سیرت و تاریخ

محبتِ رسول مومن کا سرمایۂ زیست ہے

 اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی مومن کو سچی وقلبی محبت و تعلق نہ ہوتا ہو، بلکہ یہ ایمان کا جزو اور دین کا لازمی حصہ ہے ،خدا سے وابستگی کے لیے یہی معراج زندگانی ہے،  جان نثاری کی ساری ادائیں تمام جذبات و احساسات کی گویا حرف آغاز ہے، مساوات و ہمدردی ،اخوت و بھائی چارگی ،امن و آشتی کو رواج دینے کیلئے  مرکزی وارفتگی ہے، یہ وہ سدا بہار کیفیت ہے جو ایمانی زندگی کے پہلے مرحلے سے لے کر آخری سانس تک مومن کا سرمایۂ زیست ہے ، دیہاتی ہو یا شہری، دامن کوہ میں بسیرا کرنے والا ہو یا ستاروں پر کمندیں ڈالنے والا، طالب علم ہو یا استاذ ، ہر پروانے کو اپنی ارتقاء و افتخار کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے ضرور محبت ہونا چاہیے۔
طاعت گزاروں کا مقام:
لیکن  محبت کے اس آئینے کو ہمیشہ صاف اور شفاف رکھنے کے لئے  دین میں طاعت اور عمل کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے بار بار  تعلیمات نبوی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں روشناس کرایا جاتا ہے تاکہ محبت کے عنوان پر خدا اور رسول کی شان کے خلاف  کوئی قدم لرزاں نہ ہوجاۓ، حرکات وسکنات میں غیروں کے روپ کا دھارا نہ آپڑے ، غلو و تشدد  افراط و تفریط کے دام میں قید نہ ہوجائے، معروف تفسیر معارف القرآن میں امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے کہ طاعت گزاروں کا ٹھکانہ انبیاء، صدیقین، شھداء، اور صالحین کے ساتھ ھو گا، کیونکہ یہ ایسے محبین ہیں جو ساری زندگی محبت کا  صحیح معیار جان کر اور اسکا بہترین صلہ مان کر  طاعت پیہم اورجادۂ خیر الاممﷺ کو اپنے سینہ سے لگائے رکھا۔
 "حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں ہے کہ ایک صحابی نبی اکرمﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں آپ کو اپنی جان و مال اہل و عیال سے زیادہ محبت رکھتا ہوں جب میں اپنے گھر میں اور اپنے اہل وعیال کے ساتھ ہوتا ہوں ہو تو شوق زیارت مجھے  بے قرار کرتا ہے دوڑ کر آپ کے پاس  آتا ہوں، آپ کا دیدار کرکے کے سکون حاصل کر لیتا ہوں ، تو سوچتا ہوں کہ ہم آپ تو انبیاء کے ساتھ اعلی ترین  درجات میں ہونگے میں جنت میں گیا بھی تو آپ تک نہ پہنچ سکوں گا  یہ سوچ کر بھی بے  چین ہو جاتا ہوں  آنحضرتﷺ  ان کا کلام سن کر کچھ جواب نہ دیا یہاں تک کہ یہ آیت کریمہ آیت نازل ہوئی ومن یطع اللہ والرسول فاولئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین” (النساءآیت۶۹،صفحہ ۴۶۷ ج۲ ) نیز صحیح مسلم میں ہیکہ "حضرت کعب بن اسلمی رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات (خدمت کےلئے) گزارتےتھے ایک رات تہجد کے وقت کعب بن اسلمی نے آنحضرتﷺ کےلئے وضو کا پانی اور مسواک وغیرہ ضروریات لا کر رکھی تو آپ نے خوش ہو کر فرمایا مانگو کیا مانگتے ہو؟ تو انہوں نے عرض کیا اور کچھ نہیں۰ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا اگر تم جنت میں میرے ساتھ رہنا چاھتے ہو تو تم پر لازم ہے کہ سجدوں کی کثرت سے میری مدد کرو”  (ج۲  رقم الحدیث ۱۱۲۲) یعنی اپنے اوپر نوافل کی کثرت کو لازم پکڑلو خواہ محبت خدمت کے جذبہ سے ہو یا تعلق بناء پر، اگر طاعت وعمل سے خالی ہو تو  محبت کے ہزار دعوے دن کو رات کہنے کے برابر ہے
 محبت کی منزل یہ بھی ہے:
اظہار وابستگی صرف یہی نہیں یوم ولادت کے نام سے پرتکلف دعوتوں کا نظم کیا جائے ،گلیوں، بازاروں اور گھروں میں قمقمے سجائے جاۓ، موٹر سائیکلوں ،گاڑی وغیرہ  پر سبز جھنڈیوں سے مستانہ وار نعرہ بازی کی جاۓ حقیقت تو یہ ہےکہ اسوۂ رسول کو اپنا شیوہ بناکر  سادگی ،صبرو تحمل کو اپنی ذات میں جگہ دے ،قناعت حلم، عجز، جیسی صفات پیدا کرے حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے آپ سے محبت ہے ،جو کچھ کہو سوچ سمجھ کر کہو تو اس نے تین دفعہ کہا خدا کی قسم مجھے آپ سے محبت ہے  اگر مجھے محبوب رکھتے ہو  تو فقر وفاقہ کےلئے تیار ہو جاؤ (کہ میرا طریق امیری نہیں بلکہ فقیری ہے) کیونکہ جو مجھ سے محبت رکھتاہے فقر وفاقہ اسکی طرف اس تیزی سے آتا ہے جیسے پانی بلندی سے نشیب کی طرف بہتا ہے(ترمذی ج ۲ رقم الحدیث ۲۳۵۰)
ذرا غور کریں!!!
سیرت کی کتب میں اس طرح کے واقعات کےلئے ایک دفتر چاہیے جن میں رسمی وارفتگی سے  زیادہ عملی نمونہ ہو نے طاعت کے سانچے میں ڈھل جانے کی ترغیب دلائی گئی ، فضائل و ثواب کو واضح کیاگیا، خدا ورسول کے احکامات پر عمل آوری کے لئے  آسان سے آسان تر مواقع فراہم کئے گئے، تاکہ ہر فرد حال دل پر غم والم  کرنے کے بجائے خوشی وہنسی کے آثار اپنی زندگی میں محسوس کرے ، پھر ملال  نہ ہو  اس بات کا
 ؂
آگے آتی تھی حال دل پر ہنسی
اب کسی  بات  پر  نہیں آتی
جانتا ہوں ثواب طاعت وزھد
پر  طبیعت  ادھر  نہیں  آتی
                              (غالب)
طاعت خداوندی واتباع رسول سے کسی کو مفر نہیں، اپنا  تجزیہ لے کہ اتباع رسول کی  رھنمائی نہ کرنے والی محبت محض دھوکہ وفریب ہے ،سنتو ں کو طاق نسیان میں جگہ دینے والی محبت لفاظی اور نفاق ہے، غلامی کے عملی آداب سے محروم کردینے والی محبت خود نمائ اور شہرت طلبی ہے، بلند بانگ نعروں پر آمادہ کرنے والی محبت خود اسکی اہانت وذلت ہے، جشن منانے اور فخر دلانے والی  محبت بےراہ روی اور گمراہی ہے، آداب رسول اور عشق رسول کو جاننے کے باوجود غلو کی محبت شان رسالت میں گستاخی ہے، حضور انورﷺ کی ہر ادا پر مر مٹنے والے شخص کو چاہئے  کہ حب رسول کی لذت پا کر طاعت وزھد، صبر وتحمل کے زیور سے آراستہ ہو ، قلبی ورحانی محبت کے ساتھ عملی محبت بھی آشکارا ہو ، غرض کوئی کام ایسا ہو کہ آپ  کی طاعت ومحبت کی لہر اسلام کےسمجھنے کا جذبہ بیدار کرے وہ خدا کے یہاں قبول ہو، اور بارگاہ رسالت میں وسیلۂ شفاعت ہو ، پھر یہ کہنا بجا ہوگا۔
؂شادم از زندگئ خویش کہ کارے کر دم
اللہ حسن عمل کی نصیب فرمائے آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×