اسلامیات

’’قربانی ‘‘ تسلیم ورضا کا پیکر

ذی الحجہ اسلامی تقویم کا آخری مہینہ ہے ،اس کی دسویں تاریخ کو عالم اسلام کے مسلمان اپنی دوسری اہم ترین عید مناتے ہیں جسے ’’عید الاضحی ‘‘ کہاجاتا ہے، مسلمان نماز عید سے فارغ ہوکر اپنی طرف سے خدا کے نام پر جانوروں کو ذبح کرکے سیدنا ابراہیم خلیل اللہ ؑ کے اُس عمل کی نقل کرتے ہیں جو انہوں نے خدا کے حکم اور اس کی اطاعت پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے ،اس سے تعلق و محبت کا اظہار کرتے ہوئے منیٰ کے میدان میں اپنے اکلوتے، کمسن فرزند ارجمند سیدنا اسماعیل ؑ کے گلے پر چھری چلائی تھی اور آسمان کی طرف نگاہ محبت ڈالتے ہوئے زبان حال وقال سے کہا تھا کہ الٰہی !تیری محبت ومعرفت کے لئے ایک اسماعیل تو کیا، اگر کئی اسماعیل بھی ہوتے تو انہیں بھی قربان کر دیتا، سیدنا ابراہیمؑ اپنے اکلوتے فرزند کے گلے پر چھری چلاتے ہیں اور چھری چلتی بھی ہے لیکن اسماعیل ؑ کا گلا کٹتا نہیں ہے کیونکہ خدا کا مقصد اسماعیل ؑ کا ذبح ہونا نہیں ،وہ تو ہر گز یہ نہیں چاہتا تھا کہ اپنے خلیل کو بڑھاپے میں دی گئی اولاد کی نعمت اس سے واپس لے لی جائے بلکہ اسے تو اس امتحان کے ذریعہ اپنے خلیل کی اس بے مثال محبت کو دنیا کے سامنے آشکارا کرنا تھا جو انہیں اپنے پروردگار سے تھی ،سو سیدنا ابراہیم خلیل اللہ ؑ نے بیٹے کے گلے پر چھری چلاکر اسے پورا کر دکھایا ، خدا کو اپنے نبی سیدنا ابراہیم ؑ اور ان کے ہونہار فرزند سیدنا اسماعیل ؑ کا یہ عمل اس قدر پسند آیا کہ اسے رہتی دنیا تک کے لئے عبادت قرار دیدیا ،اس کی نقل کو اہل اسلام کے لئے لازم قرار دیکر اسے قیامت تک کے لئے زندۂ جاوید بنادیا۔
قرآن مجید میں سیدنا ابراہیم ؑ کی اپنے لئے اولاد کی دعا مانگنے سے لے کر فرزند عظیم کی قربانی تک کے تذکرہ کو بڑے ہی نرالے اور اچھوتے انداز میں پیش کیا گیا ہے ،ارشاد خداوندی ہے: رَبِّ ہَبۡ لِیۡ مِنَ الصَّالِحِیۡنَ o فَبَشَّرۡنَاہُ بِغُلَامٍ حَلِیۡمٍ oفَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعۡیَ قَالَ یَا بُنَیَّ إِنِّیۡ أَرٰی فِیۡ الۡمَنَامِ أَنِّیۡ أَذۡبَحُکَ فَانۡظُرۡ مَاذَا تَرٰی قَالَ یَا أَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ سَتَجِدُنِیۡ إِنۡ شَائَ اللّٰہُ مِنَ الصَّابِرِیۡنَ o فَلَمَّا أَسۡلَمَا وَتَلَّہٗ لِلۡجَبِیۡنِ o وَنَادَیۡۡنَاہُ أَنۡ یَا إِبۡرَاہِیۡمُ o قَدۡ صَدَّقۡتَ الرُّؤۡیَا إِنَّا کَذٰلِکَ نَجۡزِیۡ الۡمُحۡسِنِیۡنَ oإِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الۡبَلَائُ الۡمُبِیۡنُ o وَفَدَیۡۡنَاہُ بِذِبۡحٍ عَظِیۡمٍ o وَتَرَکۡنَا عَلَیۡۡہِ فِیۡ الۡآخِرِیۡنَ o سَلَامٌ عَلَی إِبۡرَاہِیۡمَ o کَذَلِکَ نَجۡزِیۡ الۡمُحۡسِنِیۡنَ o (الصفت:۱۰۰تا ۱۱۱) ،’’(اور جب ابراہیم ؑ نے عرض کیا ) میرے رب مجھے نیک فرزندعطا فرمائیے ،پس ہم نے انہیں ایک متحمل مزاج بیٹے کی بشارت دی ،پھر جب وہ (بیٹا)آپ کے ساتھ محنت کی عمر کو پہنچا تو فرمایا:بیٹے ! میں نے خواب میں تمہیں ذبح کرتے ہوئے دیکھا ہے ،تو سوچو تمہاری کیا رائے ہے؟ اس (بیٹے) نے کہا:اباجان! آپ کو جو حکم ربی ہوا ہے اسے کر گزریے،آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے،پس جب دونوں (باپ بیٹے) نے دل سے حکم مانا اور (بیٹے کو ذبح کے لئے ) پیشانی کے بل لٹادیا،اور ہم نے پکارا ائے ابراہیم! تم نے خواب سچ کر دکھایا ،ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ عطا کرتے ہیں ،یقینا یہ کھلی ہوئی آزمائش تھی ،اور اس کے بدلہ میں ہم نے ایک بڑا جانور ذبح کے لئے دیا اور بعد میں آنے والے لوگوں میں چرچا ہم نے باقی رکھا کہ ابراہیم پر سلامتی ہو، ہم مخلص بندوں کو ایسا ہی (شاندار) صلہ دیتے ہیں‘‘چنانچہ سیدنا ابراہیم ؑ کی قربانی والے اس عمل کو قیامت تک کے لئے یادگار بنادیا اور ملت ابراہیمی کے پیروکاروں کے لئے اس کی نقل کولازم کردیااور ہر صاحب استطاعت پر سال میں ایک مرتبہ ایام نحر میں شریعت کی طرف سے منتخب کردہ جانور کی قربانی واجب قرار دے دی گئی ، جو شخص بھی ابراہیمی جذبہ ٔ محبت کو سامنے رکھتے ہوئے قربانی کے عمل کو انجام دیگا تو وہ ضرور رب کی قربت اور اس کی رحمت وعنایت کا مستحق ہوگا ،بر خلاف وہ شخص جو جذبہ ابراہیمی سے عاری ہوکر قربانی کرے گا تو وہ صرف دم جانور بہائے گا لیکن اس کے فوائد وثمرات سے محروم رہے گا، قربانی کوئی سالانہ رسم نہیں کہ اسے انجام دیکر سبکدوش ہوجائیں بلکہ یہ خدا کے حکم پر سر تسلیم خم کرنے اور اس کی محبت وچاہت پر اپنی خواہشات کو قربان کرنے کے عملی مظاہرے اور محبت کی کسوٹی پر کھرے اترنے کی عملی تربیت کا نام ہے،جولوگ قربانی کو صرف ایک سالانہ رسم سمجھ کر انجام دیتے ہیں وہ کبھی بھی قربانی کی روح اور اس کے مقصد کو پانہیں سکتے ، وہ تو صرف جانور کے گلے پر چھری چلانا جانتے ہیں لیکن اس کی حقیقت سے بے گانہ ہیں ، رب کے حکم اور اس کی مرضی پر اپنی خواہشات کے گلے پر ربانی حکم کی چھری چلانا ہی در اصل قربانی کی حقیقت اور اس کی روح ہے ،جو قربانی کی حقیقت کو سمجھ گیا وہ رب سے قریب ہوگیا اور جو اس سے ناواقف رہا وہ خواہشات میں الجھ کر مادیت کے سیلاب میں بہہ گیا، سیدنا ابراہیم ؑ کو قدم قدم پر آزما یا گیا ،وہ ہرمرحلہ پر ثابت قدم رہے اور ہر موڑ پر محبت واطاعت کا پیکر بن کر ہر آزمائش میں صابر وثابت رہ کر تقرب الٰہی کے منازل طے کرتے رہے ،ان کی ثابت قدمی ،صابرانہ انداز اور حکم خداپر سر تسلیم خم کرنا خدا کو اس قدر پسند آیا کہ ’’خلیل اللہ ‘‘ کے لقب سے نوازے گئے اور رہتی دنیا تک کے لئے ان کے عاشقانہ انداز کو زندہ ٔ جاوید بنادیا گیا اور اہل اسلام کو سیدنا ابراہیم ؑ کے طریقے اور منہج کی اتباع لازم کردی گئی ،قربانی جو کے سیدنا ابراہیم ؑ اور سیدنا اسماعیل ؑ کی خدا تعالیٰ سے تعلق و محبت کا عظیم نمونہ اور اس سے قربت کا خاص زینہ ہے اس لئے قیامت تک آنے والے تمام اہل ایمان پر اس نقل کو ضروری قرار دے دیا گیا ،خود رسول اللہ ؐ ہجرت مدینہ کے بعد پابندی سے قربانی کیا کرتے تھے ، آپ ؐ نے بڑی تاکید کے ساتھ اپنی امت کو سیدنا ابراہیم ؑ اور سیدنا اسماعیل ؑ کے اس عمل یعنی قربانی کو لازماً انجام دینے کا حکم بھی فرمایا ۔
حضرات صحابہ ؓ نے جب آپ ؐ کو نہایت تاکید کے ساتھ قربانی کا حکم دیتے ہوئے سنا تو اس کی بابت پوچھ ہی لیا کہ:ماھذہ الاضاحی یارسول اللہ ﷺ (اے اللہ کے رسول ؐ! یہ قربانی ہے کیا؟) تو آپ ؐ نے ارشاد فرمایا:سنۃ ابیکم ابراہیمؑ ( یہ تمہارے جد اعلیٰ ابراہیم ؑ کی سنت ہے،یعنی سب سے پہلے ان کو اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا تھا اور وہ اسے کیا کرتے تھے ،ان کی اس سنت اور قربانی کے اس عمل کی پیروی کا حکم مجھے اور میری امت کو بھی دیا گیا ہے) ،حضرات صحابہؓ نے پوچھا کہ :قالوا فمالنا فیھا یارسول اللہ ؐ؟ (یارسول اللہ ؐ!ہمارے لئے ان قربانیوں میں کیا اجر ہے؟)اس پر آپؐ نے ارشاد فرمایا:بکل شعرۃ حسنۃ (ہر ہر بال کے عوض ایک ایک نیکی ہے)پھر حضرات صحابہؓ نے سوال کیا یارسول اللہ ؐ !کیا اُون پر بھی یہی اجر ہے؟ تو آپ ؐ نے ارشاد فرمایا:بکل شعرۃ من الصوف حسنۃ (ہاں اُون والے جانور پر بھی اسی حساب سے اجر ملے گا ۔(مسند احمد:۱۹۲۸۳)، ایام نحر ان تین دنوں کو کہا جاتا ہے جس میں قربانی کی جاتی ہے یعنی دس ،گیارہ اور بارہ ذی الحجہ ،مذکورہ تین دنوں میں قربانی سے بڑھ کر کوئی عمل بارگاہ رب العالمین میں پسندیدہ نہیں ،رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ:ماعمل ابن آدم من عمل یوم النحر احب الی اللہ من اھراق الدم(ترمذی:۱۵۷۲) ’’عیدالاضحی کے دن فرزند آدم کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں قربانی سے زیادہ محبوب نہیں‘‘آگے اس کی مزید فضیلت اور اس کے عند اللہ مقبولیت کو بیان کرتے ہوئے آپؐ نے ارشاد فرمایاکہ:وانہ لیاتی یوم القیٰمۃ بقرونھا واشعارھا واظلافھا وان الدم لیقع من اللہ بمکان قبل ان یقع بالارض (ترمذی:۱۵۷۲)’’اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں اور بالوں اور کھروں کے ساتھ (زندہ ہوکر)آئے گا،اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی رضااور مقبولیت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے‘‘قربانی خدا کے نزدیک نہایت پسندیدہ عمل ہے،قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے بال وکھال سمیت زندہ ہوکر آئے گا اور قربانی کرنے والے کیلئے عظیم اجر کا باعث بنے گا اور اس کی قبولیت کا مقام یہ ہے کہ قربانی کے جانور کا ابھی خون زمین پر گرا بھی نہیں کے وہ مقام قبولیت کو پالیتا ہے توقربانی کرنے والے کو چاہیے کہ نہایت خوش دلی کے ساتھ قربانی کرے ،رسول اللہ ؐ نے مذکورہ حدیث کے آخر میں اسی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا:فطیبوبھا نفساً(ترمذی:۱۵۷۲) ،حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ہجرت مدینہ کے بعد مدینہ طیبہ میں دس سال قیام فرمایا ،اور آپ ؐ برابر ہر سال قربانی فرمایا کرتے تھے’’اقام رسول اللہ ؐ بالمدینۃ عشر سنین یضحی کل سنۃ ‘‘(ترمذی :۱۵۰۷) قربانی اس قدر مہتم بالشان عمل ہے ،خدا کے تقرب کا نہایت زبردست وسیلہ ہے اور اجر وثواب کے لحاظ سے بہت اونچا عمل ہے اس کے باوجود اگر کوئی قربانی سے گریز کرتا ہے ،اس عظیم عمل سے اعراض کرتا ہے اور باوجود استطاعت کے قربانی نہیں کرتا تو ایسے شخص پر رسول اللہ ؐ نے سخت ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ :من وجد سعۃ فلم یضح فلا یقربن مصلانا(مسند احمد:۸۲۷۳)’’ استطاعت کے باوجود جولوگ قربانی نہیں کرتے انہیں چاہئے کہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے‘‘، قربانی کا عمل ہر مسلمان کو یہ سبق دیتا ہے کہ جس طرح بندہ مومن آج خداکے نام پر اور اس کے حکم پر مال ودولت سے خریدے ہوئے اور اپنے سے مانوس جانور کے گلے پر چھری چلاکر عبدیت اور بندگی کا پورا پورا اظہار کر رہا ہے کل زندگی میں جب کبھی خدا تعالیٰ کی مرضیات کے مقابلہ نفسانی خواہشات سر اُٹھانے لگیں تووہ اپنی تمام تر خواہشات کو خدا کی مرضیات پر اسی طرح قربان کرنا جس طرح آج ایک جانور کے گلے پر چھری چلاکر اسے قربان کر رہا ہے ،زندگی میں ایسے بہت سے مواقع آئیں گے جب حکم ربانی اور خواہش نفسانی آمنے سامنے ہوں گے ،جو بھی نفسانی خواہشات پر محبت الٰہی کو مقدم رکھے گا وہی سعادت مند اور فرماںبردار کہلائے گا اور خلیل اللہ ؑ،ذبیح اللہ ؑ اور حبیب اللہ ؐ کا سچا پیرو کار ،ملت ابراہیمی کا حقیقی فرد ،دین اسلام کا سچا سپاہی اور خدا ئے واحد کا پکا فرماں بردار شمار ہوگا ،ایسے ہی لوگوں کے لئے دنیوی کامیابی اور اُخروی نجات کا وعدہ کیا گیا ہے اور یہی لوگ ہیں جو محبت الٰہی کی خاطر آزمائش کی سنگلاخ وادیوں کو طے کرتے ہوئے منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہیں ،انہیں کے لئے دنیا میں عزت وعظمت اور آخرت میں نعمت وجنت کا وعدہ کیا گیا ہے،کاش مسلمان قربانی کی حقیقت کو سمجھیں اور اپنی زندگی کو اس کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں تاکہ خدا کی سچی محبت نصیب ہو جائے اور آخرت میں اس کا قرب عطا ہو سکے۔
٭٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×