اسلامیات

رہے سلامت تری حرمت (ماہ محرم کے تناظر میں)

ماہ محرم اسلامی تقویم کی   اولین نشانی ہے ،حرمت وتقدس میں امتیازی خصوصیات کا حامل ہے، انسانی حرمت کا منشور ہے ، فضائل وثمرات،عبادات واحکامات میں ہدایت کا نور ہے ،اب کی بار بھی اپنی تمام تر رعنائیوں ، وکہکشاؤں ،اور بے پناہ مسرتوں کی سوغات لئے وارد ہواہے سبب یہ کہ اسلامی تاریخ کے بڑے بڑے واقعات اس مہینہ سے  مربوط  ہیں، نہ صرف تاریخ اُمت محمدیہ کی چند اہم یاد گاریں اس سے وابستہ ہیں بلکہ گزشتہ اُمتوں اور جلیل القدر انبیاء کے کارہائے نمایاں اور فضلِ ربانی کی یادیں بھی اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے جیسےکہ حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ وانابت کا قبول ہونا، یونس علیہ السلام کا مچھلی کے بطن سے برآری پانا  ، موسی علیہ السلام کا فرعون کے ظلم سے نجات حاصل  کرنا ، نواسہ رسول حضرت سیدناحسین کی درد انگیز والم خیز شہادت کا ناقابل فراموش واقعہ وغیرہ بیشتر حقائق  ومناظر اس ماہ کی حرمت وعظمت پر شاہد ہیں
 تقاضے اور پیغام:-
یقینا یہ ماہ انسانیت کو ربانی وقرانی  منشا کے مطابق زندگی گزارنے کی جانب ہدایت  دی ہے، اور ظلم واستبداد پر مہرِ بند لگاگر دعوتِ  احترام دی ، سماج میں امن وآشتی کا درس دیا ، تقوی وپرہیزگاری کی نمایاں صفت پر معیتِ  خداوندی کا عظیم سرمایہ دیا، ارشاد باری تعالی ہے
 یقینا اللہ تعالٰی کے ہاں مہینوں کی تعداد بارہ ہے اور (یہ تعداد) اسی دن سے قائم ہے جب سے آسمان وزمین کو اللہ نے پیدا فرمایا تھا، ان میں سے چارحرمت و ادب والے مہینے ہیں،یہی درست اورصحیح دین ہے، تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پرظلم وستم نہ کرو ، اورتم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں ، اور معلوم رہے کہ اللہ تعالٰی متقیوں کے ساتھ ہے۔(التوبہ ،آیت  ۳۶ )
ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہ سے اس آيت “لہذا تم ان مہینوں میں اپنے آپ پرظلم وستم نہ کرو“ کے بارے میں مروی ہے :
”تم ان سب مہینوں میں ظلم نہ کرو اورپھر ان مہینوں میں سے چارکو مخصوص کرکےانہيں حرمت والے قراردیا اوران کی حرمت کوبھی بہت عظيم قراردیتے ہوئے ان مہینوں میں گناہ کاارتکاب کرنا بھی عظیم گناہ کا باعث قرار دیا اوران میں اعمال صالحہ کرنا بھی عظيم اجروثواب کاباعث بنایا ۔“
اورقتادہ رحمہ اللہ تعالٰی اسی آیت :“لہذا تم ان مہینوں میں اپنے آپ پر ظلم وستم نہ کرو“ کے بارے میں کہتے ہيں :
”حرمت والے مہینوں میں ظلم وستم کرنادوسرے مہینوں کی بنسبت یقینا زيادہ گناہ اوربرائی کا باعث ہے، اگرچہ ہرحالت میں ظلم بہت بڑی اور عظيم چيز ہے لیکن اللہ سبحانہ وتعالی اپنے امرمیں سے جسے چاہے عظيم بنا دیتا ہے۔“
اورحضرت قتادہؒ کہتے ہيں:
”بلاشبہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی مخلوق میں سے کچھ کو اختیار کرکے اسے چن لیا ہے : فرشتوں میں سے بھی پیغمبر چنے اورانسانوں میں سے بھی رسول بنائے، اورکلام سے اپنا ذکر چنا اورزمین سے مساجد کو اختیار کیا، اورمہینوں میں سے رمضان المبارک اورحرمت والے مہینے چنے ، اورایام میں سے جمعہ کا دن اختیارکیا، اورراتوں میں سے لیلۃ القدرکو چنا، لہذا جسے اللہ تعالٰی نے تعظیم دی ہے تم بھی اس کی تعظیم کرو، کیونکہ اہل علم وفہم اور ارباب حل وعقد کے ہاں امور کی تعظیم بھی اسی چيز کےساتھ کی جاتی ہے جسے اللہ تعالٰی نے تعظيم دی ہے(تفسیر ابن کثیر ،صفحہ۴۶۷-۴۶۸)
نبوی ہدایات اور ضرورت:-
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں اس  ماہ محترم کے تعلق سے   عموما امت کو دو چیزوں کی ہدایت ملتی ہیں ،
(1)روزہ کااہتمام(2)اہل وعیال پررزق میں فراخی
اور یہ اک ضرورت بھی ہے کہ ان باتوں کا اہتمام کیاجاۓ ، طاق نسیان میں جگہ نہ دے
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتےہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی فضیلت والے دن کے روزہ کا اہتمام بہت زیادہ کرتے نہیں دیکھا، سوائے اس دن یعنی یوم عاشورہ کے اوراس ماہ یعنی رمضان المبارک کے(بخاری:۱/۲۳۸،مسلم۱/۳۲۱)
(۱)   ایک اور روایت میں ہے کہ یوم عاشورہ کے روزہ کے اہتمام پر بندہ کے گزشتہ سال کے سیئات مٹادینے کی خوشخبری سنائی گئی، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرما یاکہ مجھے امیدہے کہ عاشوراء کے دن کا روزہ گزشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائےگا(مسلم:۱/۳۲۸،ابن ماجہ:۱/۳۲۱)
لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کفار ومشرکین کی مشابہت اور یہود ونصاری کی طرز روش اختیار کرنے سے منع کیاگیا کہ یوم عاشوراء کے ایک دن کا روزہ اورملالو،بہتر تویہ ہےکہ نویں اور دسویں تاریخ کا روزہ رکھو تاکہ یہود کی مخالفت ہو جائے، اور ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی مشابہت باقی نہ رہے۔جیساکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشوراء کا روزہ رکھا اورمسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہ نے عرض کیاکہ یا رسول اللہ! یہود ونصاری اس دن کو بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما یا: فاذا کان العام المقبل انشاءاللہ صمنا الیوم التاسع قال فلم یات العام المقبل حتی توفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی جب اگلا سال آے گا تو ہم نویں کو بھی روزہ رکھیں گےانشاءاللہ۔ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتےہیں : اگلا سال آنے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئ(۱/۳۵۹)
(۲) اہل وعیال پر رزق میں فراخی:
یوم عاشوراء میں دوسری جو ثابت وہ اہل عیال پر رزق میں فراخی ہے، اس عمل کی برکت سے تمام رزق میں فراخی کا اعلان کیاگیاہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص عاشوراء کےدن کا اپنے اہل و عیال پر کھانے پینے کے سلسلہ فراخی اور وسعت کرے گا تو اللہ تعالی پورے سال اس کے رزق میں وسعت عطا فرمائیں گے(الترغیب والترھیب:۲/۲۱۱۵)
خدارا !! اپنے آپ کو غلط روش سے بچائیں :
مسلم معاشرہ جہاں اک طرف اسکے احترام میں کمی نہیں کرتا وہیں دوسری طرف بے احترامی وبے ادبی میں اپنی جاہلیت کا ثبوت پیش کرتاہے ،
بے شمار غلط کاریوں میں ڈوبا ہوا ہے ، ماہ محرم کے تعلق سے غلط تصور لیا ہواہے، طرح طرح کی خرافات ،رسومات اور بدعات ایجاد کرکے اس کے تقدس کو اس طرح پامال کررہا ہےکہ الامان والحفیظ ! چند در چند خرافات کے نتیجہ میں گناہوں کا ایک نیا باب کھل چکا ہے،
 مسلم امہ کی ذمہ داری ہے کہ اسلامی مہینوں کی پاسداری کے ساتھ اس ماہ   میں  کی جانے والی بدعات  سے دور رہے ،  مثبت نتائج پر نظر رکھے ، سبق آموز واقعات کی روشنی میں ہدایت کا طلبگار بنے ، رب کی رضا حاصل کرنے ،اور سب چیزوں کی قدر وقضا کےبرحق ہونے کا یقین کامل رکھے
عبادات واعمال صالحہ سے سکون کے مواقع تلاش کریں ،
نفسانی وشیطانی راہوں سے یکسر دور رہیں،
اللہ پاک حسن عمل کی توفیق  عطا فرمائے آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×