اسلامیات

بیوی کے غیرمالی حقوق

انسان اللہ تعالیٰ کی ایسی مخلوق ہے، جس کے اندراللہ تعالیٰ جانوروںکی بھی صفت رکھی ہے اورفرشتوںکی صفت بھی ودیعت کی ہے، فرشتوںکی صفت انسان کو عبادت کی طرف مائل کرتی ہے، جب کہ جانوروں کی صفت خواہشات کی تکمیل پرابھارتی ہے، پھرخواہشات میںایک بڑی خواہش وہ ہے، جس کی تکمیل مردوعورت کے اختلاط سے ہوتی ہے۔
مردوعورت کااختلاط ایک تووہ ہے، جسے قرآن نے ’’سفاح‘‘ یعنی زناقراردیاہے اورحقیقتاً یہ طریقہ کسی بھی شریف اورمہذب قوم کے نزدیک درست نہیں، دوسراطریقہ وہ ہے، جسے قرآن نے ’’نکاح‘‘ کہاہے، یہ مخصوص شرائط کے ساتھ ایجاب وقبول کے ذریعہ سے وجودمیںآتاہے اورجب وجود میں آجاتاہے تواپنے ساتھ کئی طرح حقوق اورذمہ داریاںبھی لاتاہے۔
کچھ تووہ ہوتے ہیں،جومردوںسے متعلق ہوتے ہیںاوردرحقیقت یہ بحیثیت بیوی عورت کی ذمہ داری (فرائض)ہوتی ہے، جب کہ کچھ حقوق وہ ہوتے ہیں، جن کاتعلق عورتوںسے ہوتاہے، جودرحقیقت مردکی ذمہ داری (فرائض)ہوتی ہے، جب مردوعورت دونوںاپنی ذمہ داری اداکرتے ہیںتو خود بخوددونوںکے حقوق بھی اداہوجاتے ہیں، پھریہ حقوق اورذمہ داریاںدوطرح کی ہوتی ہیں، ایک مالی اوردوسرے غیرمالی۔
یہاںبیوی کے غیرمالی حقوق تفصیل کے ساتھ ذکرکئے جاتے ہیں، جودراصل مردکی غیرمالی ذمہ داریاںہیں، یہ درج ذیل ہیں:
۱- بنیادی دینی تعلیم: اتنی مقدارمیںدینی تعلیم کاحصول ضروری ہے، جس کے ذریعہ سے عقیدہ کے اندردرستگی اورحلال وحرام کے درمیان تمیز کی جاسکے، فرائض کوجاناجاسکے اوراوامر(جن اعمال کے کرنے کاحکم دیاگیاہے)اورنواہی(جن اعمال سے رکنے کاحکم دیاگیاہے)کی واقفیت ہوسکے ، اللہ کے رسول اکے مبارک ارشاد {طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم} (سنن ابن ماجۃ،باب فضل العلماء… حدیث نمبر:۲۲۴)’’علم کاحاصل کرناہرمسلمان (خواہ مردہویاعورت)پرفرض ہے‘‘ کامطلب بھی یہی ہے؛ چنانچہ امام غزالیؒ لکھتے ہیں:
والذی ینبغی أن یقطع بہ المحصل … وہو: أن العلم …ینقسم إلی علم معاملۃ، وعلم مکاشفۃ، ولیس المرادبہذاالعلم إلاعلم المعاملۃ، والمعاملۃ التی کلف العبدالعاقل البالغ بہاثلاثۃ: اعتقاد، وفعل، وترک۔ (إحیاء علوم الدین: ۱؍۳۱)
’’خلاصہ کے طورپر یہ کہنامناسب ہے کہ علم کی دوقسمیںہیں، ایک علم معاملہ اوردوسرے علم مکاشفہ اوریہاںعلم معاملہ ہی مرادہے اورتین طرح کے علم معاملات کاعاقل بالغ شخص کومکلف کیاگیاہے، اعتقادی، عملی اورترکی‘‘۔
شادی کے بعدشوہرپرایک اہم ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ اپنی بیوی کوبنیاد ی دینی تعلیم سے آراستہ کرے؛ تاکہ گھرکاپوراماحول دینی ہوجائے اوربچوںکی تربیت دینی ماحول میںہوسکے، ایک مرتبہ کاواقعہ ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا ایک وفدحضوراکرم ا کی صحبتِ بابرکت میںبیس دن تک سعادت مندیوںاورخوش بختیوںکی نعمتوں سے بہرہ مندہونے کے بعدگھرواپسی کاارادہ کیا تواللہ کے رسول ا نے زادِ راہ سے سرفراز فرماتے ہوئے ارشادفرمایا:
ارجعوا إلی أھلیکم، فأقیموافیہم، وعلموہم، ومروہم۔(بخاری،حدیث نمبر: ۶۳۱، مسلم، حدیث نمبر:۶۷۴)
’’اپنے گھروالوںکے پاس لوٹ جاؤ، انھیںکے درمیان قیام کرو، انھیں سکھاؤ اورانھیںحکم دو‘‘۔
اس حدیث میںلفظ’’أھل‘‘ کا استعمال ہواہے، جس میںپہلے نمبرپر’بیوی‘شامل ہے، پھراس کے بعددوسرے افرادِ خانہ کانمبرآتاہے؛ چنانچہ مشہورماہرلغت احمدبن محمد فیومیؒ لکھتے ہیں:
ویطلق الأھل علی الزوجۃ، والأہل أہل البیت۔(المصباح المنیر، ص:۲۳)
’’اہل کااطلاق بیوی پرہوتاہے اوراہل (کے معنی) گھروالے( بھی) ہیں‘‘۔
علامہ بدرالدین عینیؒ مذکورہ حدیث کی شرح میںلکھتے ہیں:
والمراد بالأہل: الزوجات، أوأعم من ذلک۔(عمدۃ القاری، باب ماجاء فی إجازۃ خبرالواحد…:۱۶؍۴۸۵)
’’اہل سے مراد بیویاںہیں، یااس سے عام(تمام افرادِ خانہ)مرادہیں‘‘۔
بہرحال! اس حدیث میںتعلیم دینے کاحکم کیاگیاہے، اب سوال یہ ہے کہ تعلیم سے مرادکونسی تعلیم ہے؟ اس کاجواب شراح حدیث کے کلام سے ملتاہے، علامہ قسطلانیؒ فرماتے ہیں:
(وعلِّموہم)شرائع الإسلام(ومروہم)بالإتیان بالواجبات، والاجتناب عن المحرمات۔(ارشادالساری: ۰۱؍۲۸۷)
’’اسلامی شریعت کی تعلیم دو اورواجبات کی ادائے گی اورمحرمات سے اجتناب کاحکم دو‘‘، اورظاہرہے کہ بنیادی دینی تعلیم میںیہی باتیں شامل ہوتی ہیں۔
ایک دوسری حدیث میںاللہ کے رسول ا نے فرمایا:
من کانت لہ جاریۃ فعلمہا، وأحسن إلیہا، ثم أعتقہا وتزوجہا، کان لہ أجران۔(بخاری،باب تعلیم الرجل أمتہ وأہلہ، حدیث نمبر:۹۷)
’’جس کسی کی باندی ہو، وہ اسے اچھی تعلیم دے، پھرآزادکرکے اس سے شادی کرلے تواس کے لئے دوہرااجرہے‘‘۔
جب باندی کوتعلیم دینے کی یہ فضیلت ہے توبیوی کوتعلیم دینے اہمیت اورفضیلت تو اس سے کئی درجہ بڑھی ہوئی ہوگی، حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
مطابقۃ الحدیث فی الأمۃ بالنص، وفی الأہل بالقیاس، إذ الاعتناء بالأہل فی تعلیم فرائض اللہ وسنن رسول اللہ ا آکد من الاعتناء بالإماء۔ (فتح الباری:۱؍۱۹۰)
’’باندی کے سلسلہ میںحدیث صراحتاً مطابقت رکھتی ہے، جب کہ اہل کے سلسلہ میںقیاساً مطابقت پائی جاتی ہے کہ اہل کوفرائض وسنن کی تعلیم دینے کااہتمام کرناباندی کے ساتھ اہتمام کرنے کے مقابلہ میںزیادہ مؤکدہے‘‘۔
بیوی اگردینی تعلیم سے آراستہ ہوگی تودنیاوآخرت دونوںجگہ کی زندگی گلزاربن جائے گی اوراگردینی تعلیم سے محروم ہوگی توخواہ دنیاوی زندگی میںبظاہرکیسی ہی خوش حالی کیوں نہ نظرآئے ؛ لیکن دینی اعتبارسے اس زندگی کے اندرکھوکھلاپن ہوگا، نیزبیوی اگردینی تعلیم سے معمورہوگی توشوہرکے لئے دینی راستہ کے انتخاب میںمعاون ومددگارہوگی، علامہ عینیؒ لکھتے ہیں:
…إذتزوج المرأۃ المؤدبۃ المعلمۃ أکثربرکۃ، وأقرب إلی أن تعین زوجہا علی دینہ۔ (عمدۃ القاری، باب تعلیم الرجل أہلہ وأمتہ:۲؍۱۱۹)
’’کہ تعلیم وتربیت یافتہ عورت سے شادی کرنازیادہ برکت والااورشوہرکے لئے دین کے راستہ پرچلنے میںمعاونت سے زیادہ قریب ہے‘‘۔
آج غورکرنے اورسوچنے کی ضرورت ہے کہ کیاہم اپنی بیویوںکی دینی تعلیم کے لئے فکرمندہوتے ہیں؟ کیاکبھی ہم نے اپنی بیویوںکے قرآن کی تصحیح کی؟ کیاکبھی ہم نے اپنی بیویوںکوطہارت ، نماز، روزہ اورزکوٰۃ کے مسائل سکھانے کی فکرکی ؟بیویوںکودین کی بنیادی تعلیم دیناہماری ذمہ داری ہے، اگرہم نے اس ذمہ داری کوادانہیں کیاتوہم سے اس بابت پوچھ ہوگی؛ کیوںکہ اللہ کے رسول ا کاارشادہے:
ألا کلکم راع، وکلکم مسؤول عن رعیتہ … والرجل راع علی أہل بیتہ ، وہومسؤول عنہم۔ (مسلم، باب فضیلۃ الإمام العادل…، حدیث نمبر:۱۸۲۹)
’’سن لو! تم میںسے ہرشخص ذمہ دارہے اوراس سے اس کے ماتحت کے بارے میںپوچھ ہوگی … مرداپنے گھروالوںپرذمہ دارہے اوراس سے ان کے بارے میں پوچھ ہوگی۔
اس لئے ہمیںاپنی اس ذمہ داری کوحسن وخوبی کے ساتھ نبھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
۲- فرائض کی تلقین: فرض کے اصل معنی’’کاٹنے‘‘ کے آتے ہیں، پھرچوںکہ ’واجب‘قطعی اوردوسرے (مندوب، مباح وغیرہ ) سے (حکم میں)کٹاہواہوتاہے؛ اس لئے وہ لازم اورمقررکرنے کے معنی میںمنتقل ہوگیا(لسان العرب: ۱۱؍۱۶۰، کشف الأسرار: ۱؍۱۴۴)۔
یہاںفرض سے مراد’’وہ مامورات اورمنہیات ہیں، جن کواللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بندوںپرلازم کیاہے‘‘، مامورات(جن افعال کے کرنے کاحکم دیاگیاہے)کی درج ذیل قسمیںہیں:
(الف) فرض: جس کاثبوت ایسے قطعی دلائل سے ہو، جن میںکسی قسم کاکوئی شبہ نہ ہواورجن کے انکارگنجائش نہیں، جیسے: پنج وقتہ نمازیں، روزہ، زکوٰۃ اورحج وغیرہ، ان امورکو بلاعذرچھوڑنے والا قابل گرفت اوران کاانکارکرنے والا کافرکہلائے گا، اس کی دوقسمیںہیں:
(۱) فرض عین: ایسافرض، جس کی ادائے گی فرداً فرداً ہرشخص پرضروری ہے۔ (۲) فرض کفایہ: ایسافرض، جس کی ادائے ہرفردپرضروری نہیں؛ بل کہ بعض افراد کی ادائے گی سے وہ ساقط ہوجاتاہے؛ البتہ اگرکوئی ایک فردبھی ادانہ کرے توتمام لوگ گناہ گارہوتے ہیں۔
(ب) واجب: جس کاثبوت ظنی دلائل سے ہو، جن میںدلائل کے تعارض کی وجہ سے شبہ کی گنجائش رہتی ہے ، جیسے: وترکی نماز، واجب کے انکارکرنے والے کامؤاخذہ توہوتاہے؛ لیکن اس کوکافرنہیںکہاجاتا۔
(ج) نفل: فرض اورواجب کے علاوہ جتنے مامورات ہیں، خواہ وہ سنت کے نام سے جانے جاتے ہوںیامستحب اورمباح کے نام سے، وہ سب اس میںشامل ہیں، تاہم ان میںبھی کچھ چیزیںایسی ہیں، جن کی ادئے گی کے سلسلہ میںتاکیدہے، جیسے: فجرکی سنتیں، ظہرسے پہلے، اسی طرح عصر، مغرب اورعشاء کے بعدکی سنتیں، ان امورکی ادائے گی کا اہتمام اس لئے ضروری ہے کہ یہ فرائض کے اندررہ جانے والی کوتاہیوںکی تلافی اورفرائض پرعمل آوری کاذریعہ ہوتے ہیں۔
مذکورہ تمام باتوںسے بیوی کوواقف کرانا، پھراس پرعمل درآمدگی کویقینی بناناشوہرکی ذمہ داری ہے،اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
وَأۡمُرۡأَہۡلَکَ بِالصَّلَاۃِ وَاصۡطَبِرۡ عَلَیۡہَا۔(طہ:۱۳۲)
’’اپنے گھروالوںکونمازکاحکم دواوراس پرجمے رہو‘‘۔
نیزیہ کام انتہائی ثواب کابھی ہے؛ چنانچہ ایک حدیث میںہے، اللہ کے رسول انے فرمایا:
رحم اللہ رجلاً قام من اللیل فصلی ،وأیقظ امرأتہ فصلت، فإن أبت رش فی وجہہا الماء۔(سنن ابن ماجۃ، باب ماجاء فیمن أیقظ أہلہ من اللیل،حدیث نمبر:۱۳۳۶)
’’اللہ تعالیٰ اس شخص پررحم فرمائے، جورات میںبیدارہوکرنمازپڑھتاہے اوراپنی بیوی کوبیدارکرتاہے اوروہ اٹھ کرنماز پڑھتی ہے، اگربیوی اٹھنے سے انکارکرتی ہے تواس کے چہرہ پرپانی کاچھڑکاؤ کرتاہے(تاکہ بیوی جاگ جائے اورنماز پڑھ لے)‘‘۔
مامورات کی طرح منہیات کی بھی کچھ صورتیں ہیں:
(الف) حرام: ایسے امورکی انجام دہی کوکہتے ہیں، جوشرعاً اپنی ذاتی حیثیت میںممنوع ہو، جیسے: شراب نوشی اوربدکاری وغیرہ، اس کی دو صورتیں ہیں:
(۱) ذاتی اعتبارسے حرام ، جیسے: مردارکھانا اورشراب نوشی وغیرہ (۲) خارجی چیز کی وجہ سے حرام، جیسے: بلااجازت کسی کامال کھالینا کہ مال اپنی ذات کے اعتبار سے حلال ہے؛ لیکن اجازت نہ لینے کی وجہ سے(جوکہ خارجی امرہے)حرام ہے۔
(ب) مکروہ: مکروہ کے معنی ’’ناپسندیدہ ‘‘کے ہیں، اصطلاح میںمکروہ ’’ایسے امورکوکہتے ہیں، جن سے رکنے کامطالبہ شارع نے غیرلازمی طورپرکیاہو، اس کی بھی دوصورتیں ہیں:
(۱) تحریمی: جوامورحرام کے قریب ہوں، ان سے رکنے کامطالبہ ’مکروہ تحریمی‘ کہلاتاہے۔ (۲) تنزیہی: جوامورحلال کے قریب ہوں، ان سے رکنے کامطالبہ ’مکروہ تنزیہی‘ کہلاتاہے۔(مامورات اورمنہیات کی ان بحثوں کودیکھنے کے لئے دیکھیں:علم أصول الفقہ،ص: ۱۰۵-۱۱۶، الإحکام فی أصول الأحکام: ۱؍۱۵۶)
مذکورہ باتوںسے بیوی کوآگاہ کرنااوران کے ارتکاب سے روکنا شوہرپرلازم ہے؛ کیوںکہ یہ اعمال جہنم میںلے جانے کاسبب ہیں، جب کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیںگھروالوںکودوزخ کاایندھن بننے سے بچانے کاحکم دیاہے:
قُوۡا أَنۡفُسَکُمۡ وَأہۡلِیۡکُمۡ نَاراً۔(التحریم:۶)
’’اپنے آپ کواوراپنے گھروالوںکو(دوزخ کی)آگ سے بچاؤ‘‘۔
غورکرنے کی بات ہے کہ کیاہم بھی اپنی بیویوںکومامورات پرعمل پیراکرنے اورمنہیات سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں؟ ہماری اکثریت اپنی بیوی کی ہرخواہش کو پوراکرنے کی کوشش کرتی ہے، اس کے لئے بھاگ دوڑ؛ بل کہ بیرونِ ملک تک کا سفرکرنے سے بھی نہیں ہچکچاتی، کیاایسے شوہرپریہ ذمہ داری عایدنہیںہوتی کہ وہ اپنی بیوی کوفرائض کی ادائے گی اورمحرمات سے بچنے کی تلقین کرے؟ یقیناً یہ ذمہ داری ہرہرشوہرپرہے اوراس سلسلہ میںاس سے پوچھ بھی ہوگی۔
۳- حقوقِ زوجیت کی ادئے گی: اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوںکو دوطرح کی صفات سے متصف کیاہے، ایک کو’صفاتِ ملکوتیت‘ اوردوسرے کو’صفاتِ بہیمیت‘ کہتے ہیں، عبادات کاتعلق صفاتِ ملکوتیت سے ہے، جب کہ خواہشاتِ نفسانی کی تکمیل صفات ِ بہیمیت میںسے ہے،پھر ان دونوںصفات کی ادائے گی کی فطری خواہش انسان کوودیعت کردی گئی ہے۔
نکاح کاایک اہم مقصد خواہشات کی تکمیل اوراولادکاحصول بھی ہے اورظاہرہے کہ یہ دونوںمقاصد اللہ تبارک وتعالیٰ کے نظام تکوینی کے تحت اسی وقت حاصل ہوتے ہیں، جب میاںبیوی کے درمیان تعلق قائم ہوجاتاہے، اگرتعلق قائم نہ ہوتونکاح کے یہ دونوںاہم مقاصد فوت ہوجائیںگے اورجب یہ فوت ہوںگے توروئے زمین پراخلاقی انارکی پھیل جائے گی۔
حق زوجیت( یعنی بیوی سے تعلق قائم کرنا)بھی بیوی کاایک اہم دینی اورضروری حق ہے، جس کوپوراکرناآج کے زمانہ میںخوراک وپوشاک کے حق سے زیادہ ضروری ہے، حضور اکرم اکوبتلایاگیاکہ (حضرت) عبداللہ بن عمروبن العاص ؓ دن کوروزہ رکھتے ہیںاوررات کو قیام کرتے ہیں، اللہ کے رسول انے ان سے اس بات کی تصدیق کی، پھرفرمایا:
فلاتفعل، صم وأفطر، وقم ونم، فإن لجسدک علیک حقاً، وإن لعینک علیک حقاً، وإن لزوجک علیک حقاً۔(بخاری، باب لزوجک علیک حق، حدیث نمبر: ۵۱۹۹)
’’ایسا مت کرو، روزہ بھی رکھو اورافطاربھی کرو، قیام بھی کرواورسوبھی جاؤ، کیوںکہ تمہارے جسم کاتم پرحق ہے، تمہاری آنکھ کاتم پرحق ہے اورتمہاری بیوی کاتم پرحق ہے‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے اسے بیوی کاایساحق تسلیم کیاہے، جس کے مطالبہ کاپورااستحقاق بیوی کوحاصل ہے، مشہورحنفی فقیہ عثمان بن علی زیلعیؒ لکھتے ہیں: والوطء حق الزوجۃ، ولہٰذا کان لہاالمطالبۃ بہ۔ (تبیین الحقائق، بحث فی العزل:۶؍۲۱)
’’وطی(بیوی کے ساتھ تعلق قائم کرنا)بیوی کاحق ہے، لہٰذااسے شوہرسے مطالبہ کاپورااستحقاق ہے‘‘۔
یہ حق کس قدراہمیت کی حامل ہے، اس کااندازہ آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ کی طرف سے مرتب کردہ قانونی کتاب’’مجموعۂ قوانین اسلامی‘‘کے قانونِ طلاق کے دفعہ (۷۳) سے لگاسکتے ہیں ، جس میںلکھاہے کہ:
’’ترکِ مجامعت اوربیوی کومعلقہ بناکررکھنا بھی تفریق کے اسباب میںسے ایک سبب ہے؛ کیوںکہ حقوق زوجیت کی ادائے گی واجب ہے، حقوقِ زوجیت ادانہ کرنااوربیوی کومعلقہ بناکررکھناظلم ہے اوردفع ظلم قاضی کافرض ہے، نیز صورت مذکورہ میںعورت کامعصیت میںمبتلاہونا بھی ممکن ہے، قاضی کافرض ہے کہ ایسے امکانات کوبندکردے؛ اس لئے اگرعورت قاضی کے یہاںمذکورہ بالا شکایت کے ساتھ مرافعہ کرے توقاضی تحقیقِ حال کے بعدلازمی طورپررفع ظلم کرے گا اورمعصیت سے محفوظ رکھنے کے مواقع پیداکرے گا‘‘(مجموعۂ قوانین اسلامی،ص:۱۹۲)۔
یہاںایک سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیااس حق کی ادائے گی کے لئے کوئی مدت متعین ہے؟اس کے جواب میںتھوڑی تفصیل ہے، علامہ عینی ؒ لکھتے ہیں:
واختلفوا فی مقدارہ، فقیل: یجب مرۃ، وقیل: فی کل أربع لیال، وقیل: فی کل طہرمرۃ، وقال ابن حزم: فرض علی الرجل أن یجامع امرأتہ التی ہی زوجتہ، وأدنی ذلک مرۃ فی کل طہر، إن قدرعلی ذلک، وإلافہوعاص للہ تعالیٰ۔ (عمدۃ القاری،(حدیث نمبر:۹۹۱۵) باب لزوجک علیک حق: ۲۰؍۱۸۹)
’’اس کی مقدارکے بارے میںاختلاف ہے، کہاگیاہے: ایک مرتبہ( زندگی میں)، یہ بھی کہاگیا: ہرچاردن میں ایک مرتبہ، یہ بھی کہاگیاہے: ہرطہرمیںایک مرتبہ، (علامہ) ابن حزمؒ فرماتے ہیں: اپنی خاص بیوی کے ساتھ مجامعت کرناشوہرپرفرض ہے، جس کی ادنی مقدارقادرہونے کی صورت میں ہرطہرمیںایک مرتبہ ہے، ورنہ وہ اللہ کانافرمان ہوگا‘‘۔
علامہ ابن ہمامؒ فرماتے ہیں:
واعلم أن ترک جماعہامطلقاً لایحل لہ، صرح أصحابنا بأن جماعہا أحیاناً واجب دیانۃ؛ لکنہ لایدخل تحت القضاء والإلزام إلاالوطأۃ الأولیٰ، ولم یقدروا فیہ مدۃ، ویجب ألایبلغ بہ مدۃ الإیلاء إلابرضاہا وطیب نفسہابہ۔(فتح القدیر، باب القسم: ۷؍۳۷۲)
’’جانناچاہئے کہ بالکلیہ جماع کاترک کرناشوہرکے لئے جائز نہیں، ہمارے اصحاب نے صراحت کی ہے کہ گاہے بگاہے جماع کرنادیانتاً واجب ہے؛ البتہ قضائً صرف ایک مرتبہ جماع ہی لازم ہے،ہمارے اصحاب نے کوئی مدت مقررنہیںکی ہے، تاہم واجب یہ ہے کہ ایلاء کی مدت(چارماہ)تک اس کی رضامندی کے بغیر چھوڑے نہ رکھے‘‘۔
موجودہ زمانہ چوںکہ عام بے حیائی کازمانہ ہے؛ اس لئے اس زمانہ کے لحاظ سے علامہ ابن حزمؒ کاقول بہت ہی مناسب معلوم ہوتاہے؛ البتہ جولوگ بیویوںکوچھوڑ کردوسری جگہ رہتے ہیں، ان کے لئے چارمہینے تک کی گنجائش نکل سکتی ہے، جیسا کہ علامہ ابن ہمامؒ کے قول میںصراحت کی گئی ہے، نیزحضرت عمرؓ نے امرائے اجنادکوحکم دیتے ہوئے فرمایا تھاکہ: ’’کوئی بھی شادی شدہ شخص چارمہینے سے زیادہ اپنی بیوی سے دورنہ رہے‘‘(ردالمحتار، باب القسم:۴؍۳۸۰) ، اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں رہنی چاہئے۔
آج ہمیںاپنے معاشرہ کاجائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیاہم میںسے ہرفرداپنی بیوی کایہ حق صحیح طورپراداکررہا ہے؟ آج ہم میںسے اکثرکویہ توفکرہوتی ہے کہ ہماراگھرشاندارہو، رہن سہن کی سطح اونچی ہوجائے، لباس وپوشاک میںنمایاںنظرآئیں، ان کی فکرآپ کومبارک؛ لیکن خدارابیوی کایہ حق مارکرفکرنہ کریں، ورنہ پورامعاشرہ اخلاقی اعتبارسے کھوکھلاہوجائے گا، جیساکہ ان علاقوںکامشاہدہ بتلاتاہے، جہاںکی اکثریت غم روزگارکی تسلی کے لئے بیرون ممالک کارخ کرتی ہے اوردودوسال تک گھرکے دہلیز پرقدم تک نہیں رکھتے، کاش ! ہم میںسے ہرشخص اس حق کی ادئے گی کی طرف توجہ دے سکے!
برتھ کنٹرول
حقوق ِزوجیت سے تعلق رکھنے والاایک دوسرامسئلہ عزل کاہے، یہ بھی جماع کاایک طریقہ ہے، جس میںمباشرت توپائی جاتی ہے؛ لیکن انزال کے وقت عضوخاص کونکال لیاجاتاہے اورمادۂ منویہ کوشرم گاہ سے باہرخارج کیاجاتاہے، اکثرفقہاء کے نزدیک یہ مکروہ ہے، شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں:
أقول: یشیر إلی کراہیۃ العزل من غیرتحریم، والسبب فی ذلک أن المصالح متعارضۃ،فالمصلحۃ الخاصۃ بنفسہ فی السبی، مثلا: أن یعزل، والمصلحۃ النوعیۃ ألایعزل لیتحقق کثرۃ الأولاد، وقیام النسل، والنظرإلی المصلحۃ النوعیۃ أرجح من النظرإلی المصلحۃ الشخصیۃ فی عامۃ أحکام اللہ تعالیٰ التشریعیۃ والتکوینیۃ۔(حجۃ اللہ البالغۃ، آدا ب المباشرۃ: ۲؍۲۰۶)
’’میںکہتاہوںکہ حرمت کے بغیرعزل کی کراہیت معلوم ہوتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مصالح متعارض ہیں؛ چنانچہ باندی میںعزل کرنے میںفی نفسہ خاص مصلحت ہے، جب کہ نوعی مصلحت یہ ہے کہ عزل نہ کرے ؛ تاکہ کثرتِ اولاداورنسل کی بڑھوتری کاتحقق ہوسکے اوراللہ تعالیٰ کے تشریعی وتکوینی عام احکام میںنوعی مصلحت کی رعایت کرناشخصی مصلحت کے مقابلہ میںزیادہ راجح ہے‘‘۔
البتہ ’’طبی ضرورت کے تحت نرودھ کااستعمال کرنااورعزل کرناجائزہے‘‘(کتاب الفتاوی:۴؍۴۴۴)، مفتی نظام الدین اعظمی صاحبؒ اس کی تفصیل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ اگرصحت خراب ہو، تکالیف حمل برداشت کرنے کی طاقت نہ ہویااستقرارحمل میںایسی تکالیف کااندیشہ ہو، جوناقابل تحمل وبرداشت ہوں، یامسلمان دیندارطبیب حاذق نے اس کی تشخیص کی ہوتوعارضی طورپرقوت وصحت کی بحالی کے لئے منعِ حمل تدابیرمثلاً: نرودھ، لوپ، دوایامرہم کے استعمال کی گنجائش ہے‘‘(منتخبات نظام الفتاویٰ:۳؍۳۸۳، ط:ایفا پبلیکیشنز، دہلی)۔
تاہم یہ بات یادرکھنے کی ہے کہ عزل یااس قسم اموراختیارکرنے میںبیوی کی اجازت ضروری ہے، علامہ ابن ہمامؒ لکھتے ہیں:
… والمنع من العزل إلابإذنہا۔ (فتح القدیر، فصل فی بیان المحرمات: ۳؍۲۲۷)
’’(وہ حقوق، جن کی مالکہ عورت ہے، ان میںسے ایک)عزل سے رکناہے؛ الایہ کہ وہ اجازت دے(توایسی صورت میںعزل جائزہے)‘‘۔
۴- بیویوںکے درمیان باری کی تقسیم اورعدل:اگرکسی شخص کی ایک سے زائدبیویاںہوںتوان کے درمیان عدل کرنا اورشب گزاری کے لئے باری کی تقسیم کرناضروری ہے،یہ بیویوںکے بنیادی ؛ بل کہ اعلیٰ واشرف حقوق میںسے ہے، یہی وجہ ہے کہ جب آپ ا نے حضرت ام سلمہ ؓ سے نکاح فرمایاتوان سے کہا:
لیس بکِ علی أہلک ہوان، إن شئت سبَّعت عندک، وسبعت عندہن، وإن شئت ثلثت عندک ودرت۔(مؤطاإمام مالک،المقام عندالبکروالأیم، حدیث نمبر: ۱۹۳۵)
’’تمہاری وجہ سے تمہارے گھروالوں(تم)کوخفت نہ ہوگی (اورتمہاراحق ضائع نہیں ہوگا)، تم اگرچاہوتوتمہارے پاس سات دن رہوںاور(پھر) سات سات دن تمام بیویوںکے پاس رہوںاور اگرچاہوتوتمہارے پاس تین دن رہوں، پھردوسری بیویوں کے پاس جاؤں‘‘۔
اس حدیث سے صاف طورپرمعلوم ہورہاہے کہ اگرایک سے زائدبیویاںہوںتوان کے درمیان شب گزاری کے لئے باری کی تقسیم عمل میںآئے گی، اب یہاںایک سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیاباری کی اس تقسیم میںنئی اورپرانی سب برابرہیں یاان میںکچھ فرق ہے؟ اس سلسلہ میںفقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے؛ چنانچہ امام مالک ؒ، امام شافعیؒاورامام احمدؒ کے نزدیک مسئلہ یہ ہے کہ اگر دوسری شادی باکرہ سے کررہاہے تواس کے ساتھ سات دن گزارے ، پھراس کے بعدباری کی تقسیم عمل میںلائے اوراگرثیبہ سے کررہاہے توتین دن اس کے ساتھ شب باشی کرے، پھراس کے بعدباری تقسیم کرے، امام ابوحنیفہؒ اوران کے اصحاب کے نزدیک بیویاںسب برابرہیں، ان کے درمیان کسی قسم کی کوئی تفریق نہیںکی جائے گی، سب کے ساتھ برابرشب گزاری جائی گی(الاستذکارلابن عبدالبر: ۵؍۴۳۹، معالم السنن للخطابی: ۳؍۳۱۴)۔
دوسرامسئلہ یہ ہے کہ باری کی یہ تقسیم شوہرکاحق ہے( کہ اگروہ چاہے تویہ تقسیم کرے اوراگرنہ چاہے توتقسیم نہ کرے )یاعورت کا(کہ تقسیم نہ کرنے کی صورت میںوہ تقسیم کامطالبہ کرے)؟ علامہ ابن عبدالبرؒ اس کاجواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
وظاہرالحدیث یشہدلقول من جعلہ من حق المرأۃ لقولہ: (للبکرسبع وللثیب ثلاث)، ویوجب علیہ فی البکرعلی کل حال أن یقیم عندہاسبعاً وعندالثیب ثلاثاً علی عموم الأثار، وہوقول جماعۃ أیضاً من فقہاء الأمصار، وہوأمرمعمول بہ عندہم، وحسبک بقول أنس: مضت السنۃ بذلک۔(التمہید:۱۷؍۲۴۹)
’’حدیث کاظاہران لوگوںکی گواہی دیتاہے، جنھوںنے اس کوعورت کاحق قراردیاہے، اللہ کے رسول اکے قول:’’باکرہ کے لئے سات اورثیبہ کے تین دن‘‘ کی وجہ سے، لہٰذا عمومی آثارکی وجہ سے شوہرپرضروری ہے کہ ہرحال میںباکرہ کے پاس سات دن اورثیبہ کے پاس تین دن گزارے، یہی فقہائے امصارکی ایک جماعت کابھی قول ہے اوریہی ان کے نزدیک معمول بہ ہے، اورتمہارے لئے حضرت انسؓ کاقول:(مضت السنۃ بذلک)’’سنت سے یہی ثابت ہے‘‘اس مسئلہ کے لئے کافی ہے‘‘۔
اسی سے جڑاہواایک اورمسئلہ ’عدل‘ کاہے، عدل ’انصاف ‘کوکہتے ہیں اورانصاف یہ ہے کہ ’’انسان کاثابت شدہ حق اسے دیاجائے اوراس کے اوپرلازم شئی اس سے لیاجائے‘‘، اب بیویوںکے وہ ثابت شدہ حقوق کیاہیں، جن میںتمام بیویوںکے درمیان عدل سے کام لیناضروری ہے؟ فقہائے کرام نے اس سلسلہ میںپانچ چیزوں کا ذکر کیاہے:
(۱) ماکولات : کھانے کی چیزوںمیںعدل ضروری ہے، جوایک بیوی کوکھلائے، وہی دوسری بیوی کوبھی کھلاناہوگا، اگرایک بیوی کے لئے بازارسے فاسٹ فوڈ لارہاہے تودوسری بیوی کے لئے بھی لاناضروری ہوگا۔
(۲) مشروبات: پینے کی چیزوںمیںعدل ضروری ہے، اگرایک بیوی کوفلٹرپانی پلارہاہے تودوسری بیوی کوبھی فلٹرپانی پلاناضروری ہے۔
(۳) ملبوسات: پہننے کی چیزوںمیںبھی عدل سے کام لیناضروری ہے، اگرایک بیوی کوکاٹن کے کپڑے پہنارہاہے تودوسری بیوی کوبھی وہی کپڑے پہنانے ہوںگے۔
(۴) رہائش گاہ: رہنے کی جگہ میںبھی عدل کرنا ہوگا، اگرایک بیوی کوبہترین گھررہنے کے لئے مہیاکیاجارہاہے تودوسری بیوی کوبھی مہیاکرناہوگا۔
(۵) شب باشی: رات رہنے میںبھی عدل ضروری ہے، ایک بیوی کے پاس جتنی راتیںگزاری جائیں، دوسری کے پاس بھی اتنی ہی راتیںگزاری جائیں (بدائع الصنائع، فصل: وجوب العدل بین النساء فی حقوقہن: ۲؍۳۳۲)۔
اگرکوئی ایساشخص ، جس کے پاس ایک سے زائدبیویاںہوںاوروہ مذکورہ چیزوںمیںعدل سے کام نہیںلیتاہے؛ بل کہ ناانصافی کرتاہے توقیامت کے دن انسانوں کے ٹھٹ کے درمیان بھی پہچاناجائے گا، اللہ کے رسول ا نے فرمایا:
من کان لہ امرأتان فمال إلی أحدہما، جاء یوم القیامۃ وشقہ مائل۔(سنن أبی داود،باب فی القسم بین النساء، حدیث نمبر: ۲۱۳۳، سنن الدارمی، حدیث نمبر: ۲۲۵۲)
’’جس شخص کی دوبیویاںہوںاوروہ ان میںسے کسی ایک کی طرف مائل ہوجائے توقیامت کے دن وہ اس حال میں آئے گا کہ اس کاایک پہلوجھکاہواہوگا‘‘۔
دنیامیںوہ ایک بیوی کی طرف مائل ہواتو’’الجزاء من جنس العمل‘‘ (عمل کے مقابلہ میںسزا) کے طورپراس کاایک پہلوفالج زدہ ہوگا، جس سے تمام لوگوںکومعلوم ہوجائے گا کہ اس کے کس کرتوت کے بدلہ میںیہ سزاملی ہے؟
ہمیںاپنے معاشرہ کاجائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیامعاشرہ کاہروہ فرد، جس کی ایک سے زائد بیویاںہیں، عدل وانصاف سے کام لے رہاہے؟ کیااکثرایسانہیں ہوتا کہ ایک بیوی کے ساتھ تورہائش اختیارکرلیاجاتاہے، جب کہ دوسری بیوی کوکالمعلقہ بناکررکھ دیاجاتاہے؟ کاش! ہم اس سلسلہ میںحضوراکرم اکواپناآئیڈیل بناتے اورقیامت کے دن کی رسوائی سے اپنے آپ کوبچانے کی کوشش کرتے!!
۵- حسن معاشرت: نکاح کاایک اہم مقصد باہمی سکون اورطمانینتِ قلب ہے، ارشادباری ہے:
وَمِنۡ آیَاتِہِ أَنۡ خَلَقَ لَکُمۡ مِنۡ أَنۡفُسِکُمۡ أَزۡوَاجاً لِتَسۡکُنُوۡاإِلَیۡہَاوَجَعَلَ بَیۡنَکُمۡ مَوَدَّۃً وَرَحۡمَۃً۔ (الروم:۲۱)
’’اللہ کی نشانیوںمیںسے یہ ہے کہ اس نے تمہی میںسے تمہارے لئے بیویاںپیداکیں؛ تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرسکو اورتمہارے درمیان رحمت ومودت قائم فرمائی‘‘۔
ظاہرہے کہ یہ باہمی سکون ، طمانینتِ قلب اورآپسی الفت ومحبت اسی وقت ممکن ہے، جب ’حسنِ معاشرت‘ کاوجودہوگا، جس کاقرآن مجید میں تاکیدی حکم آیاہواہے، ارشادہے:
وَعَاشِرُوۡہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ۔(النساء: ۱۹)
’’ان(بیویوں)کے ساتھ معروف طریقہ پرمل جل کررہو‘‘۔
حسن معاشرت ایک دوطرفہ حق ہے؛ چنانچہ جس طرح شوہرپرحسن معاشرت ضروری ہے ، اسی طرح بیوی پربھی ضروری ہے، اللہ فرماتاہے:
وَلَہُنَّ مِثۡلُ الَّذِیۡ عَلَیۡہِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۔(البقرۃ: ۲۲۸)
’’ان عورتوںکومعروف طریقہ کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں، جیسے (مردوںکو)ان پرحاصل ہیں‘‘۔
اس کی اہمیت کااندازہ اس سے لگایاجاسکتا ہے کہ جھوٹ عام حالت میںجائز نہیں؛ لیکن بیوی کوخوش کرنے کے لئے جائز ہے، حضرت ام کلثوم بنت عقبہؓ فرماتی ہیں:
ماسمعت رسول اللہ ایرخص فی شئی من الکذب إلافی ثلاث: کان رسول اللہ ا یقول: لااعدہ کاذباً، الرجل یصلح بین الناس، یقول القول ولایرید بہ إلا الإصلاح، والرجل یقول فی الحرب، والرجل یحدث امرأتہ، والمرأۃ تحدث زوجہا۔ (أبوداود، باب فی إصلاح ذات البین، حدیث نمبر: ۴۹۲۱)
’’میںنے اللہ کے رسول ا کوتین چیزوںکے علاوہ کسی میں جھوٹ کی اجازت دیتے ہوئے نہیں سنا، آپ افرماتے تھے: میںاسے جھوٹ نہیں سمجھتا، ایک وہ شخص، جولوگوںکے درمیان صلح کرائے، وہ جھوٹ صرف صلح کی غرض سے کہتاہے، دوسراوہ، جوجنگ میںجھوٹ بولتاہے اورتیسراوہ ، جواپنی بیوی سے جھوٹ کہتاہے اوربیوی اپنے شوہرسے جھوٹ کہتی ہے‘‘۔
مسنداحمدکی روایت میں یہ لفظ ہے:
کذب الرجل امرأتہ لیرضیہا۔(مسنداحمد، حدیث نمبر: ۲۷۶۰۸)
’’آدمی کااپنی بیوی کوخوش کرنے کے لئے جھوٹ بولنا‘‘۔
اس سے معلوم ہوا کہ جھوٹ کی گنجائش بیوی کی تطییب خاطرکے لئے ہو، کسی اورمقصد سے نہ ہو، بالخصوص کسی ایسے مقصد کے لئے توہرگز نہ ہو، جس کی وجہ سے میاںبیوی میںسے کسی کوکوئی نقصان پہنچے؛ کیوںکہ نکاح ایک ایسا معاملہ ہے، جس میںمیاںبیوی کی طرف سے یہ معاہدہ ہوتاہے کہ ایک دوسرے کونقصان سے بچائیںگے، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے الفاظ میں:
بحیث یجعل کل واحدضررالآخر، ونفعہ کالراجع إلی نفسہ۔ (حجۃ اللہ البالغۃ: ۱؍۸۹)
’’اس طورپر کہ دونوںمیںسے ہرایک دوسرے کے نفع ونقصان کواپنانفع اورنقصان سمجھے‘‘۔
حسن معاشرت کامطلب صرف یہ نہیں کہ نفقاتِ واجبہ کی ادائے گی کردے اوربس؛ بل کہ صرف اس کے ساتھ کچھ لمحات ایسے گزارے، جس میںاللہ کے سوا کوئی چوتھا نہ ہو، اس کے اندرموجودہ زمانہ کے لحاظ سے یہ بھی داخل ہے کہ کبھی کبھارسیروتفریح کے لئے بھی لے جایاجائے؛ لیکن ایسی تفریح سے بچناضروری ہے، جس میںحرام کے ارتکاب کی نوبت آتی ہو، کبھی شاپنگ اورکبھی آئس کریم پارلروغیرہ بھی جاناچاہئے کہ موجودہ زمانہ کے اعتبارسے یہ بھی تطییبِ خاطرمیںشامل ہیں، غالباً نبی کریم ا کے جامع اوربلیغ الفاظ’’أفلاتزوجت بکراً تلاعبک وتلاعبہا؟‘‘(مسلم، باب بیع البعیر واستثناء رکوبہ،حدیث نمبر:۱۱۰) (کیوںباکرہ سے شادی نہیںکی کہ تم اس سے اوروہ تم سے اٹکھیلیاں کرتے؟‘‘سے بھی اس کی طرف اشارہ ملتاہے۔
آج ہمیںاپنے معاشرہ کاجائزہ لیناہے کہ کیاہم بھی اس طرح حسن معاشرت کاخیال رکھتے ہیں؟ کیاہم نے بیویوںکوصرف گھریلوکام کاج کا ایک روبوٹ نہیںسمجھ رکھاہے، جہاںاس کی ذراسی چوک پرہم آپے سے ہوجاتے ہیں؟ کاش! ہم بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق حسن معاشرت رکھنے والے بن جاتے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے، آمین یارب العالمین!!
۶- خلع: خلع کے لغوی معنی ’’اتارنے ‘‘کے ہیں،قرآن مجیدمیں میاںبیوی کو ایک دوسرے کے لئے ’’لباس‘‘ قراردیاگیاہے، خلع کی صورت میںچوںکہ یہ لباس اتار لیاجاتاہے؛ اس لئے اسے بھی ’خلع ‘ سے تعبیرکرتے ہیں،اصطلاح میںخلع ’’مالی عوض کے بدلہ میںملکیت نکاح کو(عمومی طورپر)لفظ خلع کے ذریعہ سے ختم کرنے‘‘ کوکہتے ہیں(دررالحکام، باب الخلع: ۱؍۹۸۳)، یہ کبھی لفظ ِ مبارأت(یعنی جملہ حقوق سے بری کرنے کے عوض میں)، کبھی لفظ ِبیع وشراء اورکبھی لفظ ِ طلاق بالمال (مثلاً: شوہرکہے: پانچ ہزارکے بدلہ میںنے تجھے طلاق دی اوربیوی کہے : میںنے قبول کیا)کے ذریعہ سے بھی وجودمیںآتاہے (الدرالمختارعلی ہامش ردالمحتار: ۲؍ ۷۶۶)۔
خلع ملکیتِ نکاح سے خلاصی کاایک ذریعہ ہے، جوطلاق کے مقابلہ میںعورت کاخاص حق اس اعتبارسے ہے کہ وہ بھی شوہرکی رضامندی سے خلع یافتہ ہوسکتی ہے (اور خصوصی حالت میںشوہرکی رضامندی کے بغیرقاضی کی طرف سے مقررکردہ حکم کے ازخودتفریق کردینے سے بھی وہ خلع یافتہ ہوسکتی ہے[جدیدفقہی مسائل:۳؍۲۰۸])، جب کہ تفویض کے بغیروہ طلاق یافتہ نہیںہوسکتی،اس کامطالبہ عورت اس وقت کرتی ہے، جب کسی وجہ سے شوہرسے اس کی نہیں بنتی اورشوہر طلاق دینے کے لئے تیارنہیںہوتا، ایسی صورت میںکچھ مال کافدیہ دے دلاکرشوہرسے چھٹکارہ حاصل کیاجاتاہے، یہ مال عورت پرظلم کی وجہ سے نہیں ہے؛ بل کہ یہ اس مال کے عوض میںہے، جوشوہرنے شادی کے موقع پرخرچ کئے تھے اورچوںکہ شوہرخودسے طلاق نہیںدے رہاہے؛ بل کہ عورت کی یہ خواہش ہے؛ اس لئے اتنے مال کی قربانی اسے دینی ہوگی، جس پرشوہرطلاق دینے کے لئے راضی ہوجائے، یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ خلع کی پیش کش مردکی جانب سے بھی ہوسکتی ہے، مثلا:شوہرکہے کہ : میںنے مہرکے عوض تم کوخلع دیااوربیوی کہے: میںنے قبول کیا توخلع واقع ہوجائے گا (الفقہ الإسلامی وأدلتہ: ۷؍۴۸۰ ومابعدہا، مجموعۂ قوانین اسلامی، ص: ۱۸۱)۔
شادی کامقصدچوںکہ سکون قلبی ہے، لہٰذا جب یہ سکون ختم ہوجائے اورمفاہمت ومصالحت کے ذریعہ سے بھی بات بنتی نظرنہ آئے توزندگی بھرچخ چخ کے بجائے میاں بیوی کے درمیان جدائے گی ہی بہتر ہے؛ چنانچہ عورت کی طرف سے مطالبۂ خلع کی صورت میںمردکی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے مطالبہ کو بہ سہولت پوراکردے؛ تاکہ دونوںکی زندگی اُس سکون واطمینان کے ساتھ گزرسکے ، جوشریعت کامطلوب اورمقصودہے۔

Mob: 8292017888

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×