سیرت و تاریخ

سیرتِ نبویؐ اور تعمیر انسانیت

انسان کی اصل خوبی اور اس کا کمال اس کی انسانیت ،شرافت اور بلند اخلاق وکردار ہیں اور ان ہی اخلاقی خوبیوں کو اسے اپنانے اور اپنی زندگی کے شب وروز میں شامل رکھنے کا اس کے خالق نے اسے حکم دیا ہے ، اخلاق حسنہ اور صفات عالیہ کے بغیر انسان انسان نہیں بلکہ انسان نما ں درندہ اور بدترین جانور کہلاتا ہے اور اس کا یہ عمل اسے انسانیت کے صف سے نکال کر حیوانیت کی قطار میں کھڑا کر دیتا ہے اور وہ اسفل سافلین میں پہنچ جاتا ہے ، انسان کو دیگر انسانوں میں اعلیٰ وارفع اور مکرم ومحترم بننے کے لئے خالق کائنات نے ایک ضابطہ بنایا ہے ، جس وقت انسان اس ضابطہ کو اپناتا ہے ،اسی منہج پرزندگی گزارتا ہے اور اس کسوٹی پر کھرااُتر تا ہے تو اس وقت بلندی مقام اور رفعت مکان پر فائز ہو جاتا ہے ،انسان حقیقت میں کا خدا نائب اور خلیفہ اسی وقت کہلاتا ہے جس وقت وہ اخلاق حسنہ کی سیڑھی پر چڑھ کر تقویٰ کی منزل پر پہنچ جاتا ہے ،دراصل مقام تقوی کا حاصل ہوجانا انسانیت کا کمال اور اس کی معراج ہے ،اخلاقی بلندی ،شرافت کی منزل اور تہذیب واخلاق کے ذریعہ ہی ایک انسان عوج ثریا پر پہنچ جاتا ہے ،انسان کا جس وقت کردار سنور جاتا ہے ،اس کی سیرت اخلاق حسنہ سے مزین ہوجاتی ہے اور وہ پیکر اخلاق اور سرتاپا کردار حسن کا مینار بنجاتا ہے تو پھر اس کی ذات دوسروں کے لئے باعث تقلید اور نمونہ عمل بن جاتی ہے ،خالق کائنات کو یہی انسان اور اس کا حسن کردار مطلوب ومقصود ہے ، جس انسان میں تمام تر اخلاقی خوبیاں جمع ہو جائیں ، وہ اپنے خالق ومالک کی ہدایات پر اس طرح عمل کرنے لگے جس طرح ایک سچا غلام اپنے آقا کی فرماں برداری کرتا ہے اور اس کی نافرمانی سے اس طرح ڈرنے لگے جس طرح کوئی آگ کے شعلوں کو چھوںنے،سمندری لہروں میں کود نے ،درندوں کے قریب جانے اور زہر قاتل کو اپنی زبان پر رکھنے سے ڈرتا ہے تو اسے متقی کہا جاتا ہے ، یہ اللہ تعالیٰ کے پاس معزز ومکرم کہاتا ہے اور بارگاہ الٰہی میں اس کی خوب پذیرائی ہوتی ہے ،قرآن کریم میں ارشاد رب العالمین ہے :إِنَّ أَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ أَتۡقَاکُمۡ (الحجرات:۱۳)’’درحقیقت اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت ولا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو‘‘۔
انسان کو حقیقی معنیٰ میں انسان بنانے ،اس کے اخلاق وکردادر کو سنوارنے اور اسے مقام آدمیت تک پہنچانے کے لئے کسی حسین وجمیل ،کامل ومکمل اور بلند وارفع نمونہ کی ضرورت تھی تو انسانیت کے ہادی ورہبر ،مجسم رحمت ،مسیحاء انسانیت اور قیامت تک کی بلند وبالا شخصیت حضرت محمد ؐ کو نمونہ واسوا بناکر خالق نے ہمارے سامنے رکھ دیا ،آپ ؐ کی سیرت اور اس کا ایک ایک جزو قیامت تک پوری انسانیت کے لئے بہترین اسوہ ونمونہ ہے ،سیرت طیبہ کا ہر گوشہ آب حیات اور کامل نجات کی حیثیت رکھتا ہے ،گویا خالق کائنات کی مرضی آپ ؐ کے اسوۂ حسنہ میں پوشیدہ ہے ،آپ ؐ کی سیرت اپنائے بغیر کوئی انسان نہ انسانیت کی منزل پاسکتا ہے ، نہ زندگی کا صحیح لطف اٹھا سکتا ہے اور نہ ہی خالق کائنات کی نظر میں سر خرو بن سکتا ہے،قرآن کریم میں ارشاد رب العالمین ہے : لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ أُسۡوَۃٌ حَسَنَۃ(الاحزاب:۲۱)’’حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لئے رسول اللہ ؐ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے ‘‘ ،ایک حدیث میں آپ ؐ نے خود اپنی بعثت وتشریف آوری کے مقصد کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ انما بعثت معلما(ابن ماجہ) ’’ میں معلم بناکر بھیجا گیا ہوں ‘‘ اور ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق(مسند البزار)’’مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا‘‘، انسانوں کے لئے جب آپ ؐ کی حیات مبارکہ کو نمونہ اور اسوہ بنادیا گیا تو اب اسے سامنے رکھ کر زندگی گزار نا اور اپنے اخلاق وکردار کو آپ ؐ کے اخلاق وکردار کے مطابق ڈھالنے کی مکمل کوشش کرنا ہر ایک کے لئے ضروری و لازمی ہوجاتا ہے ،اس کے بغیر انسانیت کی کامیابی کا تصور محال اور معاشرہ کی درستگی کا عمل ادھورا رہ جاتا ہے۔
سیرت نبوی ؐ سے انسانیت کی تعمیر کے لئے اجمالی طور پر تین چیز یں ضروری ہیں ، بعض اہل علم نے انہیں سیرت نبویؐ کا خلاصہ اور نچوڑ بتایا ہے ،آپ ؐ نے اپنی سیرت وحیات کے ذریعہ انسانیت کی جس انداز سے عملی تربیت فرمائی ہے اور اسے سنوار کر جس مقام تک پہنچایا ہے تاریخ انسانیت میں اس کی مثال نہ تو اس سے قبل اور نہ ہی اس کے بعد ملے گی ،آپ ؐ کی سیرت طیبہ انسانی پوری زندگی کے لئے کافی وافی ہے ، انسانی زندگی کاکوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جس میں آپ ؐ کی سیرت انسانیت کی رہنمائی کرتے نظر نہ آتی ہو،عقائد، عبادت،تجارت ،سیاحت،قیادت ، حکومت ،عدالت ،میدان کارساز ، خلوت ،جلوت غر ض ہر موڑ پر آپ ؐ نے اپنی سیرت کے ذریعہ وہ دستور حیات دیا ہے اور ایسا منظم ومرتب ،پاکیزہ اور مضبوط راستہ عطا کیا ہے جس کی کوئی مثال نہیں ہے ؎
لا کھوں سلام اس آقا پر، بت لاکھوں جس نے توڑ دئے

دنیا کو دیا پیغام سکوں ،طوفانوں کے رخ موڑ دئے
اس محسن اعظم نے ،کیا کیانہ دیا انسانوں کو

دستور دیا ،منشور دیا ،کچھ راہیں دی کچھ موڑ دئے
(۱) علم :انسانیت اپنی سیرت وکردار سنور نا چاہتی ہے اور اپنے افعال واعمال صحیح کرنا چاہتی ہے تو سیرت نبوی سب سے پہلے علم کی طرف اس کا رخ موڑ تی ہے اور اسے بتاتی ہے انسانی کردار کو سنوار نے اور بلندی مقام پر پہنچانے اور خلیفۃ اللہ فی الارض کا حقیقی مصداق بننے کے لئے علمی پیاس بجھانا ضروری ہے ،رسول اللہ ؐ نے انسانیت کی توجہ سب سے پہلے علم ہی طرف مبذول کروائی ہے اور انہیں حصول علم میں جد جہد کرنے اور اپنے اندر کمال علم پیدا کرنے کی ترغیب دی ہے ،بلکہ آپ ؐ پر غار حراء میں نازل ہونے والی پہلی آیت کے پہلے جزو کا پہلا حرف ’’اقرء ‘‘ ہے ،اس کے ذریعہ پوری دنیا کو ایک پیغام دے دیا گیا کہ اب ضلالت وگمراہی ،جہالت کی تاریکی اور بے علمی کے بادل چھٹنے والے ہیں اور محسن انسانیت کے علم وعمل ،اخلاق وکردار اور صاف وشفاف سیرت کا عملی سوج دھر تی پر طلوع ہو چکا ہے جس کی روشن کرنوں سے مشرق ومغرب اور شمال وجنوب کا ہر ذرہ ذرہ روشن اور منور ہوجائے گا،علم دوطرح کے ہیں ایک علم ربانی اور دوسرے علم مادی ،ایک خدا کی پہچان کرواتا ہے،اس کے احکام بتاتا ہے،زندگی کے اصول سکھاتا ہے،جینے کا ڈھنگ عطا کرتا ہے،بندگی کے مقام تک پہنچاتا ہے، عبدیت کی منزل پر لیجاتا ہے اور جنت کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو انسان کا مقصود ومطلوب اور اس کا حقیقی ٹھکانا ہے، اسی کو علم وحی بھی کہا جاتا ہے ،درحقیقت یہی حقیقی معنی میں علم بھی ہے،دوسرا مادی علم ہے،یہ انسانوں کو زندگی گزار نے میں سہولیات فراہم کرتا ہے ،ضرورریات زندگی میں اس کی مدد کرتا ہے ، کل کی تیاری میں اس کا معاون ومدد گار بنتا ہے اور دنیا کے رازوں سے پردے ہٹا تا ہے ،گو یا یہ بھی علم ربانی ہی کی ایک شاخ اور ٹہنی ہے ،قرآن کریم کا مطالعہ کرنے ولا جانتا ہے کہ کلام مقدس نے کائنات کے سارے رازوں کا افشاں کیا ہے اور قرآن کریم کی متعدد آیات میں زمین کے خزانے ،سمندری ذخائر اور آسمان میں موجود نئی نئی چیزوں کا انکشاف کیا گیا ہے،آج جتنی بھی مادی ترقی ہوئی ہے اور لوگوں نے زمین وآسمان کے درمیان چیزوں کا پتہ لگایا ہے یہ سب قرآن کریم ہی کی مرہون منت اور اسی کا صدقہ ہے، سیرت نبوی انسانیت کی تعمیر کے لئے تعلیم کو لازم اور حصول علم کی طرف قدم بڑھانے کو ضروری قرار دیتی ہے،علم کو نور قرار دے کر اس کی روشنی میں زندگی کے سفر کو طے کرنے کی ترغیب دیتی ہے،رسول اللہ ؐ نے سیرت انسانی کی تعمیر وارتقاء ،ہمہ مقصد فوائد کے حصول اور اس کے اخلاق وکردار کی بلندی کے لئے علم کو لازم قرار دیا ہے، سیرت نبوی ؐ اس شخص کی تحسین کرتی ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کرتی ہے جو حصول علم کے لئے دوڑ دھوپ کرتا ہے ، جہد مسلسل کے ذریعہ علم حاصل کر نے کی سعی کرتا ہے اور دور دراز مقامات پر پہنچ کر علم کی پونجی حاصل کر تا ہے ،کیونکہ علم وہ لاقیمت دولت ہے جس کا کوئی بدل نہیں اور جس کے بغیر انسانیت کی صلاح وفلاح ممکن ہی نہیں ،خود رسول اللہ ؐ نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے ارشاد فرمایا :انما بعثت معلما’’ میں معلم بناکر بھجیا گیا ہوں‘‘،آپ ؐ نے پوری زندگی معلم انسانیت بن کر گزاری اور اپنی پاکیزہ عملی زندگی کے ذریعہ انسانیت وہ گراں قدر تعمیر فرمائی جس کی تاریخ انسانی میں کوئی نظیر نہیں ،آپ ؐ نے جاہلیت ،جہالت ،ظلم وبربریت اور عروج حیوانیت کے دور میں اپنے علم وعمل اور اپنی سیرت وتربیت کے ذریعہ قوم کی علمی،عملی ،سماجی ،اخلاقی اور معاشرہ کی ایسی خوبصورت تشکیل فرمائی کہ اس سے قبل نہ ایسی صالح قوم دیکھنے میں آئی اور نہ بعد میں دیکھنے کو ملے گی ،علم دین کا حصول تو اس لحاظ سے بھی ضروری ہے کہ اسی پر اعمال کا مدار اور اس کی قبولیت کا انحصار ہے ، اللہ تعالیٰ کی مرضی وخواہش معلوم کرنے کا یہ ذریعہ ہے اور رسول اللہ ؐ کے ارشادات واحکامات اور آپ ؐ کی سیرت کا تعلق بھی اسی سے ہے اور آخرت میں کامیابی ونجات کا مدار بھی اسی علم سے جڑا ہوا ہے ،دینی علم سے محرومی آدمی کے لئے نہ صرف باعث شرمندگی ہے بلکہ ذلت ورسوائی کا سبب بھی ہے ،جو لوگ علم دین کے حصول سے غفلت برتے ہیں ان کے شیطانی جال میں گرفتار ہونے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں ، یا تو وہ خود سے عمل کرنے لگتے ہیں یا پھر عموماً آزاد ذہن لوگوں سے رہنمائی لے کر عملی اقدامات کرنے لگتے ہیں ،اس لئے علم دین کا حصول بقدر ضرورت لازمی ہے نیز ان لوگوں کی تربیت بھی ضروری ہے جو اس علم میں ید طولیٰ رکھتے ہیں ،رہا مادی علم تو عالم انسانیت کی زندگی کو بہتر بنانے کی غرض سے اس کا حاصل کرنا جائز ہے بلکہ عبادت اور کار ثواب ہے،اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ ایک کامیاب معاشرہ اور صالح تہذیب وتمدن کے قیام کے لئے ہر طرح کے ماہرین علم وفن کی ضرورت ہوتی ہے ،اگر ایسے افراد ملت کے اندر نہیں ہوں گے تو بسااوقات شدید نقصان سے دوچار ہونا پڑسکتا ہے ،سیرت نبوی ؐ میں اس سلسلہ میں رہنمائی موجود ہے ،آپ ؐ نے یہودیوں سے خط وکتابت کے لئے ان کی بولی جانے والی سریانی زبان سیکھنے کی صحابہ ؓ کو ترغیب دی ،چنانچہ حضرت زید ابن ثابت ؓ نے صرف پندرہ دنوں میں سریانی زبان سیکھ لی تھی،نیز صنعت وحرفت کا سیکھنا اور اس کے ذریعہ سے ضروریات زندگی کو پورا کرنا اور دوسروں کی ضرورت کی تکمیل میں معاون بننا بھی دین ہی کا حصہ ہے اور اس کے سیکھنے اور اس علم کے حاصل کرنے کی اسلام تعلیم دیتا ہے بلکہ اس کی نشر واشاعت کی اجازت بھی دیتا ہے،بلکہ قرآن کریم میں ان انبیاء ؑ کا تذکرہ نہایت وضاحت کے ساتھ کیا گیا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے علم صنعت وحرفت سے نوازا تھا اور انہیں صنعتی فنون میں مہارت حاصل تھی ،سیرت نبوی ؐ سے یہ تعلیم ملتی ہے کہ جس چیز سے انسان کو حقیقی نفع حاصل ہوتا ہو اور اس سے انسانیت کی صلاح مقصود ہو تو اس کا حصول ایک مستحسن عمل ہے ، سیرت نبویؐ بتاتی ہے کہ تعمیر انسانیت کے لئے حصول علم نہایت اہم اور لازمی جزو ہے ،اس کے بغیر انسانیت کی تعمیر کا تصور محال ہے ۔
(۲) عمل:انسانی زندگی کی تعمیر وترقی اور ارتقائی منازل طے کرنے کے لئے سیرت نبوی ؐ نے جہاں علم کو ضروری قرار دیا ہے وہیں اس کے لئے عمل کو بھی ضروری گردانہ ہے ،کیونکہ علم مطالبہ کرتا ہے عمل کا ،جس طرح درخت پھل کے بغیر اپنی قیمت نہیں رکھتا اسی طرح عمل کے بغیر علم بھی اپنی کشش کھو دیتا ہے ،کسی کہنے والے درست کہا ہے کہ ’’ علم عمل کے بغیر اس جسم کی مانند ہے جو جان اور روح سے خالی ہے‘‘ انسان کی کامیابی وترقی کے لئے عملی زندگی ضروری ہے ،اس کے بغیر انسانیت کی تعمیر کا تصور ناممکن بلکہ محال ہے ، قرآن کریم میں علم رکھنے والے بے عمل کو اس گدھے سے تشبیہ دی گئی ہے جس پر کتابوں کا بوجھ رکھا گیا ہو،ارشاد رب العالمین ہے:مَثَلُ الَّذِیۡنَ حُمِّلُوا التَّوۡرَاۃَ ثُمَّ لَمۡ یَحۡمِلُوۡہَا کَمَثَلِ الۡحِمَارِ یَحۡمِلُ أَسۡفَارًا(الجمعہ:۵)’’جن لوگوں پر تورات کا بوجھ ڈالا گیا ،پھر انہوں نے اس کا بوجھ نہیں اٹھایا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو بہت سی کتابیں لادے ہوئے ہو‘‘ ،اس آیت مبارکہ میں تورات کے ماننے والوں کی بے عملی کو بیان کیا گیا ہے کہ یہ لوگ تورات اور اس میں بیان کردہ احکامات جاننے کے باوجود عمل نہیں کرتے تو اس گدھے کے مشابہ ہیں جس پر کتابابوں کا بوجھ ہے مگر اس کے نفع سے وہ خالی ہے ،کیونکہ علم کا مقصود اصلی عمل ہے ، اس مثال کے ذریعہ ان سارے لوگوں کو متنبہ کیا گیا ہے جو علم سے آگاہ ہونے کے باوجود عملی کوتاہیوں کا شکار ہوتے ہیں اور بے عملی کی زندگی گزار تے ہیں ، سیرت طیبہ کا ہر گوشہ عمل کا جیتا جاگتا نمونہ ہے، سیرت طیبہ میں کہیں ایسا نہیں ملے گا کہ آپ ؐ نے کسی بات کا حکم دیا ہو اور خود اس پر عمل نہ کیا ہو ،بلکہ آپ ؐ نے ہر معاملہ میں عملی نمونہ پیش کرکے دکھایا ہے،آپ ؐ نے اس علم سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگی ہے جونفع سے خالی ہو ، آپ ؐ گھر میں ہوں یا باہر،سفر میں ہوں یا حضر میں، میدان جنگ میں ہوں یا مقام امن میں،ساتھیوں کے درمیان میں ہوں یا دشمنوں کے بیچ ،لین دین کے وقت ہوں یا عدل وانصاف کے وقت اور عبادت کا موقع ہو یا عیادت کے وقت ہر چیز کو عملی جامہ پہناکر لوگوں کے سامنے رکھا اور اس کے ذریعہ انہیں تعلیم دی کہ کامیابی عملی کردار پر ملتی ہے، گفتار سے بھلے کان خوش ہوتے ہوں لیکن عمل اور کردار سے دل خوش ہوتے ہیں ،معاشرہ بنتا ہے اور انسانیت بلندی کو چھونے لگتی ہے ،سیرت نبوی ؐ کا ہر ورق انسانیت کو عملی پیغام دیتا ہے ،کر تے رہنے کی تلقین کرتا ہے ،کردار کی طاقت اور عملی قوت ہی کا نتیجہ تھا کہ آپؐ نے فاران کی چوٹی سے تنہا کلمہ ٔ توحید بلند کیا اور حق کی صدا لگائی چند سالوں میںعرب کا چپہ چپہ نور توحید سے جگمگا اٹھا اور بت پرستی ،شرک پرستی میں ڈوبی ہوئی قوم کو اسلام کے دامن امن سے ایک نئی زندگی ملی اور ان کا نصیب اس طرح جاگا کہ اسے قوم کی سالاری کا شرف حاصل ہوا، سیرت نبویؐ بتاتی ہے کہ قوموں کے عروج وترقی کا راز ان کا عملی کردار ہوتا ہے ،عمل کی روشنی نہ صرف خود کے وجود کو منور کر تی ہے بلکہ اس پر جس کی نظر پڑتی ہے اور اس کی نظر جس پڑتی ہے دونوں جگمگا اٹھتے ہیں اور کامیابی خود اس سے چمٹ کر اس کا ساتھ ہوجاتی ہے۔
(۳) اخلاق:سیرت نبوی ؐ بتاتی ہے کہ انسانیت کی تعمیر کے لئے ’’حسن اخلاق ‘‘ نہایت ضروری ہے ، حسن اخلاق سے انسان معاشرہ میں وہ مقام پاتا ہے جو گلستان چمن میں ’’گلاب‘‘ کو ملتا ہے ، کسی نے سچ کہا ہے کہ تلوار جنگ جیتی جاتی ہے اور اخلاق سے دل جیتے جاتے ہیں ،تلوار کی دھار سے گردن کٹتی ہے اور زبان واخلاق کی دھار سے دل جڑتے ہیں ،اور کاٹنے والی چیز سے جوڑ نے والی چیز بہتر ہوتی ہے،رسول اللہ ؐ کی حیات طیبہ اور آپ ؐ کی زندگی کا ہر گوشہ اخلاق وکردار کا اعلیٰ نمونہ تھا،آپ ؐ کی سیرت اخلاق حسنہ کا مینارہ نور ہے جس سے دنیا کا ہر ذرہ روشن ہوا ،آپ ؐ نے انسانیت کو اخلاق حسنہ کی وہ تعلیم دی جس کی مثال پیش کرنے سے تاریخ انسانی عاجز اور قاصر ہے،آپ ؐ نے نہ صرف اپنے اقوال وارشاد کے ذریعہ انسانیت کو اخلاق حسنہ کے اختیار کرنے کی تعلیم دی بلکہ خود اخلاق حسنہ کا اعلیٰ نمونہ بن کر دنیا کے سامنے پیش ہوئے،آپ ؐ نے اخلاق حسنہ کو کامل ایمان کی نشانی بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا : اکمل المؤمن ایمانا احسنھم خلقا(ترمذی) ’’کامل مؤمن وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں‘‘ اخلاق حسنہ کا حامل شخص اپنے اخلاق وکرادر کی وجہ سے نفلی عبادات انجام دینے والے عبادت گزاروں کی صف میں شامل ہوجاتاہے ،آپ ؐ نے ارشاد فرمایا: ان المؤمن لیدرک بحسن خلقہ درجہ الصائم القائم(ابوداؤد)’’مومن اپنے حسن اخلاق سے دن میں روزہ رکھنے والے اور رات میں عبادت کرنے والے کا درجہ پا لیتا ہے‘‘ بلکہ ایک حدیث میں آپ ؐ نے حسن اخلاق کو میزان عمل کی سب سے وزنی چیز قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:مامن شئی یوضع فی المیزان اتقل من حسن الخلق (ترمذی)’’میزان عمل میں حسن اخلاق سے زیادہ کوئی وزنی چیز نہ ہوگی‘‘ ،اخلاق یہ نہیں کہ صرف بول چال میں نرمی اختیار کی جائے یا خندہ پیشانی سے ملاقات کرلی جائے بلکہ اخلاق کا معنی ٰ ومفہوم نہایت جامع اور سیع ہے، ہر اچھائی کے کام کو احسن طریقے سے ادا کرنا اور ہر بُرائی کے کام سے بچنے کا نام اخلاق ہے ، عبادت کو مکمل آداب کی رعایت سے ادا کرنا، بدکمامی کا جواب نرم کلامی سے دینا ،بُرائی کے بدلے میں بھلائی سے پیش آنا،قرض وصولی میں نرمی برتنا،دشمن کو معاف کر دینا ،لین دین میں سہولت پہنچانا، غصہ پر ضبط کرنا اور حق پر ہونے کے باوجود صلح میں پہل کرنا یہ سب حسن اخلاق میں داخل ہیں ،جوقوم اخلاق حسنہ سے متصف ہوتی ہے کامیابی اس کے قدم چومتی ہے ،بلندیاں اس پر فخر کرتی ہیں ،اس کے بلند کردار کی وجہ سے تاریخ کے صفحات اس پر ناز کرتے ہیں، سیرت نبوی ؐ ہر باب حسن اخلاق سے منور ہے ،آپ ؐ کی سیرت سے جڑے بغیر اور اخلاق حسنہ کی کشتی میں سوار ی کئے بغیر کوئی بھی قوم اپنی سیرت تعمیر نہیں کر سکتی اور نہ ہی کامیابی سمیٹ سکتی ہے ، جو قومیں بھی آج مقام ترقی پر فائز نظر آرہی ہیں اور اپنی زندگی میں خوش حال اور قوموں کی سردار دکھائی دے رہی ہیں دراصل انہوں نے جان لیا کہ انسانیت کے ارتقاء کا راز سیرت نبوی اور اخلاق نبی ؐ ہی ہے ، تقریباً چودہ صدی قبل ہادیہ عالم ،معلم انسانیت اور مجسم اخلاق حضرت محمد ؐ نے انسانیت کی تعمیر وترقی کے لئے علم ،عمل اور اخلاق کو نہ صرف لازم قرار دیا بلکہ اس کے ذریعہ وہ بلند کردار جماعت تشکیل دی جسے دیکھ کر فرشتے بھی رشک کرتے تھے اور جن کے قدموں کی دھول مل جائے تو دنیا کا نصیب چمک جائے ، اور جولوگ جس زمانے اور جس علاقہ میں بھی انسانیت کی تعمیر کے لئے جب بھی اس طریقے کو اپنائیں گے کامیابی ان کا مقدر بنے گی اور وہ زمین پر رہ کر بھی اس طرح چمکیں گے جس طرح آسمان کے ستارے چمکتے ہیں ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×