اسلامیات

بیوی کے مالی حقوق

نکاح کے ذریعہ جوحقوق بیوی کوحاصل ہوتے ہیں، ایک توغیرمالی ہوتے ہیں، دوسرے مالی ہوتے ہیں،غیرمالی حقوق کی تفصیلات جان لینے کے بعداب آیئے عورت کے مالی حقوق یعنی شوہرکی مالی ذمہ داریوںپربھی ایک نظرڈالتے چلیں، یہ درج ذیل ہیں:
۱- مہر: یہ عورتوںکاایک بنیادی حق ہے، جس کااداکرناشوہرپر اسی طرح ضروری ہے، جس طرح قرض کی ادائے گی ضروری ہوتی ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ کافرمان ہے:
وَاٰتُوۡا النِّسَائَ صَدُقَاتِہِنَّ نِحۡلَۃً۔(النساء:۴)
’’اورعورتوںکوان کے مہرخوشی سے دیاکرو‘‘۔
ایک دوسری جگہ ارشادہے:
فَآتُوۡہُنَّ أُجُوٓرَہُنَّ فَرِیۡضَۃً۔(النساء:۲۴)
’’ان کو ان کا مقررکیاہوامہراداکرو‘‘۔
ان دونوںآیتوںمیں مہرکی ادائے گی کے لئے امرکے صیغے استعمال کئے گئے ہیں، جووجوب پردلالت کرتے ہیں، یعنی مہرشوہرکے ذمہ ایک ایسی واجب الأدا شئی ہے، جس کے اداکئے بغیرچارہ نہیں؛ حتیٰ کہ نکاح بھی درست نہیںہوتا، علامہ کاسانیؒ لکھتے ہیں:
فلاجواز للنکاح بدون المہرعندنا۔(بدائع الصنائع، فصل فی المہر: ۳؍۴۸۰)
’’ہمارے(احناف) کے نزدیک بغیرمہرکے نکاح کاکوئی جواز نہیں‘‘۔
نیز مہرکی ادائے گی سے پہلے بیوی کویہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اوپرشوہرکوقابونہ دے،مشہورحنفی فقیہ برہان الدین ابن مازہؒ لکھتے ہیں:
ولہا حق حبس نفسہاعن الزوج إلی أن یستوفی المہر۔(المحیط البرہانی، فی نفقۃ الزوجات: ۳؍۵۱۹)
’’اوراسے شوہرسے اپنے آپ کوروکنے کاحق ہے؛ یہاںتک کہ وہ مہراداکردے‘‘۔
اب یہاںایک سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیامہرکے لئے کوئی مقدارمتعین ہے؟ اس سلسلہ میںسب سے پہلی بات یہ ہے کہ مہرکی اکثری مقدار کی کوئی تحدیدنہیں ہے، تاہم اس کوپسندیدگی کی نظرسے نہیں دیکھاگیاہے؛ چنانچہ ایک موقع سے حضرت عمرؓ نے فرمایا:
ألا لاتغالوا فی صداق النساء، فإنہالوکانت مکرمۃ فی الدنیا، أوتقوی عنداللہ عز وجل، کان أولاکم بہاالنبی ا۔ (مشکل الأثار، اثر نمبر: ۵۰۴۹)
’’سنو! تم لوگ عورتوںکے مہرمیںبے تحاشہ اضافہ نہ کرو؛ کیوںکہ اگریہ دنیامیںعزت یااللہ کے نزدیک تقوی کی بات ہوتی تونبی کریم ا تم سے زیادہ اس کے حق دارتھے‘‘۔
البتہ مہرکی کم سے کم مقدارکے سلسلہ میںفقہائے کرام کے مابین اختلاف ہے؛ چنانچہ حضرت امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک کم سے کم مہرکی مقدار دس درہم (احتیاطی طورپربتیس گرام چاندی)ہے، اس سلسلہ میںحضرت علیؓ کے ایک اثر سے استدلال کیاہے:
لامھربأقل من عشرۃ دراہم ۔(مصنف ابن ابی شیبۃ، اثر نمبر:۱۶۳۷۴ )
’’دس درہم سے کم مہرنہیںہوتا‘‘۔
جب کہ حضرت امام شافعیؒ کے نزدیک ہروہ چیز مہربن سکتی ہے، جس کے اندرمبیع بننے کی صلاحیت ہو، ان کی دلیل ایک توقرآن مجیدکی آیت {وأحل لکم ماوراء ذلکم أن تبتغوا بأموالکم}ہے کہ اس کے اندرمطلق مال کاذکرکیاگیاہے، کم سے کم سے یازیادہ سے زیادہ مقدارکاکوئی تذکرہ نہیں کیاگیاہے، نیز حدیث میںہے کہ آپ انے ایک صحابی سے فرمایا:
التمس ولوخاتماً من حدید۔(بخاری، باب السلطان ولی…، حدیث نمبر:۵۱۳۵)
’’(مہر)تلاش کرو، اگرچہ کہ لوہے کی ایک انگوٹھی ہی کیوںنہ ہو‘‘۔
احناف نے اس حدیث کومہرمعجل پرمحمول کیاہے؛ چنانچہ علامہ ابن ہمامؒ لکھتے ہیں:
فیحمل کل ماأفادظاہرہ کونہ أقل من عشرۃ دراہم علی أنہ المعجل، وذلک لأن العادۃ عندہم کانت تعجیل بعض المہرقبل الدخول۔ (فتح القدیر، باب المہر: ۳؍۲۰۶)
’’ان تمام احادیث کو، جن سے مہرکے دس درہم سے کم ہونے کی بات معلوم ہورہی ہے، مہرمعجل پرمحمول کیاجائے گا؛ اس لئے کہ عربوںکی عادت دخول سے پہلے مہرکابعض حصہ اداکرنے کی تھی‘‘۔
اس سے یہ نہ سمجھاجائے اگرمہرمعجل ہوتودس درہم سے کم پربھی کام چل جائے گا؛ بل کہ اس کامطلب صرف یہ ہے کہ بیوی کے ساتھ تعلق قائم کرنے سے پہلے مہرکاکچھ حصہ دیاجائے، خواہ اس کی مقداربالکل معمولی ہی کیوںنہ ہو۔
مہرکے سلسلہ میںہمارامعاشرہ کارخ کیا ہے؟ یہ کسی اہل نظر سے مخفی نہیں، ہماری اکثریت مہرکومؤجل رکھتی ہے، جس کامطلب ہی یہ سمجھ لیاگیاہے کہ ’’اجَل‘‘(موت) آنے تک بالکل ادانہ کیاجائے اوراس کی موت کے بعد بے چاری کاحق ورثہ سے معاف کروانے کی کوشش کی جاتی ہے اوراپنی موت کے وقت اس کے سامنے آنسوبہاتے ہوئے معافی کامطالبہ کیاجاتاہے، معاشرہ سے اس رخ کودورکرنے کی شدیدضرورت ہے؛ کیوںکہ مہرقرض کی طرح واجب الاداء شئی ہے، لہٰذا اس میںکوتاہی نہیں ہونی چاہئے، ہرشوہرکی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اپنی بیوی کے لئے اچھے انتظامات کرے اوراس کے لئے تگ ودو بھی کرتاہے، ایسے شوہروںکوپہلے مہرکی ادائے گی کی فکرکرنی چاہئے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے، آمین!
۲- نفقہ: ’نَفَقَہ‘انفاق(خرچ کرنا)کااسم ہے، جونفوق سے مشتق ہے، اس کے معنی ’ہلاک ہونے‘ کے آتے ہیں؛ چنانچہ جب جانور ہلاک ہوجائے تو’نفقت الدابۃ‘ کہاجاتاہے؛ چوںکہ انفاق کرنے کی صورت میںمال ہلاک اورخرچ ہوتاہے؛ اس لئے اسے بھی نفقہ کہاجاتاہے، شریعت کی اصطلاح میںنفقہ’’ اس چیزکوکہتے ہیں، جس پر کسی چیز کی بقا موقوف ہو‘‘( مایتوقف علیہ بقاء شئی۔ دستورالعلماء لقاضی عبدالنبی بن عبدالرسول الأحمدنگری:۳؍۲۸۸) ۔
نفقہ بھی بیوی کاایک بنیادی حق ہے، جوہر شوہرپر واجب ہے، اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
وَعَلَی الۡمَوۡلُوۡدِ لَہ‘ رِزۡقُہُنَّ وَکِسۡوَتُہُنَّ بِالۡمۡعرُوۡفۡ۔ (البقرۃ:۲۳۳)
’’بچہ کے پاب پرمعروف طریقہ سے ان عورتوںکانفقہ اورکسوہ ہے‘‘۔
اس سلسلہ میںاللہ کے رسول انے تاکیدی حکم بھی دیاہے؛ چنانچہ آپ انے عورتوںکے حقوق کوبتلاتے ہوئے فرمایا:
ألا وحقہن علیکم أن تحسنواإلیہن فی کسوتہن وطعامہن۔ (سنن الترمذی،باب ماجاء فی حق المرأۃ علی زوجہا،حدیث نمبر:۱۱۶۳ )
’’سنو! تم پران کاحق یہ ہے کہ تم ان کے خورش وپوشش میں حسنِ سلوک کرو‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ نفقہ کے وجوب پر اہل علم کااتفاق ہے، علامہ ابن قدامہؒ لکھتے ہیں:
وأماالإجماع: فاتفق أہل العلم علی وجوب نفقات الزوجات علی أزواجہن۔ (المغنی: ۸؍۱۹۵)
’’جہاںتک اجماع کاتعلق ہے تو شوہروںپر بیویوںکے نفقات کے وجوب پراہل علم کااتفاق ہے ‘‘۔
چنانچہ اگرکوئی شخص نفقہ کی ادائے گی میںکوتاہی کرتاہے تووہ گناہ گارہوگا، اللہ کے رسول ا ارشادہے:
کفی بالمرء إثما أن یضیع من یعول۔ (المستدرک للحاکم، حدیث نمبر: ۸۵۲۶)
’’ آدمی کے گنہ گار ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ ان کے حقوق کوضائع کرے، جن کی پرورش کرتاہے‘‘۔
اب سوال یہ ہے کہ نفقہ میںکون کون سی چیزیںشامل ہیں؟ اس سلسلہ میںقطعی تحدید وتعیین نہیں کی جاسکتی؛ کیوںکہ اس کاتعلق عرف سے ہے اوراصل چیز ’کفایت‘ ہے، یعنی جن چیزوںسے ضرورت پوری ہوجائے، وہ نفقہ میںشامل ہیں، شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں:
والصواب المقطوع بہ عندجمہورالعلماء أن نفقۃ الزوجۃ مرجعہا إلی العرف، ولیست مقدرۃ بالشرع، فإنہاتختلف باختلاف أحوال البلاد والأزمنۃ وحال الزوجین وعاداتہما، قال تعالیٰ: وعاشروہن بالمعروف۔ (مجموع الفتاوی: ۹؍۵۴)
’’جمہورعلماء کے نزدیک درست اورقطعی بات یہ ہے کہ بیوی کے نفقہ کاتعلق عرف سے ہے، یہ شرعی اعتبارسے متعین نہیں ہے؛ چنانچہ علاقہ، زمانہ ، میاںبیوی کے حالات اورعادات کے اعتبارسے مختلف ہوتاہے، اللہ تعالیٰ کاارشادہے: بیویوںکے ساتھ معروف طریقہ پرمعاشرت اختیارکرو‘‘۔
تاہم پھربھی فقہاء نے ایک حدتک ان کومتعین کرنے کی کوشش کی ہے، جن کی تفصیلات یہ ہیں:
۱- رہائش: شوہرپربیوی کے لئے رہائش کاانتظام کرناواجب ہے، اللہ تعالیٰ کاارشادہے:
اَسۡکِنُوۡہُنَّ مِنۡ حَیۡثُ سَکَنۡتُمۡ مِنۡ وُجۡدِکُمۡ ۔(الطلاق:۶)
’’ان عورتوں کو اپنی حیثیت کے مطابق اسی جگہ رہائش مہیاکرو، جہاںتم رہتے ہو‘‘۔
رہائش گاہ کے لئے ضروری نہیں ہے کہ وہ شوہرکی ذاتی ملکیت ہو، عاریتاً یاکرایہ پرلیاہوامکان بھی کافی ہے، تاہم معیارکے اعتبارسے مرد وعورت دونوںکی رعایت ہونی چاہئے ، نیز اس مکان میں بیوی کی خواہش کے بغیرکسی اورکورہنے نہ دیاجائے، اسی طرح عصمت وعفت کی حفاظت اورشوہرکے ساتھ استمتاع کے لحاظ سے بھی وہ مامون ہو(بدائع الصنائع:۵؍۱۴۴، فتح القدیر:۴؍۳۵۷)۔
۲- خوراک:خوراک کاانتظام بھی شوہرپرواجب ہے، تاہم اس کی بھی کوئی مقدارمتعین نہیںہے، بس اس مقدارمیںدیاجائے، جس سے بیوی کی کفایت ہوسکے، اس سلسلہ میںخام سامان بھی دیاجاسکتاہے اورپکاپکایا بھی، اگرعورت کاتعلق ایسے خاندان سے ہے، جہاںکی عورتیںخودکھانابناتی ہیں، وہاںخام سامان فراہم کرناکافی ہے؛ لیکن اگر اس کاتعلق ایسے خاندان سے ہے، جہاںکی عورتیں خود کھانانہیں بناتیں؛ بل کہ نوکرچاکربناتے ہیں، وہاں پکاپکایا کھانافراہم کرنامردپرضروری ہے۔
سامان فراہم کرنے میںاس بات کابھی خیال رکھاجائے گا کہ پکانے کے لئے جن اشیاء کی ضرورت ہوتی ہے، وہ سب فراہم کئے جائیں، مثلاً: ایندھن اورپانی وغیرہ، اسی طرح خوراک کی فراہمی میںسالن وغیرہ بھی داخل ہے؛ حتیٰ کہ ماحول کے اعتبارسے ہفتہ دس دن یاپندرہ بیس دن میںگوشت کی فراہمی بھی داخل ہے، نیزموجودہ زمانہ میںریفریجریٹر اورگرانڈروغیرہ بھی نفقہ میںشامل ہیں(المبسوط للسرخسی: ۵؍۱۸۲، قاموس الفقہ: ۵؍۲۰۹)۔
۳- لباس:لباس وپوشاک کاانتظام بھی شوہرپرضروری ہے، اس کے لئے بھی مقداراورنوعیت کی تعیین نہیں کی گئی ہے؛ البتہ سترکے تقاضے کو پورا کرنے والاہونا ضروری ہے، معیارکے سلسلہ میں بھی مردکی استطاعت اورعورت کے خاندان والوںکی رعایت ضروری ہے، سال میںکم ازکم دو جوڑے بنوا کردیناضروری ہے، کپڑے بنوانے میںموسم کالحاظ رکھنابھی ضروری ہے، اگروقت سے پہلے کپڑاپھٹ جائے توقانوناً شوہرپردوسرابنواکر دینا ضروری نہیں؛ لیکن دیانۃً واجب ہے، لباس میںجوتے چپل اورموسم کی رعایت کرتے ہوئے موزے اوردستانے وغیرہ کی فراہمی بھی شامل ہے(فتح القدیر:۴؍۳۴۸)۔
۴- آرائشی سامان: آرائشی سامان کاانتظام بھی شوہرپرضروری ہے، ان میںسے کچھ چیزوںکاانتظام توواجب درجہ کی ہے، جیسے: تیل، نہانے اوردھونے کاصابن، کنگھی، بدبواوربال زائل کرنے والے کریم وغیرہ، جب کہ بعض چیزیںواجب کے قبیل سے نہیںہیں، جیسے: سرمہ، کاجل، خضاب وغیرہ، علامہ شامیؒ لکھتے ہیں:
ویجب علیہ ماتنظف بہ وتزیل الوسخ کالمشط، والدہن، والسدر، والخطمی، والأشنان، والصابون علی عادۃ أہل البلد، أماالخضاب ، والکحل، فلایلزمہ؛ بل ہوعلی اختیارہ، وأماالطیب فیجب علیہ مایقطع بہ السہوکۃ، لاغیر۔ (ردالمحتار:۳؍۵۷۹)
’’اوراس پرصفائی وستھرائی کے سامان اہل شہر کے عرف کے مطابق واجب ہیں، جیسے: کنگھی، تیل، بیری، خطمی، اشنان اورصابون، سرمہ لاز م نہیں، اختیاری ہے، خوشبومیںبدبوکوزائل کرنے والی خوشبوبھی ضروری ہے‘‘۔
۵- گھریلوسامان:گھریلوسامان کاانتظام بھی شوہرپرضروری ہے، علامہ حصکفیؒ لکھتے ہیں:
( ویجب علیہ آلۃ طحن، وخبز، وآنیۃ شراب، وطبخ، ککوز، وجرۃ، وقدر، ومغفرۃ) وکذا سائرأدوات البیت کحصر، ولبد، وطنفسۃ۔ (الدرالمختارمع رد المحتار:۳؍۵۷۹ )
’’شوہرپرآٹاپیسنے کی چکی، پانی کے برتن، پکانے کے برتن، پیالے، گھڑے، دیگچی اورچمچے واجب ہیں‘‘۔
۶- خادم کا نظم(اگرعورت ایسے سماج سے تعلق رکھتی ہو، جس میںخدام اورچاکروں سے کام لیاجاتاہو): گھریلوکام کاج کے لئے بیوی کے خادم کانفقہ بھی شوہرپرواجب ہے؛ البتہ یہ وجوب اس وقت ہے، جب کہ شوہرکی معاشی حالت بہترہو، اگرشوہرکی معاشی حالت بہترنہ ہوتوایسی صورت میں خادم کانفقہ شوہرپرضروری نہیں ، ہدایہ میںہے:
وتفرض علی الزوج إذاکان موسراً نفقۃ خادمہا، ووجہہ أن کفایتہا واجبۃ علیہ، وہذا من تمامہا، إذلابدلہامنہ۔ (ہدایۃ: ۲؍۲۸۷)
مالدار ہونے کی حالت میںشوہر پر بیوی کے خادم کانفقہ واجب ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ شوہرپراس کی کفایت ضروری ہے اوریہ اس کے اتمام میںسے ہے کہ اس کے لئے ضروری ہے۔
خادم کے نفقہ میںخوراک ، پوشاک اوررہائش کانتظام شامل ہے۔
موجودہ زمانہ میںخادم اورخادمہ کارواج ختم ہوچکاہے، ایسی صورت میںگھروںمیںکام کرنے والے اوروالیوںکی اجرت شوہرکے ذمہ واجب ہے، استاذگرامی حضرت مولاخالدسیف اللہ رحمانی مد ظلہ العالی لکھتے ہیں:
’’موجودہ زمانہ میںجوخادم اورخادمائیں اجرت پررکھے جاتے ہیں، ان کومتعینہ اجرت اداکردیناکافی ہوگا، اسی طرح اس دورمیں بعض ایسی مشینی اشیاء ایجادہوگئی ہیں، جوجزوی اعتبارسے خادم کام کرتی ہیں، جیسے: کپڑے دھلنے کی مشین وغیرہ، توایسے شوہرکے لئے، جومستقل خادم کانظم تونہ کرسکتاہو؛ لیکن اس طرح کی اشیائے ضرورت فراہم کرسکتاہو، تواس کی فراہمی اس پرواجب ہے(قاموس الفقہ: ۵؍۲۰۹)۔
۳- علاج ومعالجہ:بیوی کے علاج ومعالجہ کانفقہ مذاہب اربعہ میںشوہرپرواجب نہیںہے؛ لیکن یہ اس زمانہ کی بات ہے، جب کہ بیماریاں عام نہیں تھیںاورعلاج کاخرچہ بھی معمولی ہواکرتاتھا؛ اس لئے فقہاء نے علاج کوبنیادی ضرورت میںشمارنہیںکیاتھا؛ لیکن موجودہ زمانہ میںبیماریاںعام ہوچکی ہیں اورعلاج کاخرچہ بھی بہت گراںہوچکاہے؛ اس لئے عصر حاضر کے علماء نے علاج کے خرچہ کوبھی نفقہ میںشمارکیاہے، ڈاکٹروہبہ زحیلیؒ لکھتے ہیں:
ویظہرلی أن المداواۃ لم تکن فی الماضی حاجۃ أساسیۃ، فلایحتاج الإنسان غالباً إلی العلاج… أماالآن فقد أصبحت الحاجۃ إلی العلاج کالحاجۃ إلی ا لطعام والغذاء؛ بل أہم …لذا فإنانری وجوب نفقۃ الدواء علی الزوج کغیرہا من النفقات الضروریۃ۔ (الفقہ الإسلامی وأدلتہ:۷؍۷۹۴)
’’میرے سامنے یہ بات ظاہرہوئی کہ علاج گزشتہ زمانہ میںبنیادی ضرورت نہیںتھا؛ چنانچہ انسان کوعموماً علاج کی ضرورت نہ تھی؛ لیکن آج علاج غذا اورکھانے سے زیادہ ضروری ہوچکاہے، لہٰذا ہم شوہرپردواکانفقہ اسی طرح ضروری سمجھتے ہیں، جس طرح دوسرے نفقات ضروریہ کوضروری سمجھتے ہیں‘‘۔
۴- ہبہ: ہبہ ’’تبرع‘‘ یعنی عطیہ کوکہتے ہیں، شریعت میںہبہ ’’بلاعوض اشیاء کے مالک بنادینے‘‘ کوکہتے ہیں(الجوہرۃ النیرۃ: ۱؍۳۲۴)، جب آدمی کسی چیزکامالک ہوتواسے اختیارہے کہ وہ کسی کوبھی عطیہ دے، اس میںشرعاً کسی قسم کی کوئی قباحت نہیں۔
شوہراگراپنی زندگی میںبیوی کوکچھ ہبہ کرناچاہے تواس کی گنجائش ہے، نیز اس نیت سے ہبہ کرناکہ میرے بعدبیوی کوکسی قسم کی کوئی مالی پریشانی نہ ہو، ایک مستحسن امرہے؛ البتہ دوسرے رشتہ داروںکومحروم کرکے تمام مال ومتاع بیوی کے نام ہبہ کردینامناسب نہیں، اسی طرح ورثاء کومحروم کرنے کی نیت سے تمام مال بیوی کوہبہ کردیناگناہ کاباعث ہے(مستفادازکتاب الفتاوی: ۶؍۳۱۰ و۳۱۲)۔
موجودہ زمانہ میںچوںکہ بے دینی عام ہے، اخلاقی سطح پربھی لوگوںکاگراف نیچے اتراہواہے؛ اس لئے اگرشوہریہ محسوس کرے کہ اس کی موت کے بعد بیوی کونہ تومیراث دی جائے گی اورناہی مالی اعتبارسے اس کاتعاون کیاجائے گاتوایسی صورت میںشوہرکوذمہ داری محسوس کرتے ہوئے بیوی کے لئے کم از کم میراث کے بقدرضرورہبہ کردیناچاہئے کہ یہ ایک طرح سے بیوی کاحق ہے۔
۵- میراث: میراث میت کے چھوڑے ہوئے ترکہ کوکہتے ہیں، یہاںمرادوہ ترکہ ہے، جوشوہرنے اپنے انتقال کے وقت چھوڑاہو، اس میں دوسرے ورثاء کے ساتھ ساتھ بیوی کابھی حق ہے، شوہرکے ترکہ میںسے بیوی کوجوکچھ بھی ملے گا، اس کی دوصورتیںہیں:
۱- بیوی کے ساتھ ساتھ شوہرکے بچے بھی ورثاء میںہوں، ایسی صورت میںبیوی کوترکہ کاآٹھواںحصہ ملے گا۔
۲- بیوی کے ساتھ شوہرکے بچے ورثاء میںنہ ہوں، خواہ دوسرے دیگرورثاء موجودہوں، ایسی صورت میںبیوی کوترکہ کاچوتھائی حصہ ملے گا۔
ترکہ ملنے کی ان دونوںشکلوںکاتذکرہ قرآن مجیدمیںہے، اللہ تعالیٰ کاارشادہے:
وَلَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّاتَرَکۡتُمۡ إِنۡ لَمۡ یَکُنۡ لَکُمۡ وَلَدٌ فَإِنۡ کَانَ لَکُمۡ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّاتَرَکۡتُمۡ مِنۡ بَعۡدِ وَصِیَّۃِِتُوۡصُوۡنَ بِہَاأَوۡ دَیۡنِِ۔ (النساء: ۱۲)
بیویوںکے لئے تمہارے ترکہ میںسے اولادکی غیرموجودگی میںربع(چوتھائی حصہ) ہے اوراولادکی موجودگی میںثمن(آٹھواںحصہ) ہے وصیت اورقرض کی تکمیل کے بعد۔
شوہرکے انتقال کے بعدکے بعداس کے مال میںبیوی کالازمی حصہ ہے، جس کوعلاحدہ کرکے دیناشوہرکے گھروالوںپرضروری ہے، نہ دینے کی صورت میںوہ گناہ گارہوںگے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×