زندگی کا ہر دن دعوت فکر وعمل
دنیا کی ہر ایک چیز عارضی ،ناپائے دار اور فانی ہے ،یہاں کی چمک دمک، دولت ،حشمت ، صحت ، نعمت ،عزت ،عظمت اور تخت وتاج سب کے سب عارضی اور ختم ہونے والے ہیں ، دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں جو بھی آیا اُسے ایک دن سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے جانا پڑا ، بڑے بڑے بادشاہ جنہیں اپنی بادشاہت اور اُنچے اونچے محلات پر فخرتھا ، بے شمار تجوریوں کے مالک جنہیں اپنی بے حساب دولت پرغرور تھا ، نہایت طاقت ورپہلوان جنہیں اپنی قوت پر بڑا ناز تھا،خوبصورت خد وخال کی مالک حسینائیں جنہیں اپنے حسن وجمال پر گھمنڈ تھا یہ سب کے سب مو ت کے بے رحم ہاتھوں زندگی کی بازی ہار کر تنے تنہا اس جہاں سے چل دئیے نہ بادشاہوں کی بادشاہت کام آئی ،نہ پہلوانوں کی طاقت ، نہ مالداروں کی دولت، موت نے سب کو پچھاڑ کر ان سے انکا سب کچھ چھین لیا ۔
اسلام نے اپنے ماننے والوں کو تعلیم دی ہے کہ وہ دنیا کو اپنی منزل نہ سمجھیں ،اس میں گم نہ ہوجائیں ،دنیا میں رہیں مگر دنیا کے طلب گار نہ بنیں ،دنیا کی چمک دمک اور اس کی رنگینی میں گم ہوکر دھوکہ نہ کھائیں کیونکہ ظاہر میں دنیا جیسی نظر آتی ہے حقیقت میں ویسی نہیں ہے یہ تو دھوکہ کا گھر ہے ،مچھر کا پر ہے ، مکڑی کا جالا ہے ، اہل ایمان اور رہروانِ شاہراہِ اسلام کی منزل مقصود تو آخرت ہے ،دنیا عارضی اور آخرت دائمی ہے ،دنیا کی نعمتیں زوال پذیر اور آخرت کی نعمتیں لازوال ہیں چنانچہ قرآن کریم نے دنیا کو دھوکہ کا گھر اور فریب کا سامان بتایا ہے ارشاد ِ ربانی ہے:وماالحیوۃ الدنیا الا متاع الغرور(الحدید ۲۰) یعنی دنیوی زندگی تو متاع فریب ہے۔ اور ایک جگہ قرآن کریم نے دنیوی زندگی کو کھیل تماشہ قرار دیا ہے اور اس کے مقابلہ میں آخرت کو اصل زندگی بتایا ہیفرمانِ خدا وندی ہے : وما ھذہ الحیوۃ الدنیا الا لھو ولعب وان الدار الاخرۃ لھی الحیوان (العنکبوت ۶۴) یہ دنیا کی زندگی سوائے لہو لعب کے کچھ نہیں ،اور اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے ۔ قرآن کریم میں ایک جگہ آخرت کی زندگی کو بہتر اور ہمیشہ ہمیش کی زندگی بتایا گیا ہے: والاخرۃ خیر وابقی(الاعلیٰ ۱۷)یعنی دنیا کے مقابلہ میں آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے حقیقت میں عاقل تو وہی شخص ہے جو فانی کو باقی پر ترجیح نہیں دیتا۔ نبی اکرم ﷺ نے بہت سی احادیث میں دنیا کی بے ثباتی اور بے وقعتی کو نہایت واضح انداز میں بیان فرمایاہے ، ارشاد فرمایا:ان الدنیا ملعونۃ ،ملعون ما فیھا الا ذکر اللہ وماوالاہ ،وعالم اومتعلم(ترمذی:۲۴۹۲) بے شک دنیا قابل لعنت ہے ،اور اس میں جو چیزیں ہیں وہ بھی قابل لعنت ہیں ،سوائے اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کے متعلقہ اعمال کے اور سوائے عالم یا متعلم کے۔ایک دفعہ نبی اکرم ﷺ اپنے صحابہ ؓ کے ساتھ کہیں تشریف لے جارہے تھے کہ ایک دم آپ ﷺ کی نظر ایک مردار کن کٹے بکری کے بچے پر پڑی تو آپ ﷺ نے صحابہ ٔ کرام ؓ سے پوچھا کہ:( ایکم یحب ان یا خذہ بدرھم )تم میں سے کوئی اس مرے ہوئے بچے کو صرف ایک درھم میں خرید نا پسند کریگا ؟ صحابہ ؓنے عرض کیا ہم تو اس کو کسی قیمت پر بھی خرید نا پسند نہیں کریں گے ،تب آپ ﷺ نے فرمایا (فواللہ الدنیا اھون علیٰ اللہ من ھذا علیکم)(صحیح مسلم:۵۲۵۷)قسم ہے اللہ تعالیٰ کی کہ دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس مرے ہوئے بکری کے بچے سے بھی زیادہ ذلیل اور بے قیمت ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے اہل ایمان کو دنیا میں رہتے ہوئے مگر دنیا سے بچتے ہوئے زندگی گذار نے کا حکم فرمایا ہے کیونکہ دنیا اہل ایمان کیلئے عیش وعشرت کی جگہ نہیں بلکہ یہ تو نافرمانوں اور کافروں کیلئے من مانی زندگی گذار نے کی جگہ ہے اس لئے آپ ﷺ نے اہل ایمان سے فرمایا کہ: کن فی الدنیا کانک غریب اوعابر سبیل( صحیح بخاری:)دنیا میں اس طرح رہو جس طرح پردیسی یا راستہ چلتا مسافر رہتا ہے۔اس حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہیں وہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے میرے دونوں مونڈھے پکڑ کر یہ اہم ترین نصیحت فرمائی ،اس حدیث میں آپ ﷺ نے بڑے اہتمام سے بتایا کہ مومن کو اپنا اصل وطن دنیا کو نہیں سمجھنا چاہیے کہ اسی کے پیچھے پڑکر آخرت سے غافل ہوجائے بلکہ دنیا کو تو جیسے تیسے گذار دینا چاہیے جیسے ایک پردیسی یا مسافر چند ضروری ساز وسامان کو ساتھ لئے گذارتاہے ایسے ہی ایک مومن اور مسلمان بھی بقدر ضرورت سامان ساتھ رکھ کر زندگی گذاردے اور اصل فکر دائمی اور ابدی زندگی کی کرنی چاہیے جو کبھی ختم ہونے والی نہیں ۔
دنیا سے محبت اور اس کے ساز وسامان سے ایسا تعلق پیدا کرنا جو آخرت کی فکر سے غافل کردے تمام گناہوں کی جڑ ہے نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:حب الدنیا رأس کل خطیئۃ(بیھقی) دنیا کی محبت ہر گناہ کی جڑ ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ دنیوی محبت ہی کی وجہ سے انسان مال ودولت کی حرص میں مبتلا ہوتا ہے اور مال وزر کی فراوانی اکثر وبیشتر انسان کو رب کی عبادت واطاعت سے غافل کرتے ہوئے طرح طرح کے گناہوں میں پھنسا کر اس کے وجود کو دوزخ میں گرادیتی ہے ،اسی بنا پر اللہ تعالیٰ کے مقرب ومحبوب بند وں کی شان یہ ہے کہ ان کے دل دنیا کی محبت سے بالکل خالی ہوتے ہیںاور وہ دنیا سے اس طرح دور بھاگتے ہیں جس طرح آدمی خوں خوار بھیڑ ئیے سے بھاگتاہے ،ایک حدیث میں آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ : اذاا حب اللہ عبداً حماہ من الدنیا کما یحمی احدکم مریضہ المائ(شعب الایمان:۹۹۶۵) اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی بندے سے محبت فرماتا ہے تو اس کو دنیا سے اس طرح بچا تاہے جس طرح تم اپنے مریض کو (بیماری کے وقت) پانی سے بچاتے ہو ۔دنیا سے محبت اور دنیوی سازوسامان سے حد درجہ لگاؤ رکھنے والا ضرور اپنی آخرت کو تباہ کر لیتا ہے اس لئے کہ جو شخص دنیوی لذ توں اور اس کی وقتی راحتوں کے پیچھے پڑ جاتا ہے تو بالیقین آخرت اس سے چھوٹ جاتی ہے اور وہ ہمیشہ کی نعمتوں اور لذتوں سے محروم ہو جاتاہے چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: من احب دنیا ہ اضربآخرتہ ومن احب آخرتہ اضربدنیاہ فآثروا ما یبقیٰ علیٰ مایفنیٰ(مسند احمد:۱۹۶۹۷) جو شخص دنیا سے محبت کرے گا وہ اپنی آخرت تباہ کرلے گا ،اور جس کو اپنی آخرت محبوب ہوگی تو وہ اپنی دنیا کو نقصان پہنچائے گا ،تو اے لوگو تم باقی رہنے والی زندگی کو فناہوجانے والی زندگی پر ترجیح دو۔
اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لئے دنیا نہیں بنائی ان کیلئے تو جنت اور اس کی ہمہ اقسام نعمتیں بنائی ہیںجو انہیں وہاں جانے کے بعد ملنے والی ہیں ،وہاں کی نعمتوں کے کیاکہنے جنت کی نعمتوں کو بیان کرنے کیلئے یہ حدیث قدسی کافی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : میں نے اپنے نیک بندوں کیلئے (جنت میں) وہ(عظیم اور بے مثال) نعمتیںتیار کررکھی ہیں جن کو نہ (دنیا کی) کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا ،نہ کسی کان نے ان کا تذکرہ سنا ہوگااور کسی بشر کے دل میں کبھی ان کا خیال تک گذرا ہوگا اور اگر تم چاہو تو پڑھو قرآن کی یہ آیت : فلا تعلم نفس ما اخفی لھم من قرۃ اعین(صحیح بخاری:۳۲۴۴)(کوئی آدمی بھی ان نعمتوں کو نہیں جانتا جو ان بندوں کیلئے محفوظ رکھی گئی ہیں ۔دنیا کی عارضی ،فانی اور بے حیثیت چیزوں میں پڑجانا اہل ایمان کا شیوا نہیں اس لئے کہ جس دل میں دنیا کی محبت گھر کر لیتی ہے اس دل سے آخرت کا خوف ختم ہوجاتا ہے ،جو شخص دنیا کی لذتوں میں پڑجاتا ہے اس سے آخرت کی لذتیں چھین لی جاتی ہیں یہی نہیں بلکہ ایسے شخص کو لوگوں کی نظروں میں بے حیثیت ،بے وقعت اور بے وزن بنادیا جاتاہے اور اس پر ذلت ورسوائی مسلط کردی جاتی ہے اور دنیا میں اُسے ذلیل وخوار کردیا جاتاہے چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے دوچیزوں کو ذلت ورسوائی کا سبب بتایا ہے ایک دنیا کی محبت اور دوسرے موت سے نفرت ۔ حضرت ثوبانؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر صحابہ ؓ کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: میری امت پر عنقریب وہ وقت آئے گا جب دوسری قومیں اس پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جس طرح کھانے والے دستر خوان پر گرتے ہیں ،کسی کہنے والے نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ جس دور کا آپ حال بیان فرمارہے ہیں کیا اس دور میں ہم مسلمان کم تعداد میں ہوں گے ؟آپ ﷺ نے فرمایا نہیں ،اُس زمانہ میں تمہاری تعداد کم نہ ہوگی بلکہ تم بہت بڑی تعداد میں ہوں گے لیکن تم سیلابی جھاگ کی طرح ہوجاو ٔ گے (بے وزن وبے حیثیت وبے قیمت) تمہارے دشمنوں کے سینے سے تمہاری ہیبت نکل جائے گی اور تمہارے دلوں میں پست ہمتی گھر کرلے گی ،ایک آدمی نے پوچھا اے اللہ کے رسولﷺ یہ پست ہمتی کس وجہ سے ہوگی؟ آپ ﷺ نے فرمایا لوگ دنیا سے محبت اور موت سے نفرت کر نے لگیں گے(ابوداؤد:۴۲۹۷)۔آج مسلمانوں کی پریشانی، رسوائی، پست ہمتی،بے وقعتی،مغلوبیت اور تنزلی کے اسباب کا قرآن وحدیث کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ ان کی مغلوبیت اور بے بسی کے پیچھے انکی دنیا سے بے تحاشہ محبت اور موت سے کراہیت ونفرت ہے ،آج مسلمان دنیا طلبی میں مگن ہیں ،مال وزر کی حرص نے انہیں اندھا کر دیاہے جس کی وجہ سے حلال وحرام اور جائز وناجائز کا فرق مٹ چکاہے ، نفسانی خواہشات کی تکمیل میں یہ حیراں سرگرداں گھوم رہے ہیں،ان کے دن ورات ،صبح وشام دنیا کی حقیر دولت کے حصول میں صرف ہورہے ہیں غرض یہ کہ دنیا کی محبت نے انہیں دیوانہ بنادیا ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا کی محبت اور دنیوی زندگی کی خواہش نے انہیںموت کی یاد اور آخرت کی تیاری سے غافل کردیا ہے حتیٰ کہ یہ موت کے تذکرہ سے بھی گھبرانے لگے ہیں ،بے شمار جنازوں کو اپنے سامنے سے جاتا ہوا دیکھ کر بھی موت سے غافل ہیں ،انگنت جنازوں کو کندھا دینے کے باوجود موت کی تیاری سے بے پرواہ ہیں حالانکہ زندگی کا ہر روز بلکہ ہر لحظہ دعوت فکر وعمل دے رہا ہے۔