اسلامیات

گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹادی

ایک احساسِ زیاں:-
آج سال 2020 کئی یادوں ،اور غموں کے ساتھ جدا ہونے کو ہے اس سال کے اندر کئی ہمارے عزیز و اقارب ہم سے جدا ہو چکے ہیں،اساتذہ ومشائخ عظام  ،محدثین مفسرین کرام  داعئ اجل کو لبیک کہ گئے ہیں، مؤقرومخلص علماء  اور خدا کے برگزیدہ بندوں سے امت یتیم ہوچکی ہے ،بارہ مہینے۔  365دن کا اگر ہمیں احساس زیاں ہو اور ہو نا بھی چاہئے کہ گزشتہ برس ہم نے کس کس طرح ضائع کئے۔ بے عملی میں۔ یا بے سمتی میں۔ اور ان غفلتوں کے نتیجے میں ہم کن کن المیوں سے دوچار ہوئے، کتنے اربوں کے خسارے ہمارے حصّے میں آئے۔ دنیا سے ہم اور کتنے پیچھے چلے گئے کتنےایسے مزدور ہیں جو بےروزگارہوۓ ہیں، کتنے ہی ایسے مالیاتی ادارے ہیں جو ٹھپ چکے ہیں، کچھ لوگوں کے لیے یہ سال بہت اچھا گزرا ہو گا لیکن بیشتر لوگوں کے لیے باعثِ زحمت بھی ہوا ہے
جس طرح کوئی وقت اور کوئ سال نہ کسی کے لئے انتظار نہ کیا ہے ،نہ صبح قیامت تک کرے گا، یہ سال ۲۰۲۱ بھی ہم کو بلا کسی تاخیر کے داغ مفارقت دینے کے لئے رواں دواں ہوجائے گا
گزرا ہوا ہر سال کچھ نہ کچھ تلخ تجربات چھوڑ جاتا ہے، حسیں یادیں اس سے جڑی ہوئی رہتی ہیں، خوشگوار واقعات اور غم و الم کے حادثات سے شاید ہی کسی برس کو مفر ہو ، سال ختم ہوتاہے تو حیات مستعار کی بہاریں بھی ختم ہوجاتی ہیں اور انسان اپنی مقررہ مدت زیست کی تکمیل کی طرف آگے بڑھنے لگتا ہے۔ انسان کو بار بار احساس دلاتا رہےگا کہ اس نے کیا کھو یا کیا پایا ہے، زندگی کا سفر کتنا کامیابی کے ساتھ ہے اور کتنا تباہی کی نذر ہے ،خدا کی مرضیات سے کتنا غافل رہا ،نامرضیات پر کتنا عامل رہا، اب یہ جملہ شاعر کا ذہنی وفکری شعور بیدار کرنے کے لئے کا فی ہے:
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گِردوں نے گھڑی عمر کی ایک اور گھٹادی
نہایت قیمتی سرمایہ :-
اب وہ کونسی شئ ہے جو انسان کے لئےنہایت قیمتی سرمایہ ثابت ہو،
ان میں ایک بہت بڑی نعمت وقت کی ہے ، انسان سمجھتا ہے کہ اس کی عمر بڑھ رہی ہے، اس کے اوقات بڑھ رہے ہیں ؛ لیکن در حقیقت عمر گھٹتی جاتی ہے اور ہر لمحہ وقت کی متاع گراں مایہ اس کے ہاتھوں سے نکلتی جاتی ہے، الٹی گنتی اب شروع ہونے جارہی ہے
ہو رہی ہے عمر مثلِ برف کم
چپکے چپکے ، لمحہ لمحہ ، دم بہ دم
وقت کی اور زندگی کی قدرو قیمت کا اندازہ اس سے لگایئے کہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مقدس میں کتنے ہی مقامات پر وقت اور زمانہ کی قسم کھائی ہے ، کبھی رات اور صبح کی قسم کھائی گئی ، ( اللیل : ۱ – ۲ ، مدثر: ۳۳-۳۴ ، تکویر : ۱۷- ۱۸) کبھی رات کے ساتھ شفق کی قسم کھائی گئی ، ( انشقاق : ۱۶-۱۷) کبھی فجر اور اس کے ساتھ دس راتوں کی ( الفجر : ۱-۲) کبھی دن کی روشنی اور رات کے چھاجانے کی (الضحیٰ: ۱- ۲) اور کبھی خود زمانہ کی، ( العصر : ۱) دنوں کی آمد و رفت اور سورج و چاند کے طلوع و غروب سے اوقات کا علم ہوتا ہے ، قرآن مجید نے جابجا اللہ کی نعمت کی حیثیت سے ان کا ذکر فرمایا ہے ، اللہ تعالیٰ قیامت میں انسان سے اس کی عمر کے بارے میں بھی سوال فرمائیں گے ، کہ کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی ، جس میں نصیحت حاصل کرنے والے لوگ نصیحت حاصل کر سکیں ’’ أَوَلَمْ نُعَمِّرْکُم مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَن تَذَکَّرَ‘‘( الفاطر: ۳۷)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو خواب غفلت سے آگاہ کیا، اور محاسبہ کی جانب توجہ دلا کر زندگی کو فضولیات میں برباد ہونے سے بچانے کا اشارہ دیا ہے ،
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ سے راوی ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا :- قیامت کے دن (جب حساب کےلئے بارگاہ خداوندی میں پیشی ہوگی تو) آدمی کے پاؤں سرک نہ سکیں گے جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرلیاجاے گا ، اک اسکی پوری زندگی اور عمر کے بارے میں ،کہ کن کاموں میں اس کو ختم کیا ، دوسرا خصوصیت سے اسکی جوانی (اور قوتوں ) کے بارے میں ، کہ کن مشاغل میں جوانی اور اسکی قوتوں کو بوسیدہ اور پرانا کیا، اور تیسرا اور چوتھا مال ودولت کے بارے میں ،کہ کہاں سے اور کن طریقوں اور راستوں سے اس خو حاصل کیاتھا اور کن کاموں اور کن راہوں میں اس کو صرف کیا، اور پانچواں سوال یہ ہوگا کہ جو کچھ معلوم تھا اس کے بارے میں کیا عمل کیا ؟
(معارف الحدیث ۲/۱۴۴ بحوالہ ترمذی)
حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ میں کسی چیز پر اتنا نادم اور شرمندہ نہیں ہوا جتنا کہ ایسے دن کے گزرنے پر جس کا سورج غروب ہوگیا جس میں میرا ایک دن کم ہوگیا اور اس میں میرے عمل میں اضافہ نہ ہوسکا۔(قیمة الزمن عند العلماء،بقلم شیخ عبد الفتاح ابوغدہؒ  ص: ۲۷)
حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ: اے ابن آدم! تو ایام ہی کا مجموعہ ہے، جب ایک دن گزرگیا تو یوں سمجھ تیرا ایک حصہ بھی گزرگیا۔(حوالہ بالا)
یقینا جو لوگ فرصت کو اور فراغت کو غنیمت جانتے ہیں ،اسکی اہمیت کا احساس رکھ کر فائدہ اٹھاتے ہیں وہی لوگ اپنی زندگی ،اپنی جوانی ، اپنے آمد وخرچ، اپنے علم وعمل کا دنیاہی میں کرتے ہیں
نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سچے مسلمان ہونے کی خوبی یہ بتلائ ہے:”مِنْ حُسْنِ إسْلاِمِ الْمَرْءِ تَرْکُہ مَالاَیَعْنِیْہِ“۔ (ترمذی ۲/۵۸ ) آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے وہ فضول چیزوں سے بچے
ہماری حالت ِ زار :-
جب بھی سال قریب الختم ہوتا ہےتو مسلم معاشرہ میں فرحت وانبساط کے آثار دیکھے جاتے ہیں،اسلامی سال تکمیل کے تعلق سےکانوں کان خبر نہیں گونجتی ،اور اسکے لئے حسرت یا مسرت کاعملی طور پر کوئی خصوصی احتساب واہتمام نہیں ہو پاتا ، مگر انگریزی سال کو الوداع کہنے کو لزوم کا درجہ دے دیا جاتا ہے ، اس پر طرہ یہ کہ اپنے گھروں میں جشن جیسا ماحول قائم کیا جاتا ہے ،کیک کاٹے جاتے ہیں، مٹھائیاں تقسیم کیجاتی ہیں ،ایک دوسرے کوخوب گرمجوشانہ انداز میں مبارکبادیاں دیجاتی ہیں، آتش بازیاں کی جاتی ہیں، المختصر ہلڑبازی کے مشغولیات میں مبتلا ہوکر ابن الوقتی کا شکار ہیں، ایسی دیوانگی وبیگانگی پرشاعر نے حسرت ظاہر کی ہے،
؂ اک سال گیا ایک سال نیا ھے آنے کو
پروقت کا ہوش نہیں دیوانے کو
(ابن انشاء)
ہمیں چاہئے کہ:-
نیا سال خواہ وہ قمری ہو یا شمسی ہو اس کی ابتداء  ذاتی تجزیہ وتجربہ سے کرنا چاہئے۔ ہمیں اپنی ذمہ داریوں اور حقوق کی ادائیگی کے حوالے سے سال بھر کی کاکردگی کا جائزہ لینا چاہئے۔ ہم زندگی کے جس شعبے سے بھی وابستہ ہوں ،ہمیں چاہئے کہ نئے سال کی ابتداء ایک نیک حوصلے اور بہتر ولولے اور جوش کے ساتھ کریں۔ سماج میں پاۓجانے والی مہلک رسومات کا ساتھ دینے کے بجائے اسکے شد باب کی کوشش کریں غیروں کی نقالی کے نقصانات کے بارے میں اہل علم سے رہنمائی حاصل کریں زندگی کو شیطانی مکائد اور نفسانی رذائل سے دور رکھیں ،،فضول اور لایعنی امور میں مشغول رہ کر حیات مستعار کو برباد نہ کریں فرصت کےلمحوں کو غنیمت جان کر استباقِ خیرات میں بھر پور حصہ لیں، کچھ ایسے کام کرگزریں جودارین میں باعثِ افتخار ہو، بہرکیف یہ جو کئی سالوں سے ہمارے ملک میں نئے سال کی آمد کوجشن کی صورت میں منانے کی روش زور پکڑ رہی ہے، اس کے منفی پہلوؤں کی جانب توجہ دینا از حد اہم ہے ورنہ ہمیں اپنی روایات اور شناختیں بسر جانے میں کچھ زیادہ وقت نہ لگے گا۔
 آئیے ہم عزم کریں کہ اب کی بار سال ِنو کی ابتداء  نیکی، بھلائی اور فلاح کے کاموں سے کریں گے۔ مغرب کیطرز زندگی اور ان کی تہذیب کا مکمل بائیکاٹ کر کے ایک بامقصد زندگی گزارنے والے انسان اور اپنی دینی اور قومی روایات سے محبت کرنے والے مسلمان کی طرح نئے سال کو خوش آمدید کہیں گے لیکن اس کے ساتھ ساتھ گذشتہ سال کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی تلافی کا پختہ ارادہ بھی کریں گے
یہ عمر اور زندگی جو ہم کو عطا ہوئی ہے وہ صرف آخرت کی ابدی زندگی کی تیاری کی خاطر عطا ہوئی ہے کہ ہم اس کے ذریعے آنے والی زندگی کو بہتر بناسکیں اور اپنے اعمال کو اچھا بناسکیں۔
واللہ الموفق وھوالمستعان

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×