اسلامیات

عورت کی دینی تعلیم نسل نو کی دینی تعمیر ہے

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اشرف المخلوقات بنایا ہے ،انہیں عقل وشعور عطا کیا ہے ،سمجھ وفہم کی دولت سے مالامال کیا ہے ،زبان وبیان کی قوت عطا کی ہے اور ظاہری خوبیوں کے ساتھ بہت سی باطنی خوبیوں کی دولت بھی عطا کی ہیں،انسانوں میں مردوں اور عورتوں کو الگ الگ خصوصیات سے نوازا ہے ،اگرطاقت وقوت مردوں کی شان ہے تو خوبصورتی ونزاکت عورتوں کا زیور ہے ،مردوں کو باپ بننے کا شرف حاصل ہے تو عورتوں کو ماں بننے کا فخر حاصل ہے ، مردوعورت ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں ،زندگی کی تازگی وتابندگی ایک دوسرے کی رفاقت میں مضمر ہے ،نسل انسانی کی بقا کا انحصار ان دونوں کے ساتھ وابستہ ہے ،مرد وعورت معاشرے کے دو اہم ترین ستون اور انسانی انجمن کو روشنی پہنچانے میں مثل شمس وقمر ہیں ،اسلام نے مردوں کو بحیثیت مرد ہونے کے اور عورتوں کو بحیثیت عورت ہونے کے جو مقام ومرتبہ عطا کیا ہے اور جس قدر عزت وعظمت سے نوازا ہے یقینا دنیا کے کسی مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی بلکہ اس کا عشر عشیر ملنا بھی ناممکن ہے ،اسلام نے مردوں اور عورتوں کے کندھوں پر ان انہی چیزوں کی ذمہ داری ڈالی ہے جس کے اٹھانے کی وہ طاقت وقوت رکھتے ہیں ،تخلیقی لحاظ سے وہ جن چیزوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اسلام نے بھی انہی کاموں کا انہیں مکلف بنایا ہے،شریعت اسلامی میں ان کے مقام ومرتبہ کے لحاظ سے دونوں کے الگ الگ حقوق بیان کئے گئے ہیں ،ایک دوسرے کو ان کی ادائیگی کا پابند بنایا ہے اور انہیں تعلیم دی کہ وہ زندگی کے سفر میں ایک دوسرے کے حقوق کا مکمل پاس ولحاظ رکھیں اور مکمل رعایت کے ساتھ ایک دوسرے سے برتاؤ کریں ، اسلام نے تحصیل علم کے لئے مردوں اور عورتوں دونوں ہی کو ترغیب دی ہے اور دونوں ہی کے لئے علم کو زینت قرار دیا ہے ،علم انسان کا ایسا زیور ہے جس کی چمک دمک کے سامنے دنیا کے سارے ہیرے جواہرات کی چمک ماند پڑجاتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ علم کو نور اور جہالت کو تاریکی سے تشبیہ دی گئی ہے ،علم رفعت و بلندی ہے تو جہالت پستی وتنزلی ہے،علم مینارہ ٔ نور ہے تو جہالت اندھیرے کا گڑھا ہے، اسلام نے اپنے ماننے والوں کو عام معلوماتی علوم جس کے ذریعہ معلومات میں اضافہ ہوتا ہے ، انسان کے لئے سہولیات کے دروازے کھلتے ہیں اور زندگی کے سفر میں آسانیاں پیدا ہوتی ہیں کے سیکھنے کے ساتھ خالص دینی اور اسلامی علوم کے بقدر ضرورت سیکھنے کو فرض قرار دیا ہے، کیونکہ علم دین سے خدا کی مرضی معلوم ہوتی ہے ،اس کے احکامات کا علم ہوتا ہے ، اس کی ناراضگی ورضامندی سے واقفیت ہوتی ہے اور زندگی گزارنے میں کن چیزوں کی پابندیاں ضروری ہیں ان کا علم ہوتا ہے،کیونکہ جب تک دین کا علم حاصل نہیں ہوتا تب تک اس کی مرضی نا مرضی بھی معلوم نہیں ہو سکتی ،انسان کو دنیوی زندگی گزار نے میں حکم الٰہی کا پابند بنایا گیا ہے ،وہ خود کی مرضی نہیں بلکہ رب کی مرضی کا مکلف ہے اور اسی میں اس کی بھلائی ،کامیابی اور خدا کی خوشنودی مضمر ہے، اسلام نے روز اول ہی سے علم دین کی طرف مردوں اور عورتوں کی توجہ مبذول کروائی ہے اور حصول علم دین کی انہیں ترغیب دلاتا رہا ہے ،زمانہ نبوت میں علم دین سیکھنے کا مرد جتنا شوق رکھتے تھے عورتیں بھی اسی قدر جذبہ رکھتی تھیں ، رسول اللہ ؐ کی مجالس سے جہاں صحابہ ؓ استفادہ کرتے تھے وہیں صحابیات ؓ بھی مستفید ہوا کرتی تھیں ،بلکہ ان کا جذبہ اور شوق دیکھ کر تعلیم دین کے لئے ہفتہ میں ایک دن آپ ؐ ان کے لئے مقرر فرمایا تھا ،اس دن کے علاوہ ضرورت پڑنے پر صحابیات وفود کی شکل میں حاضر خدمت ہوکر مسائل شرعیہ معلوم کرتی تھیں ، خواتین کی تعلیم وتربیت کا یہ اہتمام زمانہ نبوت میں اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ بسا اوقات صحابہ کرام ؓ کا نکاح محض قرآنی سورتوں کی تعلیم کے عوض میں کر دیا جاتا تھا، صحابیات ؓ کا علمی شوق وذوق ،علم دین سے حد درجہ دلچسپی اور علمی شغل نے انہیں بہت اونچا مقام عطا کیا تھا ،حافظ ابن قیم ؒ ایسی بائیس صحابیات ؓ کی تصریح کی ہے جو فقہ وفتویٰ میں مشہور تھیں ،ان کے بعد تابعیات ؒ نے بھی علم حدیث ،فقہ وفتویٰ میں قابل قدر خدمات سر انجام دیں ، خواتین میں خاص کر ازواج مطہرات نے رسول اللہ ؐ کی قربت ورفاقت کا فائدہ اٹھا کر آپؐ سے خوب خوب علمی استفادہ کیا تھا ، خاص کر ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ ،ام المؤمنین حضرت ام سلمیٰؓ ، ام المؤمنین حضرت حفصہ ؓ ، ام المؤمنین ام حبیبہؓ اور ام المؤمنین میمونہ ؓ ، ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ درسگاہ نبوت کی سب سے کامیاب طالبہ اور امت مسلمہ کی سب سے بڑی معلمہ تھیں ، ام المؤمنین ؓ آپ ؐ سے علمی سوالات کیا کرتی تھیں اور جواب معلوم کرکے دوسروں کو بتایا کرتی تھیں ،چنانچہ ایک موقع پر آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ جس کے تین بچے ہوئے اور فوت ہوگئے تو قیامت کے دن یہ تین بچے اس کی شاعت کریں گے اور قیامت کے دن اپنے والدین کو ساتھ لے کر جنت میں جائیں گے ،یہ سن کر ام المؤمنین ؓ نے آپ ؐ سے سوال کیا کہ اگر کسی کے دوبچے فوت ہوجائیں تو اس کا کیا ہوگا ،آپ ؐ نے فرمایا وہ بھی اس کی شفاعت کریں گے اور والدین کو جنت میں لے جائیں گے ،پھرپوچھا !اگر کسی کا ایک بچہ فوت ہو جائے تو اس پر آپ ؐ نے فرمایاوہ ایک بچہ بھی اس کی شفاعت کرے گا اور اپنے والدین کو جنت میں لے جائے گا،اس کے بعد ام المؤمنین نے سوال کرتے ہوئے عرض کیا کہ اگر کوئی عورت حاملہ ہو جائے اور اتنا وقت گزر گیا کہ بچے میں جان پیدا ہو گئی مگر کسی وجہ سے یہ حمل ضائع ہو گیا اور ماں نے اس موقع پر جو تکلیف برداشت کی کیا اس پر اسے اجر ملے گا ؟ آپ ؐ نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا ’’ وہ بھی اس کی سفارش کرے گا اور انہیں جنت میں لے جائے گا،ام المؤمنین ؓ کے سوالات نے قیامت تک کے لئے امت کو زبان نبوت سے جواب فراہم کرکے عظیم سہولت اور فوت ہوجانے والے بچوں کے ماں باپ کو دخول جنت کی بشارت سنائی ،ام المؤمنین کی علمی صلاحیت ،ذہانت اور علمی شوق ذوق کی بنا کر آپ ؐ سے سوالات کیا کرتی تھیں اور زبان نبوت سے نہایت قیمتی جوابات حاصل کرکے اسے اپنے حافظہ میں محفوظ کر لیا کرتی تھیں ،ام المؤمنین ؓ نے مشکوۃ نبوت سے جو کچھ علم حاصل کیا ہے اسے دیکھ کر ان کے بارے میں کہا گیا کہ ’’ نصف دین ان سے حاصل کیا جائے ‘‘ یہ نصف دین مقدار کے لحاظ سے نہ بھی ہو تو کیفیت کے لحاظ سے ضرور نصف دین ہے ،ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ حدیث نبوی کے پانچ بڑے راویوں میں سے ایک ہیں ،بلکہ خواتین میں احادیث نبوی ؐ کی سب سے بڑی راویہ ہیں ،انہیں دور صحابہ ؓ کے ان سات بڑے مفتیوں میں شمار کیا جاتا ہے جو خلافت راشدہ میں فتویٰ دیا کرتے تھے ،وہ قرآن کریم کی مفسرہ اور احکام اسلام کی حکمت بیان کرنے میں امتیازی شان رکھتی تھیں ،فقہی بارکیوں سے مکمل واقفیت رکھتی تھیں ،یہی وجہ تھی کہ اجتہاد کا حق پورے اعتماد کے ساتھ استعمال کرتی تھیں ،ام المؤمنینؓ کو علم شریعت کے علاوہ علم کلام ،علم عقائد ،علم اسرا الدین ،علم طب ،تاریخ ،ادب خطابت اور شاعری میں بھی اچھی دستگاہ حاصل تھی ، بڑے بڑے صحابہ ؓ و تابعین ؒ آپ سے علمی استفادہ کرتے تھے اور دور دراز سے علم کے شوقین آپ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر علم حاصل کرتے تھے ، آپ ؓ نے تقریبا ً نصف صدی تک مدینہ منورہ میں مسند تدریس کو زینت بخشی ، آپ ؓ سے براہ راست حدیث کا علم حاصل کرنے والوں کی تعداد دوسو سے زائد بیان کی جاتی ہے ، جن میں عورتوں کے ساتھ مرد بھی شامل تھے ، امام المفسرین حضرت ابن عباس ؓ آپ کے شاگرد ہیں اور انہوں نے بھی آپ سے خوب علمی استفادہ کیا ہے ،پردے کے پیچھے بیٹھ کر تفسیری نکات پوچھا کرتے تھے ، آپ ؓ کے سب سے بڑے شاگرد آپ کے بھانجے عروہ ابن زبیر ؓ ہیں ، ام المؤمنین ام سلمیٰ ؓ کا شمار بھی عملی اعتبار سے بہت بلند تھا ،انہیں علم دین سیکھنے میں غیر معمولی شوق تھا ،یہ ہر وقت متوجہ رہا کرتی تھیں اور ان کے کان ہر وقت مسجد نبوی کی جانب متوجہ رہتے تھے ،جیسے ہی آپ ؐ منبر رسول پر جلوہ افروز ہوتے وہ اپنے حجرہ میں دیوار سے لگ کر کھڑی ہوجاتی اور بڑی توجہ کے ساتھ رسول اللہ ؐ کے ارشادات وفرمودات سماعت کرکے اسے یاد کرلیا کر تی تھیں ،ام سلمیٰ ؓ سے بھی بہت سی روایات مروی ہیں ۔
خواتین اسلام میں تعلیم وتعلم کا سلسلہ زمانہ نبوت سے شروع ہوا اور ہر دور میں جاری رہا ، علمی تاریخ میں ایسے خواتین کے نام موجود ہیں جنہیں علم وفضل ،تفسیر وحدیث ،فقہ وفتویٰ ،علمی مہارت اور تقویٰ وورع کی وجہ سے اپنے دور کے بڑے بڑے علماء ،محدثین ،مفسرین اور واعظین پر فوقیت حاصل تھی ،حفصہ بنت سیرین ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ کی خاص شاگردہ تھیں ،ان کے متعلق حضرت ایاس ؒ فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں حسن بصری ؒ اور ابن سرین ؒ پر حفصہ ؒ کو فضیلت حاصل ہے ،مشہور محدث وعظیم فقیہ امام مالک ؒ جنہیں فقیہ مدینہ کہا جاتا ہے ،ان کی صاحب زادیاں کمال درجہ کا علم رکھتی تھیں ، ان کی عبارت حدیث اور اسماء رجال پر گہری نظر تھی ،امام مالک ؒ جب درس حدیث کے لئے مسجد نبوی میں بیٹھتے تو پردے کے پیچھے آپ کی صاحب زادیاں بھی بیٹھتی تھیں اور جب مرد حضرات حدیث شریف کی تلاوت کرتے اور دوران تلاوت کہیں غلطی ہوتی تو یہ پردے کے پیچھے سے ایک لکڑی کو دوسری لکڑی پر مار انہیں غلطی سے آگاہ کرتی تھیں ،مشہور امام ابوجعفر طحاوی ؒ جنہوں نے حدیث کی کتاب طحاوی شریف لکھی ہے جو مدارس دینیہ کے نصاب میں داخل ہے،امام طحاوی ؒ حدیث بیان کرتے تھے اور ان کی لائق بیٹی اسے تحریر کرتی تھی ،اس طرح طحاوی شریف کی تصنیف میں ان کی بیٹی کا بھی حصہ ہے ،طحاوی شریف کی تصنیف سے لے کر آج تک جتنے لوگ بھی اسے پڑھ رہے ہیں ان کے علم میں امام طحاوی ؒ کی بیٹی کا بھی حصہ ہے بلکہ یہ سب روحانی اعتبار سے ان کے شاگرد ہیں ،تاریخ اسلام میں ایسی عظیم اور جلالت علم رکھنے والی خواتین کے نام ہیں جنہوں نے انے علم وفضل ، ذہانت وقابلیت اور عزم وحوصلہ کی چٹان بن کر دینی علمی راہوں کی ہر رکاوٹ دور کرتے ہوئے وہ علمی خدمات انجام دی ہیں جن پر بجا طور سے علمی تاریخ ناز کرتی ہے ،انہوں نے نامساعد حالات اور گھریلو مصروفیات کے باوجود دینی علمی اور تدریسی سفر جاری رکھا ،اپنے گھروں سے علم کی شمع روشن کی اور پورا محلہ ،شہر بلکہ ملکی سرحدوں کو پار کرکے دور دراز تک اس کی روشنی بکھیر دی ،ان کی محبت ،جہد مسلسل اور جذبہ ٔ علمی نے ہزاروں کی تعداد میں مردو خواتین کو دینی علم سے روشناس کرایا اور ہزاروں گھروں کو دینی علمی اور عملی گہواروں تبدیل کیا اور نہ جانے کتنے خاندانوں میں علم وعمل کی چنگاری کو شعلہ میں بدل ڈالا ،انہیں کے بطن سے ان لوگوں نے جنم لیا جنہوں نے ان کی تربیت میں رہ کر علمی عملی وہ مقام حاصل کیا جن کی جوتیاں سیدھی کرنے کو سلاطین اپنی سعادت سمجھتے تھے ۔
کسی نے سچ کہا ہے کہ مرد کے بننے سے فرد بنتا ہے اور خاتون کے بننے سے پورا خاندان بنتا ہے ، بچپن میںاولاد پر باپ کی قابلیت و تربیت کا اتنا اثر نہیں پڑتا جتنا کہ ماں کی قابلیت اور تربیت کا پڑتا ہے ،باپ اپنی اولاد کو سکھاتا ہے لیکن ماں کے طرز عمل سے بچے بہت کچھ سیکھ جاتے ہیں ،بچپن میں ماں کی دینی تربیت باہر کی دنیا میں بچے کو بگڑ نے سے بچاتی ہے ،مردوں کے مقابلہ میں گھر کے ماحول کو بنانے اور بگاڑ نے میں عورتوں کا زیادہ ہاتھ ہوتا ہے ،اگر عورتیں دینی تعلیم سے آرستہ ہو جائیں ،اس کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کریں اور گھر کے ماحول کو دینی سانچے میں ڈھالنے کی فکر کریں تو گھروں میں اس تیزی سے انقلاب برپا ہوسکتا ہے جس تیزی سے ڈھلان کی طرف پانی آتا ہوا نظر آتا ہے ،گھروں میں دینی ماحول کے فروغ کے لئے لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کی دینی تعلیم بے حد ضروری ہے ،لڑکیوں کی دینی تعلیم یقینا آنے والی نسل کو بے دین ہونے سے بہت حد تک بچا سکتی ہے اور گھروں کے ساتھ پورے معاشرہ کو اسلام دشمنوں کے جال میں پھنسنے سے بچاتی ہیں ،اگرگھریلو ماحول کو دینی ماحول میں تبدیل کرنا ہے اور اولاد کو دیندار بنانا ہے تو اس کے لئے لڑکیوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنا نہایت ضروری ہے ، اسی وجہ سے اسلام نے عورتوں کی دینی تعلیم کی طرف توجہ دی ہے اور انہیں زیور علم سے آراستہ کرنے کی تاکید کی ہے ،جن گھروں میں خواتین دینی علوم کی حامل ہیں اور احکام شرعیہ اور سیرت نبوی سے وقف ہیں ان کے گودوں سے اسلام کے ایسے سپاہی پیدا ہوئے جن کی صورت اور عملی سیرت دیکھ کر دشمن دوست بنے اور غیر اپنے بنے پر مجبور ہو گئے ،خدا کا شکر ہے کہ لڑکوں کی دینی دانش گاہوں کے ساتھ لڑکیوں کی دینی درسگاہیں بھی قائم ہو چکی ہیں جن میں لڑکیوں کی دینی تعلیم وتربیت کا مکمل نظم موجود ہے ، یہ ادارے زبان حال سے امت مسلمہ سے کہہ رہے ہیں کہ عصری کالجس اور یونورسٹیوں میں ڈگریاں تو مل سکتی ہیں مگر میراث نبوت تو صرف اور صرف ان ہی دینی جامعات میں بٹتی ہیں ، اگر لڑکیاں حلال وحرام ،جائز وناجائز سے اور احکام شرعیہ سے واقف جاتی ہیں تو یقینا گھریلو ماحول کو بدلنا بہت آسان ہوجاتا ہے، کیونکہ عورت کو اللہ تعالیٰ نے وہ قوت ارادی عطا کی ہے جس سے وہ طاقتور مرد کو اپنے قابو میں کر سکتی ہے ،گھر کا دینی ماحول نہ صرف گھر کے افراد بلکہ باہر کے احوال درست کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے اور بلا شبہ خواتین کی دینی تعلیم وتربیت فرد کے ساتھ افراد کے تربیت کا ذریعہ بن سکتی ہیں ،دینی تعلیم کی اہمیت اور اس کی افادیت کو سمجھتے ہوئے ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو دینی تعلیم سے اراستہ کریں اور خاص کر اپنی بچیوں کو علوم اسلامی کے حاصل کرنے کے لئے انہیں بنات کے دینی مدارس میں داخل کرتے ہوئے اپنی اولاد کو دینی علوم کا حامل ، گھر کو دین اسلام کا گہوارہ اور اپنی آنے والی نسل کو دین بے زار بلکہ بے دین ہونے سے محفوظ رکھیں ۔

Related Articles

One Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×