سیرت و تاریخ

نبی رحمت ﷺ کا پیام رحمت

نبی ٔ رحمت ؐ کی بعثت سے قبل صرف بلاد عرب ہی نہیں بلکہ پوری دنیا ظلمت کدہ میں تبدل ہو چکی تھی ،ہر طرف کفر وشرک، قتل وغارت گری ،لوٹ مار ،ظلم وستم،بے حیائی وبے شرمی ،شراب وکباب ،دھوکہ وفریب اور بد اخلاقی وبد امنی کا دور دورہ تھا، لڑکیوں کی پیدائش کو معیوب سمجھا جاتا تھا ،انہیں پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا، آپسی عداوتیں عروج پر تھیں ،معمولی اختلاف پر برسوں جنگ کیا کرتے تھے ، طاقتور کمزور پر ظلم کرتا تھا،مالدار غریب پر حکومت کرتا تھا،انسان بیچے خریدے جاتے تھے اور انہیں غلام باندی بناکر رکھاجاتا، ہر سُو ابلیسی اور طاغوطی لشکر دندناتے پھر رہے تھے ، انسان انسانیت کی سطح سے نیچے گر چکا تھا،ان حالات وکیفیات کو دیکھ کر زمانہ انگشت بدنداں تھا ،انسانیت نوحہ کناں اور ماتم زدہ تھی ،، مؤرخین نے اس زمانہ کو دور جاہلیت کا نام دیا ہے، ان حالات میں اللہ نے اانسانوں پر فضل وکرم فرمایا اور ا نسانوں کی رہنمائی و رہبری اور ان کی ہدایت وسرفرازی کے لئے محسنِ انسانیت، رحمت عالم ،خاتم الانبیاء والمرسلین ،محبوب رب العالمین حضرت محمد مصطفی ﷺ کو سارے عالم اور قیامت تک کے لئے آخری رسول بناکر مبعوث فرمایا ،آپ ؐ کی تشریف آوری کیا تھی گویا پوری انسانیت کے لئے آبِ رحمت تھی ، ظلمتیں کافور ہوئیں ،ہر سمت اُجالا ہو گیا ، معبودان باطل منہ کے بل گرپڑے، توحید کا عَلم بلند ہوا، کفر وشرک کا تلسمی ٹوٹ گیا ،توحید ورسالت جلوہ گر ہوا،ظلم وستم کے بادل چھٹ گئے ، عدل وانصاف کی رم جھم بارش برسنے لگی ، بے حائی وبے شرمی بھاگ کھڑی ہوئی ، شرم و حیا نے اپنی چادر تان لی، دم توڑ تی ہوئی انسانیت کو آکسیجن ملا، اسے حیات نو حاصل ہوئی اور انسانیت نے چین وسکون کی سانس لی،نبی ٔ رحمتﷺ نے دنیا کو خدائی احکام و فرمان سے روشناس کرایا اور اپنی بے مثال وبے نظیر تعلیمات سے لوگوں کو جینے کی راہ دکھائی ،دنیا کو امن و امان ،اطمینان و سکون کا پیغام دیا،جن وانس سے ان کے خالق ومالک کا تعارف کرایا،دنیا کی تخلیق اور اس میں انسانوں کے بسائے جانے کے مقصد کو واضح کیا ، بتایا کہ سب کا خالق ومالک ایک ہے ،اس کا کوئی شریک نہیں ، وہی عبادت و پرستش کے لائق ہے ، دنیا کا نظام اسی کے دم سے ہے ،ہر شئے پر اسی کی حکومت وحاکمیت ہے ،موت وحیات کا وہی خالق ہے ،نفع وضرر کا وہی موجد ہے ،اس کی مرضی اور امر کے بغیر نہ کوئی پتہ ہل سکتا ہے ،نہ کوئی قطرہ گر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی شئے وجود میں آسکتی ہے ، اس نے ایک مقصد کے تحت اور ایک وقت مقررہ دے کر انسانوں کو دنیا میں بھیجا ہے ،اس کی اصل زندگی آخرت ہے جو لامحدود ہے ، آخرت میں خدا کا قرب اور انعامات کے حصول کا مدار دنیا میں خدا اور پیغمبر خدا کی تابعداری پر موقوف ہے ،نبی ٔ رحمت ؐ کی بعثت کا مقصد ہی انسانوں کو خدا کی مرضی بتانا اور اس کے مطابق زندگی گزار نے کی عملی صورت دکھانا ہے،نبی ٔ رحمتؐ نے اپنی رحمت بھری تعلیمات سے انسانوں کو مکمل رہبری ورہنمائی فرمائی ، عبادات ہو یا معاملات ،اجتماعی ہو یاانفرادی،عایلی ہو یا معاشرتی ،جلوت ہویا خلوت، شہری ہو یا ملکی ،عالمی ہویا آفاقی غرض یہ کہ انسانی زندگی کے کسی گوشہ کو تشنہ نہیں چھوڑا ،نبی ٔ رحمت ؐ نے بتایا کہ آدم ؑ پہلے انسان ہیں اور سارے انسان انہی کی اولاد ہیں ،کسی گورے کو کالے پر ،مالدار کو غریب پر ،عربی کو عجمی پر ، آقا کو غلام پر اور بادشاہ کو عامی پر ہرگز فوقیت حاصل نہیں مگر نگاہ خداوندی میں و ہی شخص محترم ومکرم ہے جو اس سے ڈرتا ہے اور اس کی مرضی پر چلتا ہے،انسانیت کا احترم بہت بڑی چیز ہے ،ظلم زیادتی کرنے والے ،زمین میں فساد برپا کرنے والے اللہ کی نظر میں مبغوض ہیں ،ماں باپ کی خدمت بڑی عبادت ہے ،رشتہ دار وں کے ساتھ صلہ رحمی باعث اجر ہے ،اہل تعلق اور پڑوس سے اچھا برتاؤ ایمان کا حصہ ہے ،غریب ومسکین ،بیوہ ویتیم کی مدد ونصرت بہت بڑی خدمت ہے ، نبی ٔ رحمت ؐ نہ صرف انسانوں کے ساتھ تعلق ،ہمدردی اور مددونصرت کی تعلیم دی بلکہ حیوانات کو تکلیف دینے اور نباتات کو بے ضرورت کاٹنے اور ضائع کرنے سے منع فرمایا، نبی ٔ رحمت ؐ نے احترام انسانیت کی طرف اس قدر توجہ دلائی کہ انسانی تاریخ میں اس کی نظیر ملنا ناممکن ہے چنانچہ حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ کی نہایت بلیغ اور جامع تقریر اس کا بین ثبوت ہے جو انہوں نے شاہ حبشہ ’’ اصحمہ نجاشیؓ‘‘ کے دربار میں کی تھی ، اسلام کے ابتدائی زمانہ میں مشرکین مکہ کی ایذ ا رسانیوں سے تنگ آکر بعض مسلمان رسول اللہ ﷺ سے اجازت لے کر حبشہ ہجرت کر گئے ،مشرکین مکہ کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے ایک وفد حبشہ بھیجا تاکہ انہیں واپس لایا جاسکے ، مشرکین کا وفد نجاشی کے دربار میں پہنچ کر اول تحائف پیش کیا ،پھر مسلمانوں کے خلاف بادشاہ کو خوب بھڑ کایا ،تحقیق حال کے لئے جب بادشاہ نے مسلمانوں کو بلایا تواس موقع پر حضرت جعفرؓ نے شاہ حبشہ کے سامنے جن الفاظ میں تقریر دل پذیر کی اس کا کچھ حصہ یہ تھا ’’اے بادشاہ! ہم سب جاہل اور نادان تھے،بتوں کو پوجتے اور مردار کھاتے تھے ،قسم قسم کی بے حیائیوں میں مبتلا تھے،رشتے ناتوں کو توڑا کرتے اور پڑوسیوں کے ساتھ بد سلوکی کرتے تھے،ہم میں کا طاقتور کمزوروں پر ظلم کرتا تھا،اسی حالت سے ہم دوچار تھے کہ اللہ نے ہم پر رحم فرمایا اور ہم ہی میں سے ایک پیغمبر بھیجا ،جس کے حسب ونسب اور صدق وامانت اور عفت و پاکدامنی سے ہم خوف واقف ہیں ،اس نے ہم کو ایک اللہ کی طرف بلایا ،اسی کی پرستش کا حکم دیا اور سچائی ،امانت داری اور صلہ ر حمی کی تعلیم دی،پڑوسیوں سے حسن سلوک کرنے،لڑائی جھگڑے سے بچنے،حرام کھانے سے ،یتیموں کا مال کھانے،پاک دامن پر تہمت لگانے اور تمام بے حیائی کے کاموں سے بچنے کا حکم دیا اور یہ حکم دیا کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں ،کسی کو اس کا شریک نہ کریں ،نماز پڑھیں ،زکوٰۃ دیں،روزہ رکھیں اور اپنا جان ومال راہ خدا میں لگا نے سے گریز نہ کریں(سیرت المصطفیٰ ؐ،۱ـ- ۲۵۰) ۔
نبی ٔ رحمت ؐنے عام انسانوں کے علاوہ ،ملکی ،شہری اور پڑوسی سے لے کر جملہ رشتہ داروں تک کے حقوق بتائے ہیں، نبی ٔ رحمت ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے خطبہ میں انسانی حقوق اور احترام انسانیت کی طرف جس انداز میںتوجہ دلائی وہ تمام انسانوں کیلئے آب حیات کی حیثیت رکھتا ہے ،ارشاد فرمایا :’’ اے لوگو! تم سب کا پروردگار ایک ہے اور تم سب کا باپ بھی ایک ہی ہے ،خبر دار ! کسی عربی کو عجمی پر برتری حاصل نہیں اور نہ کسی عجمی کو عربی پر فضیلت حاصل ہے اور نہ کالے رنگ والے کو گورے رنگ والے پر اور نہ سرخ رنگ والے کو کسی کالے رنگ والے پر فوقیت حاصل ہے ،سوائے تقویٰ اور پرہیزگاری کے‘‘ ( مسند احمد:۲۴۲۰۴) ،ماں باپ کے حسن سلوک کے متعلق آپ ؐ نے ارشاد فرمایا : نیکیو ں میں سب سے جلدی ثواب صلہ رحمی اور ماں باپ کے حسن سلوک پر ملتا ہے (ابن ماجہ) رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں وسعت کی جائے اور اس کے عمر میں اضافہ کیا جائے تو اسے چاہیے کہ رشتہ داروں کو جوڑے رکھے (بخاری) یتیموں کے متعلق آپ ؐ نے ارشاد فرمایا: میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں دونوں اس طرح ساتھ ہوں گے جیسے شہادت اور بیچ کی انگلی(بخاری)بیوہ اور مسکین کی مددونصرت کرنے کی فضیلت بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا: بیوہ اور مسکین کی مدد کرنے والا اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے اور رات میں مسلسل نماز پڑھنے والے اور دن میں مسلسل روزے رکھنے والے کی طرح ہے (بخاری) ،پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : جو شخص اللہ تعالیٰ کی ذات اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے( مسلم)ایک دوسری حدیث میں پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والوں کو جنت کی بشارت اور ان کے ساتھ بُرا سلوک کرنے والوں کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے (مشکوٰۃ ) ،چھوٹوں کے ساتھ شفقت اور بڑوں کے ساتھ احترام واکرام کرنے کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے(ترمذی) ، نبی ٔ رحمت ؐ نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ صنف نازک کو بلند وبالا مقام عطا کیا ،انہیں وہ مرتبہ عطا کیا جن کی وہ مستحق تھیں ، آپؐ نے عورتوں کوجو عزت وعظمت سے نوازا تاریخ انسانی میں اس کی مثال نہیں ، آپؐ کی آمد سے پہلے صنف نازک کا بدترین استحصال کیا جاتا تھا ،ان کے حقوق پامال کئے جا چکے تھے، باندی بناکر ان کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا تھا، اپنی تسکین کی خاطر انہیں شمع محفل بنا یا جاتا تھا ،بعض بد بخت ان کی پیدائش کو منحوس تصور کرکے پیدا ہوتے ہی انہیں زندہ درگور کردیتے تھے،غرض یہ کہ عورتوں کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیا جاتا تھا ،ایسے ناگفتہ بہ حالات میں آپ ؐ کی آمد و بعثت ہوئی ،آپؐ نے آتے ہی عورتوں کو وہ مقام دلایا جس کا صدیوں سے انہیں انتظار تھا،آپؐ نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ فرمایا کہ عورت ہر روپ میں قابل تعظیم اور لائق احترام ہے، اس کی خدمت اور عمدہ برتاؤ باعث اجر وثواب ہے، عورت اگر ماں ہے تو اس کے قدموں میں جنت ہے ،اگر عورت بیوی ہے تو اس پر خرچ بہترین صدقہ ہے، اگر وہ بہن یابیٹی ہے تو ان کی دیکھ بھال ،عمدہ تربیت اور شادی کرکے ان کے گھر بسانا دخول جنت کا ذریعہ ہے ، آپؐ نے جنگ وجدال اور دشمن سے مدبھیڑ کے موقع پر بھی انسانیت کے لحاظ کی تعلیم دی ہے ،چنانچہ اسی تعلیم وتربیت کا نتیجہ تھا کہ خلیفۂ اول سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے ایک لشکر کو روانہ کرتے وقت اس کے کمانڈر کو ہدایتیں دیتے ہوئے یہ بھی ارشاد فرمایا :کسی بچہ کو قتل نہ کرنا،کسی عورت پر ہاتھ نہ اُٹھانا،کسی ضعیف کو نہ مارنا،کوئی پھل دار درخت نہ کاٹنا،کسی بکری وغیرہ کو خواہ مخواہ ذبح نہ کرنا،کسی باغ کو نہ جلانا،کسی باغ کو پانی چھوڑ کر تباہ نہ کرنا،بزدلی نہ دکھانا،اور مال غنیمت میں خیانت نہ کرنا(مصنف ابن ابی شیبہ) ،نبی ٔ رحمت ؐ اور آپ کی رحمت بھری تعلیمات جو آئینہ کی طرح صاف شفاف ہیں ،اس کے باوجود آج پوری دنیا میں اسلام دشمن طاقتیں نہایت منظم طریقہ سے ان حسین ،لاجواب اور لاثانی تعلیمات کو بدنام کرنے اور اس حسین چہرہ کو مسخ کرنے کی ناپاک کوشش میں لگے ہوئے ہیں ،اس سازش میں مغربی ذرائع ابلاغ زیادہ پیش پیش ہے ، چند فرضی اسلامی ناموں کا سہارا لے کر نبی ٔ رحمت ؐ کے نام لیواؤں کو بدنام کرنے کی انتہائی مذموم کوششوں میں لگے ہوئے ہیں لیکن بحیثیت مسلمان ہونے کے ان نازک حالات اور فتنہ پروری کے اس دور میں ہماری ذمہ داری ہے کہ نبی ٔ رحمت ؐ کی رحمت والی تعلیمات سے دنیا کو روشناس کرائیں ،اپنی صلاحیت وقابلیت کا استعمال کرتے ہوئے اپنی بساط کے موافق دنیا کے سامنے اس کے نقوش کو اجاگر کریں ،اپنے قول وعمل ، اخلاق واطوار اور اپنے کردار کے ذریعہ ثابت کریںکہ نبی ٔ رحمت ؐ کی تعلیمات واقعی لاجواب ، انسانیت نواز ،امن وسکون کا ضامن اور قلبی اطمینان کا باعث ہیں ،دور حاضر میں تو تڑپتی ،سسکتی اور امن وامان کی متلاشی انسانیت کو پیام رحمت کی اشد ضرورت ہے ،اس کے بغیر انسانیت کے سکون کا تصور عبس ہے، آج دنیا مادی ترقیات کے باوجود تباہی وبربادی کے دہانے پرکھڑی ہے ،اگر نبی ؐ رحمت کا رحمت والا پیام نہ پہنچا تو تباہی سے بچنا ان کے لئے نا ممکن ہوجائے گا ، ہم غلامان نبی ٔ رحمتؐ خود بھی تعلیمات نبوی کے مطابق زندگی گزاریں اور رحمت والا پیغام دوسروں تک بھی پہنچانے کی فکر کریں،یقینا نبی رحمت ؐ کی تعلیمات اور سیرت مبارکہ سے ہر زمانے کے لئے ،ہر فرد کے لئے ہے ، اسے اپنا کر ہی بے چین دنیا امن وسکون اور اطمینان وراحت پا سکتی ہے ،بس ضرورت ہے تو اسے سیکھنے کی ، اس سے دنیا کو روشناس کرانے کی اور اس کے مطابق عمل کرنے کی ؎
تنظیم وعمل ،تہذیب وادب

اخلاق ووفا ،ایثار وکرم
سرکار کے حسن ِ سیرت سے

کیا کچھ نہیں سیکھا دنیا نے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×