اگر شمار کی جائیں تو چار ہو سکتی ہیں (۱) دین سے دوری (۲) دنیا پرستی (۳) آپسی اختلاف اور (۴) غفلت اور لاپرواہی ،موجودہ دور جسے دور انتشار اور خصوصاً مسلمانوں کے لئے ہر اعتبار سے ازمائشی دور بھی کہا جاسکتا ہے اور دنیا کے تیور اور حکمرانوں کے فیصلے بتارہے ہیں کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے کس قدر دشمن ہیں ،وہ تو ایک لمحہ کے لئے بھی مسلمانوں کو برداشت کرنا نہیں چاہتے ، بلا جھجک ہر الزام مسلمانوں پر لگاتے ہیںاور دنیا کے سامنے انہیں خطرہ بتاتے ہیں ،انہیں جانور پر ترس تو آتا ہے مگر مسلمانوں پر نہیں ،ان کی نظر میں جانور کی جان جان ہے ان کا خون خون ہے مگر مسلمان کی جان تو بے جان ہے اور ان کا خون پانی ہے ،ایسے حالات مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہیں ،انہیں خوب غفلت سے جگانے کے لئے بہت کافی ہیں لیکن افسوس تو یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت اب بھی خوب غفلت میں مبتلا ہے اور اپنے لئے لائحہ عمل تیار کرنے کے بجائے لاپرواہی اور بے عملی کی زندگی گزار نے میں مصروف ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا قانون اور اس کی سنت ہے کہ وہ عامل کی مدد کرتا ہے غافل کی نہیں ،حرکت میں حرارت پیدا کرتا ہے اور سرد و ٹھنڈے کو گرد وغبار کے حوالے کر دیتا ہے ، یقینا اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں کی مدد کرتا ہے جو اس کی بندگی کرتے ہیں اور ان کی دستگیری فرماتا ہے جو اس کی رسی تھام لیتے ہیں ،برخلاف ان لوگوں کو بھلادیتا ہے جو اسے بھول جاتے ہیں اور ان پر ذلت کی چادر ڈال دیتا ہے جو غفلت اور لاپرواہی کرتے ہیں ،مسلمانوں کے لئے لازم ہے کہ وہ غفلت ولاپروہی کی زندگی سے تائب ہوکر اطاعت وفرماں برداری کی طرف لوٹ آئیں ،من مانی چھوڑ کر رب چاہی اپنائیں ،رسم ورواج کی زنجیریں توڑ کر سنت کے زیور سے آراستہ ہو جائیں ،عبادات اور رجوع الیٰ اللہ کا اہتمام کریں ، دین پر عمل کریں ،دنیا میں دل نہ لگائیں اور آپسی اختلافات فراموش کرتے ہوئے متحد ہوکر اسلام کی سر بلندی ،احکام اسلام کی حفاظت ، مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ اور عدل وانصاف وانسانیت کی فلاح کے لئے آواز اٹھائیں ،نہایت افسوس ہے کہ ان حالات میں بھی بہت سے مسلمان بعض ایسے کاموں اور لغویات میں مشغول ہیں جنہیں دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے ،ان کی بے پرواہی اور لاپرواہی دیکھ کر آنسو بہہ پڑتے ہیں ،خصوصا ً نوجوان طبقہ کو غیر اخلاقی حرکات مبتلا اوراوقات کو ضائع کرتے ہوئے دیکھ کر کڑھن محسوس ہوتی ہے ،ان کی بے پرواہی اور غیر سنجیدگی نہ صرف انہیں نقصان پہنچاتی ہے بلکہ اس کے مضر اثرات سے آنے والی نسلیں بھی بچ نہیں سکتیں ، ان حالات میں عموماً امت مسلمہ کے ہر فرد اور خصوصاً امت کا وہ طبقہ جو اپنا ایک اثر رکھتاہے کہ ذمہ داری ہے کہ وہ امت کی رہنمائی کریں ،انہیں خواب غفلت سے جگائیں ،ان میں شعور پیدا کریں ،انہیں حالات سے آگاہ کریں اور ان کے بے جان جسم میں نئی جان ڈالنے کی فکر کریں امید ہے کہ محنتیں رنگ لائیں گی ،حالات بدلیں گے ، دین پر چلنے کے نتیجہ میں کامیابی قدم چومے گی اور جس طرح ہم اپنے آباواجداد پر فخر کرتے ہیں تو اسی طرح آنے والی نسلیں بھی ہم پر فخر کریں گی اور ہمیں احترام کے ساتھ یاد کریں گے مگر اس کے لئے جہد مسلسل اور منزل پانے کا جذبہ لازمی اور ضروری ہے ؎
منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر

مل جائے تجھ کو دریا تو سمندر تلاش کر
سجدوں سے تیرے کیا ہوا صدیاں گزر گئیں

دنیا تیری بدل دے وہ سجدے تلاش کر
ہر شخص جل رہا ہے عداوت کی آگ میں

اس آگ کو بجھادے وہ پانی تلاش کر
کرے سوار اونٹ پہ اپنے غلام کو

پیدل ہی چلے جو وہ آقا تلاش کر

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×