اسلامیات

تین ہلاکت خیز بُرائیاں

اسلام تمام انسانوں کو عموماً اور اپنے ماننے والوں کو خصوصاً ہر طرح کی اچھائیوں کے اپنانے اور ہر قسم کی برائیوں سے دور رہنے کا حکم دیتا ہے ،اسلام ہماری قدم قدم پر رہنمائی کرتا ہے ،اس نے انسان کی پیدائش سے لے کر وفات تک کے سارے احکامات نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کر دئیے ہیں ،اسلام پوری انسانیت کی صلاح وفلاح چاہتا ہے کیونکہ پوری انسانیت آدم ؑ کی اولاد اور خدا کی پیدا کی ہوئی مخلوق ہے،انبیاء کی مقدس ترین جماعت کو اسی مقصد کے لئے بھیجا گیا ،خاتم الانبیاء والمرسلین جناب ِ محمد مصطفی ؐکے بعد قیامت تک کے لئے آپ کی امت کے شانوں پر یہ بارِ گراں ڈالا گیا کہ وہ خود بھی صراط مستقیم پر چلیں اور اپنے ہم جنسوں کو بھی اس کی دعوت دیں،اس امت کو سابقہ امتوں پر جن چیزوں کی وجہ سے فضیلت عطا ہوئی ان میں سے ایک اس کا داعی ہونا بھی ہے چنانچہ قرآن کریم کے اندر سورۂ آل عمران میں ہے’ ’کُنْتُمْ خَیْْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (آل عمران ۱۱۰)‘‘ اے امت محمدیہ ! تم تمام امتوں میں بہترین امت ہو جو لوگوں ( کی ہدایت واصلاح) کے لئے ظہور میں لائی گئی ہے ،تمہارا کام یہ ہے کہ لوگوں کو نیکی کا حکم دو اور انہیں برائی سے روکتے رہو اور اللہ پر ایمان رکھو (یعنی مؤمنانہ زندگی گذار تے رہو اسی میں تمہاری فلاح وکامیابی ہے)۔
رب العالمین نے اپنی کتاب مبین کے ذریعہ اپنے بندوں کو نہایت وضاحت کے ساتھ ان تمام کاموں کے کرنے کا حکم دیاہے جن کو وہ پسند کرتا ہے اور ان تمام چیزوں سے بچنے کا حکم کیا ہے جن کو وہ نا پسند کرتا ہے اسی طرح رسول اللہ ؐ نے بھی اپنے ارشادات وفرمودات کے ذریعہ ہر چھوٹی بڑی چیز جس کا تعلق حلت سے ہو یا حرمت سے ،جائز سے ہو یا ناجائز سے بے حد حکیمانہ انداز میں بیان فرمایا ہے اور ان پر ملنے والے اجر و ثواب وعتاب وعذاب کی خوشخبری ووعید بھی سنائی ہے ، شریعت ِاسلامی نے جن چیزوں کو سخت ناپسند کیا ہے اور ان پر سخت ترین سزائیں مقررکی ہیں ان میں سر فہرست سود خوری ، فحاشی اور فضول خرچی بھی ہے،یہ وہ بد ترین اور گھناؤ نے جرائم ہیں کہ جن کی وجہ سے صالح معاشرہ کو شیطانی گھن لگ جاتا ہے ، معاشرہ میںمذکورہ برائیوں کے جراثیم پھیل جاتے ہیں، صحت مند ماحول پراگندہ ہوجاتا ہے اور جسمانی و روحانی دونوں طرح کی بیماریاں عام ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے ماحول ومعاشرہ کا تانا بانا بکھر کر رہ جاتا ہے،یہی وجہ ہے کہ ان برائیوں کے مرتکبین پر اللہ کا غضب اور اس کی پھٹکار نازل ہوتی ہے اور ان پر عذاب ِ خداوندی کا شکنجہ کس دیا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے پوری آبادی خدا کے قہر میں مبتلا ہوجاتی ہے ۔
{سود } اسلام جن چیزوں کو انتہائی بری سمجھتا ہے ان میں سے ایک سود بھی ہے ، وہ چاہتا ہے کہ شراب جو ام الخبائث ہے جس طرح اس سے بچنا ضروری ہے اسی طرح سود بھی خبیث تر چیز ہے اس ظالمانہ کا روبار سے بچنا ہر ایک کے لئے ضروری ہے اس کے بغیر معاشرہ کی ترقی اور آپسی عدل و انصاف ناممکن ہے قرآن کریم میں کھلے الفاظ کے ساتھ سود خوری کی ممانعت آئی ہے ارشاد ہے ’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَأْکُلُواْ الرِّبَا أَضْعَافاً مُّضَاعَفَۃً وَاتَّقُواْ اللّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ‘‘(آل عمران ۱۳۰) سود خور مال ودولت کی حرص وطمع اور دنیا کے عارضی نفع کی لالچ میں بے قابو ہوکر مجبور وبے کس اور غریب ومفلوک الحال لوگوں کی گاڑھی کمائی پر اندھا دھن لوٹ مچاتا ہے گویا مال ودولت کی طمع نے اسے مجنون بنا دیا ہے ،قرآن کریم میں سود خوروں کے قبروں سے اُٹھائے جانے کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا گیا ہے ’’ الَّذِیْنَ یَأْکُلُوْنَ الرِّبَا لاَ یَقُوْمُوْنَ إِلاَّ کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْْطَانُ مِنَ الْمَس‘‘( البقرہ ۲۷۵) قیامت کے دن سود خور اس حال کے ساتھ قبروں سے اٹھائے جائیں گے کہ گویا یہ سحر زدہ ہیں اور سحر کے اثر نے ان کے ہوش وہواس گم کر دئے ہیں ، جس طرح ان پر دنیا میں مال ودولت کے کمانے کا جنون سوار تھا قیامت کے دن اسی جنون کی شکل کے ذریعہ انہیں عذاب میں مبتلا کیا جائے گا اور سب کو بتایا جائے گا کہ مال ودولت کے بے جا حاصل کرنے والے جنونیوں کا یہی انجام ہوتا ہے ۔
سود کی حرمت کے باوجود اگر کوئی شخص اس سے باز نہیں آتا اور خدائی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کے خلاف اللہ اور اس کے رسول ؐ کی طرف سے اعلان جنگ ہے ’’فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأْذَنُواْ بِحَرْبٍ مِّنَ اللّہِ وَرَسُولِہِ ‘‘ قرآنی لب ولہجہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ سود کی حرمت کس قدر سخت ہے ،سول اللہ ؐ نے جن سات تباہ کن اور مہلک چیزوں سے بچنے کا حکم دیا ہے ان میں سود بھی شامل ہے ’’ واکل الربوا‘‘ (بخاری )ایک دوسری حدیث میں سود خوری کو اپنی ماں کے ساتھ زنا کرنے سے بھی زیادہ شدید اور خبیث بتایا گیا ہے (ابن ماجہ) ،رسول اللہ ؐ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ جس قوم میں سود اور زنا کی کثرت ہوجاتی ہے ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے (طبرانی) ،اس قدر سخت اور دل ہلا دینے والی وعیدوں کے باوجود امت کا کافی طبقہ سود کی لعنت میں گرفتار ہے آج سودی لین دین نے تجارتی صنعت کو تباہ وبرباد کر دیا ہے ،سود ی نظام نے غریب کی جھونپڑیاں بھی ان سے چھین لی ہیں اور سودی کاروبار کرنے والے تاجر اژدھا بن کر مجبور وبے کس لوگوں کو ڈس رہے ہیں ، آج نہ جانے کتنے مسلمان گھر سود کی وجہ سے بکھر چکے ہیں ،کتنے خوش حال گھرانے تھے سود ی درندوں نے ان کے گھر اُجاڑدئیے ،کتنے پیر وجوان ہیں جنھوں نے سود خوروں سے تنگ آکر موت کو گلے لگا لیا ،کتنے مسلم محلے ہیں جو محض سود ی کاروبار کی وجہ رحمت خداوندی سے محروم ہیں ، سب سے پہلے مسلمانوں کو سودی لین دین سے توبہ کرنی ہوگی اور سود کی بدبودار گندگی سے اپنے آپ کو بچانا ہوگا اور اپنے ساتھ اپنے اسلامی بھائیوں کو بھی اس کے عذاب سے بچا نا ہوگا ،مسلمان جب تک سود ی لین دین سے محفوظ نہیں رہتا وہ خدا کی رحمت کا ہر گز مستحق نہیں ہو سکتا ۔
{فحاشی }اسلام کی نظر میں پردہ و ستر پوشی فرض ہے ،اس کے مقابل فحاشی وعریانیت اور بے پردگی وبے حیائی سخت ترین جرم اور گناہ عظیم ہے ،اللہ تعالیٰ نے انسانی طبیعت اور اس کی سلیم الطبع فطرت میں حیا کا مادہ رکھا ہے یہی وہ حیا ہے جو انسانوں کو دیگر مخلوقات سے ممتاز رکھتی ہے ، حیوانات کو چھوڑ کر ہر شریف النفس انسان ستر پوشی کو ضروری سمجھتا ہے اور اس کے لئے طرح طرح کے لباس استعمال کرتا ہے ،قرآن کریم میں اولاد آدم کو ستر پوشی کا حکم دیا گیا ہے ’’ یَا بَنِیْ آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَیْْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْء َاتِکُمْ وَرِیْشًا‘‘ (اعراف ۲۶) اے اولاد آدم ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا ہے جو تمہارے ستر(بدن ) کو بھی چھپاتا ہے اور تمہارے بدن کے لئے زینت اور خوبصورتی کا ذریعہ بھی ہے ،مفسر کبیر حضرت مفتی محمد شفیع صاحب ؒ اس آیت کی بڑی خوبصورت اور دلنشین تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’حضرت آدم ؑ اور حضرت حوا اور اغواء شیطانی کا واقعہ بیان کرنے کے بعد لباس کے ذکر کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ انسان کے لئے ننگا ہونا اور قابل شرم اعضاء کا دوسروں کے سامنے کھلنا انتہائی ذلت ورسوائی اور بے حیائی کی علامت اور طرح طرح کے شر وفساد کا مقدمہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ شیطان کا سب سے پہلا حملہ انسان کے خلاف اسی راہ سے ہوا کہ اس کا لباس اتر گیا ،آج بھی شیطان اپنے شاگردوں کے ذریعہ جب انسان کو گمراہ کرنا چاہتا ہے تو تہذیب وشائستگی کا نام لے کر سب سے پہلے اس کو بر ہنہ یا نیم برہنہ کرکے عام سڑکوں اور گلیوں میں کھڑا کر دیتا ہے! ( معارف القرآن ۳؍۱۲۴)۔
اسلام نہ صرف مکمل ستر پوشی کا حکم دیتا ہے بلکہ بے حیائی و بے حجابی اور ان تمام راستوں سے بچنے کی تعلیم دیتا ہے جن سے بے حیائی وبے شرمی داخل ہوتی ہے چنانچہ قرآن کریم میں مردوں اور عورتوں دونوں کو یکساں طور پر حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی نگاہوں اور شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور خصوصیت کے ساتھ عورتوں سے کہا گیا کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق آنے نہ دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں اور اپنے گریبانوں پر اوڑھنیاں ڈالے رہیں ’’قُل لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوْجَہُمْ ذٰلِکَ أَزْکٰی لَہُمْ إِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَO وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلَی جُیُوبِہِنَّO ‘‘ (النور ۲۹،۳۰)،
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ؐ نے مسلمانوں کو لباس ِ ساتر کے ساتھ نگاہ کی حفاطت کرنے کی خصوصیت کے ساتھ تعلیم وترغیب فرمائی ہے چنانچہ آپ ؐ نے نظر کو شیطان کے تیروں میں سے ایک زہریلا تیر قرار دیا ہے ،اور ایک جگہ سختی کے ساتھ متنبہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ’’اپنی نظر یں نیچی رکھو اور شرمگاہوں کی حفاظت کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے چہروں کو بے نور بنا دے گا(الترغیب والترھیب)۔
اس قدر پاکیزہ اور حیادار تعلیمات کے باوجود مسلمان ہوس پرست ونفس پرست ،بے حیا وبے غیرت اور ذہنی و فکری شہوت پرست اقوام کی دیکھا دیکھی کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات سے آزاد ہوکر غیروں کی غلامی میں مبتلا ہیں ،جس کا نتیجہ ہے کہ مسلم معاشرہ میں بھی حیاسوز اور دل ہلا دینے والے واقعات رونما ہونے لگے ہیں ، جب تک معاشرہ سے لباس ِ عریانی ختم نہیں ہو جاتا اور نگاہیںمحفوظ نہیں ہوجاتیں تب تک فحاشی وبے حیائی کا خاتمہ ممکن نہیں ، لاکھ انسدادِ فحاشی کانفرنسس منعقد کر لیجئے اور ریلیاں نکال لیجئے عصمت ریزی کے جرائم کی روک تھام ممکن نہیں ،اسلامی تعلیمات اور اس کے اصول وضوبط کے ذریعہ ہی انسانیت کی شرافت محفوظ ومامون رہ سکتی ہے اور معاشرہ شر وفساد سے محفوظ رہ سکتا ہے ۔
{فضول خرچی }دیگر برائیوں اور جرائم کی طرح فضول خرچی بھی اسلام کی نظر میں ایک طرح کی زبردست برائی ہے ،اسلام اور پیغمبر اسلام نے مال ودولت کو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت اور اس کی امانت قرار دیا ہے ،بے جا اور بے موقع مال تصرف کرنے کو خیانت سے تعبیر کیا ہے ،قرآن کریم میں فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے ارشاد ہے’’إِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا إِخْوَانَ الشَّیَاطِیْنِ وَکَانَ الشَّیْْطَانُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًا‘‘ (بنی اسرائیل ۲۷) فضول خرچی کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں اور شیطان تو رب کی نعمتوںکا بڑا ناشکرا ہے ، مال ودولت کا صحیح استعمال موجب اجر وثواب ہے اور اس کا بے جا استعمال واسراف باعث پکڑ ہے ، مالدار اپنی مالداری پر گھمنڈ نہ کرے بلکہ اسے اللہ کی دِیْن اور عنایت خداوندی تصور کرے ،مالداری پر اترائے نہیں اپنی صلاحیتوں کا کمال تصور کرنا قارونی مزاج ہے ،اللہ تعالیٰ مال ودولت پر اترانے اور اسے فضول لٹانے والے کو ہر گز پسند نہیں فرماتے ،رسول اللہ ؐ نے جن پانچ چیزوں کے متعلق ارشاد فرمایا کہ جب تک ان کا مکمل حساب نہیں لے لیا جاتا تب تک ابن آدم کے قدم عدالت ِخداوندی سے ہٹ نہیں سکتے ان میں سے ایک حصولِ مال کے ذرائع اور دوسرا انفاق مال کے راستے ہیں ،حدیث کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں ’’وعن مالہ من این اکتسبہ ،وفی ما انفقہ‘‘(ترمذی)،رسول اللہ ؐ کے واضح ارشادات ،پر نصیحت فرمودات اور دنیوی زندگی کی عیش وعشرت میں پڑنے سے بچنے کے نہایت اثر انگیز پیغامات کے باوجود مسلمان عیش وعشرت کی زندگی کی خاطر مال ودولت کے حصول میں سرگرم ہے اور اپنی جھوٹی عزت وبناوٹی شان اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی خاطر معمولی بہانے بناکر خدا کی نعمت اور اس کی امانت مال کا بے دریغ استعمال کر رہا ہے، آج مسلمانوں کے شادی بیاہ میں جو کچھ خرچ کیا جا رہا ہے ان میں سے پچاس فیصد مال فضول خرچی پر مبنی ہوتا ہے ،وہ اپنی شان وشوکت کی خاطر جب دھوم دھام سے بارات نکالتا ہے اور اپنے مال ودولت کو پٹاخوں کی آگ میں جھونک دیتا ہے اس کی گھن گرج اور شور شرابے کو سن کر امت مسلمہ کے مفلوک الحال بیوہ گھرانے کی دوشیزہ تکیہ میں منہ چھپائے آنسو بہاتے ہوئے سونچ رہی ہے کہ کاش آج میرا باپ بھی زندہ ہوتا تو شائد اب تک میرے ہاتھ بھی پیلے ہو گئے ہوتے ،اگر امت کے مالدار یتیم، غریب اور مفلوک الحال پر نظر رکھتے ہوئے فضول خرچی سے گریز کرتے ہوئے ان کی مدد کے لئے ہاتھوں کو دراز کرتے تو یقینا یہ ان کی دنیوی مسرتوں میں اضافہ اور اُخروی خزانوں میں اضافہ کا ذریعہ ہوسکتا ہے ،ضرورت ہے کہ امت مسلمہ کا وہ طبقہ جسکو اللہ تعالیٰ نے مال ودولت کی نعمت سے نوازا ہے اسراف مال سے بچتے ہوئے غریبوں کی طرف بڑھے تو امید قوی ہے کہ یہ دولت ان کے لئے راحت دنیا اور ثواب آخرت کا موجب بنے گی ۔اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو ان شرمناک ، بھیانک ،اخلاق سوز اور معاشرہ کو تباہ کرنے والی برائیوں سے بچنے اور دوسروں کو بھی بچانے کی توفیق عطا کرے ۔

Related Articles

One Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×