اسلامیات

قرآن خدا کا دسترخوان

امت مسلمہ کی سب سے بڑی خوش قسمتی ہے کہ اس کو قرآن مجید جیسی عظیم الشان کتاب سے نوازا گیا ہے ، قرآن مجید کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ کتاب اللہ بھی ہے اور کلام اللہ بھی ، قرآن مجید کو دیگر آسمانی کتب و صحائف ،تمام مخلوقات حتیٰ کہ عرش وکرسی سب پر فضیلت وبرتری حاصل ہے ، قرآن مجید کی عظمت و رفعت کو بتاتے ہوئے رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا : فضل کلام اللہ تعالیٰ علیٰ سائر الکلام کفضل اللہ علیٰ خلقہ ( ترمذی :۲۷۲۲)’’اللہ تعالیٰ کے کلام کو دوسرے کلاموں پر ایسی ہی فضیلت حاصل ہے جیسا کہ خود ذاتِ الٰہی کو تمام مخلوق پر عظمت وبزرگی حاصل ہے‘‘ ، قرآن مجید کو اللہ کا دسترخوان بتاتے ہوئے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ارشاد فرماتے ہیں ’’یہ قرآن ،اللہ تعالیٰ کا بچھا ہوا دستر خوان ہے ،جتنی بار ہوسکے خدا کے اس دستر خوان سے سیراب ہوتے رہو ،بلاشبہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے،یہ تاریکیوں کو ختم کرنے والی روشنی اور شفا دینے والی دواہے،یہ مضبوطی سے تھامنے والوں کا محافظ اور عمل کرنے والوں کیلئے ذریعہ نجات ہے،یہ کتاب کسی سے بے رخی اختیار نہیں کرتی کہ اسے منانے کی ضرورت پڑے،اس میں کوئی ٹیڑا پن نہیں کہ اسے سیدھا کرنے کی ضرورت پیش آئے،اس میں کبھی ختم نہ ہونے والے عجیب معانی کا خزانہ ہے اور یہ ایسا لباس ہے جو کثرت استعمال سے پُرانا نہیں ہوتا(سفینہ ٔ نجات :۱۹۴، بحوالہ مستدرک )، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے قرآن مجید کو ’’اللہ کا دسترخوان ‘‘ بتا کر جس اہم بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے یقینا لکھنے والوں نے اسے آب زر سے لکھا ہے ،جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’ جس طرح انسانی زندگی اور اس کی حیات کیلئے مادّی غذا ئیں ضروری ہیں ،ان کے بغیر انسان کا جسمانی وجود برقرار نہیں رہ سکتا ،اسی طرح روح کی زندگی اور اس کے بقا کیلئے روحانی غذا ئیں بھی ضروری ہیں ،اس کے بغیر روحانی وجود کا بقا ممکن نہیں ،اللہ تعالیٰ نے روحانی غذا کیلئے قرآن مجید کی شکل میں اپنے پاس سے دسترخوان بچھایا ہے ،جوشخص قرآن مجید سے کس قدر شغف رکھے گا اسے روحانی اتنی ہی ترقی حاصل ہوگی، آپؓ نے قرآن مجید کو مضبوطی سے پکڑنے والوں کیلئے محافظ بتایا ہے ،جس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص صبح وشام کتاب اللہ کی تلاوت کرتا ہے، اس کی ورق گردانی میں اپنے اوقات لگاتا ہے اور اپنی زندگی کو اس کے احکام کے مطابق ڈھالنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے تو ایسے شخص کا قرآن مجید محافظ بن کر اس کی حفاظت کرتا رہتا ہے اور اسے دنیا میں پڑنے ، خواہشات کے قفس میں پھنسنے اور شیطان کے فریبی جال میں قید ہونے سے بچاتا رہتا ہے ،جو لوگ قرآن مجید کے قلعہ میں محسور نہیں ہوتے یعنی اس کی تلاوت سے دور ہوتے ہیں ،اس کے احکام سے روگردانی اختیار کرتے ہیں اور زندگی کے شب وروز کو قرآنی تعلیمات کے مطابق گزارنے کے بجائے نفسانی خواہشات کے پیچھے ڈالدیتے ہیں تو ایسے لوگوں کو نفس وشیطان اپنے کندھوں پر سوار کرکے صراط مستقیم سے دور لے جاکر ضلالت و گمراہی کے گہرے غار میں ڈھکیل دیتے ہیں جہاں ظلمت وتاریکی اس کا مقدر بن جاتی ہے ،شاعر مشرق اقبال مرحوم اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرما یا ہے ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
سید نا عمر فاروق ؓ کا دور خلافت تھا ، آپؓ کو یہ اطلاع ملی کہ ملک شام کے لشکر میں حفاظ کرام کی تعداد تین سو سے بڑھ گئی ہے تو اس اطلاع کے بعد آپ ؓ نے امیر لشکر حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کو خط لکھ کر ان کا وظیفہ بڑھانے اور انہیں اطراف واکناف میں قرآن سکھانے پر مامور کرنے کا حکم نامہ جاری فرمایا اور ساتھ ہی اس خط میں حفاظ کرام کے لئے چند قیمتی نصیحتیں بھی لکھ کر روانہ فرمایا : ’’سلام علیکم! امابعد! یہ قرآن تمہارے لئے باعث اجر ،سبب شرف وعزت اور (آخرت میں کام آنے ولا) ذخیرہ ہے،اس لئے تم اس کے پیچھے چلو(اپنی خواہشات کو قربان کرکے اس پر عمل کرو) قرآن تمہارے پیچھے نہ چلے (یعنی قرآن کو اپنی خواہشات کے تابع نہ بناؤ) کیونکہ قرآن جس کے پیچھے چلے گا تو اسے گُدی کے بل گرادے گا ،پھر اُسے آگ میں پھینک دے گااور جو قرآن کے پیچھے چلے گاقرآن اُسے جنت الفردوس میں لے جائے گا،تم اس بات کی پوری کوشش کرو کہ قرآن تمہارا سفارشی بنے اور تم سے جھگڑا نہ کرے کیونکہ قرآن جس کی سفارش کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس سے قرآن جھگڑا کرے گا وہ آگ میں داخل ہوگا اور یہ جان لو کہ قرآن ہدایت کا چشمہ اور علم کی رونق ہے اور یہ رحمن کے پاس سے آنے والی سب سے آخری کتاب ہے ،اس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اندھی آنکھوں کو ،بہرے کانوں کو اور پردہ پڑے ہوئے دلوں کو کھولتے ہیں اور جان لو کہ بندہ جب رات کو کھڑا ہوتا ہے اور مسواک کرکے وضو کرتا ہے ،پھر تکبیر کہہ کر (نمازمیں)قرآن پڑھتا ہے تو فرشتہ اُس کے منہ پر اپنا منہ رکھ کر کہتا ہے اور پڑھ ،اور پڑھ ،تم خود پاکیزہ ہو اور قرآن تمہارے لئے پاکیزہ ہے،اور اگر وہ بغیر مسواک کے وضو کرے تو فرشتہ اس کی حفاظت کرتا ہے اور اسی تک محدود رہتا ہے اس سے آگے کچھ نہیں کرتا ،غور سے سنو! نماز کے ساتھ قرآن کا پڑھنا محفوظ خزانہ اور اللہ کا مقرر کردہ بہترین عمل ہے،لہٰذا جتنا ہو سکے زیادہ سے زیادہ قرآن پڑھو،نماز نور ہے اور زکوٰۃ دلیل ہے اور صبر روشن اور چمکدار عمل ہے اور روزہ ڈھال ہے اور قرآن تمہارے لئے حجت ہوگا یا تمہارے خلاف،لہٰذا قرآن کا اکرام کرواور اس کی توہین نہ کرو کیونکہ جو قرآن کا اکرام کرے گا اللہ تعالیٰ اس کا اکرام کرے گا اور جو اس کی توہین کرے گا ،اللہ تعالیٰ اس کی توہین کرے گا،اور جان لو کہ جو قرآن پڑھے گا اور اسے یاد کرے گا اور اس پر عمل کرے گااور جو اس میں ہے اس کا اتباع کرے گا تو اس کی دعا اللہ کے ہاں قبول ہوگی ،اگر اللہ چاہے گا تو اس کی دعا دنیا میں پوری کردے گا ورنہ وہ دعا آخرت میں اس کیلئے ذخیرہ ہوگی اور جان لو کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ ان لوگوں کیلئے بہتر اور ہمیشہ رہنے والا ہے جو ایمان رکھنے والے اور اپنے رب پر توکل کرنے والے ہیں(حیات الصحابہ :۳؍۲۶۲)۔
سیدنا فاروق اعظم ؓ کی یہ نصیحتیں اُن حفاظ کے علاوہ قیامت تک ان تمام لوگوں کے لئے بھی ہے جو قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہیں، اسے خدا کا کلام اور آسمانی آخری ہدایت نامہ تصور کرتے ہیں، اُس پر عمل کے ذریعہ دنیا میں کامیاب اور آخرت میں فلاح یاب ہونا چاہتے ہیں، یقینا انسانوں کے لئے عزت وشرف قرآن مجید کے ساتھ وابستگی میں ہی مضمر ہے تاریخ جس کی گواہ ہے ، یقینا زمانہ کے تخت وتاج قرآن سے عملی وابستہ قوموں کی ٹھوکروں میں آکر گرے تھے ، قرآن سے وابستگی کے نتیجہ میں دیگر بڑی اور طاقتور قوموں نے انہیں اپنا پیشوا اور مقتدیٰ بنا لیا تھا،وہ جدھر کا رخ کرتے تھے وہ علاقے ان کے قدم چومتے تھے ،وہ جس مٹی پر ہاتھ مارتے جاتے تھے ان کے حق میں وہ سونا بنتی جاتی تھی، قرآنی وابستگی نے انہیں وہ روحانی قوت عطا کی تھی جس کی مدد سے انہوں نے تعداد کی کمی اور وسائل کی قلت کے باوجود بڑے بڑے معرکوں میں آسانی سے فتح حاصل کر لی تھی ، برخلاف جنہوں نے دنیوی نشے میں چور ہو کر مادیت ہی کو سب کچھ سمجھنے لگ گئے تھے اور اسی کو کامیابی کی نقیب تصور کرنے لگے تھے ،قرآن مجید کو بھلا چکے تھے اور اس کے عملی حصار سے باہر نکل چکے تھے ،ان کے ساتھ یہ ہوا کہ دھیرے دھیرے ان کی ہوا اُکھڑ تی چلی گئی ،وہ بلندی سے پستی کی طرف آنے لگے اور تخت حکومت سے محکومیت کے فرش پر آگرے ،عزتیں نیلام ہو گئیں ،تخت وتاج چھن گیا اور آزادی کی دولت سے محروم ہو کر غلامی کی اسیریں میں جاگرے ۔
قرآن مجید وہ انقلاب آفریں کتاب ہے جس سے پوری دنیا میں ایک عظیم انقلاب برپا ہوا ،وہ ایسا نور ہے جس کی روشنی سے مشرق ومغرب اور شمال وجنوب کی تاریکی کافور ہو گئی ،وہ ایسا نسخہ کیمیاء ہے جسے اپنا کر بہت سوں نے آسمان کی بلندی کو چھو لیا تھا ،وہ ایسا دوست ہے جو اپنے یاد رکھنے والے کو کبھی بھلاتا نہیں اور دل میں رکھنے والے کو دلوں کا حاکم بناتا ہے ،چنانچہ حضرت عبدالرحمن بن ابی ابزیؓ نے ایک دیہاتی شخص کو قریش پر حاکم بنایا ،حضرت فاروق اعظم ؓ نے ان سے اس کی وجہ دریافت فرمائی تو جواب میں عبدالرحمنؓ نے فرمایا کہ میں نے ان سے زیادہ کسی کو قرآن مجید کی تلاوت کرتے نہیں دیکھا ، حضرت فاروق اعظم ؓ نے خوش ہوکر فرمایا :تم نے ٹھیک کیا واقعی اللہ تعالیٰ اس قرآن کے ذریعہ بعض کو بلند اور بعض کو پست کر تا ہے، اللہ تعالیٰ دنیا میںقرآن مجید سے تعلق جوڑ نے والوںکو بلند ترین مقام پر پہنچا دیتا ہے اور اس سے تعلق کو توڑ نے والوں کو نہایت ذلت کے ساتھ بلندی سے پستی کی طرف ڈھکیل دیتا ہے۔
قرآن مجید کی اتباع دنیا میں کامیابی ،سرخروئی ،سر بلندی ،عزت ،عظمت ، حکومت ،حاکمیت ، آخرت میں اجر وثواب، نجات اور دخول جنت کا سبب ہے اور اس سے اعراض دنیا میں ذلت وخواری ،ناکامی ونامرادی ،پستی وپسپائی اور آخرت میں سخت ترین سزا اور دخول نار کا موجب ہے، قرآن مجید سے وابستہ ہوجانے والے قابل قدر ہی نہیں بلکہ قابل فخر ہیں ،ان کی حقیقی قدر ومنزلت کا پتہ قیامت کے دن ہوگا جہاں ان کے ساتھ ان سے وابستہ رہنے والوں کو بھی گراں قدر اعزاز سے نوازا جائے گا ،یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے دنیوی زندگی میں دین کو ترجیح د ی ہو گی ،ان کے زیادہ تر اوقات قرآن کی مشغولیت میں صرف ہوتے تھے ،یہ کثرت سے تلاوت کرنے والے ، حفظ کے ذریعہ اپنے سینوں میں قرآن محفوظ کرنے والے اور اس کے احکامات پر عمل کر تے ہوئے زندگی گزار نے والے تھے ،جنکی بار گاہ الٰہی میں بڑی قدر ومنزلت ہوتی تھی اور فرشتے انہیں رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے، حقیقت یہ ہے کہ قاری ٔ قرآن جب محبت الٰہی میں ڈوب کر قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے تو فرشتے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیتے ہیں اور اس سے مزید پڑھتے رہنے کی خواہش کرتے رہتے ہیں ، کثرت تلاوت کی وجہ سے وہ فرشتوں میں معروف اور ان کا نور نظر بن جاتے ہیں ، جس وقت وہ بارگاہ الٰہی میں دعا کرتے ہیں تواس کی دعا رد نہیں کی جاتی اور جب مانگتے ہیں تو خزانہ ٔ خداوندی سے انہیں بھر پور دیا جاتا ہے ،رسول اللہ ؐ نے اپنی امت کو قرآن مجید سے شغف رکھنے ، اس سے مضبوط تعلق قائم کرنے ،اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے اور اُسے حفظ کرنے کے ساتھ روزانہ اس کی تلاوت کا معمول بنانے کی تعلیم دی وتلقین فرمائی ہے اور اس کی تلاوت پر غیر معمولی اجر وثواب بھی بتایا ہے ، یقینایہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ قرآن مجید کے نزول کا اول مقصد اس کے احکامات کو جانتے ہوئے اس کے مطابق عمل کرنا ہے ، مگر تلاوت بھی اس کا ایک اہم ترین حق ہے۔
قرآن پر عمل سے زندگیوں میں انقلاب برپا ہوتا ہے ، اس کی تلاوت سے جسم ِ خاکی سرور پاتا ہے ، دل کا زنگ دور ہوتا ہے اور روح منور ہوجاتی ہے ، رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا : بنی آدم کے دلوں پر اسی طرح زنگ پڑجاتا ہے جس طرح پانی لگ جانے سے لوہے پر زنگ آجاتا ہے ،پوچھا گیا ،یارسول اللہ ؐ!دلوں کا زنگ دور کر نے کا ذریعہ کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا:موت کو زیادہ یاد کرنا اور قرآن مجید کی تلاوت کرنا( معارف القر آن :۵؍ ۸۴،بحوالہ بیہقی)قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے کو حق تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوتا ہے ،تلاوت قرآن کے ذریعہ بندہ روحانیت کے زینہ طے کرتے ہوئے خدا کے قریب ہوجاتا ہے ، حدیث میںآپ ؐ نے نماز کو مومن کی معراج فرمایا ہے ،علماء نے اس کی وجہ یہی بتائی ہے کہ نماز کے ذریعہ بندہ خدا کے بالکل قریب ہوجاتا ہے اور اس میں تلاوت قرآن کے ذریعہ ذات خداوندی سے ہم کلامی کا شرف حاصل کر لیتا ہے ، گویا مومن کے لئے یہی معراج ہے،جب تک بندہ تلاوت قرآن میں مشغول رہتا ہے اس وقت رحمت الٰہی ابر رحمت بن کر سایہ فگن ہوتی ہے، وہ رحمت کی بارش میں نہاتا اور نوازشات کے دریا میں غوطہ لگاتا رہتا ہے ، جو شخص تلاوت قرآن میں منہمک اور مصروف ر ہتا ہے ،جس کی وجہ سے اُسے ذکر واذکار ،دعائیں اور دیگر نفلی عبادتوں کا موقع نہیں ملتا تو اللہ تعالیٰ اس کو ذکر ،دعا اور دیگر عبادتوں میں مشغول رہنے والوں سے بڑھ کر ثواب عنایت فرماتے ہیں ، رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ من شغلہ القرآن عن ذکری ومسأ لتی اعطیتہ افضل ما اعطی السائلین (ترمذی:۲۷۲۲)’’ جس شخص کو قرآن نے میرے ذکر اور مجھ سے مانگنے کا موقع نہ دیا ،تو مانگنے والوں اور ذکر کرنے والوں میں جتنا دیا کرتا ہوں ،اُس سے بہتر اس شخص کو دیتا ہوں ‘‘۔
قرآن مجید کی تلاوت بھی ذکر اللہ ہی کی ایک قسم ہے اور بعض لحاظ سے تو سب سے اعلیٰ وارفع عبادت ہے،اللہ تعالیٰ کو بندہ کا تلاوت قرآن میں مشغول ہونا بہت پسند ہے ،رسول اللہ ؐ نے تلاوت قرآن میں مشغول کی مثال اس زنبیل سے دی ہے جس میں مشک بھرا ہوا ہے ،ارشاد فرمایا’’ جس شخص نے قرآن پڑھا اور پھر روزانہ اس کی تلاوت کا معمول رکھا اس کی مثال ایسی ہے جیسے مشک سے بھری زنبیل جس کی خوشبو چار سو مہک رہی ہے ،اور جس شخص نے قرآن پڑھا لیکن روزانہ اس کی تلاوت نہیں کرتا تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے مشک سے بھری بوتل کہ جس کو ڈاٹ سے بند کر دیا گیا ہے(ترمذی :۲۸۶۵)، قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے کے لئے خدا کی طرف سے ہر ہر حرف پر ایک ایک نیکی دی جاتی ہے ، رسول اللہ ؐنے ارشاد فرمایا:جس نے قرآن میں سے ایک حرف پڑھا اس اس کے بدلے ایک نیکی دی جائے گی اور ہر نیکی کا ثواب دس گنا ہے ،میں نہیں کہتا کہ ’’الم‘‘ ایک حرف ہے بلکہ ’’الف‘‘ ایک حرف ہے’’لام‘‘ ایک حرف ہے اور ’’میم‘‘ ایک حرف ہے(ترمذی : ۲۷۰۷)، اس حدیث میں سورۂ بقرہ کے اس شروع کلمہ کو پڑھنے پر تیس نیکیوں کا وعدہ ہے ،حالانکہ تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ حروف مقطعات میں سے ہے ،جس کے معانی اللہ کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں ،اس کے باوجود اس کے پڑھنے پر تیس نیکیوں کا ملنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ بھی مقصود ہیں ۔
رمضان المبارک وہ مقدس مہینہ ہے جس کو قرآن مجید سے خاص نسبت اور تعلق حاصل ہے،قرآن مجید میں ماہ مبارک کو نزول قرآن کے ساتھ یاد کیا گیا ہے،رسول اللہ ؐ دیگر مہینوں کی نسبت رمضان میں تلاوت قرآن سے زیادہ شغل رکھتے تھے،حضرت جبرئیل ؑ آپ ؐ کے ساتھ مل کر رمضان میں قرآن کا دور کیا کرتے تھے ،حضرات صحابہ ؓ بھی رمضان المبارک میں نماز تراویح کے علاوہ دیگر اوقات میں بھی کثرت سے تلاوت کیا کرتے تھے بلکہ تلاوت قرآن کے وقت ان پر رقت طاری ہو جاتی تھی ،یہ حضرات شوق محبت میں ڈوب کر تلاوت کرتے تھے ، ان کے قلوب خشیت الٰہی سے لبریز اور آنکھیں بھیگ جاتی تھیں ، حضرت عکرمہ ؓ جب قرآن کی تلاوت فرماتے تو اکثر بے ہوش ہوجایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ’’ یہ میرے جلال وعظمت والے پروردگار کا کلام ہے، حضرت امام مالک ؒ جنہو ں نے حدیث کی شہور کتاب ’’موطا مالک‘‘ تحریر فرمائی ہے ،جو مشہور فقیہ ہونے کے ساتھ ایک بڑے محدث بھی تھے لیکن رمضان شروع ہونے پر حدیث پڑھنے پڑھانے کے سلسلہ کو بند کرکے دن ورات کا اکثر حصہ تلاوت قران میں لگاتے تھے ،ان کے علاوہ دیگر فقہاء ،محدثین اور علماء کرام کے بے شمار واقعات ہیں جو رمضان المبارک میں تین دنوں میں اور بعضے ایک دن میں مکمل قران تلاوت کرتے تھے ، ایام رمضان کی قدر کرتے ہوئے ہم کو بھی قرآن کے زیادہ سے زیادہ مشغول ہونے کی ضرورت ہے ، اہل علم کا تجربہ شاہد ہے کہ جو لوگ رمضان میں قرآن سے وابستگی اختیار کرتے ہیں اس کی برکت سے وہ تمام عمر قرآن سے وبستہ رہتے ہیں اور جو قرآن سے وابستہ ہوجاتا ہے تو اس پر رحمت الٰہی سایہ فگن ہو جاتی ہے ،زندگی کی حقیقی مسرتیں اسے میسر ہوتی رہتی ہیں اور اس میں ہر طرح کے خیر کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے ، حالات سے مقابلہ کرنے کی اس میں ہمت وجرأت پیدا ہوجاتی ہے ،اس کی روحانی ترقی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ، چونکہ قرآن خدا کا دسترخوان ہے ،اس سے سیراب ہونے والے جسمانی وروحانی طور پر مضبوط رہتے ہیں ،انہیں کسی کے احتیاج کی ضرورت نہیں رہتی ، کامیابی ان کے قدم چومتی ہے اور ان کے ذریعہ وہ انقلاب برپا ہوتا ہے جس کا ظاہری اسباب رکھنے والے تصور نہیں کر سکتے ،تو آئیے عہد کریں کہ ہمیشہ اس دستر خوان سے جڑیں رہیں گے ،اسی سے مستفید ہوتے رہیں گے ،اسی سے اپنے جسم وروح کو تازگی پہنچاتے رہیں گے اور اسی کے مطابق جئیں گے اور اسی کے حکم پر مریں گے ۔
٭٭٭٭٭

miftifarooqui@gmail.com
9849270160

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×