اسلامیات

’’زائرین مدینہ کی خدمت میں‘‘ روشن ہے مرے خواب کی دنیا مرے آگے

مکہ ٔ معظمہ رسول اللہ ؐ کی جائے پیدائش ہے تو مدینہ منورہ آپ ؐ کی جائے ہجرت ہے ، رسول اللہ ؐ نے پیدائش سے لے کر نبوت سے سرفراز کئے جانے کے تیرہ سال بعد تک مکہ ٔ معظمہ میں قیام فرمایا اور اس کے بعد بحکم خداوندی ہجرت فرما کر مدینہ منورہ کو دس سال تک اپنے قیام سے زینت بخشی اور وفات کے بعداسی شہر میں مدفون ہوکر اس کو قابل رشک بنادیا، مدینہ منورہ کی عظمت وبزرگی کے لئے بس اتنا کافی ہے کہ خدا نے اپنے محبوب ؐ کو اس کی طرف ہجرت کرنے اور اسے جائے اقامت بنانے کا حکم فرمایا ، مکہ ٔ معظمہ کے لئے ابوالانبیاء سیدنا ابراہیم ؑ نے دعا فرمائی تھی جس کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے تو مدینہ منورہ کے لئے امام الانبیاء سیدنا محمد مصطفی ؐ نے دعا فرمائی ہے جس کا ذکر متعدد ،مستند احادیث میں موجود ہے ، آپ ؐ نے مدینہ منورہ کے لئے جو دعامانگی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں : الہم بارک لنا فی ثمرنا وبارک لنا فی مدینتنا وبارک لنا فی صاعنا وبارک لنا فی مدنا،الہم ان ابراہیم عبدک وخلیلک ونبیک وانی عبدک ونبیک وانہ دعاک لمکۃ وانا ادعو ک للمدینۃ بمثل مادعاک لمکۃ ومثلہ معہ ( مسلم :۴۴۲) ’’ اے اللہ برکت عطا فرما ہمارے شہر مدینہ میں ،ہمارے (مدینہ کے) پیمانوں میں،اے اللہ یقینا حضرت ابراہیم ؑ تیرے بندے تیرے خلیل تیرے نبی تھے اور بے شک میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں ،حضرت ابراہیم ؑ نے مکہ کے لئے دعا مانگی تھی اور میں مدینہ کے لئے ویسی ہی اور اس کے مثل دعا مانگتا ہوں جیسی کہ انہوں نے مکہ کے لئے مانگی تھی ‘‘،ایک دوسری حدیث میں آپ ؐ نے مدینہ کے لئے دوگنی برکت کی دعا ان الفاظ میں فرمائی ہے:الہم اجعل بالمدینۃ ضعفی ماجعلتہ بمکۃ بالبرکۃ(بخاری: ۱؍ ۴۴۲) ’’اے اللہ !آپ مدینہ میں اس برکت کا دوگنا عطا فرمائے جو آپ نے مکہ معظمہ کے لئے مقرر فرمائی ہے‘‘،مدینہ منورہ کے چاروں سمت برکت ہی برکت اور رحمت ہی رحمت ہے جس کا ہر آن کھلی آنکھ سے مشاہدہ کیا جاسکتا ہے ،مدینہ منورہ اسلام کا مرکز ، علم کا منبع اور اس کا سر چشمہ ہے جو قیامت تک رہے گا، ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اسلام سمٹ جائے گا مگر مدینہ منورہ میں بدستور اسلام کا غلبہ وایمان سلامت رہے گا ،آپ ؐ نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ: ان الایمان لیارز الی المدینۃ کما تارز الحیۃ الی جحرھا (مسلم: ۱؍ ۱۳۱)’’ (قرب قیامت میں) ایمان اسی طرح مدینہ کی طرف لوٹ آئے گا جیسا کہ سانپ اپنے سوراخ کی طرف لوٹتا ہے‘‘۔
مدینہ منورہ کا ذرہ ذرہ رحمت الٰہی سے معطر ہے ،یہاں کے ذرہ ذرہ میں خوشبو ہی خوشبو ہے،ہر لمحہ سکون ہی سکون ہے ،مدینہ منورہ کی دلکشی اور اس کی خوبصورتی عاشق کو مست کر دیتی ہے ،وہ ہر وقت اسے میں کھویا رہتا ہے ،وہ تصور کی دنیا میں جب چودہ صدی قبل قدم اس شہر مقدس میں رکھتا ہے اور اس کے معطر گلیوں کی سیر کرتا ہے تو اسے وہ لطف حاصل ہوتا ہے جو دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں کو عیش وعشرت کے بعد بھی حاصل نہیں ہوتا ،تصور کی آنکھ سے جس وقت وہ مدینہ کی سر حدوں پر نظر ڈالتا ہے تو اسے مبارک ومسعود نظر نہ آنے والی مخلوق کا پہرہ دکھائی دیتا ہے ،فرشتے مدینہ کا حصار کئے ہوئے ہیں ،مجال ہے کہ دجال اس طرف کا رخ کرے اور وبائی امراض یہاں بسیرا کرے،آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ: علی انقاب المدینۃ ملائکۃ لا ید خلھا الطاعون ولا الدجال (بخاری: ۱؍۲۵۲)’’مدینہ منورہ کے داخلہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں ،نہ یہاں طاعون پھیلے گا اور نہ ہی دجال داخل ہو سکے گا‘‘، اہل ایمان کے لئے مدینہ منورہ کا قیام باعث سعادت بلکہ باعث رشک ہے ،خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں دیار نبی ؐ کی حاضری کاشرف حاصل ہوتاہے ،انہیں روضہ اطہر کی زیارت ،مسجد نبوی کی عبادت اور مقامات مقدسہ کے مشاہدہ کا موقع نصیب ہوتا ہے، باد صبا انہیں مرحبا کہتی ہیں تو شام میں ستارے مسکراکر مبارک باد دیتے ہیں ، ان خوش نصیبوں کو اُن گلیوں سے گزرنے کا موقع ملتا ہے جہاں کا ذرہ ذرہ آج بھی نبیؐ اور اصحاب نبی ؐ کے خاک پا کی خوشبوؤں سے معطر ہے ،ان گلیوں سے گزر نے والا جب چودہ صدی پیچھے خیالات کی دنیا میں گم ہوجاتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے ابھی ابھی یہاں سے سروردوعالم ؐ اپنے اصحاب کے ساتھ گزرے تھے ، سر دار انبیاء ؐ کے ساتھ ابوبکر ؓ وعمرؓ ،عثمانؓ وعلیؓ اور دیگر ساتھی ساتھ ساتھ چل رہے تھے اور راستہ کے دونوں جانب فرشتے قطار لگائے اس حسین منظر کو نگاہ شوق سے دیکھ رہے تھے اور رحمتوں کے پھول برسا رہے تھے ۔
زائرین مدینہ منورہ کے لئے قیام مدینہ منورہ اور یہاں کے مقامات کی زیارت بہت بڑی سعادت اور خوش نصیبی کی بات ہے، زائرین کو چاہیے کہ وہ زبان سر اور زبان دل دونوں ہی سے خدا کا شکر ادا کرے اور اس کے دربار میں اپنی جبین ٹیک کر اس کا شکر بجالائیں ،جتنے دن قیام کا موقع ملے ہر دن ،ہر گھنٹہ بلکہ ہر لمحہ کو غنیمت جان کر محبت میں ڈوب کر عبادت وذکر واذکار اور کثرت سے درود شریف کا ورد کرتا رہے،دوران قیام آرام وسہولیات میں کمی بیشی پر بالکل توجہ نہ دیں ،بلکہ اگر کچھ تکلیف ہوجائے یا کچھ مشقت اٹھا نا پڑے تو اس پر صبر وضبط کا مظاہرہ کرے ،کیونکہ یہ مقام ادب ہے یہاں اظہار تکلیف منع ہے ،یہ مقام غلام کی چاہتوں کا مرکز ہے ،شکوہ وشکایت محبت ناقص کی علامت ہے ،جو شخص قیام مدینہ منورہ میں تنگیوں اور دشواریوں پر صبر وتحمل کا مظاہرہ کرتا ہے تو ایسے شخص کے لئے آپ ؐ نے شفاعت اور گواہی کی بشارت سنائی ہے ، آپ ؐ نے ارشاد فرمایا’’میراجو بھی امتی مدینہ منورہ میں قیام کے دوران تکلیفوں اور مشقتوں پر صبر کرے گا تو میں قیامت کے دن اس کے لئے سفارشی بنوں گا ،اور ایک روایت میں ہے کہ میں اس کے حق میں (ایمان کی) گواہی دوں گا،جو شخص یہاں کی تکلیفوں پر بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہے اور شکایت سے اپنی زبان درازکرتا ہے تو وہ رحمت الٰہی سے دور اور مدینہ کی برکتوں سے محروم ہوجاتا ہے،بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ کسی زائر مدینہ نے کسی سے یہاں کے ’’دہی‘‘ کے کھٹے ہونے کی شکایت کی تھی تو رات خواب میں نبی ؐ تشریف لائے اور اس شکایت کرنے والے سے ناراض ہوکر فرمایا کہ’’ اگر تم کو مدینہ کا دہی کھٹا معلوم ہوتا ہے تو یہاں سے چلے جاؤ‘‘ ، یقینا مدینہ جائے ادب ہے اس لئے جتنے دن یہاں قیام ہو باادب ہوکر گزارنا چاہیے۔
مدینہ منورہ میں قیام جس طرح باعث برکت اور عظیم سعادت ہے اسی طرح یہاں کی موت بھی باعث فضیلت اور قابل رشک ہے ،رسول اللہ ؐ نے یہاں مرنے والے کے لئے اپنی سفارش کی خوشخبری دی ہے ،ارشاد فرمایا’’جو شخص مدینہ منورہ میں وفات پانے کی استطاعت رکھے اسے یہاں کی موت (حاصل) کرنی چاہئے ،کیونکہ میں یہاں مرنے والے کی سفارش کروں گا(ترمذی:۲؍۲۲۹)، آدمی کے لئے اگر یہاں کا طویل قیام مسیر ہو جائے تو ضرور اسے قیام کرنا چاہئے اور اگر اسی حالت میں اس کا وقت وفات آجائے تو یہ بڑی سعادت کی بات ہوگی کہ اس کے جسد خاکی کو مدینہ کی خاک نصیب ہوگی اور قیامت کے دن یہی سے اٹھایا جائے گا اور ان خوش نصیبوں میں اس کا شمار ہوگا جن کی سفارش کا رسول اللہ ؐ نے وعدہ فرمایا ہے ۔
مدینہ منورہ وہ شہر ہے جہاں نبی ؐ کی تعمیر کردہ مسجد ہے اور اسی میں آپ ؐ کا روضہ ہے جہاں ہر آن رحمتوں کی بارشیں برستی رہتی ہیں،تجلیات ربانی کا ظہور ہوتا رہتا ہے اور انوار وبرکات کا لامحدود سلسلہ ہر لحظہ جاری رہتا ہے ، مسجدحرام کے بعد دنیا کی یہ دوسری مسجد ہے جہاں پر ایک ہزار نماز کا ثواب ملتا ہے اور ایک حدیث میں پچاس ہزار نمازنوں کے ثواب ملنے کا ذکر ہے ، ایک حدیث میں مسجد نبوی میں مسلسل چالیس نمازیں پڑھنے والے کے لئے جہنم سے خلاصی ،عذاب سے نجات اور نفاق سے برأت کا پروانہ دیا گیا ہے ، ران قیام مسجد نبویؐ میں تکبیر اولیٰ کے ساتھ پنجوقتہ نمازیں ادا کرنے کا اہتمام کریں ،ویسے تو حدود حرم نبوی کا پورا حصہ بابرکت ہے لیکن اس میں مسجد نبوی کا حصہ زیادہ فضیلت رکھتا ہے ،اس لئے زیادہ تر اور بالخصوص اوقات نماز کچھ دیر پہلے اور کچھ دیر بعد تک ٹہر نے کا اہتمام کریں اور دوران قیام نفلی اعتکاف کی نیت کریں ، مسجد نبوی ؐ کا سب سے اہم حصہ ’’ریاض الجنہ‘‘ ہے جو روضہ اقدس اور منبر نبویؐ کے درمیان میں واقع ہے،اس کا کل رقبہ ۵؍۳۹۷ مربع میٹرہے،ریاض الجنہ کے متعلق رسول اللہ ؐ کا ارشاد ہے کہ ’’میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے(بخاری شریف:۱؍۱۵۹)اس ٹکڑے کے متعلق دو قول مشہور ہیں ایک یہ کہ زمین کا یہ ٹکڑا بعینیہ جنت میں چلا جائے گا دوسرے اس حصہ میں عبادت کرنے والوں کو آخرت میں جنت کے باغات نصیب ہوں گے ،ریاض الجنہ میں جملہ سات ستون ہیں جن کے نام یہ ہیں’’ اسطوانۂ حنانہ،اسطوانۂ ابولبابہ،اسطوانۂ وفود،اسطوانۂ حرس،اسطوانۂ جبرئیل،اسطوانۂ سریر،اسطوانۂ عائشہ‘‘،ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اس ساتیوں ستون کے کے باے میں فرماتی ہیں کہ یہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں اور توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول کی جاتی ہے ،اگر سہولت سے موقع ملے تو یہاں آکر کچھ وقت عبادات اور دعاوں میں گزارنا چاہیے ،جس وقت زائر کی نگاہ گنبد خضریٰ پر نظر پڑتی ہے یا مواجہہ شریف کی طرف قدم بڑھتے ہیں اور روضہ اطہر کی جالیاں دکھائی دیتی ہیں تو اس وقت کی جو کیفیت ہے اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ، دل کی حالت بدل جاتی ہے،فرط محبت میںآنکھیں نم اور غایت احترام میں پلکیں جھک جاتی ہیں اور زائرکبھی اپنے اور کبھی روضہ اطہر کی جانب دیکھتا ہے اور خدا کی رحمت ،نبی کی چاہت اور اپنے نصیب پر ناز کرتا ہے کہ گناہگار ہونے کے باوجود حاضری کا موقع نصیب ہوا ہے ، روضہ اطہر کی جالی میں تین پیتل کے دائرہ بنے ہوئے ہیں ،سب سے بڑا آپ ؐ کا موجہ شریف ،دوسرا خلیفہ ٔ اول سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور تیسرا خلیفہ ٔ دوم سیدنا عمر فاروقؓ کا مواجہہ شریف ہے ،یہاں بڑے دائرہ پر آئیں اور قبلہ کی طرف پشت اور روضہ اطہر کی طرف رخ کریں اور نہایت ادب واحترام کے ساتھ کھڑے ہوں اور تصور کریں کہ ہم عاجز وعاصی اپنے نبی کے سامنے حاضر ہیں ،نہایت ادب کے ساتھ سلام عرض کریں کیونکہ رسوال اللہؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ جو کوئی مجھ پر سلام بھیجے تو اللہ تعالیٰ میری روح کو مجھ پر لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں‘‘(مسند احمد)، نمازوں سے پہلے اور بعد زیارت کا موقع دیا جاتا ہے مگر راقم کی نظر میں نماز تہجد کا وقت زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس وقت زائرین کی تعداد کچھ کم ہوتی ہے جس کی وجہ سے کچھ دیر توقف کا موقع مل جاتا ہے ،جب تک روضہ اطہر کے قریب نہ پہنچ جائیں درود شریف کا ورد کرتے رہیں اور جب مواجہہ شریف کے مقابل میں آجائیں تو ان الفاظ کے ساتھ سلام عرض کریں ’’ الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ ( اے اللہ کے رسول ؐ آپ پر درود وسلام )الصلاۃ والسلام علیک یا حبیب اللہ (اے اللہ کے حبیب ؐ آپ پر صلاۃ وسلام)الصلاۃ والسلام علیک یا خیر خلق اللہ ( اے افضل الخلق آپ پر صلاۃ وسلام) ، پھر ایک قدم دائیں جانب ہٹ کر خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبرؓ کی خدمت میں سلام عرض کریں ’’السلام علیک یا خلیفۃ رسول اللہ ،السلام علیک یاصاحب رسول اللہ ‘‘،اس کے بعد مزید ایک قدم ہٹ کر خلیفہ دوم سیدنا فاروق اعظم ؓ کی خدمت میں سلام عرض کریں ’’ السلام علیک یا امیر المؤمنین ،السلام علیک یا عز الاسلام والمسلمین‘‘ ، اس کے بعد اگر موقع مل جائے تو دوبارہ مواجہہ شریف کے سامنے آئیں اور خوب تضرع کے ساتھ رسول اللہ ؐ کے وسیلے سے اپنی ،اپنے اہل خانہ ،متعلقین اور مسلمانان عام کی مغفرت ، اسلام کی سر بلندی اور دنیا وآخرت کی کامیابی کی دعائیں کریں بلکہ جب تک مدینہ منورہ میں قیام رہے زیادہ سے زیادہ زیارت کرتے رہیں اور سلام پیش کرتے رہیں۔
مسجد نبوی کے بعد مسجد قبا ایسی مسجد ہے جسے بڑی فضیلت حاصل ہے ،یہی وہ مسجد ہے جس کی تاسیس پہلے ہی دن سے تقویٰ کی بنیاد پر ہوئی ہے، رسول اللہ ؐ کے قول وفعل سے ایسی حدیثیں وارد ہیں جو مسجد قبا میں نماز کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں’’ فعلی حدیث ‘‘ ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ : رسول اللہ ؐ ہر سنیچر (ہفتہ) کو کبھی پیدل اور کبھی سوار ہوکر مسجد قبا آتے تھے اور اس میں دورکعت نماز پڑھتے تھے(بخاری) ،’’قولی حدیث‘‘ سہل بن حنیفؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا : من تطہر فی بیتہ ثم أتی مسجد قباء فصلی فیہ صلاۃ کان لہ أجر عمرۃ(ابن ماجہ:۱۴۱۲)’’جس نے اپنے گھر میں وضو کیا،پھر مسجد قبا آیااور اس میں کوئی نماز پڑھی تو اس کے لئے ایک عمرہ کا ثواب ہے‘‘ ، اس لئے زائر مدینہ کو چاہیے کہ وہ اہتمام کے ساتھ باوضو ہوکر مسجد قبا جائے اور نماز ادا کرکے عمرہ کا ثواب حاصل کر لے ،اسی حدیث کے پیش نظر علماء کرام فرماتے ہیں کہ ایک عمرہ مکہ میں ہے اور دوسرا مدینہ میں ہے ،زائرین سے گزارش ہے کہ دوران قیام ِ مدینہ منورہ مذکورہ افعال واعمال کے علاوہ چند چیزوں کا خاص خیال رکھیں ،٭قیام مدینہ اور زیارت نبویؐ ایک عظیم نعمت ہے اس پر شکر بجالاتے رہیں اور دوران قیام بھر پور محبت کا مظاہرہ کریں ،خود رسول اللہ ؐ کسی سفر سے واپس لوٹتے اور مدینہ کی دیواروں کو دیکھتے تو فرط محبت میں اپنی سواری کو تیز کر دیتے تھے ،٭دوران قیام فرائض وواجبات کے علاوہ سنن ونوافل کی پابندی کریں اور ہر لمحہ اطاعت کے ساتھ گزاریں ،٭اس بات کا خیال رکھے کہ یہاں آخرت کی تجارت کا بڑا حاصل ہے اس لئے خوب سے خوب عبادت وریاضت کرتے ہوئے اپنی نیکیوں میں اضافہ کریں ،٭یہ وہ شہر ہے جہاں سے پوری دنیا کو مصلحین ملے ہیں اور صرف انہیں دیکھ کر اور ان کے اخلاق سے متاثر ہوکر لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا اور ان کے غلام بن گئے تھے ،لہذا صحابہ ؓ اور تابعین ؒ کی سیرت ،ان کے اخلاق اور دین کے سلسلہ میں ان جیسی فکر اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں ،یقینا جس طرح نیک لوگوں کی صحبت اور ان کی زندگی کے حالات پڑھنے سے دل کی کیفیت تبدیل ہوتی ہے اسی طرح ان کے جائے قیام کو بھی دیکھ کر ان کی مبارک زندگیوں کی یاد تازہ ہوتی ہے اور دل نیکی کی طرف مائل ہوتا ہے،٭یہ وہ مقدس زمین ہے جہاں اچھے عمل پر بے شمار انعامات کا وعدہ ہے وہیں گناہ پر سخت سزا کی وعید بھی سنائی گئی ہے اس لئے باادب ہوکر اور بڑے احتیاط سے اوقات گزاریں ،گناہ صغیرہ ہی نہیں بلکہ غیر مستحب عمل سے بھی پرہیز کریں ٭دوران قیام کسی بھی درخت کے کاٹنے سے یا جانور اور پرندوں کے شکار سے احتراز کریں ٭ آپس میں ایک دوسرے کے احترام کو ملحوظ رکھیں ،کسی کو ایذا وتکلیف نہ پہنچائیں اور خاص کر باشندگان مدینہ کو کسی بھی قسم کی تکلیف پہنچنے سے بچنے کی بھر پور کوشش کریں ، ٭ مقدس سرزمین پر جتنے دن رہیں اپنے لئے ،اپنے اہل خانہ ،عزیز واقارب ،دوست احباب اور پوری امت مسلمہ کے لئے دعائیں کرتے رہیں اور التجا ہے کہ اس خاک سار کو بھی ہر دعا میں ضرور شامل رکھیں ،یقینا زیارت حرمین شریفین کے لئے ہر مومن کی آنکھیں ترستی ہیں ،ہر صاحب ایمان کی دلی تمنا ہوتی ہے اور ہر مسلمان اس کا خواب دیکھتا ہے مگر زائرین آپ وہ خوش نصیب ہیں جو اپنی آنکھوں سے تعبیر دیکھ رہے ہیں ؎
روشن ہے مرے خواب کی دنیا مرے آگے
تعبیر بنا گنبد خضریٰ مرے آگے
٭٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×