اسلامیات

ماہ صفرالمظفر ؛ انسانی تصور اور قرآنی دستور

خدا تعالی کا دین واسلام تمام انسانیت کے لئے مکمل دستور حیات ومنشور زندگی ہے ،جملہ نقائص سے منزہ و مبرا ہے  تمام تر تعلیمات پایہ تکمیل کو پہونچ چکی ہیں ارشاد باری تعالی ہے،”آج کے دن ہم نے تمہارے دین تمہارے لیے کامل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو ( بطور دین) کے پسند فرمایا”   لہذا  اس دین مبین میں بدعات و خرافات، باطل نظریات و تصورات کو جگہ دینے کی کوئی گنجائش نہیں ملتی، ہرفرد کو  عقل و نقل کے تناظر میں  اپنے افکار و خیالات کا صحیح موازنہ کرنا چاہیے تاکہ کوئی عمل صراط مستقیم سے سے اور اسلامی تقاضوں  سے سرتابی نہ کرے
ایک حقیقت:
مگر آ ج زندگی کے جس شعبہ کے طرف  بھی ایک طائرانہ نظر ڈالیں امت میں ایک نمایاں زوال و انحطاط روزافزوں ہیں معاشرتی و سماجی،  اور اعتقادی برائیاں یا ہر فرد کو گھن  کی طرح کھا رہی ہیں ، شرافت و اخلاق سے سماج بے عبارت ہے، بے دینی و بے راہ روی مسموم فضاچل رہی ہے،   آج بھی ماہ صفر المظفر کے بارےمیں بد فالی ،بشگونی ،تیرہ تیزی وغیرہ جاہلی تصورات سماج میں پنپ رہےہیں ،حالانکہ جو  چیزیں ظہور اسلام سے قبل دور جاہلیت میں روا سمجھی جاتی تھیں انہیں اسلام اپنے پیروں تلے روند چکاہے اسکے باوجود باطل توہمات و نظریات ابھی بھی شباب پر  ہے ، بہتر نتائج کے ظاہر ہونے پر  اپنی قدرت وکمال کا خبط ، اور برے انجام   پر خدائی فیصلوں پر گلہ و شکوہ ، جاہلی تخیلات کی دین ہے ، بد لتے حالات سے ناامیدی نے  انسان کو تخیلات کی دنیامیں اس حد تک پہنچا دیا  کہ بقول
 آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں،
محو حیرت  ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
ماہ صفر کے بارے میں چند بے بنیاد انسانی نظریات :
ذیل میں قدرےاختصارکے ساتھ ان بے ہودہ تفکرات کو تفکرات کو نقل کیا جاتا ہے جن کی کتاب و سنت میں کوئی حیثیت  نہیں ہے  اور شارحین محققین میں سے علامہ شوکانی اور ملا علی قاری اور علامہ عجلونی رحمہم  اللہ وغیرہ حضرات نے اپنی اپنی کتابوں   میں ان چیزوں کو بے حقیقت اوربے اصل بتلایا ہے
ماہ صفر میں بلیات و مصائب بکثرت آسمان سے نازل ہوتی ہیں  بلکہ سال میں دس لاکھ اسی ہزار بلائیں اور مصائب آتے  ہیں ان میں سے کچھ کم ہوکر ماہ صفر میں 9 لاکھ بیس ہزار بلائیں اترتی ہیں-
یہ مہینہ نحوست کے قابل ہے اس لئے کہ اس میں خدا کی برکتیں رحمتیں خالی جاتی ہیں-  نئے شادی شدہ جوڑوں کو اس ماہ کی پہلی تیرہ تاریخوں میں ایک دوسرے سے علیحدگی کردی جائے –
 اس ماہ میں شادی بیاہ اور دیگر تقاریب انجام دینے ، نئے مکانات بنانے،اوراس میں منتقل ہونے،  اور اور نئی تجارت میں  مشغول  ہونے کے کام سب قابل نحوست ہیں-  خصوصا ماہ صفر میں یہ بھی تصور عا م ہے  کہ تیرہ تاریخوں کو تیرہ تیزی کا نام رکھتے ہوے  ان دنوں میں اپنے استعمالی چیزیں مثلا تیل، انڈے بھلاویں وغیرہ صبح انہیں خیرات کردیا جاتاہے –
قرآن کی چند آیات  (سلام قولا من رب الرحیم، سلام علی نوح فی  العالمین، سلام، سلام علی المرسلین، سلام علیکم طبتم فادخلوھا خالدین،سلام ھی حتی مطلع الفجر ،) کسی کاتب سے لکھواکر اور ان کو پانی میں گھول کر پیا جاتا ہے تاکہ ہونے والی مصائب و پریشانی سے چھٹکارہ مل جائے-
ماہ صفر کے  آخری چہارشنبہ  کے متعلق بھی  بعض  مخصوص اچھی بری باتیں انجام دینے کو   ضروری خیال کی گئی ہیں مثلا روزے کا اہتمام ، خاص انداز سے چاشت  کے وقت نوافل کا اہتمام، مکانات سے دور کسی خوشگوار موقع کی طرف جانے کا پروگرام ،  اس دن کوئی کاروبار نہ کرنے کا التزام،  ماہ صفر  کےختم ہونیکی خوشخبری دینے والے کو کو جنت کا حقدار ہونے کی موضوع روایت کو عام کرکے دعوتی پیغام دینا،وغیرہ اعاذنا اللہ منھم
قرآن کا پیغام انسانیت کے نام:
ان تمام تصورات سے قطع نظر۔جب  انسان قرآن کریم  کھولے ، اپنے خیالات فرسودہ  اور   قرآنی تعلیمات بلیغہ کا تجزیہ کرے  تو یہ بات واضح ہوگی کہ قرآن کریم نے انسانیت پر مصائب وشدائد کےآنےاور منافع وفوائد پانےکےعموما دو ذرائع بتایےہیں(1)مصائب  اور بھلائیاں تقدیر الہی سےوجود میں آتی ہیں نہ کہ کسی زمان ومکان کی نحوست سے۔  (2)انجام کار انسان کے اچھے یا برے اعمال پرموقوف ہے جس قسم کے اعمال ظاھر ہونگے ویسے نتائج بر آمد ہوں گے
ارشادباری ہے "اگر آپ کو کوئی راحت آسائش یا بھلائی پہنچتی ہے تو وہ اللہ کے حکم سے ہے اور اگر کوئی مصیبت پہنچے تو اپنے اعمال کی وجہ سے ہے "(النساء ۷۹)
 ایک اور جگہ پر فساد و مفاد کے ذرائع کو انسان کے شامت اعمال کا موجب بتلایا ہے ” زمین اور سمندر میں فساد ظاہر ہونا  انسانوں کے ہاتھوں کی کمائی ہے” (الروم ۴۱)
ایک اور موقع پر تصور میں ذہن کو مصروف رکھنے سے زیادہ خدا کی ذات پر توکل رکھنے کی تلقین کی گئی
"اے پیغمبر آپ کہہ دیجئے  ہمیں صرف اتنا ہی نقصان پہنچے گا جتنا اللہ جل شانہٗ   نے ہماری تقدیر میں ازل سے لکھ دیا ہے وہی ہمارا حامی وناصر ہے  اسی ذات پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے”(التوبہ۵۱)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ماہ صفر کے بارے میں غلطی کا ازالہ بھی کیا ” لاعدوی ولاطیرۃولا ھامۃولا صفر "
(اللہ تعالی کے حکم کے بغیر) چھونے سے دوسرے کو بیماری لگ جانے (کا عقیدہ ) پرندے سے بد شگونی (کا عقیدہ)بے حقیقت ہے نہ الو کا بولنا (کوئی براثر رکھتاہے)،اور نہ ہی ماہ صفر منحوس ہے۔(بخاری کتاب الطب ج ۳ رقم ۵۷۶۹ )
ایک اور حدیث قدسی میں زمانے کو برا کہنے کی ممانعت آئی ہے
” حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی نے فرمایا ابن آدم مجھے اذیت دیتا ہے وہ زمانے کو گالیاں دیتا ہے حالانکہ میں صاحب زمانہ ہوں میرے ہاتھ میں معاملات ہیں رات دن کو بدلتا ہوں (بخاری کتاب التفسیر ج۲ رقم ۴۵۲۲)
ایک مسلمان ہو نے کا لازمی امر ہےکہ  پوری زندگی اسلام کے سانچے ڈھل جائے ، اسکے احکام کو اپنی ذات کے لئے خدا کی رحمت تصور کرے،یہ خیال دل ودماغ سے نکال دے کہ ماہ وسال میں کوئی مہینہ،شب روز میں کوئی دن یا رات منحوس ہوتی ہے اور اس میں کام کاج ترک کردینا چاہیے، جبکہ اسکا اعتقاد کہ کار خانہ قدرت میں کوئی چیز بری نہیں ہوتی ، ہر چیز اسکے علم وحکمت کے مطابق کسی نہ کسی خیر سے جڑی ہے،کسی انسان کی کم عقلی اور کورچشمی اسکو نہ پا سکے تو نہ پاے؛لیکن ایمان والے کو "والقدر خیرہ وشرہ من اللہ تعالی "کے عقیدہ کو رکھنا چاہئے اس سے متعلق آیات مبارکہ اوراحادیث شریفہ کو بار بار غور سے پڑھنا اور ایمان ویقین کو درست ، اعمال وافعال کو بلکہ تخیلات وتصورات کو مومنانہ بنانا چاہیے
اللہ تعالی تمام امت مسلمہ ایمان کامل اور یقین وافر نصیب فرمائے آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×