اسلامیات

روزہ تربیت ِ نفس کا ربانی نسخہ

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی فطرت میں دومادے رکھے ہیں ایک مادۂ خیر اور مادۂ شر ، مگر انسانی فطرت کا تقاضہ ہے کہ ان دونوں میں ہمیشہ کشمکش لگی رہتی ہے جس وقت خیر پر شر کا غلبہ ہوتا ہے تو انسان پر اس وقت نفسانی خواہشات کا حملہ ہوتا ہے جس سے متاثر ہوکر وہ نفس کا غلام بن جاتا ہے اور خدا کی نافرمانی کرنے لگتا ہے اور جب شر پر خیر غالب آتا ہے تو پھر اس میں ملکوتی صفات پیداہوتی ہیں جن کے اثر سے وہ خیر ، نیکی اور پرہیز گاری کے کام انجام دینے لگتا ہے ، انسان جب تک اپنی زندگی کو اسلامی اصولوں کے مطابق چلاتا ہے ، عملی زندگی کو ربانی احکامات اور نبوی تعلیمات کا عملی جامہ پہنا تا رہتاہے اور دین اسلام کی روشن تعلیمات سے اپنے وجود کو منور رکھتا رہتا ہے تب تک وہ شیطان کے مکر اور نفس کے فریب سے محفوظ رہتا ہے ، اسلامی تعلیمات پر گامزن رہنے کی برکت سے وہ مادۂ شر کی شرارت اور اس کے خیر پر غالب ہونے سے محفوظ ومامون رہتا ہے ۔
قرآن کریم میںمتعدد مقامات پر مسلمانوں کو ربانی احکامات اور شرعی اصولوں پر ثابت قدم رہنے کی تاکید کی گئی ہے اور نفس و شیطان کے مکر و فریب سے بچتے رہنے کی سخت تلقین کی گئی ہے ،ارشاد باری تعالیٰ ہے :یَا أَیُّہَا الَّذِیۡنَ آمَنُوۡا ادۡخُلُوۡا فِیۡ السِّلۡمِ کَآفَّۃً وَلاَ تَتَّبِعُوۡا خُطُوَاتِ الشَّیۡۡطَانِ إِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌٌ (البقرہ ۲۰۸)’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے نقشِ قدم پر مت چلو کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مسلمانوں کو شیطان اور نفس کے دھوکے سے بچنے کیلئے ایک نسخہ بھی بتا دیا ہے وہ یہ کہ مسلمان اپنے دین و ایمان پر ثابت قدم رہیں ،اپنے اللہ پر کامل بھروسہ رکھیں اور ہر کام میں صرف اور صرف احکامات الہی کی پابند ی کریں ،شریعت کے کسی حکم میں اپنی عقل کے گھوڑے نہ دوڑائیں ،زندگی کے ہر معاملہ میں عقل پر نقل یعنی (وحی الہی ) ہی کو ترجیح دیں،اپنے نبی حضرت محمد مصطفی ؐ کے اسوۂ حسنہ پر سختی کے ساتھ عمل پیرا ہوں اور اس کے مقابلہ میں کسی بھی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہ کریں،جو لوگ اس نسخہ کے مطابق زندگی گذار تے ہیں ان پر نہ تو شیطان غلبہ حاصل کرتا ہے اور نہ ہی وہ نفس کے بہکاوے میں آتے ہیں ،قرآن کریم میں ایسے ہی لوگوں کے متعلق کہا گیا ہے إِنَّہُ لَیۡۡسَ لَہُ سُلۡطَانٌ عَلَی الَّذِیۡنَ آمَنُواۡ وَعَلَی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُون إِنَّمَا سُلۡطَانُہُ عَلَی الَّذِیۡنَ یَتَوَلَّوۡنَہُ وَالَّذِیۡنَ ہُم بِہِ مُشۡرِکُون (النحل ۹۹،۱۰۰) اہل ایمان جو اپنے پرور دگار پر کامل بھروسہ رکھتے ہیں شیطان کا ان پر کچھ زور نہیں چلتا بلکہ اس لعین کا زور تو انہی لوگوں پر چلتا ہے جو اسکو اپنا رفیق بنالیتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی دنیوی کا میابی اور اُخروی نجات کا مدار اپنے احکامات اور اپنے نبی ؐکی تعلیمات میں پوشیدہ رکھاہے ،جو مسلمان بندہ آخرت میں اپنے رب کے حضور حساب وکتاب کیلئے کھڑا ہونے سے ڈرتا ہے اُسے چاہئے کہ شیطان کے فریب اور نفسانی خوہشات سے بچتا رہے ،قرآن کریم میں ان ہی لوگوں کیلئے نعمتوںسے بھرے جنت کا وعدہ کیا گیا ہے ،ارشاد ہے :وَبَشِّرِ الَّذِیۡنَ آمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَہُمۡ جَنَّاتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الأَنۡہَارُ (البقرہ ۲۵) جو لوگ ایمان لائے(اور دنیا میںکفر ،شرک اور شیطان کی پیروی سے رُکے رہے) اور نیک عمل کرتے رہے انکو اے نبی ؐ آپ خوشخبری سنادیں کہ انکے لئے نعمت کے باغ ہیں جنکے نیچے نہریں بہ رہی ہیں۔
قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد ہے : وَأَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی فَإِنَّ الۡجَنَّۃَ ہِیَ الۡمَأۡوٰی( النازعات ۴۰ ،۴۱)جو لوگ اپنے رب کے سامنے (حساب وکتاب کیلئے) کھڑے ہونے سے ڈرتے رہے اور اور نفسانی خواہشات سے بچتے رہے تو ایسے لوگوں کا جنت ہی ٹھکا نا ہے ۔
مسلمان جب تک اسلامی تعلیمات پر ثابت قدم رہتا ہے تب تک اللہ تعالیٰ اسکی مدد اور دستگیری فرماتا رہتا ہے اور اسے شیطان کے دھوکہ ونفس کے مکر سے بچائے رکھتا ہے اور جس وقت اس کی گردن سے اسلام کا قلادہ نکل جاتا ہے اور اس کے ہاتھ سے اللہ کی رسی چھوٹ جاتی ہے تو اس پر شیطان اپنا تسلط قائم کرلیتا ہے اور اسکو طرح طرح سے بہکا کر اپنے مکر کے جال میں پھانس کر گناہوں کے دلدل میں ڈھکیل دیتا ہے ،اسی لئے قرآن میں جابجا شیطان اور نفس سے چوکنا رہنے کا حکم دیا گیا ہے ارشاد باری ہے إِنَّ الشَّیۡۡطَانَ لَکُمۡ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوۡہُ عَدُوًّا (الفاطر ۶) ’’شیطان تمہارا دشمن ہے تم بھی اسکو اپنا دشمن ہی سمجھو ‘‘۔ اِنَّمَا یُرِیۡدُ الشَّیۡۡطَانُ أَنۡ یُّوقِعَ بَیۡۡنَکُمُ الۡعَدَاوَۃَ وَالۡبَغۡضَائَ فِیۡ الۡخَمۡرِ وَالۡمَیۡۡسِرِ وَیَصُدَّکُمۡ عَن ذِکۡرِ اللّٰہِ وَعَنِ الصَّلاَۃِ(المائدہ ۹۰) شیطان تو چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ تم میں دشمنی اور رنجش پیدا کردے اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے ۔اسی طرح نفس کے متعلق باری تعالیٰ کا ارشادہے :قَدۡ أَفۡلَحَ مَنۡ زَکَّاہَا وَقَدۡ خَابَ مَنۡ دَسَّاہَا(الشمس ۹،۱۰) ’’جس نے اپنے نفس کو (برائی اور گناہ کی نحوست سے) پاک رکھا وہ کامیاب ہوگیا اور جس نے اُسے خاک میں ملایا (یعنی اُسے یوں ہی چھوڑ دیا اس کے مکر سے بے خبر رہا )وہ خسارے میں رہ گیا،نفس کے مکر وفریب کے متعلق حضرت یوسفؑ کا قول قرآن کریم میں کچھ اس طرح مذکور ہے: وَمَا أُبَرِّئُ نَفۡسِیۡ إِنَّ النَّفۡسَ لأَمَّارَۃٌ بِالسُّوء ِ (یوسف ۵۳) میں اپنے کو پاک صاف نہیں کہتا کیونکہ نفس (امارہ انسان کو) بُرائی ہی سکھا تا رہتا ہے۔
انسان خواہش نفس ہی کی وجہ سے ناانصافی ،ظلم وستم ،حرام خوری،بد دیانتی ،بداخلاقی اور دیگر جرائم کا مرتکب ہوتا ہے چنانچہ مسلمانوں کو تعلیم دی گئی ہے کہ محض خواہش نفس کی وجہ سے انصاف کے ترازو کو ناانصافی کی طرف جھکا نہ دینا ،عدل وانصاف کا ہر حال میں لحاظ ہو نا چا ہئے اگر چہ وہ رشتے دار اور والدین ہی کیوں نہ ہوں ،ارشاد باری تعالیٰ ہے: یَا أَیُّہَا الَّذِیۡنَ آمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوَّامِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَائَ لِلّٰہِ وَلَوۡ عَلَی أَنفُسِکُمۡ أَوِ الۡوَالِدَیۡۡنِ وَالأَقۡرَبِیۡنَ إِن یَکُنۡ غَنِیّاً أَوۡ فَقَیۡراً فَاللّہُ أَوۡلَی بِہِمَا فَلاَ تَتَّبِعُواۡ الۡہَوَی أَن تَعۡدِلُواۡ (النساء ۱۳۵) اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور اللہ کیلئے سچی گوہی دو خواہ اس میں تمہارا یا تمہارے ماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی کیوں نہ ہو اگر کوئی امیر ہے یا غریب تو اللہ انکا خیر خواہ ہے ،تو تم خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل وانصاف کو نہ چھوڑ دینا،نفسانی خواہشات انسان کیلئے آستین کے سانپ کی مانند ہیں ،یہ وہ زہر ہے جس کے اثر سے پورا وجود ہی زہر آلود ہوجاتا ہے اور یہ ایسا بت ہے کہ جسکی اتباع انسان کو ہلا ک وبرباد کر دیتی ہے چنانچہ قرآن کریم میں خواہش نفس کو بت سے تعبیر کیا گیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے : أَرَأَیۡۡتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَہَہُ ہَوَاہُ أَفَأَنتَ تَکُونُ عَلَیۡۡہِ وَکِیۡلاً(الفرقان۴۲)کیا تم نے اس شخص کو دیکھا نہیں جس نے خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے تو کیا تم اس پر نگہبان ہو سکتے ہو ، مذکورہ آیات میں بڑی شدت کے ساتھ شیطان کے گمراہ کرنے اور نفس کے دھوکہ دینے سے بچنے اور چوکنا وہوشیار رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔
حضرت شداد بن اوس ؓ کی روایت ہے جس میں رسول اللہ ؐ نے اس شخص کو ہوشیار اور چالاک بتایا ہے جو کہ نفس امارہ کی چالوں سے اپنے آپ کو بچائے رکھتا ہے،ارشاد فرمایا :چالاک اور ہوشیار وہ شخص ہے جس نے اپنے نفس ِ امارہ کو قابو میں رکھا (اور دنیا کی طرف نہیں کھنچا) اور موت کے بعد آنے والی زندگی کیلئے عمل کرتا رہا اور نادان ہے وہ شخص جس نے (نفس ِ امارہ کے پیچھے چل کر) اپنے کو دنیا کی محبت کا دلدادہ بنالیا اوراللہ تعالیٰ سے غلط توقع رکھی(ترمذی) ، یقینااس قدر صاف اور کھلی وضاحت کے بعد ایک مسلمان کو ہروقت ان دشمنوں سے چوکنا اورہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ، اگر ان سے ذرا سی غفلت اور بے توجہی کی گئی تو یاد رکھنا چاہئے کہ اس کے وبال سے انسان دنیا میں رحمت الہی سے محروم اور آخرت میں عذاب ِ الیم کا مستحق بن جاتا ہے ، اللہ تعالیٰ کا کس قدر احسان عظیم ہے کہ اُس نے ان دشمنوں سے نہ صرف آگاہ کیا بلکہ ان سے بچنے کی تدبیر اور ترکیب بھی سکھلائی ۔
یقینا ماہِ رمضان المبارک شیطانی اور نفسانی خواہشات کو قابو میں کرنے کا وہ بے مثال ربانی نسخہ ہے کہ جس کے ذریعہ شیطان کے کارندوں کو مغلوب اور نفس کو پاک کیا جاسکتاہے ، کیونکہ رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ سرکش اور بدمعاش قسم کے شیاطین کو مقید فرمادیتے ہیں تاکہ وہ بندوں کو خدا کی عبادت واطاعت سے غافل نہ کر سکیں ، اس ماہ ِ مبارک میں مسلمانوں پر روزے فرض کئے گئے ہیں تا کہ بندے ان کے ذریعہ اپنے نفس کا تزکیہ کرسکیں ، اس مجاہدہ کا روزہ دار پر یہ اثر ہوتا ہے کہ اس کی نفسانی وشہوانی خواہشات پر لگام لگ جاتی ہے اور پھر پورے مہینہ مجاہدہ کرنے کی وجہ سے اس کا نفس اعتدال پر آجاتا ہے ،خودرسول اللہ ؐنے روزوں کو نفسانی خواہشات کے دبانے اور اسے لگام دینے کا ذریعہ بتا یا ہے چنانچہ آپ ؐ نے ان نوجوانوں کو جو نکاح کے بعد کی ذمہ داریوں کے اُٹھا نے کی قوت نہیں رکھتے انہیں روزہ رکھنے کا حکم دیا ، آپ ؐ نے آگے روزہ کی خوبی وخاصیت بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’فانہ لہ وجاء(بخاری)کہ روزہ شہوت کو توڑ نے میں مدد گار ومعاون ہوتا ہے ‘‘ ۔
روزے کے ذریعہ روزہ دار کو جہاں شہوانی قوت پر قابو پانی کی تربیت دی گئی ہے وہیں اُسے جائز چیزوں کے استعمال سے روک کر اس بات کی تعلیم دی گئی ہے کہ جس طرح بحالت روزہ بحکم خداوندی حلال وجائز چیزوں کے استعمال سے روکا گیا ہے تو ٹھیک اسی طرح وہ چیزیں جو اصلاً ناجائز اور حرام ہیں ان سے رکنا اور دور رہنا بدرجہ اولیٰ ضروری ہے۔
حکیم الامت حضرت تھانوی ؒ ر وزہ کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ روزہ کی ہیئت کا تصور ہی معاصی یعنی گناہ سے روکتا ہے ،کسی کو اگر عقل سلیم ہو تو روزہ کی حقیقت میں غور کرے کہ یہ کیا ہے؟ ،روزہ کی حقیقت نہ کھانا ،نہ پینا اور نہ ہی بیوی سے مشغول ہونا یعنی خواہش نفس میں نہ پڑنا ہے ،اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ چیزیں حلال تھیں جب یہ حرام کردی گئیں تو جو چیزیں پہلے سے ہی حرام ہیں ان کا کیا درجہ ہوگا ‘‘ اللہ تعالیٰ حکیم الامتؒ کی قبر پر رحمتوں کی بارش برسائے ، آپ ؒ نے بڑی عمدہ مثال دے کر سمجھایا ہے کہ فی نفسہ جائز اور مباح چیزوں میں نفس کی مخالفت سے کس طرح ناجائز اور حرام چیزوں سے نفس کو بچانا آسان ہوجاتا ہے فرماتے ہیں’’ محرمات میں تو نفس کی مخالفت واجب ہی ہے اور اصل مجاہدہ یہ ہے کہ آدمی مباحات میں نفس کی مخالفت کرے کیونکہ جب نفس کو مباحات سے روکا جائے گا تو اس وقت اسے محرمات سے بچانا آسان ہوجائے گا‘‘ یہی معاملہ جائز اور مباحات کا بھی ہے کہ آدمی اُسی وقت ناجائز چیزوں سے بچ سکتا ہے جب کہ وہ مباحات یعنی جائز چیزوں میں نفس کی مخالفت کرے‘‘(ملفوظات حکیم الامتؒ) ،رمضان المبارک میں بھی روزہ دار کو مباحات سے روک کر اس میں محرمات سے بچنے کی قوت پیدا کی جاتی ہے اور یہ اس میں کامیاب ہوجاتا ہے تو پھر اس کے لئے زند گی بھر محرمات اور ناجائز چیزوں سے بچنا انتہائی آسان اور سہل ہوجاتا ہے ،حقیقت یہ ہے کہ روزہ نفس و شیطان کے مکرو فریب سے بچنے کا نہایت جامع ترین رحمانی وربانی نسخہ ہے ،یہ وہ عظیم تر اور مجرب ترین نسخۂ اکسیر ہے کہ جسکے اپنانے سے تمام روزے دار مومن بندے ہمیشہ شیطان اور نفس کے دھوکہ اور فریب سے بچ کر نکلنے میں کا میاب ہوتے رہیں گے ، شیطان ان کو دھوکہ نہ دے سکے گا نہ انکے آگے سے، نہ پیچھے سے ، نہ دائیں اور نہ بائیں سے اور ان شاء اللہ روزے دار وں کا شمار متقیوں میں ہوگا اور انہیں کل قیامت میں ’’ باب الریّان‘‘ کے ذریعہ جنت میں داخلہ نصیب ہو گا ۔
٭٭٭٭٭٭٭

muftifarooqui@gmail.com

9849270160

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×