اسلامیات

ماہِ صفر المظفر توہمات کے نرغے میں

اہل ایمان کا بنیادی عقیدہ ہے کہ حقیقتاً نافع وضار خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے ، اس کی مرضی کے بغیر نہ تو انسان و جنات ، جانور وپرند ، شجر وحجر ، سال وماہ اور دن ورات کسی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی نفع دے سکتے ہیں ، کسی چیز کو بھی نفع وضرر کا مالک سمجھنا ناجائز اور حرام ہے اور کسی بھی شے کے منحوس ہونے کا اعتقاد رکھنا مشرکانہ تصور اور زمانہ ٔ جاہلیت کا جاہلانہ عمل ہے، اسلام میں نحوست اور بد شگونی کا کوئی تصور نہیں،یہ محض توہم پرستی اور جاہلانہ تصور ہے ، اسلام کی آمد سے پہلے باشندگانِ عرب میں جہاں اور بہت سی برائیاں اور خرابیاں پائی جاتی تھیں وہیں ان میں یہ برائی زور پکڑ چکی تھی کہ وہ انسانوں سے لے کر جانوروں،پرندوں ، دنوں اورمہینوں کے ذریعہ بد شگونی لیا کرتے تھے ، یہ لوگ ’’الو‘‘ کو منحوس سمجھتے تھے ،ان کا فاسد خیال تھا کہ جس گھر پر الو بیٹھ جائے یا تو وہ گھر ویران ہوجاتا ہے یا پھر اس میں ضرور کسی کی موت واقع ہوجاتی ہے ،اسی طرح ماہِ صفر کو بھی منحوس سمجھتے تھے اور اس کے ابتدائی تیرہ دنوں کو انتہائی منحوس جانتے تھے اور ان کا گمان فاسد تھا کہ ابتدائی تیرہ دن آسمان سے نحوست نازل ہوتی ہے ،اس لئے اسکو تیرہ تیزی اور صَفر کو ’’صِفر ‘‘ کہا کرتے تھے ، اسی طرح دوران سفر راستے میں بلی کے آجانے اور راستہ کاٹنے کو انتہائی منحوس قرار دیتے تھے ،اور اسی فاسد گمان کی وجہ سے بڑے بڑے اور اہم ترین سفر کو ملتوی کر دیا کرتے تھے ، مگر جب اسلام اپنی مبارک اور پاکیزہ تعلیمات لے کر دنیا افق پر نمودار ہوا تو اس نے زمانہ جاہلیت کے ان تمام باتوں کی تردید کر تے ہوئے نہ کہ اسے فضول اور بکواس قرار دیا بلکہ اس طرح کے توہمات کو توحید کے منافی قرار دیتے ہوئے گناہ سے تعبیر کیا ، رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو توحید پرستی کی تعلیم دیتے ہوئے مشرکانہ افعال واعمال اور زمانہ جاہلیت کے بے ہودہ رسومات سے بچنے کی بڑی تاکید فرمائی ہے ،صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:لا عدویٰ ولا طیرۃ،ولاھامۃ ولا صفر (حدیث :۵۷۵۷ ،باب لاھامۃ ولاصفر،کتاب الطب)کوئی مرض متعدی نہیں ،اور نہ پرندوں کے اُڑنے سے بد شگونی لینا کوئی چیز ہے اور نہ الو کی نحوست کوئی چیز ہے اور نہ ماہِ صفر کی نحوست کی کوئی اصل ہے ،ایک دوسری حدیث میں ہے کہ: لا عدویٰ ولاھامۃ ولا صفر فقال اعرابی یا رسول اللہ فما بال الا بل تکون فی الرمل لکا نھا الظبآء فیخا لطھا البعیر الاجرب فیجر بھا؟ فقال رسول اللہ ﷺ فمن أعدی الاول؟( مشکوۃ ص ۳۹۱ باب الفال والطیرۃ) ایک شخص کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی اور نہ بد شگونی کوئی چیز ہے اور نہ ماہِ صفر (میں نحوست) ہے،اس پر ایک دیہاتی شخص نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! پس اونٹوں کا کیا معاملہ ہے کہ وہ تو ریگستان میں ہر نوں کی طرح تندرست ہوتے ہیں ،پھر ان میں ایک خارش زدہ اونٹ ملتا ہے تو وہ دوسروں کو بھی خارشی بنا دیتا ہے ،آپ ﷺ نے فرمایا (بھلا یہ تو بتاؤ کہ) پہلے اونٹ کو کس نے خارش زدہ کیا ؟ یعنی جس طرح وہ تقدیر الٰہی سے خارش زدہ ہوا اسی طرح یہ بھی تقدیر الٰہی سے ہی خارش کے مرض میں مبتلا ہوئے ہیں ،بہرے حال حرج ومرض فی الحقیقت متعدی نہیں ہیں اور نہ ہی بالذات کسی چیز میں نفع ونقصان کی صلاحیت و اہلیت ہے بلکہ اصلاً نافع وضار اور صحت وتندرستی اور مرض وبیماری سب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے ،بیمار ہونے پر دوا اور وبائی امراض پھوٹ پڑنے پر احتیاط در حقیقت یہ سب اسباب کے درجہ میں ہیں کیونکہ بندوں کو اسباب کے اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے باقی سب کچھ مسبب الاسباب کے ہاتھ میں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ نحوست کو کسی مہینہ ،دن اور کسی وقت میں نہیں بلکہ آدمی کے گناہوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے نحوست اور قہر خدا وندی کا نزول ہوتا ہے ، فقیہ العصرمفتی عبدالرحیم لاجپوریؒ نے صفر کے متعلق ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے کہ’’ دن ،مہینہ،یا تاریخ منحوس نہیں ہوتے ،نحوست بندوں کے اعمال وافعال پر منحصر ہے ، جس وقت کو بندوں نے عبادات میں مشغول رکھا وہ وقت ان کے حق میں مبارک ہوتا ہے اور جس وقت کو گناہوں کے کاموں میں صرف کیا ہے وہ ان کیلئے منحوس ہے ،حقیقت میں مبارک عبادات ہیں اور منحوس معصیات ہیں‘‘(فتاویٰ رحیمیہ ۱؍۱۱۸)، یقینا جب انسان کی بد اعمالیاں بڑھ جاتی ہیں اور اس کے گناہ و جرائم پھیلنے لگتے ہیں تو پھر اسکی نحوست کا اثر زمین پر مختلف انداز سے پڑنے لگتا ہے ،کھبی آسمان سے بارشیں روک دی جاتی ہیں تو کبھی پانی سطحِ زمین سے نیچے کر دیا جاتا ہے تو کبھی لوگوں کو وبائی امراض میں مبتلا کر دیا جاتا ہے ،غرض دنیا میں جو کچھ اُونچ نیچ ہوتی ہے وہ انسانوں کی بد اعمالیوں کے سب ہی ہوتی ہے ،قرآن حکیم کی اس آیت میں اُسی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے :وَمَا أَصَابَکُم مِّن مُّصِیۡبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتۡ أَیۡۡدِیۡکُمۡ وَیَعۡفُو عَن کَثِیۡرٍ (الشوریٰ:۳۰)اور جو کچھ تمہیں تکلیف پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی کرتوت کا نتیجہ ہے اور وہ( خدائے مہربان) تو بہت سی باتوں کو درگزر کر دیتا ہے (ان پر پکڑ نہیں فرماتا)۔
اوپر یہ گزر چکا ہے کہ اسلام جہاں بد شگونی ،بد فالی اور توہم پر ستی کے خلاف ہے اور اسے عقیدۂ توحید اور قدرت باری تعالیٰ کے بالکل خلاف جانتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو بڑی قوت کے ساتھ اس کے زہریلے اثرات سے بچنے کی تعلیم بھی دیتا ہے مگر دوسری طرف نیک شگون ا ورنیک فالی لینے کی اجازت بھی دیتا ہے ، کسی کام یا نام یا پھر کسی اچھی بات کے ذریعہ کا میابی اور مقصد کے پورا ہونے کی امید رکھنا اور اس کے ذریعہ حوصلہ افزا اور اچھے نتائج کی امید رکھنا نیک فالی اور نیک شگون کہلا تا ہے اور عمل شریعت میں مستحسن ہے ،نیک فالی کے متعلق ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ: الکلمۃ الصالحۃ یسمعھا أحدکم( بخاری :۵۷۵۵،باب الفأل ،کتاب الطب)نیک فالی عمدہ کلمہ ہے جو آدمی کے سننے میں آئے، چنانچہ سفر ہجرت مدینہ ٔ طیبہ کے دوران ایک واقعہ پیش آیا وہ یہ کہ بریدۂ اسلمی نامی ایک شخص اپنے ستر سواروں کے ساتھ قریش کے سو سرخ اونٹ کے انعام کی لالچ میں آپ ﷺ کی تلا ش میں نکلے ،جب یہ آپ ﷺ کے قریب پہنچے تو آپ نے سوال کیا : من انت ؟ تم کون ہو ،انہوں نے جواب میں کہا انا بریدۃ یعنی میں بریدہ ہوں،اس پر آپ ﷺ نے ابوبکر ؓ کی طرف متوجہ ہوکر بطور تفاؤل فرمایا: یا ابا بکر بردامرنا وصلح ،اے ابوبکر ہمارا کام ٹھنڈا اور درست ہوا۔پھر پوچھا تم کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو، بریدہ نے جواب دیا من اسلم یعنی میں قبیلۂ اسلم سے ہوں ،آپ ﷺ نے پھر ابوبکر ؓ کی طرف متوجہ ہوکر بطور تفاؤل فرمایا :سلمنا ،ہم تو سلامت رہے ،پھر بریدہ سے پوچھا کہ قبیلۂ اسلم کی کس شاخ سے ہو ،من بنی سہم ،انہوں نے کہا میں بنو سہم سے ہوں ،اس پر آپ ﷺ نے پھر بطور تفاؤل فرمایا: خرج سہمک یعنی تیرا حصہ نکل آیا ،مطلب یہ تھا کہ بریدہ تمہیں اسلام سے حصہ ملے گا ،یہ سن کر بریدہ آپ ﷺ سے آ پکے متعلق پوچھ بیٹھے ،آپ کون ہیں ،آپ ﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ: انا محمد بن عبداللہ رسول اللہ ،میں محمد ہوں بیٹا عبداللہ کا اور رسول اللہ کا،یہ سننا تھا کہ بریدہ کلمۂ طیبہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہوگئے اور ان کے ہمراہ ستر آدمی بھی شرف اسلام سے مشرف ہوگئے ،( سیرۃ المصطفی ج ۱ ،ص ۳۹۶ بحوالہ بیہقی)،اس واقعہ میں آپ ﷺ سے نیک فالی اور اچھا شگون لینا ثابت ہوتا ہے ، اس کے علاوہ دیگر احادیث ہیں جن میں نیک شگون اور نیک فالی لینے کی اجازت دی گئی ہے، لہذا نیک فالی تو لی جا سکتی ہے مگر کسی بھی قیمت پر بد فالی اور بد شگونی لینے کی قطعاً اجازت نہیں ،نیک فالی سے جہاں اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق اچھا گمان اور رحمت ِ خدا وندی سے امید باندھی جاتی ہے وہیں بد فالی سے خدا کی ذات سے کامل قدرت کی نفی کا پہلو سامنے آتا ہے جو عقیدۂ توحید باری تعالیٰ کے منافی ہے لہذا توہم پرستی اور بد شگونی کی لعنت سے بچنا ہر مسلمان اور خدا کی وحدانیت پر ایمان رکھنے اور رسول اللہ ﷺ کی رسالت کو تسلیم کرنے والے کی ذمہ داری ہے ، افسوس کہ د ینی تعلیم عام ہونے کے باوجود آج بھی مسلم معاشرہ کا ایک بڑا حصہ دور جاہلیت اور مشرکانہ افکار وخیالات کو اپنا تے ہوئے طرح طرح کے توہمات میں مبتلا ہے،آج بھی کئی لوگ صفر المظفر کے ابتدائی تیرہ دنوں کو اچھوت سمجھتے ہیں ، تیرھویں دن رات میں سرہانے کچھ انڈے ،تیل اور دیگر اشیاء رکھ کر سوتے ہیں اور صبح ہونے پر اسے خیرات کر دیتے ہیں اور یہ تصور کرتے ہیں کہ اس طرح سرہانے رکھنے سے نحوست دور ہوتی ہے اور آنے والی مصیبتیں ٹل جاتی ہیں ، اس مہینہ میں شادی ،بیاہ اور دیگر خوشی کی تقریبات منانے سے مکمل اجتناب کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اس مہینہ میں کی جانے والی شادیاں بہت جلد ٹوٹ جاتی ہیں ،اس میں منائے گئے خوشیاں بہت جلد غم میں بدل جاتی ہیں ، اس مہینہ کی خرافات اور بے ہودگی میں سے ایک یہ ہے کہ لوگ صفر المظفر کے آخری بدھ کو ’’ آخری چہارشنبہ ‘‘ کا نام دے کر بڑے دھوم دھام سے مناتے ہیں ،اور یوں کہتے ہیں کہ صفر کے آخری چہارشنبہ کو رسول اللہ ﷺ نے غسل صحت فرمایا تھا ، ،حالانکہ شمس التواریخ اور دیگر معتبر تاریخی کتب میں چہارشنبہ ۲۸ صفر کو آپ ﷺ کے مرض میں مزید اضافہ ہونا لکھا ہے، اس روز عمدہ عمدہ پکوان کئے جاتے ہیں،خوشیاں منائی جاتی ہیں ،کیا بڑے کیا بچے سب ہی تفریح گاہوں کا رخ کرتے ہیں ، خاص کر خواتین بڑی تعداد میں پارکوں میں بے حجابانہ انداز سے گھومتی نظر آتی ہیں ،اس دن ہر یالی پر ننگے پاؤں چلنے کو ثواب سے تعبیر کرتے ہیں ،حالانکہ یہ سب بے ہودہ اور بے اصل چیزیں ہیں، بلا ثبوت وبلا دلیل گھڑ ہی ہوئی چیز یں ہیں ،اس طرح بے فضول چیزوں کا دین وشریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ ہم تما م مسلمانوں کو توہم پرستی ،بد شگونی ، بد عات وخرافات کی لعنت اور ان کے ایمان کُش زہریلے اثرات سے محفوظ رکھیں آمین۔
٭٭٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×