اسلامیات

سجدوں سے فردوس کا سفر

اسلام میں نماز ایک اہم ترین اور مہتم بالشان عبادت ہے ،نماز بندگی کا اظہار ، دخول جنت کا سبب اور تقرب الٰہی کا ذریعہ ہے ،نماز ذکر وتلاوت کے علاوہ بہت سی عبادات کا جامع ہے،نماز گناہوں سے بچنے اور خدا سے مدد طلب کرنے کا اعلیٰ طریقہ ہے ،نماز کا ہر رکن عظیم الشان اور بندگی کا بے مثال نمونہ ہے ،نماز اپنے پڑھنے والے کو قرب الٰہی کی منزل تک پہنچادیتی ہے اور دوری اختیار کرنے والے کو ضلالت وگمراہی کی وادیوں میں ڈھکیل دیتی ہے ، تکبیر تحریمہ کے ساتھ ہی بندہ دنیا سے بے نیاز ہو کر رب کے دربار میں نیازمند انہ حاضر ہوتا ہے ،قیام میں اس سے باتیں کرتا ہے ،اس کی تعریف بیان کرتا ہے اور اس سے مدد طلب کرتا ہے ،رکوع میں اس کی تسبیح وتقدیس بیان کرتا ہے اور سجدہ میں سر رکھ کر وہ رب کی بڑائی ،بزرگی ،برتری اور اپنی انتہائی کمتری وکمزوری اور بے بسی وبے چارگی کا اظہار کرتا ہے ، سجدہ بندہ کو رب کے انتہائی قریب کر دیتا ہے گویا وہ تصور میں رب کے قدموں پر اپنا سر رکھ دیتا ہے ،گویا سجدہ بندی کی معراج ہے ، یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ؐ نے نماز کو مؤمن کی معراج سے تعبیر فرمایا ہے،اسلام میں ایمان کے بعد ایک مومن پر عائد ہونے والا سب سے پہلا فریضہ نماز ہی ہے اور روز قیامت سب سے پہلے اسی کے متعلق سوال ہوگا ،قرآن کریم میں تقریبا ً سات سو مقامات پر نماز کا ذکر کیا گیا ہے جن میں صریح طور پر ستر مقامات پر اس کا ذکر موجود ہے ،رسول اللہ ؐ نے بہت سی احادیث میں نماز کے فضائل ومناقب ،اس کی ادائیگی پر اجر وثواب اور بلاعذر اسے چھوڑ پر سخت ترین وعیدیں سنائی ہیں ، آپؐعبادات میں سب سے زیادہ نماز ہی کا اہتمام فرماتے تھے بلکہ شوق کا عالم یہ تھا کہ ایک نماز کے ادا کرنے کے بعد دوسری نماز کا شدت سے انتظار فرماتے تھے ،ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ؐ گھریلو کاموں میں ہاتھ بٹایا کرتے تھے مگر جیسے ہی اذان کی آواز سنتے تو اجنبی بن جاتے اور مسجد کی طرف رخ کرتے تھے، آپ ؐ نے نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک فرماکر اس سے اپنی غیر معمولی چاہت کا اظہار فرمایا ہے،حضرات صحابہ ؓ کے دلوں میں اس کی ایسی عظمت واہمیت اور چاہت ومحبت پیدا فرمائی تھی کہ ان کے نزدیک دورکعت نماز دنیا وما فیہا سے بھی زیادہ قیمتی تھی ،وہ ترک نماز کو کفر سے بھی زیادہ بُرا سمجھتے تھے ،سفر وحضر اور جنگ وجدال میں نمازوں کا حد درجہ اہتمام کیا کرتے تھے ، تاریخ اسلام میں ان کے بے مثال واقعات آب زر سے لکھے گئے ہیں،ایک طرف دشمن کا لشکر جرار سامان حرب سے لیس ہو کر حملہ آور ہے تو دوسری طرف یہ مجاہدین عشق الٰہی میں ڈوب کر سر بسجود ہیں اور اپنے سجدوں سے میدان حرب سجائے ہوئے ہیں،ان کے عاشقانہ سجدوں کو فرشتوں نے بھی یقینا رشک کی نگاہوں سے دیکھا ہوگا ،بعض عشاق کا تو یہ عالم تھا کہ تیر کھائے جارہے ہیں،خون بہائے جارہے ہیں مگر قیام وقعود اور رکوع وسجود چھوڑنے کے لئے تیار نہیں اور بزبان حال دشمنوں سے کہہ رہے ہیں یہ نماز عشق ہے دلگی نہیں ۔
رسول اللہ ؐ نے جہاں فرض اور واجب نمازوں کا اہتمام فرمایا اور امت کو اس کی ادائیگی کی طرف متوجہ کرتے رہے وہیں نفل نمازوں کا بھی خوب اہتمام فرماکر ان کے فضائل بیان کرکے ان ہیں اداکرنے کی ترغیب بھی دیتے رہے ، فرض نماز یں نمازی کو متقی بنادیتی ہیں تو نفل نمازیں اسے مقربین کی صف میں کھڑا کر دیتی ہیں کیونکہ سجدوں کی کثرت سے بندہ قرب خداوندی اور اس کی نزدیکی کو حاصل کر لیتا ہے،رسول اللہ ؐ نوافل کا خوب اہتمام فرمایا کرتے تھے بلکہ آپ ؐ کی راتوں میں پڑھی جانے والی نفل نمازوں کا قیام وسجود بساوقات پوری پوری رات پر مشتمل ہوا کرتا تھا ،جس کی وجہ سے پائے اقدس پر ورم آجاتا تھا ،ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ رات کی نماز میں آپ ؐ اس قدر طویل سجدے کیا کرتے تھے کہ مجھے ڈر ہوتا تھا کہ کہیں آپ ؐ وصالِ بحق تو نہیں کر گئے ہیں ،پھر ہاتھ لگانے پر قدم مبارک کی حرکت سے آپ ؐ کے حیات ہونے کا علم ہوتا تھا جس کی وجہ سے جان میں جان آجاتی تھی ،نفل نمازوں کی کثرت سے بندہ مقربین کے درجہ کو حاصل کر لیتا ہے ،جنت کے راستہ کو پالیتا ہے اور جنت میں اسے معیت نبوی حاصل ہوتی ہے ،چنانچہ حضرت ربیعہ بن کعب ؓ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ؐ کی خدمت میں رات گزارا کرتا تھا ،آپ ؐ کے لئے وضو کا پانی اور دیگر ضرورریات ( مسواک وغیرہ) کا خیال رکھتا تھا ،( ایک رات خوش ہو کر) آپ ؐ نے مجھ سے فرمایا: ( ابن کعب ! دین ودنیا کی کچھ بھلائی چاہتے ہو تو) مانگ لو( مجھ سے دعا کرواؤ ) ،میں نے کہا : ( کچھ بھی نہیں یا رسول اللہ ؐ ،بس ) جنت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں ،آپ ؐ نے فرمایا: اس کے علاوہ کوئی اور چیز؟ ،میں نے کہا : بس یہی چاہئے! پھر آپ ؐ نے فرمایا: بس اپنی ذات کے لئے سجدوں کی کثرت سے میری مدد کرو(نفل نمازوں کا خوب اہتمام کرو ،اس کے ذریعہ ضرو تمہیں جنت میں میری رفاقت نصیب ہوگی) ( مسلم)،اگر چہ نفل نمازوں کے لئے کوئی وقت متعین نہیں ہے ، ممنوع ومکروہ اوقات کے علاوہ کسی بھی وقت اسے پڑھاجاسکتا ہے لیکن رسول اللہ ؐ دن ورات کے مخصوص اوقات میں چند مخصوص نفل نمازوں کا اہتمام کرتے تھے اور ان کی بڑی فضیلتیں بھی بیان فرما تے تھے تاکہ لوگ اس کا اہتمام کر سکیں ، کتب فقہ میں ان نمازوں کے نام بھی مقرر ہیں، اگر کوئی ان کا اہتما م کرلے تو یہ اس کے لئے بڑے نصیب کی بات ہوگی ، سنت کے اہتمام کی وجہ سے اس پر انوار الٰہی کا نزول ہوگا ، اسے اجر عظیم سے نوازا جائے گا ،حضرات صحابہ ؓ وتابعین ؒ ان نمازوں کا بڑا اہتمام فرمایا کرتے تھے اور ہر زمانے میں مقربین اور اولیاء کاملین ؒ کا بھی نہایت تسلسل کے ساتھ ان نمازوں کا اہتمام کرتے رہے ہیں بلکہ اہل اللہ فرماتے ہیں کہ جماعت اولیاء میں شامل ہونے کے لئے ان نوافل کا پابند ہونا نہایت ضروری ہے ،اس کے بغیر کوئی بھی ولایت کے مرتبہ تک پہنچ نہیں سکتا ،بڑے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو سالہا سال سے روزانہ ان نمازوں کا اہتمام کرتے آرہے ہیں ، بہت سے لوگ اپنی اپنی بساط کے مطابق وقت نکال کر ان نوافل کا اہتمام کرتے ہیں ،بعض لوگ جمعرات ،جمعہ اور پیر یہ تین دنوں میں ان نوافل کو پڑھتے ہیں ،بعضے حضرات ماہ مقدس رمضان میں اس کی پابندی کا التزام کرتے ہیں اور بعض لوگ رمضان کے آخری عشرہ میں کاروباری مصروفیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ نمازیں ادا کرتے ہیں ، ملک میں اس وقت لاک ڈاؤن نافذ ہے اور رمضان المبارک ابر رحمت بن کر مسلمانوں پر سایہ فگن ہے مگر افسوس کہ مسلمان مساجد میں باجماعت فرض نمازوں اور نماز تراویح کی ادائیگی سے محروم ہو گئے ہیں ،لاک ڈاؤن کی وجہ سے نمازی مسجدوں میں جانے سے قاصر ہیں ، صفیں خالی پڑی ہیں ، مساجد کے گیٹ مقفل ہیں ،بازار وں میں سناٹا چھایا ہوا ہے ، رمضان المبارک کے باوجود سڑکوں پر کوئی ہلچل نہیں ہے ،دکانات بند پڑے ہیں ،کاروبار ٹھپ ہو چکے ہیں ،بازاروں کی رونقیں ماند پڑچکی ہے ،مسجدوں کو دیکھ کر دل رونے لگتا ہے اور مارے افسوس کہ آنکھیں نم ہو رہی ہیں ،اس موقع پر ہر شخص اپنے اپنے انداز سے تجزیہ کرنے میں لگا ہوا ہے ،بعض لوگ اسے دشمنوں کی چال قرار دے رہے ہیں تو بعض اسے دجالی فتنے سے تعبیر کر رہے ہیں تو بعض اس مہلک ترین وباء کو اپنے گناہوں اور نافرمانیوں کی نحوست قرار دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ جب خدا ناراض ہوتا ہے تو اپنے گھر کے د روازے بند کر لیتا ہے،اسے کھو لوانے کے لئے توبہ واستغفار اور سجدوں کی کثرت ہی اس کی کنجی ہے ،حالات جیسے ہوں اور اس کی وجوہات جو بھی ہوں ،اہل ایمان تو حکم دیا گیا ہے کہ وہ صبر وتحمل سے کام لیں ،رجوع الیٰ اللہ کا اہتمام کریں اور خدا کے فیصلہ پر راضی برضا رہیں کہ وہ قادر مطلق ،بڑی شان والا اور حکیم ہے،وہ جس طرح اپنی قدرت سے زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ نکالتا ہے ،اسی طرح اپنی حکمت سے کبھی شر میں سے خیر اور خیر میں سے شر بھی نکالتا ہے ،بہت سے لوگ دنیوی زندگی میں پڑکر ،کاروبار میں الجھ کر ،بیوی بچوں میں گھر کر اور عیش وعشرت میں پھنس کر نوافل و مستحبات تو درکنار فرائض سے بھی دور ہو چکے تھے ،مصروفیت کو بہانا بنا کر فرصت کے لمحات نہ ملنے کی شکایت کرتے رہتے تھے ،لاک ڈاؤن ان کے لئے سنہری موقع اور ایک چانس ہے ،اللہ تعالیٰ نے اس قدر فرصت کے لمحات عطا کئے ہیں کہ شاید کبھی اس سے پہلے میسر نہ آئیں ہو ں ،خاص بات یہ ہے کہ رمضان المبارک اور لاک ڈاؤن ساتھ ساتھ ہیں ،نہ تجارت ہے نہ کاروبار ،نہ ہوٹل ہے نہ بازار ،نہ ملنا ہے نہ ملاقات ،اللہ تعالیٰ نے بندوں کو خوب فرصت کا موقع دیا ہے ،اگر وہ چاہیں تو اس کے ذریعہ رمضان کو حقیقی رمضان بنا سکتے ہیں ،ایک ایک لمحہ کی قدر دانی کرتے ہوئے اپنے لئے نیکیوں کے پہاڑ بنا سکتے ہیں اور جنت کو حاصل کر سکتے ہیں ،ہم اپنے گھروں میں رہ کر فرض وواجب نمازوں اور نماز تراویح کے علاوہ ان نفل نمازوں کو پڑھ کر ان کی فضیلت کو حاصل کر سکتے ہیں اور اپنے لئے ذخیرہ آخرت تیار کر سکتے ہیں ،یہاں پر ان نفل نمازوں کا ذکر کیا جارہا ہے جس کا اہتمام خود رسول اللہ ؐ دن ورات کے مخصوص حصے میں فرمایا کرتے تھے اور آپ ؐ نے ان کے فضائل بیان فرمائیں ہیں تا کہ امت پر اس پر عمل کرکے بے شمار اجر وثواب حاصل کر سکے ، جنت کا سفر سہل ہوجائے اور جنت الفردوس میں نبی ؐکی معیت مقدر بن جائے ۔
نماز تہجد:نماز تہجد نفل نمازوں میں سے سب سے زیادہ اہمیت وفضیلت کی حامل ہے ،حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا : فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی نماز ہے ( ترمذی: ۱؍۹۹)،حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا : جنت میں ایسے بالا خانے ہیں جن کا اندرونی حصہ باہر سے اور بیرونی حصہ اندر سے نظر آتا ہے،اس پر ایک دیہاتی کھڑے ہو کر عرض کرنے لگے کہ، اے اللہ کے رسول ؐ ! یہ بالا خانے کن لوگوں کے لئے ہوں گے ؟ تو آپ ؐ نے فرمایا : اس کے لئے جو اچھا کلام کرے ،(مسکینوں کو ) کھانا کھلائے، ہمیشہ روزے رکھے اور رات کو نماز ( تہجد) پڑھے جب دوسرے لوگ سو رہے ہوں ( ترمذی: ۲؍۱۹) ،نماز تہجد کا وقت نماز عشاء کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور صبح صادق سے پہلے تک رہتا ہے مگر دو تہائی رات کے بعد پڑھنا افضل ہے، احادیث میںنماز تہجد کی چار،چھ،آٹھ اور دس رکعت تک بھی تعداد منقول ہے ،مگر اکثر رویات میں ہے کہ آپ ؐ کا اکثر معمول آٹھ رکعت پڑھنے کا تھا( ابوداؤد: ۱؍۲۰۰،ابن خزیمہ :۵۷۷۱)۔
نماز اشراق: حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا:جس نے فجر کی نماز باجماعت سے پڑھی ،پھر وہیں اللہ کا ذکر کرنے بیٹھ گیا یہاں تک کہ سورج نکل آیا،پھر اس نے دورکعتیں پڑھیں تو اس کے لئے ایک مکمل حج اور عمرہ کا ثواب ہے ،آپ ؐ نے یہ مکمل کا لفظ تین بار ارشاد فرمایا( ترمذی: ۱؍۱۳۰)،حضرت حسن بن علی ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے فجر کی نماز پڑھی پھر اپنی جگہ بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرنے لگا یہاں تک کہ سورج نکل آیا ،پھر اس نے دو رکعتیں پڑھیں تو اللہ تعالیٰ آگ کو حرام کر دیں گے کہ اسے کھائے(شعب الایمان للبیہقی:۳؍۸۵) ، نماز اشراق کی رکعتیں حسب سہولت دو یا چار پڑھ سکتے ہیں ، سورج نکل کر مکمل روشن ہو نے کے بعد اسے پڑھا جاتا ہے ( سورج نکلنے کے تقریبا ً پندرہ منٹ بعد) ۔
نماز چاشت: حضرت ابوالدرداؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا: جس نے چاشت کی دو رکعت پڑھی تو اس کا نام غافلین میں نہیں لکھا جائے گا،جس نے چار رکعت پڑھی تو اس کا نام عابدین میں لکھا جائے گا،جس نے چھ رکعت پڑھی تو اس دن اس کی کفایت کی جائے گی ،جس نے آٹھ رکعت پڑھی تو اس کا نام اطاعت شعاروں میں لکھا جائے گااور جس نے بارہ رکعت پڑھی تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ جنت میں گھر تعمیر کریں گے (مجمع الزوائد:۲؍۴۹۴)حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا: جب صبح ہوتی ہے تو انسان کے ہر جوڑ پر ایک صدقہ واجب ہوتا ہے، ہر بار سبحان اللہ کہنا ایک صدقہ ہے ،ہر بار الحمد للہ کہنا ایک صدقہ ہے،ہر بار لا الہ الا اللہ کہنا ایک صدقہ ہے ،ہر بار اللہ اکبر کہنا ایک صدقہ ہے ،اچھی بات کا حکم کرنا ایک صدقہ ہے ،ہر بُری بات سے روکنا ایک صدقہ ہے اور ان سب کی طرف سے چاشت کی دو رکعتیں کافی ہوجاتی ہیں جنہیں انسان پڑھ لیتا ہے (مسلم: ۱؍۲۵۰) ، چاشت کی کم از کم دو اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعتیں ہیں ، مسلم شریف میں ہے کہ آپ ؐ چاشت کی عموماً چار رکعتیں پڑھتے تھے اور کبھی اس سے زیادہ بھی پڑھتے تھے جو اللہ کو منظور ہوتا تھا، دن کا تہائی حصہ گزرنے کے بعد چاشت کا وقت شروع ہوتا ہے اور زوال تک رہتا ہے ۔
نماز اوابین: حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا: جس نے مغرب کے بعد چھ رکعت پڑھی اور ان کے درمیان کوئی بُری بات نہیں کی تو اسے بارہ سال کی عبادت کا ثواب ملے گا( ترمذی: ۱؍۹۸) ،حضرت عمار بن یاسر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے حبیب ؐ کو دیکھا کہ آپ ؐ مغرب کے بعد چھ رکعت پڑھتے تھے اور فرماتے تھے کہ جس نے مغرب کے بعد چھ رکعت پڑھی تو اس کے گناہ معاف کر دئے جائیں گے اگر چہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں ( الترغیب والترہیب للمنذری : ۱؍۲۲۷)،حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ فرشتے ان لوگوں کو گھیر لیتے ہیں جو مغرب اور عشاء کے درمیان نماز پڑھتے ہیں اور یہ ’’ صلوۃ الاوابین ‘‘ ہے( شرح السنہ: ۲؍ ۴۳۹) ۔
صلوٰۃ التسبیح : رسول اللہ ؐ نے اپنے چچا حضرت عباس ؓکو یہ نماز خاص اہتمام سے سکھائی تھی اور فرمایا تھا کہ اس کے پڑھنے سے تمہارے چھوٹے بڑے سب گناہ معاف ہوجائیں گے،اگر ہوسکے تو ہر روز پڑھ لیا کرو اور ہر روز نہ پڑھ سکو تو ہفتہ میں ایک مرتبہ پڑھ لیا کرو، ہر ہفتہ نہ پڑھ سکو تو مہینہ میں ایک بار پڑھ لیا کرو، ہر مہینہ نہ پڑھ سکو تو سال میں ایک بار پڑھ لیا کرو، اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو ساری عمر میں ایک دفعہ پڑھ لینا۔ (بخاری) صلوٰۃ التسبیح کی چار رکعتیں ہیں ،اس نماز کے پڑھنے کا طریقہ اس طرح ہے کہ چار رکعت نفل کی نیت باندھ کر ثناء پڑھے، پھر سورۂ فاتحہ و ضم سورہ پڑھ کر ۱۵؍مرتبہ سُبۡحَانَ اللّٰہِ وَ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ وَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکۡبَرۡ پڑھے، پھر رکوع میں جائے اور سُبۡحَانَ رَبِّیَ الۡعَظِیۡم کے بعد ۱۰؍مرتبہ یہ کلمہ پڑھے، پھر رکوع سے کھڑے ہوکر سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنۡ حَمِدَہۡ کے بعد ۱۰؍مرتبہ مذکورہ کلمہ پڑھے اور پھر دونوں سجدوں میں سُبۡحَانَ رَبِّیَ الۡاَعۡلیٰکے بعد ۱۰۔۱۰۔ مرتبہ یہ کلمہ پڑھے، پھر دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھ کر ۱۰؍ مرتبہ مذکورہ کلمہ پڑھے، اور دوسرے سجدہ سے اَللّٰہُ اَکۡبَرُ کہہ کراٹھ کر بیٹھ جائے اور۱۰؍مرتبہ یہ کلمہ پڑھے، پھر اَللّٰہُ اَکۡبَرُ کہہ کر دوسری رکعت کے لئے کھڑا ہوجائے، دوسری رکعت بھی پہلی رکعت کی طرح پڑھے اورجب دوسری رکعت میں التحیات کے لئے بیٹھے تو ۱۰؍ مرتبہ یہ کلمہ پڑھے ، اس طرح چار رکعتیں پوری پڑھے۔ (ابوداؤد)ہر رکعت میں ۷۵؍مرتبہ اور پوری نماز میں ۳۰۰؍مرتبہ یہ کلمہ پڑھنا چاہئے اور اگر بھولے سے کسی مقام پر چھوٹ جائے تو دوسرے مقام میں ادا کرلے۔ (مسائل نماز)نوٹ:دونوں قعدوں میں پہلے التحیات پڑھے پھر یہ کلمہ پڑھے ۔ (مسائل اعتکاف)۔
٭٭٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×