اسلامیات

قربانی کا پیغام

اسلامی اعتبارسے اس مہینہ کانام ’’ذی الحجہ‘‘ ہے، جس کے دس دن بالخصوص فضائل وبرکات والے ہیں، اللہ تعالیٰ کاارشادہے: وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ (الفجر:۱-۳)’’قسم ہے صبح کے وقت کی، قسم ہے (ذی الحجہ کے)دس رات(ودن)کی اورقسم ہے قربانی کے دن(شفع) اورعرفہ کے دن(وتر) کی‘‘،اس سے معلوم ہوا کہ اس مہینہ کے ابتدائی دس دن اپنے اندرکچھ خصوص رکھتے ہیں۔اس خصوص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: : مامن أیام العمل الصالح أحب إلی اللہ فیہن من ہذہ الأیام، قالوا: ولا الجہاد فی سبیل اللہ، قال: ولاالجہاد فی سبیل اللہ؛ إلارجلاً خرج بنفسہ ومالہ، ثم لم یرجع من ذلک بشئی۔(ابوداود، حدیث نمبر:3440،بخاری، حدیث نمبر:969)’’(ذی الحجہ کے ان)دس دنوں میں کئے ہوئے نیک اعمال اللہ تعالیٰ کے نزدیک دوسرے دنوں کے اعمال کے مقابلہ میں بہت ہی زیادہ محبوب ہیں، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے راستے میں جہاد بھی نہیں؟آں حضرت ﷺنے جواب دیا: جہادبھی نہیں؛ البتہ اگرکوئی شخص جان ومال کے ساتھ (جہاد) میں جائے اورواپس نہ آئے(بل کہ شہید ہوجائے) تووہ اللہ کے نزدیک بہت محبوب ہے‘‘۔اس مہینہ کاایک خاص عمل ’’قربانی‘‘ ہے، جودراصل یادگارہے ایک محبوب ومحب کے انتہائی درجہ کے تعلق کا، ایساتعلق، جس کی نظیرنہ آج تک پیش کی جاسکی اورنہ آئندہ اس کاامکان ہے، یہ یادگارہے اس محبوب کے عمل کا، جنھیں دنیا’’ابراہیم‘‘(علیہ السلام )کے نام سے جانتی ہے، جب آپ کی عمربوڑھاپے کوپہنچی تواللہ تعالیٰ نے ایک بچہ کی سعادت سے سرفراز فرمایا، جب بچہ بڑاہوااورباپ کی آنکھوں کاتارابن گیاتواُس بچہ کوراہِ خدامیں نذرکردینے کاپیغام دیاگیا، حضرت ابراہیم بھی ایک ثابت قدم محبوب نکلے، محب کے ہرامتحان میں اُسی کی توفیق سے کامیاب ہوتے چلے گئے؛ چنانچہ اپنی بے لغزش قدموں سے چلتے ہوئے نورِنظرکوساتھ لے کرمقامِ منیٰ پہنچے اورزمین پرلِٹاکربسم اللہ پڑھتے ہوئے حلقوم پرچھُری چلادی،حضرت ابراہیم کی یہ حکم بجاآوری محب کی بارگاہ میں شرفِ قبولیت سے سرفراز ہوئی اورمژدہ سنایاگیا: یٰا اِبْرَاہِیْمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا۔ (الصافات: 104-105)’’ائے ابراہیم! تو نے اپناخواب سچ کردکھایا‘‘۔پھررہتی دنیاتک اس کی یادکاجشن منانے کاحکم دے دیاگیا، ارشاد ہوا: فصل لربک وانحر۔ (الکوثر:۲)’’اپنے رب کے لئے نماز پڑھئے اورقربانی کیجئے‘‘۔اللہ تعالیٰ کے اسی امراورحضرت ابراہیم کی اسی یادکومنانے اوراُس کوتابندہ رکھنے کے لئے نبی آخرالزماں حضرت محمدمصطفیﷺ نے بہ نفسِ نفیس قربانی کااہتمام فرمایا؛ چنانچہ حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’حضورﷺ دومینڈھوں کی قربانی کرتے تھے اورمیں بھی دومینڈھوں کی قربانی کرتاہوں‘‘ (بخاری، باب فی أضحیۃ النبی ﷺ…، حدیث نمبر: ۵۵۵۳)، جس قدر قربانی کااہتمام آپﷺنے خودفرمایا، اُسی قدرقربانی کے اہتمام کا حکم امت کوبھی فرمایا، ارشاد ہوا:’’گنجائش کے باوجودجوشخص قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے‘‘ (ابن ماجہ، حدیث نمبر: 3114)۔ قربانی ہر اس شخص پر ہے، جوصاحب نصاب(جس کے پاس 612گرام 360ملی گرام چاندی یااس کی قیمت ہو) ہو، خواہ قربانی کے کسی بھی ایام میں وہ صاحب نصاب بن جائے، قربانی کی بھی بڑی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں، ایک حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: بکل شعرۃ حسنۃ۔(المستدرک، حدیث نمبر: ۳۳۹۵)’’ہربال کے بدلہ ایک نیکی ہے‘‘، جانورکے جسم میں ان گنت بال ہوتے ہیں، لہٰذا اس حدیث سے صاف طورپریہ معلوم ہوا کہ قربانی کرنے کاثواب بھی بے شمارہے۔قربانی صرف یہ نہیں ہے کہ ہم مال خرچ کرکے جانورخریدلیں اوراللہ کانام لے کرذبح کردیں؛ بل کہ قربانی میں کئی طرح کی قربانیاں شامل ہیں:۱-  نفس کی قربانی:سب سے پہلی قربانی تونفس کی قربانی ہے، انسان کی خواہشوں کی فہرست طویل ہوتی ہے، پھران میں گناہ کی طرف میلان کچھ زیادہ ہوتاہے، اسی کو خواہش اورمیلان کوکچلنانفس کی قربانی کہلاتی ہے، جب تک یہ قربانی نہیں پائی جائے گی، اس ووقت تک ہم حقیقی طورپرمسلمان بھی نہیں کہلاسکتے ؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کاحکم ہے: اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ‘‘(البقرۃ: ۲۰۸) اورہماراعمل آدھاتیتر، آدھابٹیرپرہے، روزہ رکھنے کااہتمام کرتے ہیں تونمازیں جاتی رہتی ہیں، نمازوں کی پابندی کرتے ہیں توزکات رہ جاتی ہے، اگرظاہری طورپرکچھ عمل ہوجاتاہے توباطنی طورکچھ نہ کچھ گڑبڑرہتاہے ، نمازروزوں کی حفاظت کرتے ہیں توزمین جائیدادہڑپ کرنے سے نہیں چوکتے،(الاماشاء اللہ)اوریہ سب نفس کی قربانی چاہتے ہیں، اسی لئے اللہ کے رسولﷺ کے پاس جب کچھ لوگ ایک جہادسے واپس آئے توفرمایا:قدمتم خیرمقدم، وقدمتم من الجہادالأصغر إلی الجہادالأکبرمجاہدۃ العبدہواہ۔(جامع الأحادیث للسیوطی، حدیث نمبر: 36961) ’’تمہاراآنامبارک ہو، تم چھوٹے جہادسے بڑے جہاد،یعنی بندہ کااپنی خواہشات، کی طرف لوٹ کرآئے‘‘۔اس سے معلوم ہواکہ نفس کی قربانی بہت اہم اورضروری ہے، جس کاآسان طریقہ تقویٰ اختیارکرناہے؛ یہاں تک کہ نفس امارہ کی حالت بدل کرنفس لوامہ میں منتقل ہوجائے اورپھرمزیدترقی کرکے نفس مطمئنہ کی منزل تک پہنچ جائے، اس کے لئے ہمیں کوشش کرنے کی ضرورت ہے، اگرہم کوشش کریں گے تواللہ تعالیٰ راستہ کھول دے گا، اللہ تعالیٰ کاارشادہے: جولوگ ہمارے سلسلہ میں کوشش کرتے ہیں، ہم ان کے لئے اپنے راستے کھول دیتے ہیں اوراللہ محسنین کے ساتھ ہے(العنکبوت:69)۔۲-  جان کی قربانی:دوسری قربانی جان کی قربانی ہے، جان کی قربانی سے مرادیہ ہے کہ جب دین کو، وطن کو، گاؤوں اورمحلہ کواوراپنے گھرکوبچانے کے لئے جان قربان کرنے کاموقع آئے توسرپرکفن باندھ کر، جان ہتھیلی پرلے کرہم پیش پیش رہیں، جبن وبزدلی ہرگزنہ دکھائیں، دشمن کامقابلہ ڈٹ کرکریں، منھ توڑجواب دیں، جانورکی قربانی کرتے وقت اس قربانی کابھی تصورکریں؛ تاکہ ہمارے اندرجان قربان کرنے کاجذبہ پیداہو۔۳-  اولادکی قربانی:تیسری قربانی اولادکی قربانی ہے، آج مادیت کادورہے، مادیت نے ہرنگاہ کوخیرہ کرکے رکھ دیاہے، ایسے وقت میں بچہ کی پیدائش کے بعدسے ہی والدین یہ فیصلہ لیتے ہیں کہ بچہ کومادیت کے حصول طریقے اور گر سکھائیں گے، تعلیم اسی طرز پر دلاتے ہیں، ہنراسی کے سکھاتے ہیں، اس چکرمیں اس خالق سے غافل ہوجاتے ہیں، جس نے شئی غیرمذکورسے قابل ذکربنایا، ایسے وقت میں ضرورت ہے کہ اولاد کو مادیت کے راستے سے ہٹا کر اللہ کے راستہ سے جوڑیں، یہ اولادکی قربانی ہے، نیزجب واقعتاً جان لٹانے کی ضرورت پیش آئے توجگرمیں یہ جذبہ ہوکہ اپنے بچے کوبھی قربان کردے۔آج کل لوگ بلاوجہ اولادسے کچھ زیادہ ہی محبت جتاتے ہیں، جس کے نتیجہ میں بگاڑتک پہنچادیتے ہیں،ہرجائز وناجائزخواہش کی تکمیل کرتے ہیں، دل پر پتھر رکھ ایسے وقت میں قربانی دینے کی ضرورت ہے۔۴-  وطن کی قربانی:چوتھی قربانی وطن کی قربانی ہے، جہاں پیداہوا، جہاں پرورش ہوئی، جس سرزمین کی دھول میں کھیلاکودا، وہاں سے محبت ایک فطری امرہے، بعض دفعہ ایسے وطن کوخیربادکہہ دینے کی ضرورت پڑتی ہے، نبی ﷺاورصحابہ کرام نے اپنے وطن کوخیربادکہاہے، خودحضرت ابراہیم علیہ السلام کواپناوطن چھوڑناپڑاہے، ہمیں بھی یہ قربانی دینے کے لئے تیاررہناچاہئے کہ جب دین پرچلنادشوارہوجائے توایسے وطن کوخیربادکہہ کرایسی جگہ کارخ کریں، جہاں دین پرسلامتی کے ساتھ عمل پیرارہ سکیں۔عیدالاضحی کی قربانی ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ ہم ان سب قربانیوں کے لئے اپنے آپ کوتیاررکھیں اورحسب موقع یہ قربانیاں دینے سے نہ چوکیں، اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطافرمائے، آمین!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×