اسلامیات

سر زمین دکن میں اکابر کے نہج پر خانقاہی نظام کا احیاء

قطب دکن مولانا شاہ عبدالغفور قریشی ؒ کا عظیم کارنامہ

چودھویں صدی ہجری کے نصف ثانی میں جنوبی ہندمیں جن اصحابِ علم وفضل نے اپنی علمی قابلیت ، خدا داد صلاحیت ،مسلسل جد وجہد اور انتھک کو ششوں کے ذریعہ بیک وقت دعوتِ دین ،وعظ ونصیحت ،اصلاح وتربیت اور تزکیہ نفوس کی جو عظیم خدمت انجام دی اور بجا طور پر اپنے وقت کے ’’مصلح ِ امت‘‘ کہلائے، ان چنندہ اشخاص کی فہرست میں ایک نمایا ں نام ہے امام العارفین ،سراج السالکین قطب دکن حضر ت مولانا شاہ محمد عبدالغفور قریشی چشتی صابریؒ خلیفہ ٔ اجل محدث جلیل، قطبِ عالم شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ العزیز ۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت قطب دکنؒ کو علومِ ظاہری و باطنی دونوں کی دولت سے مالا مال فرمایا تھا ، آپ ؒ کی علمی صلاحیت ،ماہرانہ خطابت ، عاجزانہ طبیعت ،شاکرانہ و صابرانہ مزاج اور بلند پایہ استقامت کے پیچھے شیخ الاسلام حضرت مدنی ؒ کی مخلصانہ ومربیانہ تربیت کا ر فرما تھی ، شیخ الاسلام حضرت مدنی ؒ کی خصوصی توجہ اور تربیت نے آپ کو ہر میدان کا شہسوار بنادیا تھا ، معمولات اوراد وظائف ،ریاضات ومجاہدات اور ذکر وشغل کی کثرت نے آپ کے قلب کو منور کردیا تھا،آپؒ کی ذات پر اپنے شیخ کا رنگ غالب تھا یہی وجہ تھی کہ آپنے جنوبی ہند اور خاص کر ارضِ دکن میں جہاں ایک طرف مدارس دینیہ ومکاتب قرآنیہ کا قیام عمل میں لاکر اس کے ذریعہ نونہالان ملت کو تعلیم قرآن سے جوڑ نے کا اہم کام کیا تو دوسری طرف اکابر کے نہج پر جگہ جگہ خانقاہی نظام کو فروغ دے کر لوگوں کوحقیقی تصوف( جسے قرآن وحدیث کی اصطلاح میں احسان و تزکیہ سے تعبیر کیا گیا ہے) سے آراستہ وپیراستہ فرماکر بے شمار لوگوں کے قلوب کی اصلاح کا گراں قدر فریضہ انجام دیا ، نامساعد حالات کے باوجود آپؒ نے امت مسلمہ کی تعلیم وتعمیر اور اصلاح وتربیت کا فریضہ جس قدر حسن و خوبی کے ساتھ فریضہ انجام دیا اس کی تاریخ میں بہت ہی کم مثالیں ملتی ہیں۔
حضرت قطب ِ دکنؒ نے خانقاہی نظام کے ذریعہ جنوبی ہند کے طول وعرض میں( قرآن وحدیث سے ماخوذ) حقیقی تصوف کو نہایت واضح ودلنشین اور آسان پیرائے میں پیش فرما تے ہوئے لوگوں کو اس سے جوڑ کر ان کی اصلاح وتربیت فرمائی ،سلوک وتصوف دراصل اصلاح ِ نفس کا قرآنی نسخہ اور نبوی تعلیمات کا لازمی حصہ ہے مگر افسوس کہ بعض جاہل دین سے ناواقف اور نبوی تعلیمات سے بے خبر نام نہاد صوفیوں نے اس میں بے اصل چیزوں کو شامل کرکے اسے بدنام کیا ہے اسی لئے سلوک وتصوف سے نا واقف بعض تعلیم یافتہ حضرات اس عظیم کام کو شریعت کے خلاف سمجھ کر اس سے متنفر ہونے لگے، حالانکہ طریقت کوئی الگ چیز نہیں بلکہ شریعت ہی کا ایک حصہ ہے، حضرت قطب دکن ؒ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ’’ طریقت، شریعت کے بغیر ایسی ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم ‘‘ اورچونکہ پورے جسم پر دل کو بادشاہت حاصل ہے اور کام کے کرنے نہ کرنے میں سارے اعضاء دل کے ارادہ کے تابع و پابند ہوتے ہیں اوردل کے بگڑنے اور سنور نے کا اثر تمام اعضاء پر ہوتا ہے اسی لئے شریعت نے بھی اعمال کی قبولیت کا مدار دل کی در ستی وحسن نیت پر رکھا ہے ، نبی اکرم ﷺ نے دل کی اصلاح کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ :ان فی الجسد مضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسدالجسد کلہ ألا وھی القلب (بخاری ومسلم ۵۲؍۴۱۷۸)بے شک بدن میں گوشت کا ایک ٹکڑا ایسا ہے کہ جب وہ سنور تا ہے تو تمام بدن سنور جاتا ہے اور جب وہ بگڑ تا ہے تو تمام بدن بگڑ جاتا ہے ۔یاد رکھو! کہ وہ ’’دل‘‘ ہے۔ انسان کے پاس دل کے سوا دوسری کوئی ایسی چیز نہیں کہ جس کے ذریعہ وہ حق تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکے اسی لئے اہل دل حضرات طالبانِ طریقت کے دلوں پر محنت کرتے ہیں اور دل کو ذکر وشغل کا عادی بنا نے کی کو شش کرتے ہیں ،جس وقت ذکر وشغل سے دل معمور ہونے لگتا ہے تو اس وقت اُسے خدا کی پہچان اور اس کا عرفان نصیب ہوتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر آن اور ہر لمحہ خدا کی اطاعت اور اس کی بندگی میں بسر کرتا ہے ، یہی دراصل تزکیہ نفس واصلاح باطن کا مقصود ومطلوب ہے۔
حضرت قطب دکنؒ عوام وخواص ہر دو کی توجہ اس جانب مبذول کروا تے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ’’اصلاح باطن جس کا حاصل اخلاص وللہیت ہے جس پر سارے ہی اعمال کا مدار اور آخرت میں جنت وجہنم میں داخلہ کا سبب ہے ہر صاحب ایمان کے لئے نہایت ضروری ہے‘‘اور بطور دلیل کے اس آیت :قد افلح من زکاھا o وقد خاب من دساھا(الشمس۹،۱۰)پیش فرما یا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے اس میں لفظ ’’من‘‘ سے ہر ایک پر تزکیہ نفس کو ضروری قرار دیا ،پھر آگے حدیث سے مثال دے کر بتاتے کہ کس طرح قیامت کے دن ریا کار عالم،سخی اور شہید کو جہنم میں دالدیا جائے گا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ علم اور علم کی خدمت یا پھر مال ومال کی خد مت یا شہید کی شہادت ) اگر نفس سے ملی ہوئی ہوگی تو یہ محنت عالم کو حشر میں کام نہیں دے گی ،بلکہ جہنم میں لیجائے گی اس لئے (سب کے لئے اور ) خصوصیت سے عالم کے لئے تزکیہ نفس ضروری ہے۔
تزکیہ وتصفیہ کوئی نئی چیز نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کا ایک نہایت اہم جُزو ہے ،قرآن مجید میں نبی اکرم ﷺ کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک تزکیہ بھی بتایا گیا ہے ،سورۂ آل عمران میں ارشاد ہے:لَقَدۡ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الۡمُؤمِنِیۡنَ إِذۡ بَعَثَ فِیۡہِمۡ رَسُولاً مِّنۡ أَنۡفُسِہِمۡ یَتۡلُوۡ عَلَیۡۡہِمۡ آیَاتِہٖ وَیُزَکِّیۡہِمۡ وَیُعَلِّمُہُمُ الۡکِتَابَ وَالۡحِکۡمَۃَ وَإِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلالٍ مُّبِیۡنٍ(آل عمران :۱۶۴) اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر (بڑا ) احسان فرمایا ،جب کہ انہیں میں سے ایک ایسے (عظیم الشان) پیغمبر کو بھیجا کہ وہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی آیتیں (اور احکام) پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں اور (ظاہری اور باطنی گندگیوں سے) ان لوگوں کی صفائی کرتے ہیں اور ان کو کتاب(الٰہی) اور سمجھ کی باتیں بتلاتے رہتے ہیں اور بالیقین یہ لوگ(آپ ﷺ کی بعثت سے) پہلے صریح غلطی یعنی کفر وشرک میں مبتلا تھے۔
حضرت قطب دکنؒ فرماتے تھے کہ نبی اکرم ﷺ کے اخلاقِ کریمانہ واوصافِ حمیدانہ کی شان میں قرآن مجید میں ارشاد باری ہے کہ:انک لعلیٰ خلق عظیم (البقرہ ۱۲۹) اے نبی ﷺ ! آپ تو اخلاق کے بلند ترین مقام پر فائز ہیں ، حدیث شریف میں خود آپ ﷺ نے اپنے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ’’بعثت لاتمم مکارم الاخلاق (احیاء العلوم)میں اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں ، اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺکو تمام تر ظاہر ی وباطنی کمالات سے نوازا تھا اسی لئے آپ ﷺ کی ذات ِ اقدس تمام انسانیت میںظاہر وباطن دونوں لحاظ سب سے زیادہ کامل ومکمل تھی ، آپ ﷺ نے اپنی امت کو وہ تمام طریقے بتلادئیے اور اُنہیں عملی جامہ پہناکر بتلا دیا کہ جن پر چل کر آدمی ظاہر کے ساتھ اپنے باطن کو بھی سنوار سکتا ہے ،ساتھ ہی ان تمام اخلاق سوز چیزوں سے بچتے رہنے کی تلقین فرمائی جو آدمی کی شخصیت کو خدا کی نظر میں مجرم بنادیتی ہیں۔
نیز فرمایا کرتے تھے کہ ہر مسلمان پر نبی اکرمﷺ کا اتباع لازم ہے ،اطاعت نبوی کے بغیر کوئی بھی شخص خدا کا تقرب اور ولایت کا مقام حاصل نہیں کرسکتا ،آدمی جب اس بات کی کو شش میں لگ جاتا ہے کہ عبادات کے علاوہ عادات میں بھی وہ نبی اکرم ﷺ کا متبع بنجائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے اعضاء کے ساتھ ساتھ دل پر ایسا گہرا اثر پڑتا ہے کہ جس کی وجہ سے دل اخلاق رذیلہ سے متنفر اور خصائل حمیدہ سے متصف ہوجاتا ہے اور پھر دل میں ایک ایسی روشنی پیدا ہوجاتی ہے جو طاعات ومعصیت میں فرق وامتیاز کرنے لگتی ہے ،عبادات میں مٹھاس معلوم ہوتی ہے ،یاد الٰہی اور ذکر وشغل سے حد درجہ انس پیدا ہوجاتا ہے اور ایک لمحہ کے لئے بھی یاد الٰہی سے غفلت اور اطاعت رسول اکرم ﷺ سے دوری اس پر بجلی بن کر گرنے لگتی ہے چنانچہ اسی طرح کی کیفیت پیدا کرانے کو تزکیہ اور اصلاح نفس کہا جاتا ہے ۔
حضرت ؒ فرماتے تھے کہ نبی اکرم ﷺ نے سب سے پہلے اپنے زیر تربیت اشخاص یعنی حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے نفوس کی اصلاح اور ان کے قلوب کا تزکیہ فرمایا ،آپ ﷺ کی پاکیزہ صحبت اور کامیاب تربیت نے صحابہ ٔ کرام کے ظاہر کے بعد ان کے باطن کو بھی مزکی ،مجّلیٰ اور مصفّی کر دیا تھا ،اسی کا اثر تھا کہ وہ حضرات شیطان کے فتنوں اور نفس کے مکر وفریب سے محفوظ رہے ،یہی وجہ تھی کہ نبی اکرم ﷺ نے ان کے متعلق فرمایا کہ:ان کا ایمان تمام امت کے مومنوںسے زیادہ وزنی ہے ،ان کی اتباع امت پر لازم ہے ،ان کی دورکعت دوسروں کی دولاکھ رکعت سے بڑھ کر ہے ،ان میں اخلاص سب سے زیادہ ہے اور ان سے اللہ راضی ہے اور یہ اللہ سے راضی ہیں،یہ تو نبی اکرم ﷺ کی صحبت بابرکت اور کمال تربیت کا نتیجہ تھا کہ جس نے صحابہ ؓ کو کندن بنادیا تھا اور انہیں اصلاح ِ قلب اور تزکیہ نفس کے سلسلہ میں ریاضات ومجاہدات کی ضرورت نہیں پڑی لیکن مشکوۃ نبوت سے دوری ،خیر القرون سے بُعد اور مادیت کے اختلاط کی وجہ سے بعد والوں کو اس راہ میں ریاضات و مجاہدات سے کام لینا پڑا ،لہذا اسے مستقل فن کی شکل دے کر قرآن وحدیث کی روشنی میں بہت سی کتابیں لکھی گئیں اور تزکیہ نفس و اصلاح قلب کے لئے باضابطہ خانقاہی نظام قائم کیا گیا تاکہ لوگ یہاں آکر تعلیم دین کی طرح اپنے باطن کی اصلاح وتربیت کر سکیں ، فن فقہ کی طرح اس فن کے بھی چار امام زیادہ مشہور ہوئے (۱) حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ (۲) حضرت شیخ شہاب الدین سُہر وردیؒ (۳) حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ اور (۴) حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبندی ؒ،ان حضرات مشائخ سے پہلے اور بعد میں بھی بہت سے مشائخین اپنے اپنے زمانہ اور علاقہ میں ہزاروں نہیں لاکھوں انسانوں کے اسلام لانے اور گمراہی سے راہِ ہدایت پر آنے کا ذریعہ بنے اور ان کی کامیاب دینی جد جہد کے نتیجہ میں بے شمار علاقے نور ایمان سے جگمگا اُٹھے ۔
فرماتے تھے کہ ۔جس طرح اہل علم حضرات طالبوں کو علوم وفنون میں مہارت کی تعلیم دیتے ہیں اسی طرح مشائخین وصوفیہ اپنے زیر تربیت لوگوں کو اخلاق ِحمیدہ اختیارکرنے اور اخلاق رذیلہ سے بچنے کی عملی تربیت دیتے ہیں ،اخلاق فاضلہ: توکل ، صبر ،شکر ،قناعت ،شجاعت،ایثار، حلم ،عفو، تواضع ، احسان،شفقت ،تسلیم ،رضا،امانت ،خوف رجاء،صدق ،اور اخلاص کا نام ہے ،اور اخلاق رذیلہ :بخل،حسد ،غضب ،حقد، حرص ،کذب،ریا،جدال عجب،تکبر ،غیبت،چغلی اور حب جاہ کا نام ہے ، قرآن وحدیث میں اخلاق حسنہ اختیار کرنے اور اخلاق سیئہ سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے ۔
فرماتے تھے کہ حضرات مشائخین طالبان معرفت کو سب سے پہلے ذکر وشغل کے ذریعہ خدا کی یاد کراتے ہوئے اس کی عظمت وکبریائی کا تصور کراتے ہیںاور بتاتے ہیں کہ انسان کی پیدائش کا مقصد خدا کی یاد اور اس کا ذکر ہے ، وہی ذات ہے جو تمام عبادات کے لائق ہے اور وہی ہے جو تمام تر تعریف کا حقدار ہے ،وہ ہمارے ہر عمل سے باخبر ہے اور ہر آن ہم پر نظر رکھے ہوئے ہے ،کوئی چیز اس کی نظر سے پوشیدہ نہیں وہ بڑی قدرت وطاقت کا مالک ہے ، پھر اس کے بعد انسان کی اپنی پہچان کر وائی جاتی ہے کہ وہ کس قدر بے بس اور لاچار ومجبور ہے ،اس کی حیثیت کچھ بھی نہیں ،انانیت ،غرور وتکبر ، بڑائی وبرتری اُسے زیب نہیں دیتی، یہ چیزیں انسان کو شیطان بنا دیتی ہیں اور راہِ حق سے دور کردیتی ہیںدوسری مخلوقات پر اس کی برتری رب کی عبادت واطاعت میں پوشیدہ ہے ،اچھے اوصاف اور اخلاق حمیدہ درحقیقت اس کا جوہر اور اس کا پوشیدہ خزانہ ہے ،دنیا اور دنیا کی زیبائش وآسائش عارضی ہے اس کا اصل ٹھکانہ تو جنت اور وہاں کے محلات وباغات ہیں ،طالبان معرفت اپنی استعداد کے مطابق جیسے جیسے منازل طے کرتے جاتے ہیں ویسے ویسے انہیں مقامات عالیہ نصیب ہوتے جاتے ہیں اور پھر آگے بڑھتے بڑھتے اسے معرفت حق نصیب ہوتی ہے اور درحقیقت یہی اس کی معراج ہے ۔
حضرت قطب دکنؒ نے سر مین دکن ہی میں نہیں بلکہ تقریبا پورے جنوبی ہند میں اکابر کے نہج پر خانقاہی نظام کا احیاء فرماکر لوگوں کو معرفت حق سے جوڑنے کی بھر پور سعی فرمائی ،ساتھ ہی ان تمام چیزوں سے بچانے کی بھی سعی فرماتے رہے جو بد قسمتی سے سلوک و تصوف کے نام پر اس میں جوڑ دی گئی ہیں، آپ ؒ نے ذکر وسلوک کی مجالس کے ذریعہ تعلیمات عرفان کو عام فرمایا،آپ ؒ مجالس ذکر میں اپنے دلنشین عالمانہ ،عارفانہ وناصحانہ وعظ میں ذکر وشغل کی فضیلت و اہمیت بیان فرمایا کرتے تھے ، سنت رسول ﷺ کی عظمت بیان کرکے سامعین کے دلوں کو منور کرتے تھے ، اپنے وعظ میںبدعات وخرافات کی قباحت وشناعت کو اجاگر کرتے تھے اور دنیا کی حقیقت بتاکر انہیں آخرت کی طرف متوجہ کرتے تھے ،آپؒ کی مجلس گویا تعلیمات ِ علم وعرفان کی عظیم درسگاہ تھی جہاں ہر دم طالبان حق کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا تھا ،آپ ؒ کی مجالس میں لوگ پروانوں کی طرح سمٹ کر آیا کرتے تھے اور آپ کے عارفانہ مو اعظ سے فیض یاب ہو کر اپنے قلوب کو محبت الٰہی سے منور کرتے تھے، چونکہ شیخ الاسلامؒ نے اپنی راست نگرانی میں آپ ؒ کی اصلاح و تربیت کی تھی اس لئے آپ کی شخصیت میں انہیں کی جھلک نمایا ںطور پر نظر آتی تھی ، آپ ؒ کو اپنے شیخ کے ذریعہ جس سرعت کے ساتھ باطنی کیفیت وترقی حاصل ہوئی تھی اُس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے ،بس مختصراً یوں کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت ارض دکن ایک ایسے شیخ کامل کی ضرورت تھی جومجاہدات کا عادی ہو ، نورانیت سے بھر پور ہو ، نبض شناس ،عالی ہمت اوربلند حوصلہ ہو ،محبت وشفقت کا پیکر ہو ،جو خانقاہی نظام کے احیاء کا کام جانتا ہو اور طریقت کو شریعت کے تابع بناکر سلوک وتصوف کی خد مت کا فن جانتا ہو ،سو اللہ نے آپؒ کے ذریعہ اُسے پورا فرما دیا، آپ ؒ کو طالبان حق کی تربیت کا ایک خاص ملکہ حاصل تھا جو بھی ایک مرتبہ آپ کی مجلس میں شریک ہوتا تو اُسے آپ سے ایسی انسیت ہوجا تی تھی کہ وہ ہمیشہ کے لئے مجلس کا ممبر بن جاتا تھا ،پھر دھیرے دھیرے اُسے علانیہ محسوس ہونے لگتا کہ اس کے دل کی دنیا بدل رہی ہے ،چنانچہ آپ ؒ نے قوت روحانی ،نور باطنی اور مواعظ حسنہ کے ذریعہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں دلوں کو گرمایا اور ان کے قلوب میں معرفت الٰہی کی شمع روشن کی ،آپ ؒ نے دن ورات ،صبح وشام جہد مسلسل کے ذریعہ دوردور تک لوگوں کی اصلاح وتربیت فرمائی ، آپ ؒ نے تلنگانہ وآندھرا ،مہاراشٹر ا وکرناٹک اور ٹملناڈو بلکہ تقریبا پورے جنوب میں باضابطہ خانقاہی نظام کو جاری وساری فرماکر لاکھوں جسموں میں شریعت کے ساتھ طریقت کی روح بھی پھونک دی ،بے شمار زبانوں کو ذکر الٰہی سے منور اور ان گنت دلوں کو معرفت الٰہی سے معمور فرمادیا ۔
حضرت قطب دکنؒ کو یوں تو تمام اسلامی علوم وفنون پر عبور حاصل تھا مگر آپ ؒ کی شخصیت پر سلوک وتصوف کا رنگ غالب تھا چنانچہ آپ ؒ نے تصنیف وتالیف کے میدان میں بھی اسی موضوع کو منتخب فرمایا ،اگر چہ زمانہ قدیم ہی سے اس موضوع پر بہت سی کتابیں تصنیف وتالیف کی گئی ہیں مگر ان میں سے بیشتر کتابیں ادق ہونے کی وجہ سے قارئین انکے مضامین سمجھ نہیں پاتے، موجودہ دور میں اس موضوع پرسادہ اور عام فہم مضامین وتصنیفات کی اشد ضرورت تھی جو اس موضوع کو سمجھنے کے ساتھ قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرواسکیں ،چنانچہ آپ ؒ نے اکابر کے نہج کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن وحدیث کی روشنی میں نہایت آسان اور بے حد دلنشین انداز میں سلوک واحسان اور شریعت وطریقت کے مضامین کو اس طرح تحریر فرمایا کہ سلوک کا ادنی طالب علم بھی ان کو بڑی آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے ،آپ ؒ نے تصوف کے موضوع پر جملہ دس کتابیں تحریر فرمائی ہیں جن کے نام یہ ہیں فیوضات ِ مدنیہ،حدیث تصوف ،صحبتے با اولیاء،شیخ کامل ،انوار القلوب ،بندہ نوازی تصوف،مضامین تصوف،وضاحت تصوف،رہبر سلوک اور احادیث تصوف ،ان کتابوں میں آخر الذکر کتاب سب سے زیادہ ضخیم ہے ،یہ ۸۲۶صفحات پر مشتمل ہے ،اس میں آپ نے ان احادیث کی تشریح وتوضیح کی ہے جن سے سلوک وتصوف کی اہمیت وضرورت کے ساتھ اولیاء کرام کے اوراد ووظائف اور معمولات کی سند ملتی ہے۔
مادیت ،حرص وہوس اور دین بے زاری کے اس پر آشوب وپر خطر دور میں جہاں انسان عقل وخرد کے نشے میں چور ہوکر مادہ پرستی کے جال میں مقید اور خواہشاتِ نفسانی کا شکار ہو کر دین واخلاق کی تمام حدیں پار کر تے ہوئے شیطانی راہ پر چلنے لگا ہے ، جس کے نتیجہ میں وہ دنیا کی بے ثباتی ا ورآخرت کی حیات ِ جاویداں کی حقیقت کو بھول کرشیطانی ونفسانی مکر وفریب سے ہرلمحہ وہر لحظہ دھوکہ ہی کھاتا جا رہا ہے ، یہ صحابہ وتابعین ،علماء ربانیین اور اولیاء اللہ وبزرگان دین کی نورانی تعلیمات سے دوری کا ہی نتیجہ ہے کہ آج وہ عبادات کی حقیقی لذتوں سے محروم ہو تا جا رہا ہے ، بے سکونی ،بے اطمینانی اور کلفتیں اس کا مقدر بن چکی ہیں ، اگر وہ چاہتا ہے کہ اُسے عبادات میں لذت ولطف آئے ،عبادات میں حضور قلبی حاصل ہو، ہر دم ذکر الٰہی سے زبان تر ہو،دل میں معرفت الٰہی کا دیا روشن ہو ،اعضاء سنت نبویﷺ سے منور ہوں ، دنیا کا غم دور ہوکر قلبِ مطمئنہ کی دولت حاصل ہو تو اسے چاہیے کہ اللہ والوں کی صحبتوںمیں رہ کر اپنے دل کو درست کرے اور ان کی اصلاح و تربیت میں رہ کر اپنے نفس کا تزکیہ وتصفیہ کرے ، علماء واہل طریق کی اصلاحی مجالس سے خوب استفادہ کرے،ان کی صحبت ومعیت کو غنیمت جانے کیونکہ صالحین کی صحبت بھی بڑی کار آمد چیز ہے خودقرآن کریم میں حق گو ،راست باز اور پاکباز لوگوں کے ساتھ رہنے کا حکم دیا گیا ہے ارشاد باری ہے:یا یھا الذین اٰمنوااتقوااللہ وکونوا مع الصٰدقین(التوبہ ۱۱۹)اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچوں کے ساتھ رہو۔ چنانچہ صالحین کی صحبت ومعیت کے متعلق حضرت قطب دکنؒ ایک جگہ لکھتے ہیںکہ’’ صالحین کی صحبت ناکارہ کو بھی کار آمد بنادیتی ہے‘‘ ،بہت سے اہل اللہ کے واقعات شاہد ہیں کہ محض کسی خداپرست اور بزرگ کی صحبت با برکت میں رہنے سے ان کی زندگیوں میں ایسا انقلاب برپا ہوا کہ آگے چل کر وہ ولایت کے اونچے مقام پر فائز ہوگئے، حضرت قطب دکنؒ دور حاضر کو دور پر فتن اور دور حرص وہوس سے تعبیر کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ دور حاضر میںضرورت ہے کہ لوگوں کو مدارس اسلامیہ سے وابستہ کر کے انہیں دینی تعلیم وتربیت سے آراستہ کیا جائے اور انکو خانقاہی نظام سے جوڑ کر ان کی اصلاح وتربیت کی جائے تاکہ ان کے اعمال شریعت کے مطابق ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں اخلاص کی روح آجائے یقینا اسی سے آدمی کو تقرب الٰہی نصیب ہو تا ہے اور دراصل یہی آدمی کی معراج ہے ، حضرت قطب دکنؒ کی صحبت وتربیت میں رہ کر ہزاروں طالبان علوم نبوت نے جہاں اسلامی علوم وفنون میں مہارت حاصل کی وہیں پر ہزاروں کی تعداد میں طالبان راہ طریقت نے اپنے باطن کی اصلاح کی اور ان میں سے سینکڑوں آج اپنے علاقوں میں خانقاہی نظام کے ذریعہ لوگوں کی اصلاح وتربیت میں لگے ہوئے ہیں اور زبان وحال وقال سے کہہ رہے ہیں ؎

کسی اہل دل کی صحبت جو ملی کسی کو اختر ؔ

اُسے آگیا ہے جینا ،اُسے آگیا ہے مرنا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×