اسلامیات

جو دیکھو تم خدا کا گھر ہمیں بھی یاد کر لینا

مکہ معظمہ حجاز مقدس کا ایک انتہائی متبرک شہر ہے جہاں کالے غلاف سے ڈھکا ایک اونچا کمرہ ہے جس کا نام کعبہ ہے ، خدا کی عبادت وبندگی کے لئے تعمیر کیا گیا یہ دنیا کا سب سے پہلا گھر اور عبادت خانہ ہے ، خانہ کعبہ جس مقام پر تعمیر ہے یہ دنیا کا محترم،مقدس اور بابرکت حصہ ہے ،کعبہ جو بیت اللہ شریف اور خانہ ٔ خدا کے نام سے بھی معروف ومشہور ہے ،خانۂ کعبہ کا طواف مقدس ترین عبادت کہلاتا ہے ،خانۂ کعبہ کی زیارت اور دیگر مقامات کی عبادت جو مخصوص دنوں میںمخصوص طریقہ پر انجام دی جاتی ہے اُسے حج کہا جاتا ہے، دنیا میں حج کی عبادت کا سلسلہ سید نا ادم ؑ کے زمانہ سے جاری ہے ، سیدنا آدمؑ نے بحکم خداوندی فرشتوں کی رہنمائی میں بیت اللہ شریف کی بنیاد یں قائم فرمائیں اور حج ادا فرمایا اور اس کے بعد برابر حجاز مقدس آکر تین سو حج فرمائے ، حج اسلام کے ان پانچ ارکان میں سے ایک ہے جسے اسلام میں بنیادی حیثیت حاصل ،یہ دین کا اہم فریضہ ہے جس کی فرضیت کا اعلان ہجرت النبیؐ کے نویں سال میں کیا گیا ، قرآن کریم میں حج کے متعلق باری تعالیٰ کاارشاد ہے: وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الۡبَیۡۡتِ مَنِ اسۡتَطَاعَ إِلَیۡۡہِ سَبِیۡلاً وَمَنۡ کَفَرَ فَإِنَّ اللّٰہ غَنِیٌّ عَنِ الۡعَالَمِیۡنَ(ال عمران ۹۷)’’اور جو لوگ بیت اللہ تک جانے کی استطاعت رکھتے ہوں ،ان پر اس کا حج فرض ہے ،اور جو انکار کرے تو یقینا اللہ پوری دنیا سے بے نیاز ہیں‘‘،صاحب استطاعت پر پوری زندگی میں صرف ایک مرتبہ حج فرض ہے ،اگر کوئی اس کے بعد بھی حج کرنا چاہے تو یہ اس کے لئے نفل ہوگا، حضرت ا بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ؐ ہم کو خطا ب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:اے لوگو!اللہ تعالیٰ نے تم پر حج کو فرض فرمایا ہے ،تو ایک صحابی حضرت اقرع بن حابسؓ نے کھڑے ہوکر عرض کیا کہ: اے اللہ کے رسولؐ! کیا ہر سال میں حج فرض ہے؟تو آپؐ نے ارشاد فرمایا’’اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال حج فرض ہوجاتا اور اگر ایسا ہوتا تو تم اس پر عمل نہ کرپاتے اور تمہارے بس میں بھی نہیں تھا کہ تم اس پر عمل کرتے ،حج تو بس ایک مرتبہ فرض ہے اور اس سے زیادہ نفل ہے‘‘(مسند احمد:۲۶۴۲)، حج فرض ہوجائے تو اسے اداکرنے میں عجلت سے کام لینا چاہیے ،حج کی ادائیگی میں کسی بھی چیز کو بہانا بناکر تاخیر کرنادرست نہیں، آپؐ نے فریضہ ٔ حج کی ادائیگی میں جلدی کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اشاد فرمایا’’جو شخص حج کا ارادہ رکھے تو اسے جلدی کرنا چاہیے ‘‘ (ابوداؤد:۱۷۳۲ )، استطاعت کے باوجود حج کی ادائیگی میں تاخیر پر رسول اللہ ؐ نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے ،ارشاد فرمایا کہ:جو شخص زاد راہ اور بیت اللہ شریف تک پہنچانے والی سواری پر قادر ہو پھر بھی حج نہ کرے تو اس پر کچھ نہیں کہ یہودی ہوکر مرے یا عیسائی ہوکر،اور یہ بات اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’ وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الۡبَیۡۡتِ مَنِ اسۡتَطَاعَ إِلَیۡۡہِ سَبِیۡلا(ال عمران:۹۷)اور اللہ کے لئے لوگوں پر بیت اللہ کا حج کرنا ہے جو شخص وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو‘‘(ترمذی :۸۱۷)،حج کے صلہ میں اللہ تعالیٰ حاجی کے تمام گناہ معاف فرمادیتے ہیں ،چنانچہ وہ حج کرنے کے بعد گناہوں سے اس طرح پاک صاف ہوجاتا ہے جس طرح نومولود ہوتا ہے کہ جس کے کندھوں پر گناہ کا کوئی بوجھ نہیں ہوتا ،رسول اللہ ؐ نے حج کو مغفرت کا بڑا ذریعہ بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا’’جو شخص اس طرح حج کرے کہ اس میں کوئی گناہ کا کام اور بے حیائی کی بات نہ کرے تو وہ گناہوں سے ایسے پاک ہوکر واپس ہوتا ہے جیسے آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے‘‘ ( مسلم:۲۴۰۴)’،یہی نہیں بلکہ حج اس قدر مبارک عبادت ہے کہ جس میں حاجی کے لئے بلاتوقف رحمتوں کی بارشیں برستی رہتی ہیںاور یہ سلسلہ ان کے گھر سے نکلنے سے ہی شروع ہوجاتا ہے اور حج کے افعال تکمیل کر کے واپس گھر لوٹنے تک جاری رہتا ہے ۔
ہر سال پوری دنیا سے لاکھوں کی تعداد میں مسلمان فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے ارض مقدس سفر کرتے ہوئے بیت اللہ شریف پہنچتے ہیں ، ذی قعدہ سے عازمین حج کے سفر کا سلسلہ شروع ہو کر قریب ایام حج تک جاری رہتاہے ، سال ہائے گزشتہ کی طرح امسال بھی اب تک اقطاء عالم سے لاکھوں عازمین کرام سر زمین مقدس حرمین شریفین پہنچ چکے ہیں ،بہت سے سفر میں ہیں اور بہت سے سفر کے لئے تیار کھڑے ہیں ،سفر حج دنیا کا سب سے مقدس ترین سفر ہے ،اس کا مسافرسب سے خوش نصب کہلاتاہے ،دیگر سفروں کے ساتھ دنیا کی کوئی نہ کوئی غرض وابستہ ہوتی ہے لیکن سفر حج وہ واحد سفر ہے جس کا مقصد رضاء الٰہی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا، زندگی میں ایک مرتبہ ہی سہی اس مقدس سفر پر جانے کی ہر مومن کی دلی خواہش ہوتی ہے ،وہ اپنے سر کی آنکھوں سے خدا کی تجلی گاہ بیت اللہ شریف کو دیکھنا چاہتا ہے ،کعبۃ اللہ کا طواف کرتے ہوئے رحمت الٰہی کو سمیٹنا چاہتا ہے اور پھر سر کے بل چل کر روضہ ٔ اطہر کی زیارت کرکے اپنی دیرینہ آرزو کو پورا کرنا چاہتا ہے ،جس وقت وہ سفر مقدس پر روانہ ہوتا ہے تو اس کی کیفیت ہی کچھ اور ہوتی ہے جسے نوک قلم پر لانا بہت مشکل ہے ، کھلا سر ،سفید چادر میں ملبوس ،دوپٹی چپل پہنے ہوئے ، جوش محبت میں مگر پورے ہوش کے ساتھ لبیک الھم لبیک کی صدا لگاتے ہوئے بھیگی پلکوں کو لے کر اپنے رشتہ دار عزیز واقارب سے رخصت ہوتا ہے تو اس وقت کا منظر بڑا عجیب اور پُر کیف ہوتا ہے ،رشتہ دار دوست احباب مبارک بادی دیتے ہوئے ہاتھ لہرا کر خدا حافظ کہتے ہوئے اپنے عزیز کو وداع کرتے ہیں اور ان کے لئے سفر کی کامیابی ،حج کی قبولیت ،خیر خوبی سے واپسی کی دعائیں کرتے ہیں اور ان سے دعاؤں کی درخواست کرتے ہیں ،انہیں معلوم ہے کہ یہ وہ مبارک لوگ ہیں جنہیں رحمن کے مہمان ہونے کا شرف حاصل ہونے جارہا ہے،یہ ان بابرکت اور مقدس سرزمین پر جارہے ہیں جہاں فرشتے اپنے پر سمیٹ کر باادب آتے ہیں ،اس جگہ ہر آن تجلیات کا ظہور ہوتا رہتا ہے ،ان مقامات پر رحمت الٰہی برستی رہتی ہے اور آٹھوں پہر انوار وبرکات کا سلسلہ جاری رہتا ہے،ان جگہوں پر خصوصیت کے ساتھ دعائیں قبول ہوتی ہیں ،ہر مانگ پوری کی جاتی ہے اور کسی کا دست سوال رد نہیں کیا جاتا ،یہی وجہ ہے کہ علماء ،فقہاء اور مشائخین حجاج کرام کو کثرت سے دعاؤں کا اہتمام کرنے کی تلقین کرتے ہیں اور اپنے لئے ان سے دعاؤں کی درخواست بھی کرتے ہیں، رسول اللہ ؐکا ارشاد ہے کہ حج وعمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہیں ،اللہ نے انہیں بلایا جس پر انہوں نے لبیک کہا اور یہ لوگ جو مانگیں گے اللہ تعالیٰ انہیں عطا کریں گے(ابن ماجہ: ۲۸۹۲)،حضرت ابن عباس ؓ کی روایت جن میں پانچ لوگوں کی دعائیں قبول ہونے کا ذکر ہے ان میں سے ایک حاجی بھی ہے (البحر العمیق :۱؍۷۰)،انہیں احادیث کو سامنے رکھ کر حجاج سے دعا ؤں میں مشغول رہنے اور دعائیں کرتے رہنے کی خواہش کی جاتی ہے ، یوں تو حرم مکہ اور حرم مدینہ دونوں ہی جگہیں مقدس ترین ہونے کی وجہ سے قبولیت کا مقام رکھتی ہیں لیکن ان میں بھی بعض وہ مقامات ہیں جن کا ذکر احادیث میں آیا ہے جہاں خصوصیت کے ساتھ دعاؤں کا اہتمام کرناچاہیے،جب بھی مسجد حرام میں داخل ہوں اور جیسے ہی پہلی نظر بیت اللہ شریف پر پڑے تو ہاتھ اٹھاکر نہایت عاجزی وانکساری اور تذلل کے ساتھ مسنون دعائیں یا جو چاہے اپنی زبان میں دعائیں کرے یہ مخصوص لمحات خاص طور سے دعا کی قبولیت کے ہیں ،اس موقع پر جو دعا کی جائے وہ ضرور قبول ہوتی ہے،حطیم یہ میزاب رحمت کی جانب بیت اللہ شریف سے تقریبا دو صفوں کے بقدر جگہ ہے جو دراصل بیت اللہ ہی کا حصہ ہے اگر اس میں داخل ہونے کا موقع مل جائے تو نماز وذکر کے ساتھ خوب دعائیں کریں کیونکہ یہاں بھی یقینا دعائیں قبول ہوتی ہیں ،حجر اسود سے پہلے والے کونے کو رکن یمانی کہا جاتا ہے یہ بھی دعا کی قبولیت کا اہم مقام ہے ،رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ رکن یمانی پر ستر ہزار فرشتے مقرر ہیں لہذا جو شخص طواف کے دوران یہاں سے گزرے تو یہ دعا پڑھے :اے اللہ !میں آپ سے معافی اور دنیا وآخرت میں عافیت کا طلب گار ہوں،اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھی بھلائی سے نوازے اور آخرت میں بھی بھلائی سے سرفراز فرمائیے اور ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھئے،جب کوئی یہاں دعا کرتا ہے تو مقررہ فرشتے اس کی دعا پر آمین کہتے ہیں،آب زم زم پیتے وقت بار گاہ خداوندی میں جو بھی حاجت پیش کی جائے وہ ضرور قبول ہوتی ہے ،رسول اللہ ؐ کا ارشاد ہے کہ زم زم پیتے وقت اللہ تعالیٰ سے جو حاجت مانگے ان شاء اللہ وہ پوری ہوتی ہے ، عبداللہ ابن عباس ؓ آب زم زم پیتے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے ’’ اے اللہ ! میں آپ سے نفع بخش علم ،وسعت والے رزق اور ہر بیماری سے شفاء کی درخواست کرتا ہوں‘‘،علماء کرام فرماتے ہیں کہ زم زم پینے والے کو چاہیے کہ وہ اس موقع پر ضرور دعاؤں کا اہتمام کرے خاص کر علم نافع اور شفاء کاملہ کی دعا کرے ،صفا ومروہ کے دوران قلب کو حاضر رکھتے ہوئے اللہ کی بڑائی ،اپنے محتاج ہونے کا اظہار کرتے ہوئے گناہوں سے معافی ، ایمان پر ثابت قدمی اور خاتمہ بالاخیر کی دعائیں مانگتے رہیں،اسی طرح منی ،مزدلفہ اور میدان عرفات میں کثرت سے دعاؤں کا اہتمام کریں ،احادیث میں ہے کہ عرفہ کے دن شیطان جتنا ذلیل ہوتا ہے اتنا کسی اور دن نہیں ہوتا کیونکہ اس دن رحمت الٰہی جوش میں ہوتی ہے اس دن بے شمار بندوں کو جہنم سے آزادی کا پروانہ دیا جاتا ہے ، حدیث شریف میں میدان عرفات کی جو افضل ترین دعا بتلائی گئی ہے وہ یہ ہے ’’اللہ کے علاوہ کوئی حاکم نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کے لئے ہے ہر طرح کی بادشاہت اور تمام تعریفوں کا وہی مستحق ہے اور ہر چیز پر قادر ہے‘‘،نیز اس کے علاوہ جو دعائیں مانگنا ہو وہ سب دعائیں مانگتے رہیں ،ہر لمحہ کو قیمتی جانیں اور کوئی لمحہ ضائع جانے نہ دیں،جب مدینہ منورہ میں حاضری کی سعادت نصیب ہو جائے تو اس پر خدا کا شکر بجالائے کہ اس نے کروڑوں لوگوں میں سے چن کر شہر نبی میں داخلہ کی توفیق مرحمت فرمائی ،مسجد نبوی میں باجماعت نمازوں کے اہتمام کے ساتھ کثرت ،تلاوت ،ذکر واذکار ،درود شریف اور دعائیں مانگنے کو اپنے اوپر لازم کرلیں،جس وقت روضہ اطہر پر حاضری کا موقع مل جائے تو صلاۃ وسلام پیش کرنے کے بعد آپ ؐ سے درخواست کریں کہ اے اللہ کے رسول ؐ میں آپ کی خدمت میں اپنے گناہوں کی مافی طلب کرنے اور اپنے رب کے دربار میں آپ کو سفارشی بنانے کے مقصد سے حاضر ہوا ہوں ،اے اللہ کے رسول ؐ آپ میری معافی اور بخشش کی سفارش فرما دیجئے ،ریاض الجنہ یہ جنت کا ٹکڑا ہے یہاں بھی خوب دعاؤں کا اہتمام کریں ،اسطوانہ ابولبابہ ؓ یہاں حضرت ابولبابہؓ کی توبہ قبول ہوئی تھی،اسطوانہ عائشہؓ یہاں پر بھی دعاؤں کا اہتمام کرے یہ قبولیت دعا کے مقامات میں سے ہیں ،عازمین حج مقامات مقدسہ میں فرض ،واجب ،نفل عبادات کے اہتمام کے ساتھ ذکر واذکار،تلاوت قرآن ،درود پاک اور مسنون ومقبول دعاؤں کا خوب اہتمام کریں ،اپنی حاجت وضرورت کو رب رحیم کے سامنے پیش کریں ، حج کی قبولیت ،دین پر استقامت،سنتوں پر عمل اور ناموافق حالات میںشریعت پر ثابت قدم رہنے ،ایمان پر خاتمہ کی دعاکرتے رہیں اور حرم مکی ہو یا حرم نبوی جہاں بھی دعائیں کریں اپنے لئے ،رشتے داروں ،دوست احباب کے ساتھ تمام عالم کے مسلمانوں کو بھی اپنی دعاؤں میں شامل رکھیں ، ہم آپ کیلئے یہاںدعائیں کرتے رہیں گے اور آپ وہاں ہم سب کو دعاؤں میں یاد رکھیں ؎

جو دیکھو تم خدا کا گھر ہمیں بھی یاد کر لینا

رسول پاک کے درپہ ہمیں بھی یاد کر لینا
٭٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×