اسلامیات

کیا ’’کوروناوائرس‘‘ کے وہم سے مسجدوں کو بند کر دینا جائز ہے ؟

آپسی مسلکوں کے اختلافات کے باوجود ساری دنیا کے مسلمانوں کومسجدوں میں نماز قائم کرنے کی اہمیت کا بہ خوبی علم ہے ،امت کے مرد حضرات کے لیے مسجد میں نماز پڑھنے کا لزوم یہ ُان مسائل میں سے ایک ہے جن میں کسی مجتہد یا مسلک کا کوئی اختلاف نہیں ، مساجد اللہ کے گھر ہیں ؛ انہیں ایمان اور اعمال کے ذریعے آباد رکھنے کا حکم ہے، مساجدساری دنیا کی جگہوں میں اللہ رب العزت کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب جگہیں ہیں؛ کیوں کہ یہاں وہ لوگ رہتے ہیں جو پاکی وصفائی کاخوب اہتمام رکھتے ہیں ، جنہیں کاروبار اور دنیا کی مشغولیات اللہ کے ذکر سے غافل نہیں ہونے دیتیں ، مساجد کی عبادت اسلام کا شعار ہے ؛اور شعائر اسلام کی بے حرمتی وتخریب بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہوتی ہے ، بھلا اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جومسجدوں میں اللہ کا ذکر کرنے پر پابندی لگائے ؟
رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں بارش اور آندھی جیسے اعذار کی بناء پر گھروں میں نماز پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی لیکن یہ وہ اعذار ہیں جو(۱) واقعی موجود ہوں (۲) ان اعذار کے ہوتے ہوئے بندہ چند قدم بھی مسجد کی طرف نہیں جاسکتا ہو (۳) یہ بھی تب جب کہ گھر سے باہر نکل کر مسجد پہنچنے تک ہلاکت یا بیماری کے بڑھ جانے کا یقین ہو؛ ورنہ اگر(۱) صرف بارش اور آندھی کا اندیشہ (وہم)ہو (۲)ہوائیں آہستہ چلیں اور بارش ہلکی ہوکہ مسجد پہنچنے میں کوئی دقت نہ ہو (۳)اور تھوڑی سی مشقت کے بعد مسجدپہنچا جاسکتا ہو، مسجد پہنچنے میں ہلاکت اور بیماری کے بڑھنے کایقین نہ ہو تو پھرایسی بارش اور ہوائیں بھی مسجد کی جماعت ترک کرنے اور گھروں میں نماز پڑھنے کا شرعی عذر نہیں بن سکتیں؛ اس لیے کورونا وائرس کو ان صورتوں پر قیاس کرنا پھر احتیاطی تدبیر کا نام دے کر مسجدوں کو ویران کردینا؛ نہ تو جائز ہوسکتا ہے اور نہ ہی ایک سچے مسلمان کا طرزِ عمل۔
چناں چہ’’ کورونا وائرس‘‘ کا وہم بھی مسجدوں کو بند کردینے کے جوازکا سبب ہرگز نہیں ہوسکتا، کیوں کہ طاعون اور وبائی امراض والے حالات خیرالقرون کے زمانے میں بھی آئے لیکن تاریخ میں کہیں اس کا ذکر نہیں ملتا ہے کہ محض اس وہم کے چلتے دور نبوی میں مساجد کو بند کردیاگیاہو، بلکہ اسلامک ہسٹری(Islamic history)یہ ضرور بتلاتی ہے کہ عین گھمسان کی لڑائی کے وقت میدان جنگ میں بھی ’’صلاۃ الخوف‘‘ کے طریقے پر جماعت کے ساتھ نمازیں ادا کی گئیں ، احادیث یہ ضرور بتلاتی ہیں کہ اذان کے بعد جو نماز پڑھنے کے لیے مسجد نہ آئے رسول اللہ ﷺ نے اس کو آگ میں جلادینے کی بات ارشاد فرمائی، حدیثوں میں اس کا ذکر بھی یقینا موجود ہے کہ جوشخص بغیر کسی سخت عذر کے جمعہ کی نماز نہ پڑھے  وہ منافق ہے۔
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ مسجدوں کی آبادی صرف شان و شوکت والی تعمیرات کے ذریعے سے نہیں ہوتی ہے بلکہ درحقیقت مسجدوں کی آبادی ایمان والوں کے اعمال کے ذریعے ہوتی ہے ۔
*طرفہ تماشہ*
ٍسوچنے کی بات یہ ہے کہ اسلامک کنٹریس نے مسجدوں میں عبادت کرنے پر پابندی کیوں لگائی ؟ وجہ کیا ہے ؟ یعنی کورونا وائرس کا سبب کس چیز کو قرار دیاگیا ؟ چند لوگوں کے ایک جگہ اکٹھے ہونے کو ؟ یا پھر مسجدوں میں عبادت کرنے کو ؟
ظاہر سی بات ہے کہ کسی جگہ کا مسجد ہونا اور وہاں عبادت کرنا تو’’ کورونا وائرس‘‘ کا سبب ہرگز نہیں ہوسکتا ہے کیوں کہ مسجدیں تو ہمیشہ سے تھی ، ہیں ، اور ہمیشہ رہیں گی (ان شاءاللہ) ، اسی طرح مساجد کی عبادت بھی اب تک ہوتی ہوئی آئی ، بہت سے جگہوں پر ہورہی ہے ، اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی(ان شاءاللہ)تو مطلب صاف ہے کہ حکومتیں لوگوں کو ایک جگہ اکٹھے ہونے سے روکنا چاہتی ہیں اور ان کی نظروں میں چند افراد کا ایک جگہ اکٹھے ہونا ہی ’’کورونا وائرس‘‘ کے پھیلنے کا سبب ہے
اب اگر ہم اس پر غور کرتے ہیں تو مساجد میں عبادت پر پابندی لگانا اور مسجدوں کو بند کردینا بالکل بے تُکااور لایعنی معلوم ہوتا ہے کیوں کہ حکومتیں چند افراد کے کسی جگہ اکٹھے ہونے پر روک کس طرح لگا سکتی ہیں ؟ ایک محلے کے لوگ کسی ہال میں جمع ہوجائیں گے، ایک خاندان کے لوگ کسی دعوت میں جمع ہوجائیں گے ، ایک گھر فیملی کے لوگ تو ہمیشہ ایک ساتھ رہتے ہی ہیں ؛ توکیا ان سب کو علاحدہ علاحدہ کمروں میں بند کردیا جائے گا ؟ یا ساری قوم کو جیل بھیج دیا جائے گا ؟
اس لیے خاص طور سے اسلامی ممالک والوں کو چاہیے کہ اپنے فیصلے پر غور کریں ، مساجد میں عبادت کرنے کی عام اجازت دیدیں، تاکہ وائرس سے متاثر یا غیر متاثر لوگ اپنے مسائل کا حل دنیا کی سب سے زیادہ پاکیزہ ومقدس جگہوں میں اُسی ذات کے پاس سے حاصل کریں جس نے اِسے نازل کیا ہے، جو ہر بیماری سے شفاء دینے والا ہے، جسے لوگوں کی اجتماعی گریہ و زاری اتنی پسند آتی ہے کہ اس نے ’’قوم یونس علیہ السلام‘‘کی اسی کیفیت اور عاجزی کے سبب اُن پر سے طئے شدہ عذاب کو بھی ہٹادیا۔
*ظاہر ی اعتبار سے بہتر تدبیر*
چوں کہ دنیا ابھی تک صرف اس وائرس کا تریاق (ANTI DOTE) دریافت کرنےسے عاجز ہوئی ہے شناخت کرنے سے نہیں ؛ اس لیے تمام ممالک والوں کو چاہیے کہ تعلیمی اداروں ، دفاتر اور مساجد کو بند کرنے کے بجائے جدید ٹکنالوجی کا ستعمال کرتے ہوئے داخلی دروازوں (ENTRANCE)پر تمام افراد کی جانچ کریں جو شخص وائرس زدہ پایا جائے اُسے حفاظت اور علاج کی ترغیب کے ساتھ وہاں سے روانہ کردیں اور جو اِس بیماری سے محفوظ ہوں انہیں اپنے معمولات میں لگے رہنے دیں۔
*کیا عام مسلمانوں کو مسجد میں نماز نہ پڑھنے پر گناہ ہوگا  ؟*
اب یہاں پر ایک عام سوال باقی رہ جاتا ہے کہ ایسی صورت ِحال میں( جب کہ مساجد کو حکومتی سطح پر بند کروایا جارہاہے)  اگر عام لوگ گھروں میں نماز ادا کریں تو کیا انہیں مسجد کو ویران کردینےکا گناہ ہوگا  ؟
دراصل یہاں بنیادی طور پر تین باتیں ہوں گی (۱) مسجدوں کو حکومتی سطح پر بند کروانا (۲) ایسی صورت میں عام لوگوں کا گھروں یا ہالوں (Halls)میں نماز ادا کرنا (۳) عام لوگوں کا عام حالات میں مسجد کی جماعت کو ترک کرنا
*(۱) مسجدوں کو حکومتی سطح پر بند کروانا*
چوں کہ موجودہ صورتِ حال میں ’’کورونا وائرس‘‘ کے خوف سے باضابطہ طور پر مسجدوں کو بند کرنے میں عامۃ المسلمین کا کوئی دخل نہیں ہے ، یہ فیصلہ تو حکومتی سطح پر لیا گیا ہے ،اور محض وائرس کے پھیل پڑنے کے خوف سے مساجد کو بند کرنے کے نادرست ہونے پر سطورِ مذکورہ بالا میں تفصیلی کلام آچکا ہے، نیز اِس وقت اسلامی ملکوں کے اِس اقدام کی قباحت پر عموما جتنے بھی علمائے کرام و مفتیانِ عظام نے اظہار خیال کیا اور فتاویٰ تحریر فرمائےہیں سب کی منشا بھی درحقیقت یہی صورت ہے یعنی مساجد کو بالکلیہ طور پر بند کر دینا اور عام مسلمانوں کو مسجدوں میں نماز پڑھنے سے منع کرناسراسر غلط ہے ، محض وائرس کا خوف عملی طور پر اِس اقدام کے لیے شرعا مُجیز قرار نہیں دیا جاسکتا۔
*(۲)حکومتی پابندی کی وجہ سے مسجد میں نماز نہ پڑھنے پر کیا عام مسلمان گنہگار ہوں گے  ؟*
جیسا کہ سوشل میڈیائی خبروںاور احقر کوکچھ قریبی روابط کے ذریعے معلوم ہوا کہ اسلامی ملکوں کے عام مسلمان خود ہی اِس فیصلے سے ناراض ہیں، وہ تو مسجدوں میں نمازقائم کرنے کے لیےتہہ دل سے تڑپ رہے ہیں ، باجماعت نماز پڑھنے کی سب کو اتنی زیادہ فکر ہے کہ جہاں دو سے چار لوگ مل گئے توجماعت بناکر ہی نماز ادا کر رہے ہیں،مسجدوں میں نماز نہ پڑھ پانا تو ان کی مجبوری ہے ، وہ تو قانون کے تابع ہیں، حکومت نے پابندیاں لگا رکھی ہیں ، قانونی جکڑبندیوں کو توڑنے پر انہیں سزاوار بھی قرار دیا جاسکتا ہے ،
الغرض چوں کہ مساجد کی ویرانی میں عام مسلمانوں کا کوئی دخل نہیں ہے اس لیے انہیں مساجد کو ویران کرنے کا کوئی گناہ نہیں ہوگا، بس عام مسلمان اس بات کی کوشش ضرور کریں کہ جہاں اور جس وقت کچھ لوگ اکٹھے ہوجائیں، کوئی نماز پڑھانے کے قابل شخص میسر آجائےتو اذان اور اقامت کہہ کر باجماعت نماز اداکر لیاکریں ، کیوںکہ احادیث میں باجماعت نماز پڑھنے کے بہت سے فضائل وارد ہوئے ہیں اور سہولت رکھتے ہوئے جماعت سے نماز نہ پڑھنے پر سخت سے سخت وعیدیں بھی بتلائی گئی ہیں ،تو اِس طرح عام مسلمان ترک جماعت کے گناہ سے بھی بچ جائیں گے، اورمسجد نہ جاسکنے پر دل میں درد اور افسوس کے سبب ویرانی مسجد کے گناہ سے بھی بچ جائے گا،(ان شاءاللہ تعالیٰ) *ایسے حالات میں عا م مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے : انماالاعمال بالنیات (یعنی تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے) اس لیے ثواب اور عذاب کا معاملہ نیتوں کے اعتبار سے کیا جائے گا۔*
*نوٹ :* اُوپر لکھی گئی دونوں صورتوں کو سمجھ لینے کے بعد ایک بہت بڑی پیچیدگی حل ہوجاتی ہے ؛ بہت سے لوگ پوچھ رہے تھے کہ کچھ علماء ’’کورونا وائرس‘‘ کی وجہ سے مسجدوں کے بند کرنے کو غلط کہہ رہے ہیں اور کچھ علماء اسی سبب سے گھروں میں نماز پڑھنے کی اجازت دے رہے ہیں ؛ آخر کس کی بات درست ہے ؟ تو اس کا حل یہ ہے کہ دونوں ہی باتیں درست ہیں ؛ کیوں کہ جنہوں نے ’کورونا وائرس‘‘ کو محض وہم قرار دے کر اس فیصلے کو غلط قرار دیا ہے ُان کی بات کا تعلق مساجد کو مکمل طور پر بند کر دینے والے حکومت کے فیصلے سے ہے ، اور جنہوں نے گھروں میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے اُن کی بات کا تعلق اس جبری اور غلط فیصلے کے بعد عام مسلمانوں سے ہے کہ انہیں اس مجبوری میں گھروں میں نماز پڑھنے کی اجازت ہے ؛ موقع ہو تو دوچار لوگ جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں ورنہ گھروں میں ہی تنہا ادا کرلیں ۔
*نمازِ جمعہ پڑھیں یا ظہر  ؟*
اِس وقت عرب ممالک کے مسلمانوں کےلیے ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ جمعہ کے دن نماز جمعہ پڑھیں یا ظہر ؟ کیوں کہ مساجد تو بند کر دی گئی ہیں  ؟
تواس بارے میں یہ تفصیل ذہن میں رکھیے کہ فی الحال ہمارے سامنے مسئلہ ان جگہوں کا ہے جہاں اب تک نماز جمعہ کا سلسلہ جاری رہا، یعنی جہاں شرعی نکتہ نظر سے انعقاد ِجمعہ اور صحت ِادائے جمعہ کی تمام شرطیں پائی جاتی ہیں ، وہ تو عارضی طور پر حکومتوں نے مساجد میں عبادت کرنے سے روکا ہوا (یہ الگ بات ہے کہ شرعا یہ بندش ہی جائز نہیں ہے ) پھر بھی بہت سارے لوگ پریشان ہیں کہ نماز جمعہ کا کیا ہوگا ؟ تو بس اپنے ملک کے حالات پر نظر رکھ کر فیصلہ کرنا بہتر ہے کہ
(۱) اگر حکومت نے مطلقا پابندی لگا رکھی ہے ، جمعہ ہو یا عام نماز؛ با جماعت پڑھنے سے روکا ہوا ہے اور علم ہونے پر جماعت سے نماز پڑھنے والوں کو سخت اذیتوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے تو بجائے جمعہ کے نماز ظہر ادا کرلینا بھی کافی ہوگا
(۲)اور اگر ایسی بات نہ ہو بلکہ حکومت نے صرف مسجدوں میں اکٹھے ہونے سے اور زیادہ تعداد میں جمع ہونے سے روکا ہوا ہے ، کسی ہال میں دو چند لوگوں کے باجماعت نماز ادا کرنے پر روک ٹوک نہ ہو تو پھر کسی بھی جگہ چند مسلمانوں کو جمع ہوکر نماز جمعہ پڑھنا ہی ضروری ہے ، جمعہ کے بجائے ظہر ادا کرنا درست نہیں ہوگا
فی الحال اسلامی ملکوں کے احوال بہ ظاہر دوسری صورت کی طرح ہی ہیں اس لیے وہاں کے باشندوں کو چاہیے کہ نماز جمعہ ہی ادا کرنے کی فکر کریں ۔ اس طرح ایک وقت میں کئی ساری جگہوں پر نماز جمعہ پڑھی جائے گی جس کی شرعا اجازت ہے، بس اس بات کا خیال رہے کہ نماز جمعہ سے پہلے خطبے کا ہونا ضروری ہے اگر خطبہ بالکل بھی نہیں پڑھا گیا تو نماز جمعہ صحیح نہیں ہوگی۔
نوٹ  : چوں کہ جن وجوہات سے مسجدوں میں جمعہ اور جماعت پر پابندیاں لگائی گئی ہیں شرعی اعتبار سے یہ بالکل نادرست ہیں ، اِس لیے عام مسلمان؛ اگرچہ دو چار ، دوچار ہی کیوں نہ ہو حتی المقدور اقامت ِ جمعہ کی فکر کریں ،
*کیا خطبہ کی ریکارڈنگ کا اعتبار ہوگا  ؟*
خطبہ کے لیے یہ ضروری ہے کہ خطبہ دینے والا براہ ِراست خطبہ دے اور وہ اُسی ہال یا عمارت میں موجود ہو جہاں نماز ہورہی ہے ، ورنہ صرف خطبے کی وائس ریکارڈنگ (Voice recording)لگا دینایا خطیب کے نہ ہونے کی صورت میں کسی دوسری جگہ کے خطبہ کو(live telecast کے طور پر) براہِ راست دیکھ اور سن کر اس کی اقتداء میں نماز جمعہ پڑھنا درست نہیں ہوگا۔
*(۳)  عام لوگوں کا عام حالات میں مسجد کی جماعت کو ترک کرنا*
اب تیسری صورت باقی رہ جاتی ہے؛ وہ یہ کہ اگر حکومت نے مسجدوں کو بند کردینے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا اور عام لوگوں کو مسجدوں میں جمع ہونے سے منع بھی نہیں کیا ، بلکہ مساجد میں اذان کہنے ، اماموں کو نماز پڑھانے اور عام مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی کھلی آزادی بھی دے رکھی ہے ، بس مشورہ اور مصلحت کے طور پرباہر نکلنے یامسجدوں میں عبادت رنے سے منع کیا ہے، پھر بھی سارے کے سارے مسلمان ’’کورونا وائرس‘‘  کے ڈر سے مسجدوں کو چھوڑ کر گھروں میں نماز پڑھ لیتے ہیں ، نیز اُنہیں اس خوف کے علاوہ کوئی دوسری واقعی مجبوری بھی نہیں ہے تو اب جوشخص بھی مسجد کی جماعت ترک کرے گا وہ خود اس کا ذمہ دار قرار دیا جائے گا ، اوراگر سارے مسلمانوں نے اتفاقی طور پر مسجدوں کو ویران کردیاکہ مساجد میں؛نہ تو اذانیں دی جارہی ہیں ، نہ کوئی نماز پڑھانے والا ہے ، اور نہ نماز پڑھنے کے لیے عام مسلمان ہیں تو اس صورت میں یقینا سارے مسلمان مساجد کو ویران کرنے کے گنہگار قرار دیے جائیں گے۔
دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام بیماروں کو شفاء وعافیت عطا فرمائے ، اور جو بیمار نہیں ہیں ان سب کو اس وباء سے محفوظ فرمائے، کفار و مشرکین کو موجودہ حالات سے سبق لے کر ایمان لانے اور توحید پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے ،اور تمام مسلمانوں کو کامل یقین ، صالح اعمال سے جُڑے رہ کر عقیدہ توحید اور اعمالِ صالحہ پر خاتمہ کی توفیق نصیب فرمائے، آمین یارب العالمین۔
واللہ اعلم بالصواب والیہ المرجع والماٰب
لن یصیبنا الا ماکتب اللہ لنا
ہو یشفینا اذا مرضنا،علیہ توکلنا والیہ انبنا والیہ المصیر
(رابطہ نمبر  : 9908100239)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×