اسلامیات

شیطان مردود کے منصوبے

شیطان انسان کا نہایت خطرناک ،طاقتور،حملہ آور اور کھُلا دشمن ہے ،انسانوں کے ساتھ اسکی دشمنی بہت قدیم بلکہ تخلیق آدم ؑ کے وقت سے ہی ہے ،جس وقت اللہ تعالیٰ نے زمین میں اپنا نائب اور خلیفہ بنا نے کا ارادہ کیا اور اس کیلئے حضرت آدم ؑ کو شکل دی ،پھر اپنے صفت ِ علم سے کچھ حصہ عطا فرمایا جسکو قرآنی زبان میں ’’علم الاسماء ‘‘ کہا گیا ہے ،اور اس کے ذریعہ انہیں فرشتوں پر فضیلت عطا کی ، آدم ؑ کی فضیلت وبرتری کافرشتوں نے برملا اظہار و اعتراف بھی کیا ،اس کے بعد تمام فرشتوں سے کہا گیا کہ وہ حضرت آدم ؑ کو سجدہ کریں ،چنانچہ سب فرشتوں نے تعمیل حکمِ ربی میں آدمؑ کو سجدہ کیا، چونکہ شیطان فرشتوں کے ساتھ ہی رہا کرتا تھا چنانچہ اس سے کہا گیا کہ وہ بھی خلیفۃ الارض آدم ؑ کو سجدہ کرے مگر اس نے تعمیل حکم بجا لانے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ گھمنڈ اور غرور میں آکر خدا کے سامنے حجت پیش کردی کہ ’’میں ایسی مخلوق کے آگے جھکوں جسے مٹی سے پیدا کیا گیا ہے‘‘ وَإِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلآئِکَۃِ اسۡجُدُواۡ لآدَمَ فَسَجَدُواۡ إَلاَّ إِبۡلِیۡسَ قَالَ أَأَسۡجُدُ لِمَنۡ خَلَقۡتَ طِیۡناً(بنی اسرائیل ۶۱)باری تعالیٰ نے پوچھا اے ابلیس! تجھے کس چیز نے آدم ؑ کو سجدہ کرنے سے روک دیا درآںحالیکہ میں نے اسے اپنے ہاتھوں ( قدرت خاص) سے پیدا کیاہے:قَالَ یَا إِبۡلِیۡسُ مَا مَنَعَکَ أَن تَسۡجُدَ لِمَا خَلَقۡتُ بِیَدَیَّ أَسۡتَکۡبَرۡتَ أَمۡ کُنۡتَ مِنَ الۡعَالِیۡنَ(صٓ ۷۵)،شیطانلعین نے خدا کے حضور زبان درازی کرتے ہوئے کہا: قَالَ أَنَا خَیۡۡرٌ مِّنۡہُ خَلَقۡتَنِیۡ مِن نَّارٍ وَخَلَقۡتَہُ مِن طِیۡنٍ(صٓ ۷۶) میں بہتر ہوں آدم ؑ سے ،مجھے تو نے آگ سے بنایا ہے اور اُسے خاک سے ‘‘شیطان زعمِ فاسد ، غرور وتکبر اور حسد وجلن میں آکر فرمانِ خداوندی کی نافرمانی کی اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مردود قرار دے دیا گیا،اللہ تعالیٰ نے اس کی گستاخی اور نالائقی اور حکم ِ ربی سے سرتابی کی پاداش میں دربار خاص سے نکالدیا اور اس پر ہمیشگی کی پھٹکار نازل کردی،ارشاد باری تعالیٰ ہے: قَالَ فَاخۡرُجۡ مِنۡہَا فَإِنَّکَ رَجِیۡمٌ O وَإِنَّ عَلَیۡۡکَ لَعۡنَتِیۡ إِلَی یَوۡمِ الدِّیۡنِ(صٓ۷۵،۷۶) خدا نے فرمایا !اے مردود تو یہاں سے نکل جا،اور تجھ پر قیامت تک میری پھٹکار ولعنت ہے، آدم ؑکو سجدہ نہ کرنے ،خدا کے حضور لن ترانی کرنے اور حکم ِ ربی سے روگردانی کے جرم میںجب شیطان کو راندۂ درگار کر دیا گیا تو اُسے خیال آیا کہ یہ سب آدم ؑ کی وجہ سے ہوا ہے حالانکہ یہ تو اسکی ہٹ دھرمی ،بغاوت ،سرکشی ،حسد وجلن اور حکمِ ربی کے آگے عقلی گھوڑے دوڑانے کی سزا تھی ،کہنے لگا اب میرا مقصد زندگی ہی آدم ؑاور آولاد آدم کو خداکی نافرمانی اور سرکشی کی طرف لیجانا ہے ،خدا سے قیامت تک کی مہلت مانگتے ہوئے کہنے لگا: Oقَالَ رَبِّ فَأَنظِرۡنِیۡ إِلَی یَوۡمِ یُبۡعَثُونَ O قَالَ فَإِنَّکَ مِنَ الۡمُنظَرِیۡنَ O إِلَی یَوۡمِ الۡوَقۡتِ الۡمَعۡلُومِ Oقَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَأُغۡوِیَنَّہُمۡ أَجۡمَعِیۡنَ Oإِلَّا عِبَادَکَ مِنۡہُمُ الۡمُخۡلَصِیۡنَ O قَالَ فَالۡحَقُّ وَالۡحَقَّ أَقُولُ O لَأَمۡلَأَنَّ جَہَنَّمَ مِنکَ وَمِمَّن تَبِعَکَ مِنۡہُمۡ أَجۡمَعِیۡنَ O (صٓ ۷۹،۸۵)(شیطان لعین کہنے لگا !اے پروردگار مجھے(لوگوں کے اُٹھ کھڑے ہونے (قیامت)کے دن تک مہلت دے ،(اللہ نے) فرمایا تو (قیامت کے دن تک )مہلت دئیے جانے والوں میں سے ہے،(مہلت مل جانے پر )کہنے لگا تو پھر تیری عزت کی قسم ! میں ان سب کو یقیناً بہکادوں گا ،مگر تیرے ان بندوں کے جو (مخلص) چنندہ ہیں،(اس پر خدا تعالیٰ نے فرمایا) سچ تو یہ ہے اور میں سچ ہی کہا کرتاہوں کہ،میں تجھے اور تیرے تمام ماننے والوں سے جہم کو بھر دوں گا۔
اللہ تعالیٰ نے شیطان کو قیامت تک کیلئے مہلت دے دی ، ادھر آدم ؑ اور اولاد ِ آدم کو اس مردود کے مکروہ چہرہ سے آگاہ کردیا ، اس کے مکرو فریب اور دھوکہ میں نہ آنے کی تلقین کی اور واضح طور پر بتا بھی دیا کہ میری فرماں برداری اور مکمل اطاعت ہی میں تمہاری بھلائی اور کامیابی ہے اور یاد رکھنا شیطان مردود کے بہکاوے میں آکر ہرگز اس کی راہ اختیار نہ کرنا، یہ تو تمہارا کُھلا دشمن ہے ،ارشاد خداوندی ہے:یَا أَیُّہَا الَّذِیۡنَ آمَنُوۡا ادۡخُلُوۡا فِیۡ السِّلۡمِ کَآفَّۃً وَلاَ تَتَّبِعُوۡا خُطُوَاتِ الشَّیۡۡطَانِ إِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ (البقرہ، ۲۰۸)اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ (یعنی پروردگارِ عالم کی طرف سے جو کچھ حکم دیا جائے اس پر مکمل عمل پیرا ہوتے رہو) اور شیطان کی پیروی مت کرو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ قرآن مجید میں ایک اور جگہ شیطان کی دشمنی کا ذکر کرکے اُس سے بچنے کی ترغیب دی گئی ارشاد ہے : إِنَّ الشَّیۡۡطَانَ لَکُمۡ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوۡہُ عَدُوًّا إِنَّمَا یَدۡعُوۡ حِزۡبَہٗ لِیَکُوۡنُوۡا مِنۡ أَصۡحَابِ السَّعِیۡرِ Oالَّذِیۡنَ کَفَرُوا لَہُمۡ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ وَالَّذِیۡنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَہُم مَّغۡفِرَۃٌ وَأَجۡرٌ کَبِیۡرٌ(فاطر ۶-۷) بے شک شیطان تمہارادشمن ہے اور تم بھی اُسے اپنا دشمن ہی سمجھتے رہو ،وہ اپنے ماننے والوں کو محض اس لئے(باطل کی طرف) بلاتا ہے تاکہ وہ دوزخیوں میں سے ہو جائیں،پس(شیطان اور اسکے مکروفریب سے آگاہ کرنے کے باوجود) جولوگ کافر ہوگئے (اور اس کے فریبی جال میں پھنس کر اس کی پیروی کرنے گلے )ان کیلئے سخت عذاب ہے اور جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کئے (اور شیطان مردود کو اپنا دشمن سمجھ کر اس سے بچتے رہے)ان کیلئے (خدا کی طرف سے)بخشش اور(ایمان وعمل صالح پر) بڑا اجر ہے۔
اُسی دن سے شیطان لعین منصوبہ بند طریقے سے اولادِ آدم کے پیچھے پڑا ہے اور نت نئے طریقے سے انہیں راہِ ہدایت سے دور کرنے ،صراطِ مستقیم سے ہٹانے اور دلوں میں دنیوی محبت کے ذریعہ آخرت سے غفلت پیدا کرانے میں مشغول ہے ،دنیا کی چمک دمک دکھا کر آخرت سے غافل کرنا ، دل میںحرص وطمع پیدا کراکے دنیا کے پیچھے دوڑانا ،معمولی باتوں کے ذریعہ خاندانوں میں نفرتوں کی آگ لگا نا ، قلیل مدت میں بڑا سرمایا دار بننے کی خواہش دلا کر سودی لین دین میں ملوث کرنا اور آزاد خیالی کے ذریعہ دین بیزاری پیدا کرنا مردود وملعون کا محبوب مشغلہ ہے ۔
کسی صاحب دل بزرگ کا قول ہے کہ :میں نے نہایت غور وفکر اور بے حد تفکر وتدبر کے بعد اس بات کا پتہ لگایا کہ شیطان کن کن راستوں اور کن کن دروازوں سے انسان کے پاس آتا ہے اور اسے اپنے قابو میں کر لیتا ہے چنانچہ مجھے یہ چیزیں نظر آئی ۔
٭حرص وہوس۔دنیا کی طمع ،مال کے جمع کرنے کی حرص انسان کو خدا کی نظروں سے گرادیتا ہے ، یہ اخلاقی بیماریوں میں نہایت خطر ناک قسم کی بیماری اور شیطان کا فریبی راستہ ہے ،دنیا کی طلب رکھنے والا لازماً آخرت سے غافل ہوجاتا ہے، مال کا حریص اس کے حاصل کرنے کی فکر میں جائز وناجائز کی تمیز کھو دیتا ہے ،اس کا ہدف بس مال کا حصول ہی ہوتا ہے چاہے جہاں سے ہو اسی وجہ سے رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:دنیا دار یعنی مال ودولت کا پجاری گناہوں سے محفوظ نہیں رہ سکتا (شعب الایمان)،ایک موقع پر خطاب کرتے ہوئے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ہر امت کیلئے کوئی خاص آزمائش ہوتی ہے اور میری امت کی خاص آزمائش مال ہے ،آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ: مال کا حریص اور ایمان دونوں ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے ،چونکہ جومال کا حریص ہوگا وہ ضرور بخیل بھی ہوگا ،ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ آدمی مال ودولت کاحریص نہ ہو اور جوکچھ ملا ہے اُسے خدا کا فضل تصور کرے اور اس میں دیگر بندوں کا حق تصور کرتے ہوئے مستحق بندوں پر خرچ بھی کرے ،حرص وہوس شیطانی راستہ ہے ،قناعت اور شکر گزاری کے ذریعہ اس سے بچنے کی کوشش کرے ،اس میں مزید تقویت اس آیت کو پیش نظر رکھنے سے ہوتی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے :ومامن دابۃ فی الارض الا علیٰ اللہ رزقھا(ھود ۶) دنیا میں کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کی روزی کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ کے ذمہ نہ ہو۔
٭طویل زندگی کی خواہش ۔طویل عمر کی خواہش اور لمبی لمبی آرزوئیں کرنا موت سے غفلت اور عارضی اور فانی دنیا سے بے حد لگاؤ کی دلیل ہے ،حالانکہ سب جانتے ہیں کہ دنیا اور اس کا قیام عارضی اور آخرت اور اس کا قرار دائمی ہے ،دنیا امتحان گاہ اور آخرت انعام گاہ ہے ، رسول اللہﷺ نے دنیا کی حقیقت واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :دنیا کی حقیقت آ خرت کے مقابلہ میں بس ایسی ہی ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی انگلی دریا میں ڈال کر نکالے اور پھر دیکھے کہ پانی کی کتنی مقدار اس میں لگ کر آئی ہے ،ایک دوسری حدیث میں دنیا کو مردار اور اس کے طلبگاروں کو کتوں سے تشبیہ دی گئی ہے ، دنیا کی حقیقت وحیثیت جاننے کے باوجودجو شخص دنیا سے محبت کرے گا اور دنیا کو اپنا محبوب ومطلوب بنائے گا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آخرت اور اسکی لازوال نعمتوں سے بے پرواہ ہوکر زندگی گزار رہا ہے اور جو اس طرح زندگی گزارے گا تو وہ ضرور اپنی اُخروی زندگی کو نقصان پہنچائے گا ،شیطان دنیوی خواہشات ، دل میںلمبی آرزوئیں جگاکر انسانوں کے قریب ہوتا ہے اور پھر دھیرے دھیرے انہیں دنیا میں ملوث کرکے خدا کی یاد سے غافل اور دین سے بے پرواہ بنادیتا ہے اس سے بچنے کیلئے دنیا کی حقیقت کا تصور اور موت کی یاد بہترین چیز ہے اور قرآن مجید کی یہ آیت اس مرض کا شافی علاج ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:کُلُّ مَنۡ عَلَیۡۡہَا فَانO وَیَبۡقٰی وَجۡہُ رَبِّکَ ذُو الۡجَلَالِ وَالۡإِکۡرَامO (الرحمن ۲۶ – ۲۷)زمین پر جو کچھ چیزیں ہیں سب کی سب(ایک دن) فنا ہونے والی ہیں اور آپ کے رب کی ذات ہی (ہمیشہ ہمیشہ) باقی رہنے والی ہے۔
٭عجب وخود پسندی ۔خود پسندی اور ا پنے مقابلہ میں دوسروں کو کمتر سمجھنا نادان بلکہ احمق ہونے کی علامت ہے ،یہی وہ طرزخبیث اور عمل ذلیل ہے جس کی وجہ سے اس کا شکار شخص اللہ تعالیٰ کی نظر میں گرجاتا ہے ، اہل دل حضرات نے اسے مہلک روحانی امراض میں شمار کیا ہے ،یہی وہ عمل اور مرض ہے جو انسان کے دل کو سخت کر دیتا ہے ،نرمی وخوش اخلاقی اس سے جدا ہوجاتی ہے ، لوگوں میںاپنے آپ کو برتر سمجھنے کی وجہ سے معاشرہ سے کٹ کر اپنی الگ دنیا بسا لیتا ہے ،جس کے نتیجہ میں وہ اپنی اصلاح سے محروم رہ جاتا ہے ،رسول اللہ ﷺ نے اپنے کو دوسروں پر فخر کرنے سے منع فرمایا ہے ،آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھ پر وحی بھیج کر تواضع اور خاکساری اختیار کر نے کا حکم دیا اور فرمایا کوئی کسی کے مقابلہ میں فخر نہ کرے (ابو داؤد)ایک دن سیدناعمر فاروقؓ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا:لوگو! تواضع و خاکساری اختیار کرو،کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ،جس نے اللہ کیلئے (یعنی اللہ کا حکم سمجھ کر اور اس کی رضا حاصل کر نے کیلئے) خاکساری اختیار کرے گا (اور دوسروں کے مقابلہ میں اپنے کو کمتر جانے گا)تو اللہ تعالیٰ اس کو بلند ی عطا کریں گے ،جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ اپنے خیال اور اپنی نگاہ میں تو چھوٹا ہوگا لیکن لوگوں کی نگاہ میں بڑا ہوگا،اور جو کوئی تکبر اور بڑائی کا انداز اپنائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو نیچا کر دیں گے ،جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ عام لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل وحقیر ہو کر رہ جائے گا ،اگر چہ خود کو بڑا سمجھنے لگے،لیکن دوسروں کی نظروں میں کتے اور خنزیر سے بھی زیادہ ذلیل اور بے وقعت ہو جائے گا(شعب الایمان)شیطان انسانوں کے دلوں میں عجب پیدا کرکے انہیں ذلیل ورسوا کرا نا چاہتا ہے اور خود کی خامیوں وکوتاہیوں پر نظر کے بجائے دوسروں کی خامیوں کو ٹٹولنے لگاتا ہے ،جس کی وجہ سے وہ اپنی اصلاح سے محروم ہوکر اپنی عاقبت برباد کر لیتا ہے ،شیطان کی اس چال کو خدا کے احسانات یاد کرکے اور حساب کے دن کا تصور کرتے ہوئے کہ جس دن نامہ اعمال کھولا جائے گا تو اس وقت پتہ چلے گا کہ کون سعید ہے اور کون شقی ہے ، اس سے بچا جا سکتا ہے ،اور اس آیت کی تلاوت کرتے رہنا شیطان کے اس فریبی جال سے بچنے میں نہایت مفید ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَمَا نُؤَخِّرُہُ إِلاَّ لِأَجَلٍ مَّعۡدُودٍ O یَوۡمَ یَأۡتِ لاَ تَکَلَّمُ نَفۡسٌ إِلاَّ بِإِذۡنِہِ فَمِنۡہُمۡ شَقِیٌّ وَسَعِیۡد،(ھود ۱۰۵) آخرت کے دن کو ہم نے مقررہ دن تک کیلئے آگے کر دیا ہے،جب وہ دن آئے گا تو کوئی بھی بلا حکم ربی نہ بول سکے گا (اس وقت لوگوں کی دو قسمیں ہوں گی) کوئی بد بخت اور کوئی نیک بد بخت ہوگا ۔
حسد وجلن۔ دوسروں کی بلندی و ترقی اور معاشرہ میں انکی مقبولیت کو دیکھ کر دل میں کڑھنا اور انکی تنزلی اور پستی کی خواہش کرنا انتہائی مذموم اور نہایت گری ہوئی حرکت ہے ، حسد وجلن میں مبتلا شخص زبان حال سے یہ کہتا ہے کہ وہ خدا کے فیصلے پر راضی اور خوش نہیں ہے ، حالانکہ بندہ کو ہر وقت اور ہر حالت میں خدا کے فیصلے پر راضی برضا رہنا چاہیے ، خدا کی ذات علیم وحکیم ہے ،وہ بہتر جانتا ہے کہ کس کے لئے کیا چیز مناسب و بہتر ہے،حسد کرنے سے حاسد ہی کا نقصان ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نہایت تاکید کے ساتھ اس مہلک اور رسوا کن چیز سے بچنے کا حکم فرمایا ہے چنانچہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: حسد سے بچو! اس لئے کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھاجاتی ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو بھسم کر ڈالتی ہے(ابوداؤد) حسد ایک ایسا گناہ ہے جس کا حاصل کچھ نہیں مگر نقصان بہت بڑا ہے، حسد شیطان کا ایک خطرناک حملہ ہے، چونکہ شیطان انسان کا خطرناک دشمن ہے اس لئے ہر وقت یہی فکر میں رہتا ہے کہ کسی طرح انکی نیکیاں برباد ہو اور وہ جنت کی ابدی نعمتوں سے محروم ہوجائے ، جب وہ دوسرے حر بوں میں ناکام ہوتا ہے تو پھر حسد میں مبتلا کر کے انکے نیکیوں کو ضائع کرا دیتا ہے ،علماء کرام اور حضرات ا ہل اللہ فرماتے ہیں کہ جب کسی سے حسد ہوجائے تو اس سے بچنے کیلئے اس شخص کی مزید ترقی کیلئے دعا کرے جس سے حسد ہوا ہے ،یہ مرض حسد سے بچنے کا نہایت مجرب نسخہ ہے،حسد سے بچنے کیلئے اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر خود کو راضی رکھنے کی کوشش کرے اور اس کے عادل ومنصف ہونے کا بار بار تصور کرتے رہیں ،ساتھ ہی اس آیت کو ذہن میں رکھیں جس میں انسانوں کے درمیان تقسیم کا ذکر کیا گیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: نَحۡنُ قَسَمۡنَا بَیۡۡنَہُم مَّعِیۡشَتَہُمۡ فِیۡ الۡحَیَاۃِ الدُّنۡیَا وَرَفَعۡنَا بَعۡضَہُمۡ فَوۡقَ بَعۡضٍ دَرَجَاتٍ لِیَتَّخِذَ بَعۡضُہُم بَعۡضاً سُخۡرِیّاً (الزخرف ۳۲) (ہم نے ان(انسانوں)کے درمیان اس دنیا میں ان کی روزی تقسیم کردی اور بعض کو بعض پر درجہ دے دیا،تاکہ وہ ایک دوسرے سے کام لیں ۔
٭ ریا ونمود ۔ اخلاقی بلندی کا آخری زینہ اخلاص اور اخلاقی پستی کی انتہاء کا نام ریا ونمود ہے،جوعمل اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشودی کیلئے کیا جائے وہ قابل قبول اور باعث اجر وثواب ہے اور جس میں شہرت و دکھلا وے کی آمیزش ہوجائے وہ ناقابل قبول اورباعث رد ہے ،اسلام میں اخلاص وللہیت کی بڑی اہمیت ہے بلکہ اسی پر ہر عمل کا دارو مدار ہے ، مطلب یہ ہے کہ خدا کے یہاں قبولیت و مقبولیت کا معیار شکل وصورت پر نہیں بلکہ دل کی درستگی اور نیک کرداری پر منحصر ہے ،کسی بھی کام کیلئے دل کا قبلہ درست ہونا شرط اول ہے یعنی وہ محض اللہ کی محبت ورضاء الٰہی کیلئے ہو تو وہی قابل قدر اور قابل اجر ہوگا،گرچہ ظاہر ی اعتبار سے چھوٹا اور مختصر کیوں نہ ہو، اس کے بر خلاف جو دیکھنے میں بہت بڑا اور وزن میں بھاری ہو مگر کرنے والے کی نیت میں فطور ہو یعنی سستی شہرت کیلئے کیا گیا ہوتو وہ اخلاص سے خالی ہونے کی بنا پر خدا کے نزدیک بے وزن اور بے حیثیت ہوگا، ایک روایت میں آپ ﷺ اسی کا ذکر فرمایا ہے کہ: اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں اور تمہاری صورتوں اور تمہارے صرف ظاہری اعمال کو نہیں دیکھتے بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتے ہیں(کہ اس میں اخلاص ہے یا نہیں اگر عمل خالص لوجہ اللہ ہے تو قبول ہے ،اگر نہیں تو پھر مردود ہے)(جمع الفوائد)،حضرت شداد بن اوس ؓ کی روایت میں ریاکاری کو توحید کے منافی اور ایک قسم کا شرک کہا گیا ہے(مسند احمد) یعنی حقیقی شرک تو اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات یا اس کے افعال میں کسی دوسرے کو شریک کرنا ہے ،شرک حقیقی کے مرتکب کو معاف نہیں کیا جائے گا لیکن بعض اعمال ایسے ہیں جن میں ایک گونہ شرک کا شائبہ ہے ان میں ایک وہ عبادت بھی ہے جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے بجائے کسی کو دکھلانے کیلئے کیا گیا ہو ،اس روایت میں اسی کو شرک خفی اور نفاق سے تعبیر کیا گیاہے ،اگرچہ یہ حقیقی شرک تو نہیں مگر گناہ ِ عظیم ہے،شیطان لعین چاہتا ہے کہ اولاد آدم حقیقی عبادات کی لذت سے محروم ہوجائے اس کیلئے دل میں وساوس ڈالتا رہتاہے ، بھولی ہوئی باتیں یاد دلاکر یکسوئی ختم کرا دیتا ہے اور ریا ونمود پیدا کراکے عبادتوں کو ضائع کراتے ہوئے اس کے ثواب سے محروم کر دیتا ہے،وہ نہیں چاہتا کہ بندہ عبادات کے ذریعہ خدا کے یہاں انعام کا حقدار بنجائے چنانچہ نیت کے قبلہ کو خدا کے بجائے بندوں کی طرف موڑ کر پوری محنت پر پانی پھیر دیتا ہے ،نتیجتاً یہ عبادت ثواب کے بجائے وبال کا ذریعہ بن جاتی ہے ،شیطان کے اس مکر وفریب سے بچنے کیلئے خداکی عظمت شان ، بڑائی وکبریائی اور بادشاہت کا تصور کرتے ہوئے عبادت انجام دیں اور خدا کی خوشنودی کے حصول کی طرف توجہ کرے اور تصور کرے کہ ہم اس کے دربار عالی میں حاضر ہیں اور اسے دیکھ رہے ہیں اور یہ نہ ہوسکے تو کم از کم یہ یقین ہو کہ وہ ہمیں دیکھ رہا ہے ،اس طرح اس فریبی کے فریب سے بچ سکتے ہیں نیز یہ آیت بھی پیش نظر رہنی چاہیے جس سے عبادات میں تقویت اور اخلاص میں اضافہ ہوتا ہے ،ارشاد باری تعالیٰ ہے: قُلۡ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ یُوۡحٰی إِلَیَّ أَنَّمَا إِلٰہُکُمۡ إِلٰہٌ وَاحِدٌ فَمَنۡ کَانَ یَرۡجُوۡ لِقَائَ رَبِّہٖ فَلۡیَعۡمَلۡ عَمَلاً صَالِحًا وَّلَا یُشۡرِکۡ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖ أَحَدًا (الکہف ۱۱۰)،آپ کہہ دیجئے کہ میں تو تمہاری ہی طرح ایک انسان ہوں،ہاں مگر( مجھے یہ امتیاز حاصل ہے کہ)میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ سب کا پروردگار صرف ایک ہی رب ہے ،تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی خواہش ہو اُسے چاہیے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے ۔

muftifarooqui@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×